امربیل — قسط نمبر ۴

”آپ نے کہا تھا؟”
”ہاں ! میں نے کہا تھا؟”
عمر نے اپنے بازو پر رکھا ہوا ان کا ہاتھ ایک جھٹکے سے ہٹا دیا۔
”آپ نے کیوں کہا تھا؟”
”تمہیں اتنی دیر ہو گئی تھی ، تم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ میں پریشان ہو گئی تھی، اس لئے میں نے علیزہ سے کہا کہ وہ لاک کھول کر اندر جائے اور دیکھے کہ تم ٹھیک ہو۔”
نانو نے بہت مہارت سے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا۔
”میں جب چاہوں گا ، اٹھوں گا اور آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس طرح میرے کمرے میں جاسوس بھیجیں۔”
وہ اب نانو سے الجھنے لگا تھا۔
”کیوں مجھے تمہارے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں ہے ؟”
نانو نے اس سے شکوہ کیا۔
”نہیں ! آپ کو میرے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق ہے نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔میں یہاں اس لئے نہیں آیا کہ اپنے بیڈ روم میں بھی آزادی سے نہ رہ سکوں۔”
”عمر ! جو لوگ تم سے محبت کرتے ہیں وہ……!”
اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں نانو کی بات کاٹ دی تھی۔




”جہنم میں جائیں وہ لوگ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ضرورت نہیں ہے کسی کی محبت کی……نہ ہی محبت کرنے والے لوگوں کی۔ میں تھک چکا ہوں اور تنگ آچکا ہوں ان لغویات سے۔”
اس کے لہجے میں اتنی بیزاری تھی کہ نانو چپ کی چپ ہی رہ گئی تھیں۔
وہ جھنجھلایا ہوا اپنے کمرے کی جانب جانے لگا تھا، لیکن جاتے جاتے وہ ایک بار پھر رک گیا اور اس نے انگلی اٹھا کر علیزہ سے کہا تھا۔
”آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت میرے ساتھ مت کرنا۔”
اس کے جواب یا رد عمل سے پہلے ہی وہ لاؤنج سے نکل گیا تھا ۔ چند لمحوں بعد علیزہ نے ایک دھماکے کے ساتھ اس کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے سناتھا۔ نانو ابھی بھی وہیں کھڑی تھیں اور اب علیزہ کے لئے ان سے نظر ملانی مشکل ہو گئی تھی۔
وہ یک دم اٹھ کر ہی بھاگتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی تھی۔ اس نے اپنے عقب میں نانو کی آواز سنی تھی مگر وہ رکی نہیں تھی۔
وہ ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
”وہ مجھ سے اس طرح کیسے بات کر سکتاہے؟”
اسے اب بھی یقین نہیں آ یا تھا کہ یہ سب اس نے عمر سے سنا تھا۔ اس نے صوفہ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا تھا۔
”عمراتنا ………تلخ کیسے ہو سکتا ہے……اور……اور وہ بھی میرے ساتھ؟”
اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سوچا تھا۔
”اس نے کبھی مجھے اس طرح نہیں ڈانٹا……کبھی یوں بات نہیں کی پھر اب کیوں؟” اس کے آنسوؤں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”اس طرح سب کے سامنے اس نے ……کیا وہ مجھے اتنا ناپسند کرتا ہے۔”
اس کا دل ڈوبنے لگا…
”مگر میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ میں تو… !”
اس نے اپنے کمرے کے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی وہ جانتی تھی نانو اس کے پیچھے آئی ہوں گی اور یک دم اس کے وجود کو شرمندگی نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کی وجہ سے عمر نے نانو کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ اس نے چہرے سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے۔
نانو اس کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھیں اور انہوں نے بڑی شفقت سے اپنا بازو اس کے گرد پھیلا لیا تھا۔
”تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا۔”
اس نے ان کی دھیمی سی آواز سنی تھی۔
”آئی ایم سوری نانو ! میں پریشان تھی اس لئے……میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ ٹھیک ہے۔”
اس نے اسی طرح چہرہ ڈھانپے اور سسکیوں میں کہا تھا۔
”میں جانتی ہوں مگر پھر بھی تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا وہ اس وقت ذہنی طور پر بہت پریشان ہے اور معمولی سی بات بھی اسے مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے تم آئندہ محتاط رہنا۔”
نانو نے اس کی پشت تھپتھپا تے ہوئے کہاتھا۔
”لیکن کیا نانو آپ کو لگتا ہے کہ میں اس کا تماشا……؟”
اسے اور رونا آیا تھا۔
”آخر اس نے اتنی بڑی بات کیوں کہی؟”
”علیزہ رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس وقت تو اس سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے، اور ان باتوں پر کڑھنے کا بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بہتر ہے سب کچھ بھلا دیا جائے۔” انہوں نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”تم رونا بند کردو۔ مجھے پتا ہے، کہ تمہیں اس کی باتوں سے تکلیف ہوئی ہے۔ مگر وہ خود بھی اس وقت تکلیف میں ہے ، جب وہ نارمل ہو گا تو اسے خود ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!