امربیل — قسط نمبر ۴

اس نے علیزہ کی طرف دیکھے بغیر ہی کہا تھا۔
”مگر تم تو یہاں رہنے آئے تھے۔”
”ہاں، میں رہنے آیا تھا ، اور مجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔ میں نہیں جانتا تھا یہاں اپ کا بیٹا میرے پیچھے آجائے گا۔”
”مگر اب تو وہ چلا گیا ہے۔”
”ابھی چلا گیا ہے مگر میں دوبارہ آنے سے کسی کو کیسے روک سکتا ہوں۔”
”عمر ! جب تک تم یہاں ہو میں اسے یہاں نہیں آنے دوں گی، آئے گا بھی تو بھی کوئی تم سے اس معاملے پر بات نہیں کرے گا۔ مگر تم یہاں سے مت جاؤ۔”
”نہیں گرینی ! مجھے یہاں نہیں رہنا ہے۔ مجھے یہاں سکون نہیں ہے۔”
اس نے بے حد سنجیدگی سے کہاتھا۔
”تمہیں یہاں سکون ہے یا نہیں مگر تم یہاں سے کہیں نہیں جارہے، میں تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گی۔ یہ بات تم کان کھول کر سن لو۔”
نانو یک دم کہتے ہوئے میز سے اٹھ گئی تھیں۔
”مرید……مرید! اس کا سامان واپس اندر رکھ آؤ…… وہ کہیں نہیں جا رہا۔”




انہوں نے مرید کو بیگ لاتے ہوئے دیکھ کر کہاتھا۔
”گرینی ! جذباتی مت ہوں میں یہاں نہیں رہنا چاہتا اور نہ ہی رہوں گا۔ مجھے جانے دیں۔”
اس کا لہجہ ہنوز سرد تھا۔
”کیا ہو گیا ہے عمر تمہیں؟ کیوں کر رہے ہو اس طرح؟ اتنے ضدی نہیں تھے تم؟”
علیزہ نے گرینی کی آنکھوں میں آنسو امڈتے ہوئے دیکھے تھے۔اس نے عمر کو ان سے نظریں چراتے ہوئے اور پھر شکست خوردہ انداز میں سر جھکاتے ہوئے دیکھا تھا۔
”مرید……! سامان واپس رکھ آؤ۔”
نانو نے ایک بار پھر خانساماں سے کہا تھا۔ عمر اس بار بالکل خاموش رہا۔ مرید بابا چند لمحے اس کے رد عمل کا انتظار کرتے رہے اورپھر خاموشی سے بیگز اٹھا کر واپس مڑ گئے۔ علیزہ کے چہرے پر اطمینان جھلکنے لگا تھا۔
٭٭٭
وہ لنچ کرنے کے بعد گھر سے نکل گیاتھا۔ نانو وقفے وقفے سے اس کے موبائل پر کال کرتی رہیں۔ وہ رات گیارہ بجے کے قریب واپس آیا۔ علیزہ اس وقت اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ نانو نے اس سے کھانے کا پوچھا، اور اس نے انکار کر دیاتھا۔ وہ کھانا باہر سے کھا کر آیا تھا۔
اگلی صبح جس وقت علیزہ ناشتہ کی میز پر آئی اس وقت وہ وہاں نہیں تھا۔ علیزہ نے نانو سے عمر کے بارے میں پوچھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ خاموشی سے ناشتہ کر نے کے بعد وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔
لیکن یونیورسٹی میں بھی سارا دن اس کا ذہن اسی انتشار کا شکا ر رہا تھا۔ جس کا سامنا وہ پچھلے دو، تین دن سے کر رہی تھی اور اس کی یہ کیفیت شہلا سے چھپی نہیں رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟”
تیسرے پیریڈ میں اس نے کتابیں اٹھا کر کلاس سے نکلتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”کچھ بھی تو نہیں!”
”تو پھر اتنی خاموش کیوں ہو؟”
”میں ہمیشہ ہی خاموش رہتی ہوں!”
”ہاں مگر اس طرح نہیں؟” علیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
”آؤ آج کینال پر چلیں!”
شہلا کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”کلاسز چھوڑ دیں؟”
”ہاں! کبھی کبھی تو ایسا ہی کرنا چاہئے۔”
”ٹھیک ہے چلو!”
شہلا نے مزید کچھ بھی نہ کہا تھا
نہر کے کنارے بہت دیر تک وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے بیٹھی رہی تھیں پھر خاموشی کو شہلا نے ہی توڑا تھا۔
”اب بتا دو کیا ہوا ہے؟”
علیزہ اس کے سوال پر چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
”تم پریشان ہو؟”
”پریشان نہیں ہوں اداس ہوں !”
وہ ایک بار پھر نہر کے پانی کو گھورنے لگی تھی۔
”اداس کیوں ہو۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!