امربیل — قسط نمبر ۴

”آپ اسے مجھ سے بہتر نہیں سمجھتیں ، میں جانتا ہوں، مجھے اسے کس طرح سے ہینڈل کرنا ہے اور میں کرلوں گا۔ آپ اس معاملے میں اس کی سائیڈ مت لیں۔”
”میں اس کی سائیڈ نہیں لے رہی۔میں صرف تمہیں سمجھا رہی ہوں۔ کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ تم کسی تیرہ سالہ لڑکے کو ہینڈل نہیں کر رہے۔ تیس سالہ مرد کا سامنا ہے تمہیں۔ اسے بچہ سمجھ کر کسی چیز کو اس پر ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔”
”اس پر کسی بھی چیز کو ٹھونسنے کی کوشش نہ کروں اور اپنا کیرئیر تباہ کر لوں۔”
”اگر وہ نہ ہوتا تو پھر تم کیا کرتے، پھر بھی تو کسی نہ کسی طرح خود کو مصیبت میں سے نکالتے ہی نا پھر اب بھی کچھ نہ کچھ کر لو۔”
”تب کی بات اور ہوتی مگر اب میں یہ سوچ کر نہیں چل رہا ہوں کہ وہ نہیں ہے۔ اب اگر وہ ہے تو پھر اسے میرے کام آنا ہو گا۔جیسے میں ہمیشہ اس کے کام آتا رہا ہوں۔”
”جہانگیر ! تم اتنی ضد کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں یاد نہیں ہے،تمہارے باپ نے کبھی تم چاروں کے ساتھ اس طرح ضد نہیں کی تھی۔ تم لوگوں نے جو کرنا چاہا، انہوں نے تمہیں کرنے دیا۔ چاہے وہ اپنی مرضی سے شادی یا طلاق جیسا احمقانہ فیصلہ ہی کیوں نہ ہوں۔”
”مجھے ڈیڈی کی مثال مت دیں۔ تب حالات اور تھے، لیکن اب صورت حال کچھ اور ہے۔”
انکل جہانگیر نے تیزی سے کہاتھا۔
” اس لئے صورت حال اور ہے کیونکہ تم اب کسی اور کے باپ ہو ، بیٹے نہیں۔ اب تمہاری ڈیمانڈز بھی بدل گئی ہیں۔”
”چلیں آپ ایسا ہی سمجھ لیں ڈیڈی اور طرح کے تھے، میں اور طرح کا ہوں۔”
”جہانگیر ! ابھی اسے چھوڑ دو ، تم اس کے پیچھے کس حد تک بھاگ سکتے ہو۔ اسے مجبور کرو گے تو وہ یہاں سے چلا جائے گا پھر کیا کرو گے۔ کہاں کہاں اس کے پیچھے جاؤ گے؟”




”آپ اسے سمجھانے کی بجائے مجھے سمجھا رہی ہیں؟”
”میں اسے بھی سمجھاؤں گی مگر تم خود کو تھوڑا ٹھنڈا تو کرو۔ میں تمہاری طرح اس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر نہیں پڑسکتی۔ ابھی اسے کچھ بھی مت کہو۔ ابھی اسے اس کی مرضی کے مطابق جو وہ چاہے وہ کرنے دو۔ کچھ عرصہ گزر جائے گا تو اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر میں اس سے بات کروں گی۔”
نانو انکل جہانگیر کوسمجھا رہی تھیں مگر وہ کچھ سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ اپنی ضد پراڑے ہوئے تھے۔ علیزہ نے ایک بار پھر دروازے کو دیکھا۔ کمرے میں بالکل خاموشی تھی پتا نہیں وہ اندر کیا کر رہا تھا۔ پھر اسے پتا نہیں کیا خیال آیا اور وہ لان میں چلی گئی۔ عمر کے کمرے کی کھڑکیاں باہر لان میں کھلتی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کھڑکیوں میں سے اندر دیکھ سکے گی، لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ کھڑکیاں بند تھیں اور ان کے آگے پردے تنے ہوئے تھے۔ وہ کسی بھی طرح اندر نہ دیکھ سکی۔
کچھ دیر وہ بنا کسی آہٹ کے کھڑکیوں کے سامنے کھڑی رہی اور ایک بار پھر اندر واپس آگئی۔ نانو اور انکل جہانگیر کی بحث اب بھی جاری تھی۔ وہ عمر کے کمرے کی طرف جانے کے بجائے اپنے کمرے میں آگئی۔ کپڑے بدل کے وہ بستر پر لیٹنے کے باوجود اس کی آنکھوں میں نیند کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ عمر کے وعدہ کے باوجود اس کے بارے میں پریشان تھی اور اسے حیرانی تھی کہ انکل جہانگیر عمر کے بارے میں فکر مند کیوں نہیں ہیں۔ انہیں اس کی زندگی کی پرواہ کیوں نہیں ہے۔ کچھ بے چین ہو کر وہ ایک بار پھر اٹھ گئی اور کمرے کے چکر لگانے لگی۔ پھر تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
سونے سے پہلے ایک خیال آنے پر وہ دوبارہ اپنے کمرے سے نکل کر عمر کے کمرے کی طرف گئی تھی۔ نانو کے کمرے کا دروازہ اب بند تھا وہاں اب خاموشی تھی۔ عمر کے کمرے کی لائٹ اب بھی آن تھی لیکن کمرے میں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ عمر کبھی بھی لائٹ آن کر کے نہیں سوتا تھا۔ یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی، اور اگر اس وقت سو نہیں رہا تو پھر کیا کر رہاتھا۔ اس نے بے قراری سے سوچا۔
کچھ دیر کمرے کے سامنے کھڑے رہنے کے بعد وہ واپس کمرے میں آگئی۔ اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بہت دیر تک عمر کے بارے میں سوچتی رہی۔
اگلی صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ گھڑی ساڑھے نو بجا رہی تھی۔ آنکھیں کھولتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا، وہ عمر کا تھا۔
کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلی، گھر میں بالکل ہی خاموشی تھی۔ عمر کے کمرے کا دروازہ اب بھی بند تھا۔ وہ دروازہ پر دستک دینا چاہ رہی تھی لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گئی۔
نانو کو ڈھونڈتے ہوئے وہ کچن میں آگئی۔ اسے نانو قدرے پریشان لگ لگیں۔ کچن میں ان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اسے دیکھتے ہی انہوں نے کہا۔
”میں تمہیں جگانے ہی والی تھی۔ اچھا ہوا کہ تم خود اٹھ گئیں۔ آج یونیورسٹی جانے کا ارادہ نہیں ہے؟”
”نہیں نانو !میں آج یورنیورسٹی نہیں جاؤں گی!”
اس نے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھنچتے ہوئے کہاتھا۔
”کیوں !”
” بس میرا دل نہیں چاہ رہا۔” نانو اوون میں کوئی چیز رکھ رہی تھیں۔
”پھر ناشتہ کر لو۔”
”نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔”
اس نے انکار کر دیا تھا۔
”نانو انکل جہانگیر کہاں ہیں؟”
اچانک اس نے پوچھا ۔
”وہ صبح چلا گیا ہے!”
علیزہ کو اچانک ہی بے حد اطمینان کا احساس ہواتھا۔
”عمر سے دوبارہ ان کی کوئی بات ہوئی۔”
”نہیں، عمر سو یا ہوا تھا میں نے اسے نہیں جگایا۔”
نانو نے کام کرتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!