امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”ہونے دیں۔ ابھی بھی تو مجھے یونہی لگتا ہے جیسے میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔” عمر نے تلخی سے کہا۔
”میں اس طرح اپنی tenure پوری ہونے سے پہلے کہیں نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اگر یہ مجھے زبردستی ٹرانسفر کر ہی دینا چاہتے ہیں تو بہتر ہے میں لمبی چھٹی پر چلا جاؤں۔”
”تم اب ایک بار پھر جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو۔ جاب میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔” ایاز حیدر نے اس بار بہت نرم لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”میری جاب میں صرف نیچ ہے۔ اونچ ابھی تک مجھے نظر نہیں آئی۔” عمر نے تلخی سے ہنس کر کہا۔
”فارن سروس میں بھی تم اسی طرح منہ اٹھا کر بھاگ گئے تھے۔”
”انکل ! آپ جانتے ہیں، میں فارن سروس میں کس کی وجہ سے بھاگا تھا۔ پاپا کی وجہ سے۔ ورنہ میں وہاں بڑا خوش تھا۔” عمر نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اور یہاں پر تم آرمی کی وجہ سے بھاگ رہے ہو۔” ایاز حیدر نے اپنی بات جاری رکھی۔
”ہر جگہ تم کسی نہ کسی وجہ سے بھاگتے رہو گے تو کام کیسے چلے گا کیرئیر ایسے نہیں بنتا بیٹا۔ بڑے جھٹکے سہنے پڑتے ہیں۔”
”میں نہیں سہہ سکتا اور کم از کم اب تو نہیں، فی الحال تو ہر لحاظ سے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔”
”تم اتنی جلد بازی میں فیصلہ نہ کرو، اچھی طرح اس بارے میں سوچ لو۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکل! میں بہت اچھی طرح اس کے بارے میں سوچ چکا ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے، میں پچھلے کچھ عرصے سے صرف اسی کے بارے میں ہی سوچتا آ رہا ہوں۔ آپ پلیز، اس سلسلے میں میری مدد کریں۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”جب ایم بی اے کر لو گے، اس کے بعد پھر کیا کرو گے؟”
”پتا نہیں، ابھی تو میں صرف یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔”




”میں جہانگیر سے اس سلسلے میں بات کروں گا۔ تم ابھی سارے معاملے کے بارے میں ایک بارپھر سوچو۔” انہوں نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”آپ مجھے چھٹی دلوا سکتے ہیں یا نہیں؟ ” عمر نے ان کی بات کے جواب میں سوال کیا۔
”دیکھو عمر! فی الحال تو تمہارے لئے صرف دو چار ماہ کی چھٹی پر جانا بہتر ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد تم اپنی چھٹی بڑھوا لینا۔ کیونکہ ابھی فوری طور پر تم پر کوئی بھی اتنی مہربانی نہیں کرے گا کہ فوراً تمہیں دو سال کی چھٹی دے دے۔ تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تمہارا سروس ریکارڈ خاصا خراب ہو چکا ہے۔ اس لیے پہلے میں تمہاری چار ماہ کی چھٹی منظور کرواتا ہوں بعد میں اسے دیکھیں گے۔” ایاز حیدر نے اسے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ فی الحال مجھے چار ماہ کی چھٹی پر بھجوا دیں۔” عمران کی بات مان گیا۔
”میں فوری طور پر اپنی چھٹی کی منظوری چاہتا ہوں۔”
”آئی جی تم سے اتنا ناخوش ہے کہ وہ بڑی خوشی سے تمہیں چھٹی پر بھجوائے گا۔ تم کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” ایاز حیدر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”بلکہ وہ تم سے اتنا بیزار ہے کہ اس کا بس چلے تو وہ تمہاری اس چھٹی کو کبھی ختم نہیں ہونے دے۔”
”وہ خود کون سا بڑا اچھا آدمی ہے، تاریخ میں اس سے زیادہ نکما اور بزدل آئی جی آج تک اپائنٹ نہیں ہوا۔” عمر نے بڑی بے باکی سے تبصرہ کیا۔
کچھ احتیاط کرو…اگر تمہاری لائن انڈر آبزرویشن ہوئی تو ایسے تبصروں کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔”
