امربیل — قسط نمبر ۴

”وہ عورت میری ماں ہے ، اور میں اس سے پچھلے چھ سال سے نہیں ملا، اور آپ کو جاننے کے لئے مجھے کسی سے کچھ سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہی میں آپ کو بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔”
”تمہیں یہ جو بولنا آگیا ہے تو صرف میری وجہ ہے۔ میرے نام، میری مدد کے بغیر تم سے کوئی ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کرے گا۔”
”آپ کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔ آپ اپنی ریپیوٹیشن بہت اچھی طرح جانتے ہیں، اورایسی ریپیو ٹیشن والے شخص کا حوالہ دینا بہت بڑی حماقت ہے ، اور میں ایسی حماقت نہیں کرتا۔ عمر کو جہانگیر جیسے لاحقہ کے بغیر بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں اور وہ اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر میرے نام کے ساتھ آپ کا نام ہے تو یہ میری مجبوری ہے، میری ضرورت نہیں۔ مجھے فارن سروس میں لاکر آپ نے میری جو فیور کی، میں وہ لوٹا چکا ہوں۔ اب نہ تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں نہ میں آپ کے لئے کروں گا۔”
”تم میرے کسی احسان کو لوٹا نہیں سکتے۔ میں نے تمہارے لئے جو کچھ کیا ہے، وہ بہت کم لوگ اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں، اور جو کچھ تم بدلے میں میرے ساتھ کر رہے ہو وہ بھی کوئی اولاد بہت کم کرتی ہے۔”
”آپ نے میرے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو دنیا سے انوکھا ہو۔”




”میں نے بچپن سے آج تک تمہاری ہر خواہش پوری کی۔ تم پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ سب سے اچھے انسٹی ٹیوشن میں تمہیں تعلیم دلوائی۔ تمہارا کیرئیر بنا یا اور تم کہتے ہو کہ میں نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا ۔”
”آپ نے مجھ پر یہ ساری انوسٹمنٹ اپنے ہی فائدہ کے لئے کی۔ مجھ پر روپیہ اس لئے بہایا تاکہ بعد میں آپ میری اچھی قیمت وصول کر سکیں۔ جس طرح اب آپ وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔ آپ نے کوئی چیزبھی میری خوشی کے لئے نہیں کی۔ اپنے فائدہ اور نقصان کے لئے سوچ کر کی۔ آپ وہ انسان ہیں جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لئے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ آپ کی ہر سوچ ”میں”سے شروع ہوتی ہے اور” میرے لئے”پر ختم ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں سے تعلق تب تک رکھتے ہیں جب تک وہ آپ کے لئے فائدہ مند رہیں۔ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لئے ان کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور ان لوگوں میں، میں بھی شامل ہوں۔”
اس کی تلخی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ جہانگیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مت بھولو کہ تم میری فیملی کا حصہ ہو۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے پر اضطراب دیکھاتھا۔
”اور آپ بھی یہ نہ بھولیں کہ آپ کبھی فیملی مین ہو ہی نہیں سکتے۔ فیملی آپ کی سب سے آخری ترجیح ہے۔”
اس نے عمر کو انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے سنا۔
”میرے بارے میں فتوے دینے کی کوشش مت کرو۔ میں کون ہوں اور کیا ہوں ، میں اچھی طرح سے جانتا ہوں تم صرف اپنے بارے میں ہی بات کرو۔”
”کیوں بات نہ کی جائے آپ کے بارے میں ؟”
”میں تم سے یہاں کوئی فضول بحث کرنے نہیں آیا ہوں۔ مجھے تم سے صرف ایک سوال کا جواب چاہئے اور وہ بھی صرف ہاں میں۔”
ان کا لہجہ بے حد سرد اور خشک تھا۔
”اور میرا جواب ”نہیں” میں ہے!”
