امربیل — قسط نمبر ۴

”کیا ہوا میری جان؟”
وہ اسے ساتھ لپٹائے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
نانا بھی کمرے کے اندر چلے گئے، لیکن عمر اندر داخل نہیں ہوا تھا۔ وہ وہیں کوریڈور میں کھڑا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھروہاں سے چلا گیا۔
٭٭٭
”تم ذہن پر اس چیز کو سوار مت کرو۔اس کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ جب بھی وہ اپنے پیرنٹس کے پاس رہ کر آتی ہے تو پھر اسی طرح ڈر جاتی ہے ، یا پھر نیند میں چلنے لگتی ہے۔ تم اگر پہلے مجھے اس رات کے بارے میں بتا دیتے تو میں محتاط ہو جاتی اور اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جاتی”
اگلی شام عمر نانو کے ساتھ علیزہ کا پرابلم ڈسکس کر رہا تھا۔ اس نے انہیں اس رات علیزہ کے باہر جانے کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اور اس کے پوچھنے پر نانو نے اسے علیزہ کی پرابلم کے بارے میں بھی بتا دیا تھا۔
”سائیکاٹرسٹ کیا کہتا ہے؟”




”وہ کہتا ہے کہ Insecurity (عدم تحفظ) کے احساس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی، اور پیرنٹس کے ملنے کے بعد یہ احساس اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے، اورپچھلے کئی سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ پیرنٹس سے مل کر آتی ہے، اس کے بعد اگلے دو تین ماہ اسی طرح ڈسٹرب رہتی ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔ سائیکاٹرسٹ کی ہدایت ہے کہ پیرنٹس کے پاس نہ جانے دیں۔کم از کم اے ایک سال تک ان کے پاس رہنے کے لئے نہ بھیجیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیسے بی ہیو کرتی ہے۔ لیکن میں اسے روک نہیں سکتی کہ وہ ماں یا باپ کے رابطہ کرتے ہی ان کے پاس جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔”
”مگر کل رات تو وہ بہت بری طرح ڈر گئی تھی۔ آپ نے اس کی حالت دیکھی۔ وہ تو… !”
”اب چند دن میں اس کے پاس سوؤں گی تو وہ ٹھیک ہوجائے گی، اورکل دوبارہ اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے کر جاؤں گی۔”
نانو نے اسے بتایا۔
”گرینی! آپ سائیکاٹرسٹ بدل دیں۔ اگر اتنے سالوں میں یہ سائیکاٹرسٹ اس کا علاج نہیں کر سکا، تو کوئی دوسرا سائیکاٹرسٹ دیکھیں۔”
”سائیکاٹرسٹ بدلنے سے کیا ہو گا؟”
”ہو سکتاہے، کوئی دوسرا سائیکاٹرسٹ اسے زیادہ بہتر طریقہ سے ٹریٹ کرے۔”
”میں نے تمہیں بتایا ہے نا اسے یہ پرابلمزصرف چند ماہ ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی جب وہ اپنے پیرنٹس سے مل کر آتی ہے ، اور پھر آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔”
مگر گرینی ! ان دو تین ماہ میں ہی اسے کوئی نقصان بھی تو پہنچ سکتا ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس رات وہ باہر گیٹ تک پہنچ گئی تھی، اور اسے بالکل پتہ ہی نہیں تھا۔ اگر اسی طرح نیند کی حالت میں اس نے کچھ اور کر لیا تو؟” عمر واقعی فکر مند تھا۔
”میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اسے کس قسم کا عدم تحفظ ہے؟ کیسی پروٹیکیشن چاہئے۔ میں نے اسے ہر چیز تو دے رکھی ہے ۔کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔”
”گرینی ! چیزیں انسانوں کی جگہ نہیں لے سکتیں ، وہ اپنے والدین کو مس کرتی ہے۔ آپ والدین کی کمی کو چیزوں سے پورا نہیں کر سکتیں۔”