”اگر وہ آپ کا دوست نہ ہوتا تو میں یہ جملہ اس کے منہ پر اس کے آفس میں کہہ کر آتا۔ میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔” عمر نے بے خوفی سے کہا۔
”تم کتنے بہادر ہو، میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ فی الحال فون بند کر رہا ہوں۔ کال خاصی لمبی ہو گئی ہے۔ تم اب اپنا سامان پیک کرنا شروع کروا دو، میں چند دنوں تک تمہاری چھٹی کے بارے میں آرڈر تم تک بھجوا دوں گا۔”
ایاز حیدر نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ فون کا ریسیور رکھ کر عمر نے بے اختیار سر کو جھٹکا۔ اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر وہ بہت دیر تک اپنی کنپٹیوں کو مسلتا رہا۔
٭٭٭
”جنید کے پیرنٹس آئے ہیں۔ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔” ثمینہ نے اس کے کمرے میں آکر اسے اطلاع دی۔
”میں ان سے ملنا نہیں چاہتی۔ آپ معذرت کر لیں، کوئی ایکسکیوز دے دیں۔” علیزہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔
”ان سے یہی کہہ دیتی ہوں کہ تم ان سے ملنا نہیں چاہتیں۔”
ثمینہ نے واپس مڑتے ہوئے کہا علیزہ خاموش رہی۔ اس سارے معاملے میں وہ اگر کسی سے واقعی شرمندہ تھی تو وہ جنید کی فیملی اور خاص طور پر اس کے والدین ہی تھے۔ اس نے ثمینہ سے کچھ نہیں کہا وہ کمرے سے نکل گئیں۔
علیزہ نے کتاب کو ایک طرف رکھ دیا۔ وہ پہلے بھی کچھ پڑھ نہیں پا رہی تھی اور اب اس کا جی کچھ اور اچاٹ ہو گیا تھا۔ بیڈ سے اٹھ کر وہ اسٹیریو کی طرف گئی اور اس نے کیسٹ لگا لیا۔ کچھ دیر وہ کمرے میں ٹہلتی ہوئی میوزک سنتی رہی پھر یکدم اس نے اسٹیریو کو بھی آف کر دیا۔
صرف دو دن پہلے سب کچھ نارمل تھا سب کچھ اور اب سب کچھ ایک خواب لگ رہا تھا۔ وہ اب ایک عجیب سے اضطراب کا شکار ہو رہی تھی۔ بار بار وہ اپنے ذہن سے جنید، اس کے گھر والوں اور اس کے گھر کو جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی اور بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔
کمرے کے دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔
”یس کم ان!” اس نے رک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والی نانو اور جنید کی امی تھیں۔ علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید کی امی نانو کے ساتھ یوں اچانک کمرے میں آ جائیں گی۔ اس سے بہتر تھا وہ ان سے ملنے کے لیے خود باہر چلی جاتی۔
”علیزہ! مسز ابراہیم تم سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ میں انہیں یہاں لے آئی۔” نانو نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”آپ بیٹھیں مسز ابراہیم! میں چائے یہیں بھجوا دیتی ہوں۔ آپ علیزہ کے ساتھ چائے پئیں۔”
نانو نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے جنید کی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
”آپ بیٹھیں پلیز!” علیزہ نے قدرے ہکلاتے ہوئے جنید کی امی سے کہا۔ اسے اندازہ تھا اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ آرہے ہوں گے۔ وہ صوفہ پر بیٹھ گئیں۔
”تم بھی بیٹھو۔” جنید کی امی نے صوفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ جھجکتی ہوئی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”جنید نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔” انہوں نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ علیزہ انہیں دیکھنے لگی۔”عمر کو ہمارے گھر آتے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ جنید اور اس کی دوستی بہت پرانی ہے۔ پرانی دوستیوں میں بہت زیادہ جذبات اور احساسات انوالو ہو جاتے ہیں۔ اٹیچ منٹ بہت گہری ہو جاتی ہے اور عمر تو ہمارے لیے ہمارے گھر کے ایک فرد جیسا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ تم اسے کیوں اتنا ناپسند کرتی ہو، یقیناً تمہارے پاس بھی اسے ناپسند کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پاس اسے پسند کرنے کی وجوہات ہیں، مگر عمر کو تمہارے اور جنید کے درمیان مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔”
