امربیل — قسط نمبر ۴

اس بار ان کی بیوی ایک ایرانی عورت تھی۔ اس شادی کاعلم ہونے پر خاندان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ کیونکہ ان کی دوسری بیوی کا تعلق معاذ حیدرکے اپنے ہی خاندان سے تھا۔ خاندان کے بہت زیادہ دباؤ پر انہوں نے اسے طلاق دے دی، اور اس کے بعد انہوں نے کوئی اور شادی کر نے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ کسی نہ کسی طرح اپنی دوسری شادی کو ہی نبھاتے آ رہے تھے۔ ان کے تینوں بیٹے بھی اب سول سروس میں آچکے تھے۔
دوسرے بیٹے سعد نے بھائی کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے ماں باپ کی مرضی کے مطابق خاندان میں ہی شادی کی۔ آٹھ سال تک یہ شادی چلی پھر دونوں کے درمیان اختلافات طلاق تک جا پہنچے۔ سعد حیدر نے دوبارہ ماں باپ کے اصرار کے باوجود بھی دوسری شادی نہیں کی۔ ان کے دو بیٹے تھے اور وہ دونوں بیٹے اپنی ماں کے پاس تھے۔
تیسرے بیٹے عالمگیر نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، اور ان کی شادی تمام تر اختلافات کے باوجود ابھی تک قائم تھی۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔
چوتھے بیٹے جہانگیر نے پہلی شادی اپنی پسند سے کی تھی۔ گیارہ سال شادی قائم رہی پھر دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔ جہانگیر نے اپنی بیوی کے اصرار کے باوجود عمر کو اپنی بیوی کے حوالے نہیں کیا۔بلکہ اپنے پاس ہی رکھا۔ طلاق کے دو ہی ماہ کے اندر انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ اس بیوی سے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ کراچی کی ایک ماڈل سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے تیسری شادی کر لی تھی۔




ان کی بڑی بیٹی حسینہ اپنے باقی بہن بھائیوں کے مقابلے قدرے پر سکون زندگی گزار رہی تھی ، اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی ثمینہ کو شادی کے کچھ عرصہ کے بعد طلاق ہو گئی تھی۔ علیزہ کو اس کی ماں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا مگر دوبارہ شادی کرنے کے بعد اسے اپنے ماں باپ کے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔
معاذ حیدر اور ان کی بیوی نے اپنے بچوں کی نجی زندگی کو خاص طور سے ناکام ہوتے دیکھا تھا، اور انہیں ہمیشہ یہ حیرت ہوتی تھی کہ ان کی تربیت میں ایسی کونسی کمی رہ گئی تھی کہ جس نے ان کی اولاد کو زندگی کے اہم فیصلہ کرتے ہوئے بہت سے مسائل سے دوچار رکھا۔
عمر جہانگیر اور اس کے باپ کی طرح معاذ حیدر کے سارے بیٹے ہی اپنی اولادوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھ پائے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ علیزہ وقتاً فوقتاً عمر اور جہانگیر انکل کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کے ساتھ اپنے دوسرے انکلز اور ان کی اولادوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں سے بھی آگاہ ہوتی رہتی۔ مگر اس نے کبھی کسی جھگڑے کو اتنا شدید ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
”اور پھر عمر……کیا عمر یہ سب کر سکتا ہے؟”
اسے کمرے سے باہر آکر بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔
”کیا اتنی معمولی سی بات پر عمر خود کشی کر سکتا ہے۔”
”اور انکل جہانگیر کہہ رہے تھے کہ اس نے پہلے بھی دو بار سلیپنگ پلز……!”