وہ اتنا ہی بے خوف تھا۔
جہانگیر اسے چند لمحے سرخ آنکھوں سے گھورتے رہے۔
”میں تمہیں اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ میں بھی دیکھوں کہ میری مدد کے بغیر تم کیسے سروائیو کرتے ہو۔”
”مجھے آپ کی جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہئے مگر جو کچھ دادا نے آپ کے لئے چھوڑا ہے اس میں سے مجھے میرا حصہ چاہئے۔ خاص طور سے وہ بینک اکاؤنٹ جسے ان کی وصیت کے باوجود بھی میرے حوالے نہیں کیا۔”
”میں تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا۔”
”میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہا ہوں۔ اپنا حق مانگ رہا ہوں ، وہ سب کچھ مانگ رہا ہوں جو آپ کا ہے ہی نہیں، جو پہلے سے ہی میرا ہے۔”
”کچھ بھی تمہارا نہیں ہے۔”
”کیوں میرا نہیں ہے؟”
وہ یک دم چلایا تھا۔
”تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ نہ اپنی جائیداد سے نہ پاپا کی جائیداد سے۔”
جہانگیر نے زہریلے لہجہ میں کہا تھا۔
”میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے ”نہیں” نہیں سنی، اس لئے مجھے اس لفظ کی عادت ہی نہیں ہے۔ اب تم سے بھی یہ لفظ نہیں سن سکتا۔ بات اگر قیمت چکانے کی کرتے ہو تو ٹھیک ہے پھر تم بھی قیمت چکاؤ۔ تمہیں اپنے آپ پر خرچ کیا جانے والا روپیہ ایک انویسٹمنٹ لگتا ہے تو ٹھیک ہے۔ تم اسے انویسٹمنٹ سمجھو اور پھر مجھے اس پر منافع دو، اس شادی کی صورت میں۔” وہ پھنکارے تھے۔
”اور میں بھی یہ نہیں کروں گا ،کبھی بھی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھ پر جو خرچ کیا، اپنی مرضی سے کیا۔ میں نے آپ سے کچھ بھی خرچ کرنے کے لئے نہیں کہا اور جو آپ نے کیا وہ ہر باپ کرتا ہے۔ آپ نے ایسا خاص کیا کیاجس کی قیمت میں اپ کو چکاؤں؟”
”تم تو مجھے اپنا باپ مانتے ہی نہیں، پھر کس حوالے سے ان ساری لگژریزکو اپنا حق سمجھتے ہو۔ تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں سڑک پر لے آؤں گا اور میں یہ بھی بھول جاؤں گا کہ تم سے کبھی میرا کوئی رشتہ تھا۔”
”میں پھر بھی آپ کی بات نہیں مانوں گا، اور جائیدار میں جومیرا حصہ ہے ، میں وہ بھی لوں گا ۔ جو راستے آپ استعمال کریں گے وہ راستے میرے لئے بھی انجان نہیں ہیں۔”
”اگر تم یہ شادی نہیں کرتے تو وہ سارا روپیہ لوٹاؤ جو میں نے تم پر خرچ کیا ہے۔ پاپا کی جائیداد سے ملنے والا حصہ بھی ان ہی اخراجات میں آجاتا ہے۔ جو میں نے تم پر کئے تھے، اور اس کے علاوہ جو جتنی رقم تمہیں پے کرنی ہے، وہ میرا وکیل بہت جلد بتا دے گا۔ اگر تم اپنے حصہ کے لئے کورٹ میں جانا چاہتے ہو تو شوق سے جاؤ میں بھی تو دیکھو ں کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ جہاں تک تمہارے کیرئیر کی بات ہے تو فارن سروس تو تم نے چھوڑ ہی دی ہے۔ اور تم سوچ رہے ہو کہ تم نے مجھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ تم پولیس جوائن کر رہے ہو، اس کے بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ مجھ سے پیچھا چھڑا نا آسان نہیں ہے۔ میری پہنچ جہاں تک ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جس شخص کی بیٹی سے تم شادی کرنے پر انکار کر رہے ہو، وہ شخص میرے پیچھے ہٹ جانے پر تمہیں زندہ گاڑ دے گا۔ کیرئیر کی تو بات ہی نہ کرو۔ اس انکار کے بعد کم از کم اس ملک میں تمہارے لئے کوئی کیریئر ہے نہ ہی کوئی فیوچر۔ باہر تم رہنا نہیں چاہتے اندر میں تمہیں رہنے نہیں دوں گا۔ جاب کے چند ہزار روپوں میں تم گزارہ نہیں کر سکتے میری طرف سے اب دوبارہ تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ تم اپنی جاب کے ذریعہ پیسہ بنانے کی کوشش کرنا، اور یہ ہم ہونے ہی نہیں دیں گے، اور پھر ایک سال کے اندر اندر تم میرے پاس معافی مانگنے آؤ گے۔ تب تم میری ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گے لیکن اس وقت میں تم پر تھوکوں گا بھی نہیں اس کے بجائے تمہیں ٹھوکر ماروں گا۔ یہ ہے تمہارا برائٹ فیوچر جسے حاصل کرنے کے لئے تم فارن سروس چھوڑ کر یہاں آگئے ہو۔”
انکل جہانگیر کے لہجہ میں بے حد زہر تھا۔ علیزہ ساکت کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ نانو اس وقت بالکل ہی خاموش تھیں اور عمر……عمر کے چہرے پر تو اس وقت وحشت کے علاوہ اور کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔ وہ خاموشی سے گہرے سانس لے رہا تھا ، مگر اس کی سرخ آنکھیں اور بھینچے ہوئے ہونٹ اسے پر سکون ظاہر نہیں کر رہے تھے۔
”آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بار آپ سے پیچھا چھڑانے کے لئے میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔” وہ غرایا۔
”میں تمہارے لئے کوئی جائے فرار ہی نہیں چھوڑوں گا۔”
”جہانگیر نے اتنے ہی سرد لہجہ میں کہاتھا۔
”آپ ہر راستہ بند نہیں کر سکتے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہر انسان کے پاس ہوتاہے۔ میرے پاس بھی ہے۔”
علیزہ نے اسے الٹے قدموں سے پیچھے جاتے اور کہتے ہوئے سنا تھا۔اس نے انکل جہانگیر کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ دیکھی تھی اور پھر……پھر اس نے عمر جہانگیر کو بجلی کی سی تیزی سے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولتے اور ریوالور نکالتے دیکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے وجود کو خوف سے سردہوتے پایاتھا۔
”عمر……!”
اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکلی تھی ۔ وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا رہا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!