امربیل — قسط نمبر ۴

”دنیا میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی بات آپ کو بری نہیں لگتی جس پر کبھی آپ کو غصہ نہیں آتا۔ جس سے کبھی آپ ناراض نہیں ہوتے۔ ناراض ہونا چاہیں تو بھی نہیں ہو سکتے۔ میرے لئے وہ کوئی نہ کوئی تم ہو۔”
”عمر کو کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے سوچاتھا۔
”یہ کیا کہہ رہا ہے؟”
اس کی بے یقینی میں کمی نہیں آئی تھی۔
”آفٹر آل آپ یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ آپ کے مرنے پر کوئی ایسا شخص آپ کے لئے روئے جسے آپ نے ساری زندگی رونے نہ دیا ہو۔”
”میں جانتا ہوں علیزہ ! میرے مرنے پرمیرے لئے رونے والی صرف تم ہو گی۔”
وہ ہونق بنی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اب مسکرا رہا تھا۔
”آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟”
اس نے یکدم خوفزدہ ہو کر کہا عمر بے ساختہ قہقہہ مارکر ہنسا۔
”کچھ نہیں……میں کچھ بھی کرنا نہیں چاہتا۔”
”پھر آپ اس طرح کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟”





”کیسی باتیں؟”
”یہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں!”
”میں کیا کہہ رہا ہوں!”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہے وہ جانتے بوجھتے ہوئے۔۔۔۔!
”موت اور زندگی کے علاوہ بھی تو بہت سی حقیقتیں ہیں ۔”
”مثلاً!”
”جیسے یہ کہ انسان کو اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
اس نے کچھ ڈرتے ہوئے کہا۔
”اور؟”
”اور یہ کہ انسان کو ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔”
”اور!”
”اور یہ کہ زندگی میں آنے والے پرابلمز کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔”
”بس!”
علیزہ کچھ شرمندہ ہو گئی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اس کی بات کے جواب میں اپنے رویے کی وضاحت کرے گا۔ اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرے گا مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔
”یہ پینٹنگ تم مجھے دے دو!”
اس کی ساری باتوں کے جواب میں اس نے دونوں ہاتھوں میں پینٹنگ اٹھا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ اس کا کیا کریں گے؟”
علیزہ نے بات کا موضوع بدل جانے پرکچھ مایوسی سے کہا۔
”میں اسے اپنے بیڈ روم میں لگاؤں گایا پھر اپنے آفس میں!”
”یہ ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔”
”مجھے تویہ مکمل لگ رہی ہے!”
”نہیں ،کچھ سٹروکس رہتے ہیں اور پانی کے اس قطرے کی وجہ سے یہاں کلر بھی خراب ہو گیا ہے۔ اسے بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔”
علیزہ نے ہاتھ سے تصویر کی مختلف جگہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں مجھے یہ اسی طرح چاہئے۔ کسی مزید تبدیلی کے بغیر ۔”
”مگر بارش کے اس قطرے والی جگہ کو تو مجھے ٹھیک کرنا پڑے گا۔”
”تم بارش کے اس قطرے والی جگہ کو ٹھیک کرنے کے بجائے یہاں اپنا نام لکھ دو۔”
”مگر۔۔۔۔”
” اگر مگر کچھ نہیں بس تم برش لو اور یہاں اپنا نام لکھ دو۔”
علیزہ نے کچھ حیرا نی سے اسے دیکھا اور پھر برش نکال کر سفید کلر سے تصویر کے درمیان میں بارش کے اس قطرے کی وجہ سے پھیلے ہوئے رنگوں میں کچھ بے دلی سے اپنا نام لکھ دیا۔ وہ بڑی دلچسپی سے سارا عمل دیکھتا رہا اور جب اس نے اپنا نام لکھ دیا تو اس کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”ہاں… ٹھیک ہے اب یہ مکمل ہو گئی ہے۔”
اس نے علیزہ کے ہاتھ سے پینٹنگ لیتے ہوئے ،مطمئن لہجہ میں کہا تھا۔
علیزہ کی مایوسی میں کچھ اور ہی اضافہ ہو گیا۔ عمر جہانگیر perfectionist(کاملیت پسند)تھا اور اب وہ ایک نامکمل تصویر کے درمیان موجود دھبے اور اس پر لکھے نام کو سراہ رہا تھا۔
”میرا کمرہ تمہیں بہت مس کرتا ہے۔”
اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”اسے ایک پری کی عادت ہو گئی ہے میرے جیسا جن اس کو پسند نہیں آرہا ہے۔”
وہ بڑی سنجیدگی سے علیزہ کو بتا رہا تھا۔ علیزہ کا چہرہ چند لمحوں کے لئے سرخ ہوا پھر وہ یک دم کھکھلا کر ہنس پڑی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!