وہ چند لمحوں کے لیے رکیں۔
”جنید تم سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت عمر کی وجہ سے نہیں ہے۔ علیزہ تم ابھی ہمارے گھر نہیں آئی ہو، لیکن تم پچھلے ایک سال سے ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہو۔ ہم سب کو بہت عادت ہو گئی ہے تمہاری یہ شادی نہ ہونے سے صرف جنید متاثر نہیں ہوگا ہم سب متاثر ہوں گے اور تم بھی متاثر ہو گی۔ تمہیں جنید سے ناراضی کا حق ہے لیکن اس ناراضی میں کم از کم تمہیں تو جنید جیسی کوئی احمقانہ حرکت یا قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔” وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ ”ہم سب نے ہی تم سے عمر کے بارے میں چھپایا مگر یہ اس لیے نہیں تھا کہ ہم تمہیں دھوکہ دینا چاہتے تھے، یہ صرف اس لیے تھا کیونکہ ہم لوگ تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ عمر تو جنید کا صرف دوست ہے مگر تم تو ہماری فیملی کا حصہ بن جاؤ گی۔ ہمارے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے تم اندازہ کر سکتی ہو، جنید کے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے یہ بھی تم جان سکتی ہو، تمہیں اگر یہ ناپسند ہے کہ عمر ہمارے گھر آئے تو میں عمر کو منع کر دوں گی۔ وہ گھر نہیں آئے گا مگر جہاں تک جنید اور عمر کی دوستی کا تعلق ہے اس کو رہنے دو۔ علیزہ! ان کے اس تعلق سے تمہاری اور جنید کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں تمہیں اس بات کی گارنٹی دیتی ہوں مگر اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح رشتوں کو ختم کرنا کم از کم میں تم سے اس کی توقع نہیں کرتی ۔ علیزہ! ہم سب بہت پریشان ہیں نہ صرف ہم بلکہ جنید بھی۔ میں چاہتی ہوں کچھ بھی ختم نہ ہو سب کچھ ویسا ہی رہے۔ جنید میرے ساتھ آیا ہوا ہے اور تم سے معذرت کرنے کے لیے تیار ہے۔”
علیزہ بالکل لاجواب تھی۔ وہ جنید کے گھر والوں کا سامنا کرتی کجا یہ کہ ان سے بات کرتی مگر جنید کی امی اس طرح اچانک اس کے پاس آگئی تھیں کہ وہ اپنی مدافعت کے لیے ان سے کچھ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔
”ہماری زندگی ہمیشہ سے بڑی smooth (ہموار) رہی ہے، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس طرح اچانک ہماری زندگی میں کوئی کرائسس آئے گا۔”
وہ ایک بار پھر کہنے لگیں۔ علیزہ کے اعصاب کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، وہاں بیٹھے ایک دم اسے اپنی ہر دلیل بے کار اور اپنا اقدام بچکانہ لگنے لگا تھا۔
”اس لیے ہم تو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم کیا کریں، ابھی بہت زیادہ لوگوں کو پتہ نہیں چلا مگر…کچھ دنوں میں…نہیں علیزہ! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تمہاری میری فیملی کے ساتھ اتنی وابستگی تو ہے کہ تم ہماری فیلنگز کو سمجھ سکو، اس شرمندگی اور بے عزتی کا اندازہ کر سکو جس کا سامنا میری فیملی کو کرنا پڑے گا اور صرف میری نہیں تمہاری فیملی کو بھی، میں حیران ہوں کہ اتنی چھوٹی سی بات پر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا۔ کیا تم نے اس کے نتائج کے بارے میں سوچا تھا۔”
علیزہ ان کے احساسات اور ذہنی کیفیات کو سمجھ رہی تھی، وہ یقیناً بہت زیادہ پریشان تھیں۔ علیزہ کے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی جنید کی امی بہت دیر تک اسے سمجھاتی رہی تھیں اور شاید اس کی یہ مسلسل خاموشی انہیں حوصلہ افزا لگی تھی، وہ بہت دیر کے بعد اگلے دن دوبارہ آنے کا کہہ کر رخصت ہو ئیں۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!