امربیل — قسط نمبر ۴

”خوشی ؟پتا نہیں…مگر ہاں مطمئن ہوں۔”
اس کے چہرے پر اب عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”اور وہ اس لئے کہ آپ کے بیٹے نے میری راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔”
” اچھا ! تم یہ سوپ تو تھوڑا اور لو، یہ میں نے صرف تمہارے لئے ہی بنوایا ہے۔”
نانو نے کمال مہارت سے بات بدل دی۔
”میں پہلے ہی کافی لے چکا ہوں۔”
اس نے مسکرا تے ہوئے منع کیا ۔
علیزہ خاموشی سے کھانا کھاتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔نانو مسلسل اس کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہی تھیں۔ علیزہ بہت جلد کھانے سے فارغ ہو گئی جب وہ ، ایکسکیوز می کہہ کر کھڑی ہوئی تو نانو پہلی بار متوجہ ہوئی تھیں۔
”تم نے کھانا کھا لیا؟”
”جی!”
جواب انتہائی مختصر تھا۔
”تو بیٹھو نا علیزہ ! کافی پیتے ہیں اکھٹے۔”
”نہیں نانو مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کہا تھا۔
“بھئی عمر ! علیزہ کو تمہارے گفٹ بہت پسند آئے۔ بہت تعریف کررہی تھی۔”
نانو اس بار عمر سے مخاطب تھیں۔ علیزہ نے عمر کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
”نانو ! پھر میں جاؤں؟”
اس سے پہلے کہ عمر جواباً کچھ کہتا علیزہ نے نانو سے کہاتھا ۔ نانو نے اسے کچھ خفگی سے دیکھا انہیں شاید علیزہ سے اس طرح کے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
”ٹھیک ہے جاؤ!”
”تھینک یو!”
وہ ڈائننگ روم سے باہر نکل آئی۔
٭٭٭




اگلے چند دن بھی اس کے اور عمر کے درمیان کوئی بھی بات نہیں ہوئی تھی ۔ وہ صبح جس وقت یونیورسٹی جاتی تھی اس وقت وہ سو رہا ہوتا اور جب وہ واپس آتی تو گھر میں موجود نہیں ہوتا تھا۔شام کو وہ گھر آیا کرتا تھا، اور اس وقت وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتی تھی۔ رات کے کھانے پر ان کا سامنا ہوتا تھا، اور اس کے بعد عمر واک پر نکل جایا کرتا تھا۔ اورعلیزہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں آکر پڑھائی میں مصروف ہو جاتی تھی۔
اس نے اس واقعہ کے بعد کبھی بھی عمر کے کمرے میں جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب ملازم ہی اس کے کمرے کو صاف کیا کرتا تھا، اور وہی سارے پیغام لے کر اس کے کمرے میں جایا کرتا تھا۔ عمر سے گھر میں جب بھی اور جہاں بھی اس کا سامنا ہو تا وہ کترا کر گزر جاتی خود اس نے بھی بات کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔
اس دن سہ پہر کا وقت تھا۔ نانو کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ خانساماں بھی اپنے کوارٹرمیں تھا۔ وہ کافی بنانے کے لئے کچن میں آئی تھی جب اس نے لاؤنج میں فون کی گھنٹی سنی۔ وہ لاؤنج میں چلی آئی فون عمر کے کسی دوست کا تھا۔
”ہاں ! وہ گھر پر ہیں ، آپ ان کے موبائل پر کال کر لیں۔”
اس نے فون سننے پر کہا تھا۔
”میں نے موبائل پر کال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن موبائل آف ہے۔ آپ یا تو ان سے بات کروا دیں۔ یا پھر انہیں کہیں کہ موبائل آن کریں۔”
دوسری طرف سے کہا گیا تھا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں میں ان کو بلوا دیتی ہوں۔”
اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہاتھا۔
ریسیور رکھنے کے بعد وہ سوچتی رہی کہ عمر تک پیغام کیسے پہنچائے۔ صرف پیغام اس تک پہنچانے کے لئے وہ کوارٹر سے ملازم کو بلواتی تو یہ بات نہ صرف ملازم کے لئے عجیب ہوتی بلکہ اس وقت تک بہت دیر ہو جاتی۔
چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے خود ہی پیغام دینے کا سوچا۔ عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر پہلی دستک دیتے ہی اندر سے آواز آئی تھی۔
”یس کم ان۔”
”آپ کی کال ہے۔”
اس نے بلند آواز میں کہا تھا۔
”علیزہ ! اندر آجاؤ۔”
اندر سے کہا گیا تھا۔
”آپ کے کسی دوست کا فون ہے۔”
اس نے اس کی بات کے جواب میں ایک بار پھر اپنا جملہ دہرایاتھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!