امربیل — قسط نمبر ۴

علیزہ اس کے ہاتھ سے ریوالور چھین لینا چاہتی تھی۔ مگر وہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔ عمر سیفٹی کیچ ہٹا چکا تھا، اورریوالور اپنی کنپٹی کی طرف لے جارہا تھا۔ جب انکل جہانگیر بجلی کی سی تیزی سے لپکے اور اس کاہاتھ پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔ تھپڑ اتنا زبردست تھاکہ وہ نہ صرف چند قدم پیچھے چلا گیا ، بلکہ ریوالور پر اس کے ہاتھ کی گرفت بھی کمزور پڑگئی۔
انکل جہانگیر نے ایک جھٹکے کے ساتھ ریوالور اس سے چھین لیا اور اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ علیزہ نے اس کی ناک میں سے خون بہتے دیکھا۔ انکل جہانگیر اب اسے گالیاں دے رہے تھے۔ نانو نے یک دم آگے بڑھ کر انہیں پیچھے کھینچ لیا۔ عمر اب سامنے کھڑا پلکیں جھپکائے بغیر انہیں دیکھ رہا تھا۔ علیزہ نے کبھی کسی کے لئے اس کی آنکھوں میں اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ جتنی وہ اس وقت عمر کی آنکھوں میں انکل جہانگیر کے لئے دیکھ رہی تھی۔ اس کی ناک سے ٹپکتا ہوا خون اس کی سفید شرٹ پر گر رہا تھا۔ مگر وہ جیسے اس سے بالکل بے خبر تھا۔




”مجھ پر چلائیں مت۔” اس نے اب عمر کو انکل جہانگیر سے کہتے سنا۔
”مجھ پر اب ہاتھ اٹھا کر بہت پچھتائیں گے۔”
”کیا کرو گے تم؟ یہ ڈرامہ جو ابھی کیا ہے؟ خو د کشی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ باہر سڑک پر جا کر کرو۔ وہاں جا کر شوٹ کرو اپنے آپ کو لیکن میرے گھر میں نہیں۔”
”نہیں ! ویسے ہی مروں گا جیسے مرنا چاہتا ہوں۔”
”اس سے کیا ہو گا۔ مجھے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔ چار چھ دن لوگ بات کریں گے پھر بھول جائیں گے۔ جہانگیر معاذ کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔”
”چار ، چھ دن ہی سہی مگر بات تو کریں گے آپ کے بارے میں۔”
اس سے پہلے کہ انکل جہانگیر اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے نانو نے انہیں کہا تھا۔
”جہانگیر !بس کرو ۔ اس بحث کو بند کرو۔ یہاں سے باہر نکلو۔”
انہوں نے انکل جہانگیر کو بازو سے پکڑ کر باہر لے جانے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں، مجھے یہاں سے باہر نہیں جانا، کیا سمجھتا ہے یہ خود کو؟ میں ایسی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا۔”
انہوں نے خود کو نانو سے چھڑاتے ہوئے کہاتھا۔
”پلیز جہانگیر ! فی الحال یہ سب ختم کرو۔مجھے اس طرح پریشان مت کرو۔ ابھی اسے اکیلا چھوڑ دو۔”
نانو نے ایک بار پھر ان کا بازو پکڑ کر التجائیہ انداز میں کہا تھا، لیکن انکل جہانگیر بالکل ہی بپھرے ہوئے تھے۔
”آپ اس کو نہیں جانتی ہیں۔ یہ تماشا اس نے پہلی بار نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ دو بار اسی طرح لڑنے کے بعد سلیپنگ پلز کھاچکا ہے۔”
انہوں نے انکشاف کیا، علیزہ نے شاک کے عالم میں عمر کو دیکھا وہ اب بھی اسی طرح باپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”مجھے شرم آتی ہے اسے اپنی اولاد کہتے ہوئے!”
”آپ کو باپ کہتے ہوئے مجھے بھی اتنی ہی شرم آتی ہے۔” اس نے انکل جہانگیر کو سرد لہجے میں جواب دیا۔
”جہانگیر ! خدا کے لئے دوبارہ جھگڑا شروع مت کرو۔ میرے ساتھ باہر آؤ!”
نانو نے انکل جہانگیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہیں باہر کھینچنا شروع کر دیا۔ انکل کچھ کہنا چاہتے تھے مگر نانو کسی نہ کسی طرح انہیں کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئیں۔ عمر اپنی جگہ پر پر بے حس و حرکت کھڑا ا نہیں باہر جاتا دیکھتا رہا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی اس کی نظریں علیزہ پر جم گئیں۔
”تم بھی یہاں سے جاؤ!”
اس نے درشتی سے علیزہ سے کہا تھا۔ وہ اب ہاتھ کی پشت سے ناک صاف کر رہا تھا، اور شاید تب ہی اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اس کی ناک سے خون بہہ رہاہے۔ علیزہ اس کے کہنے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ عمر نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے وہیں کھڑے دیکھ کر اس کے چہرے کی ناگواری بڑھ گئی۔
”تمہیں کہا ہے نا۔ جاؤ یہاں سے!”
اس با ر اس نے بھرائی ہوئی آواز میں علیزہ سے کہا۔
”پلیز، میں آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”مگر مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔”
”پھر بھی… پھر بھی میں یہیں رہنا چاہتی ہوں۔”
وہ اس وقت کسی بھی قیمت پر عمر کو اکیلا نہیں چھوڑ ناچاہتی تھی۔
”علیزہ ! مجھے اس وقت یہ کمرہ بالکل خالی چاہئے ۔ ،میں تمہاری موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہاں سے چلی جاؤ۔”
اس نے تیز اور ترش لہجے میں اس سے کہا اوروہ بے اختیار رونے لگی۔ عمر اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ اب اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس کی ناک سے ٹپکتے ہوئے خون کے قطرے اب بھی اس کی قمیض پر گر رہے تھے۔ عمر دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑے بہت گہرے سانس لے رہا تھا۔ علیزہ کی سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ چند لمحے اپنے آنسو ؤں کو پونجھتے ہوئے وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں کھڑی رہی۔پھر ایک خیال آنے پر وہ ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے کچھ ٹشو پیپر اٹھا لائی تھی۔
عمر کے بالکل بالمقابل گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھتے ہوئے اس نے ایک ٹشو سے اس کی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔ علیزہ کو اس کے چہرے پر پہلے والی وحشت نظر نہیں آئی تھی۔ وہ اب تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ چند لمحے وہ علیزہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو لے لئے اور خود اپنا چہرہ صاف کرنے لگا۔ علیزہ بھیگی پلکوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کی نظریں عمر کو ڈسٹرب کر رہی تھیں۔
”میں آپ کے لئے کچھ لے کر آؤں؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!