علیزہ نے کچھ بے چینی سے کمرے کے دروازہ کو دیکھاتھا۔
”عمر ایسا نہیں تھا……عمر کبھی بھی ایسا نہیں تھا پھر اب… اب اسے کیا ہو گیا ہے۔”
اس نے دروازے اور فرش کے درمیان والی درز سے کمرے کی روشنی کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”یہ چار سال پہلے والا عمر تو نہیں ہے۔یہ تو۔۔۔۔۔”
وہ آگے کچھ سوچ نہیں سکی تھی۔
نانو کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہاں سے بلند آوازمیں انکل جہانگیر کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
”میں کوئی انوکھا کام تو کرنا نہیں چاہتا۔ ہمارے خاندان میں وہ کوئی پہلا تو نہیں ہے جس کے لئے ایسا سوچا جارہا ہے۔ کیا ایاز نے اپنے بیٹے کی شادی خود کو بچانے کے لئے نہیں کی تھی اور اس کے بیٹے نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ آپ بتائیں کیا وہ خوش نہیں ہے۔ اس کی بیوی اسے کہاں سے کہاں لے گئی، اور اس وقت وہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں بیٹھا ہے۔ عیش کر رہا ہے۔ کیا سعد اور عالمگیر نے اپنے بیٹوں کی شادی اپنی مرضی سے کر کے کوئی فائدے حاصل نہیں کئے، اور اگر میں بھی ایسا کرنا چاہتا ہوں تو کیا غلط ہے۔خالی خولی افسری حاصل کر نے سے کچھ بھی نہیں ہو تا۔ جب تک اوپر ہاتھ پکڑ کر کھینچنے والا نہ ہو، آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کا خیال ہے کہ اسے ابھی تک جو کچھ ملتا رہا ہے۔ اس کی اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملتا رہا ہے ۔ میں اگر اس کے پیچھے نہ ہوتا تو اسے پتا چل جاتا کہ یہ کتنے پانی میں ہے۔”
انکل جہانگیر کی آواز سے ان کے غصہ کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی باتیں سننے لگی تھی۔
”مگر جہانگیر ! اگر وہ یہ شادی کرنا نہیں چاہتا تو اسے مجبو رمت کرو۔ میں بہت ڈر گئی ہوں۔ اگر اسی طرح وہ کچھ کر بیٹھا تو۔۔۔”
نانو نے اپنا خوف ظاہر کرتے ہوئے کہا مگر انکل جہانگیر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”تو……تو کیا ہو گا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ میں اس کی بلیک میلنگ کے سامنے جھک جاؤں۔ نہیں ، ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔”
”جہانگیر وہ تمہارا اکلوتا بیٹا ہے۔ تم……!”
انکل جہانگیر نے ایک بار پھر نانو کی بات کاٹ دی تھی۔
”اگر اکلوتا بیٹا میرے کام نہیں آسکتا تو مجھے ضرورت نہیں ہے ایسے اکلوتے بیٹے کی۔ میری طرف سے وہ بھاڑ میں جائے۔”
”جہانگیر ! ایسے مت کہو!”
”کیوں نہ کہوں۔میں نے تو اسے دنیا کی ہر لگژری دے رکھی ہے ،اور آج سے نہیں،بچپن سے اور یہ……یہ میری ایک بھی بات مانے پر تیار نہیں ہے۔ وہاں شادی نہیں کرنا چاہتا تو پھر کہاں کرنا چاہتا ہے۔ وہ لڑکی اچھے کردار کی نہیں تو پھر میں اسے ایک اور لڑکی دکھا دیتا ہوں۔ یہ وہاں شادی کر لے مگر نہیں، یہ وہاں بھی شادی نہیں کرے گا۔ یہ ایسی کسی جگہ شادی نہیں کرے گا جہاں میں اس کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے لگتا ہے باپ اس کا سودا کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے یہ باپ کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ ہاں باپ اس کا ملازم ہے، وہ اسے ساری عمر فائدے پہنچاتا رہا ہے اور پہنچاتا رہے گا۔”
”جہانگیر ! تم اس معاملہ میں ضد نہ کرو۔ جوان اولاد سے ضد کرنا ٹھیک نہیں ہے اور پھر جوان بیٹے سے۔…تم سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ تمہاری بات نہیں مانتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس طرح اس کے پیچھے مت پڑو۔ آج اس نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے دہلا دیا ہے۔”
”آپ خوفزدہ مت ہوں……یہ پہلے بھی دوبار ڈرامہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔”
انکل جہانگیر اب بھی تلخ تھے۔
”اگر وہ پہلے بھی دو بار یہی کوشش کر چکا ہے تو تمہیں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی اس حد تک زچ ہو چکا ہے کہ اس آخری قدم کو اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!