عمر نے سنجید گی سے کہا۔
”ٹھیک ہے کہ اس کے والدین اس کے پاس نہیں ہیں، مگر پھر بھی وہ دونوں جس طرح اس کا خیال رکھتے ہیں ، بہت کم لوگ ہی رکھتے ہوں گے۔ ہر سال ثمینہ چھٹیوں میں اسے اپنے پاس بلوا لیتی ہے۔باپ سے ہر سال نہ سہی مگر وہ دو تین سال بعد ملتی ہی رہتی ہے۔ دونوں باقاعدگی سے اسے فون کرتے رہتے ہیں۔ ہر آنے جانے والے کے ہاتھ اس کے لئے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے ہیں۔ ہر ماہ اس کے اخراجات کے لئے جو رقم بھجواتے ہیں وہ الگ ہے۔ پھر میں ہوں۔ اس کے نانا ہیں۔ جتنی دیکھ بھال ہم لوگ کرتے ہیں شاید ہی کوئی کرتا ہوگا، پھر بھی اسے ان سیکیورٹی کا احساس ہے پھر بھی اسے پروٹیکشن چاہئے اور کیا دیا جا سکتا ہے اسے؟ اس کے علاوہ بھی تو فیملی میں بہت سے بچوں کے ساتھ یہی پرابلم ہے۔مگر انہوں نے تو ایسی چیزیں اپنے اندر ڈیولپ نہیں کیں۔ تم بھی تو ہو، تمہارے پیرنٹس میں بھی تو Divorceہو گئی تھی۔ کتنے سالوں سے تم بھی تو بورڈنگ میں رہتے آ رہے ہو ۔تم نے بھی تو سب کچھ سنبھالا ہے نا!”
نانو نے اس کے سامنے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
”یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ، گرینی !”
عمر نے مدھم آواز میں کہا۔
”یہ چیز ہمیشہ تکلیف دیتی ہے!”
نانو چند لمحے تک اس کو دیکھتی رہیں۔
”میں جانتی ہوں، یہ تکلیف دہ ہے ۔مگر تم نے تو اس چیز کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی اسے lightly لے۔ اپنے اور دوسروں کے لئے مسئلے نہ کھڑے نہ کرے۔ میں نے اس کی پرورش بہت محنت سے کی ہے، اور اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنی کتنی ہی مصروفیات اس کی خاطر ختم کر دیں۔ اب اس قسم کی باتیں مجھے کتنا ٹینس کرتی ہیں۔ اسے اندازہ ہی نہیں۔” نانو بہت شاکی نظر آرہی تھیں۔
”گرینی! وہ جا ن بوجھ کر یہ سب نہیں کرتی۔ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔”
”میں جانتی ہوں، وہ یہ سب جان بوجھ کر نہیں کرتی مگر وہ خوش رہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی۔ کیوں چیزوں کو اپنے اعصاب پر اتنا سوار کر لیتی ہے۔ تم نے غور کیا ہے جب سے وہ کراچی سے ہو کر آئی ہے اس وقت سے وہ بالکل ہی گم صم ہو گئی ہے۔ کسی بھی کام میں دلچسپی نہیں لیتی۔ ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ثمینہ کے پاس رہ کر آئے تب بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔”
”تو پھر آپ اسے وہاں جانے سے روک دیا کریں۔”
”میں کیسے روکوں، وہ خود وہاں جانا چاہتی ہے اور ظاہر ہے ثمینہ کے پاس جانے سے اسے نہیں روک سکتی۔ تو پھر اس کے باپ کے پاس جانے سے کیسے روکوں؟”
”گرینی ! چلیں چھوڑیں کوئی اور بات کرتے ہیں۔”
عمر نے انہیں زیادہ فکر مند دیکھتے ہوئے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”بس علیزہ اے لیولز کر لے تو میری بھی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔”
عمر ان کی اس بات پر کچھ حیران ہوا تھا۔
”آپ کی ذمہ داری کیسے ختم ہو گی۔”
”اس کا باپ اب اس کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس بار واپس جانے سے پہلے اس نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کی تھی۔”
”علیزہ کی شادی!”
عمر جیسے چلا ہی اٹھا۔ نانو نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!