امربیل — قسط نمبر ۴

”عمر ہم دونوں کے لئے کچھ چیزیں لایا ہے ، وہ بیگ دے گیا ہے۔ میں نے ابھی کھولانہیں ، سوچ رہی تھی کہ تم یونیورسٹی سے آجاؤ تو کھولوں گی”
علیزہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اگر ایک دن پہلے گھر میں وہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو شاید اس وقت وہ بڑی بے تابی سے نانوکی بات پر کچھ نہ کچھ کہتی مگر اب اسے کوئی بے تابی نہیں ہوئی تھی۔
”آپ خود بیگ کھول لیں گے۔ مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے۔”
اس نے بے دلی سے کہاتھا۔
”علیزہ ! یہاں بیٹھو۔”
”نانو ! پلیز مجھے یونیورسٹی کا کچھ کام کرنا ہے۔”
”علیزہ ! بیٹھ جاؤ۔”
نانو نے اس بار کچھ ڈانٹتے ہوئے کہاتھا۔ وہ کچھ متامل سی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”تم عمر سے ناراض ہو؟”
انہوں نے بغیر کسی تمہید کے پوچھا۔
”نہیں!”




”تو پھر اس کی لائی ہوئی چیزیں کیوں نہیں لینا چاہتیں۔”
وہ خاموش رہی تھی۔
”میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟”
”بس ویسے ہی!”
”بس ویسے ہی سے کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا دل نہیں چاہتا!”
”علیزہ ! میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ عمر آج کل پریشان ہے اس کی کسی بات پر خفا ہونا مناسب نہیں۔ وہ شاید خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، اور کیا کہہ رہا ہے۔ اگر سمجھنے کے قابل ہوتا تو فارن سروس میں اتنی اچھی پوسٹ چھوڑ کر یوں صرف باپ کی ضد میں پاکستا ن آجاتا۔”
”نانو میں اس کی کسی بھی بات پر ناراض نہیں ہوں۔”
”میں بے وقوف نہیں ہوں، تمہیں کل کی باتیں کیا بری نہیں لگیں؟”
” بری لگی ہوں تو میں کیا کروں۔میں یہاں سے جاتو نہیں سکتی۔”
اس نے سر جھکائے ہوئے افسردگی سے کہا تھا۔
”اس نے جو بھی کہا، اسے بھول جاؤ۔ غصہ میں انسان بہت سی باتیں کہہ دیتا ہے۔”
نانو اسے سمجھانے لگی تھیں۔
”اب دیکھو ،وہ صبح جاتے ہوئے مجھ سے خاص طور پر کہہ کر گیا ہے کہ تمہاری چیزیں تمہیں دے دوں۔”
علیزہ اس بار خاموش رہی تھی۔
نانو اسے لے کر اپنے کمرے میں آگئی تھیں۔انہوں نے عمر کا دیا ہوا بیگ کھولا، اور اس میں موجود چیزیں نکال کر بیڈ پر رکھنا شروع کر دیں۔ اسے پہلی بار عمر کی لائی ہوئی کوئی چیزیں دیکھ کر خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ اس کی رنجیدگی بڑھتی جارہی تھی۔
”اسے معلوم ہونا چاہئے، مجھے اس کی لائی ہوئی چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
اس نے سوچاتھا۔ چیزوں کا ڈھیر اٹھانے کے بعد وہ کھڑی ہوئی تھی جب نانو نے اس سے کہا۔
”جب عمر واپس آئے تو تم ان چیزوں کے لئے اس کا شکریہ ادا کرنا۔”
وہ ان کی ہدایات سن کر خاموشی سے کمرے سے نکل آئی۔
اپنے کمرے میں آکر پہلی بار اس نے عمر کی دی ہوئی چیزوں کو بار بار دیکھنے کی بجائے ایک شاپر میں ڈال کر وارڈ روب کے ایک کو نے میں رکھ دیا تھا۔
سال میں دو ، تین بار جب اس کی ممی اور پاپا اس کے لئے چیزیں بھجوایا کرتے تھے تووہ انہیں بھی اسی طرح دیکھے بغیر وارڈروب میں رکھ دیا کرتی تھی، اور پھر انہیں صرف اسی وقت دیکھا کرتی تھی کہ جب اسے کسی کو کوئی گفٹ دینا ہوتا وہ انہیں چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر گفٹ کردیتی یا پھر خود اسے اپنے استعمال کے لئے کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو وہ ان شاپرز کی طرف متوجہ ہو جاتی ۔
مگر عمر جب بھی اس کے لئے کچھ لاتا یا بھیجتا تھا تو وہ کبھی بھی ان چیزوں کو وارڈروب میں نہیں رکھتی تھی۔ وہ انہیں کمرے میں اپنے سامنے رکھتی تھی یا پھر فوری طور پر انہیں اپنے استعمال میں لے آتی تھی۔
٭٭٭
عمر چار دن کے بعد لوٹا تھا، اور ایک بار پھر اس کے چہرے پر وہی سکون اور اطمینا ن تھا جو انکل جہانگیر کے آنے سے پہلے اس کے چہرے پر تھا۔
رات کو کھانے پر وہ نانو کو ااسلام آباد میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتا رہاتھا۔
”چند ہفتوں تک ٹریننگ کے لئے سہالہ جانا پڑے گا۔ مجھے پھر پوسٹنگ ہو جائے گی۔” وہ نانو کو کہہ رہا تھا۔ ولید کے ڈیڈی سے میری بات ہوئی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اچھی پوسٹنگ دلوا دیں گے۔”
وہ اپنے ایک دوست کا نام لے رہا تھا۔
”تم خوش ہو نا؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!