امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Eight
9:30am
گاڑی کے پاس کھڑے گارڈز نے عمر کو دیکھ کر سیلوٹ کیا، ڈرائیور اب تک فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول چکا تھا۔ عمر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ڈیش بورڈ پر رکھیں اور خود اندر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے اس کے اندر بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔ دونوں گارڈز بھی جیپ کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ دور گیٹ پر موجود گارڈ اب گیٹ کھول رہا تھا۔ وہ عمر کو باہر نکلتے اور گاڑی میں بیٹھتے دیکھ چکا تھا۔ ڈرائیور اب اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
گیٹ پر موجود گارڈز بہت مستعدی کے عالم میں کھڑے تھے۔ عمر کی گاڑی پاس سے گزرنے پر انہوں نے عمر کو سیلوٹ کیا عمر نے گلوز کمپارٹمنٹ کھول کر اندر موجود اپنے سن گلاسز نکالے اور انہیں آنکھوں پر چڑھا لیا۔ گیٹ کے باہر موجود پولیس کی ایک اور موبائل نے عمر کی گاڑی کے باہر آنے کے بعد اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ عمر کی گاڑی کو escort (حفاظت ) کر رہی تھی۔
سڑک پر اس وقت خاصی ٹریفک تھی۔ عمر نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالی، وہ جانتا تھا دس منٹ کے اندر وہ اپنے آفس میں ہوگا۔ اس کے گھر سے اس کے آفس کا فاصلہ صرف دس منٹ کا تھا۔
وہ تنقیدی نظروں سے سڑک پر چلنے والی ٹریفک کو دیکھتا رہا۔ اکثر گاڑیوں کے ڈرائیور اس کے لیے راستے چھوڑ رہے تھے۔ اسے سڑک پر بجتے ہوئے ہارن کی آواز سے بے حد کوفت ہوتی تھی اور اس وقت سڑک پر بے تحاشا ہارن بج رہے تھے، اس کی اپنی گاڑی کا ڈرائیور چاہتے ہوئے بھی ہارن نہیں بجا رہا تھا۔ عمر جہانگیر کی موجودگی میں کم از کم وہ یہ جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اسے آج بھی اچھی طرح یاد تھا جب تقریباً دو سال پہلے عمر نے وہاں جوائننگ لی تھی۔ اس کے ساتھ پہلے ہی سفر میں اس نے حسب عادت سڑک پر آتے ہی ہارن دیا تھا۔ عمر نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔




”دوبارہ ہارن مت دینا۔ کم از کم جب تک میری گاڑی ڈرائیو کر رہے ہو، یہ بھول جانا کہ گاڑی میں ہارن نام کی کوئی چیز ہے یا تو گاڑی اتنی تیز اور اچھی چلاؤ کہ ہر طرح کی ٹریفک سے نکل جاؤ یا پھر انتظار کرو پولیس کی گاڑی دیکھ کر لوگ خود ہی کچھ دیر میں راستہ صاف کر دیں گے اور اگر یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں تو انتظار کرو کبھی نہ کبھی تو راستہ ملے گا مگر یہ ہارن دوبارہ استعمال نہیں ہونا چاہیے، ورنہ میں تمہیں اور ہارن دونوں کو گاڑی سے نکال کر پھینک دوں گا۔”
ڈرائیور نے اس کے بعد واقعی کبھی ہارن کا استعمال نہیں کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے یہ یقین تھا کہ عمر واقعی ایسا ہی کرے گا، وہ دوسری بار اسے وارننگ نہیں دے گا۔
اپنے آفس کے راستے میں آنے والے واحد چوک پر کھڑے ٹریفک کانسٹیبل نے عمر کی گاڑی پاس سے گزرنے پر اسے سیلوٹ کیا۔
”جبار! آج میری کار کو سروس کے لیے جانا۔”
عمر نے اچانک ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ وہ اپنی ذاتی گاڑی کی بات کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہے سر کس وقت؟” ڈرائیور نے مستعدی سے کہا۔
”میں کچہری میں جب ایک دو گھنٹوں کے لیے جاؤں گا، اس وقت تم گاڑی لے جانا مگر زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں تمہیں واپس ہونا چاہیے۔ اگر گاڑی کا کوئی لمبا چوڑا کام نکل آیا تو پھر تم اسے وہیں چھوڑ دینا اور خود آ جانا کیونکہ آج مجھے خاصی جگہوں پر جانا ہے۔” عمر نے اسے مزید ہدایات دیں۔
”ٹھیک ہے سر میں دو گھنٹوں سے پہلے ہی واپس آجاؤں گا۔”
”درزی سے میرے کپڑے لے آئے؟” عمر کو اچانک یاد آیا۔ اس نے چند دن پہلے دو شلوار قمیص سلوانے کے لیے بھجوائے تھے۔
”یس سر وہ تو میں کل شام کو لے آیا تھا۔ ابھی گاڑی میں ہی پیچھے پڑے ہیں۔ مجھے یاد نہیں رہا گھر میں دینا میں کچھ ایمرجنسی میں کل شام کو جلدی چلا گیا تھا۔” ڈرائیور نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”ہاں کیسی ہے تمہاری بیوی اب؟” عمر کو اس کی ایمرجنسی کی بات سن کر یاد آیا۔
”اب تو بہتر ہے سر ہڈی تو بچ گئی مگر چوٹ خاصی آئی ہے۔ مجھے تو کل بڑی بھاگ دوڑ کرنی پڑی اس کے لیے۔”
”ہاسپٹل میں ہے؟”
”نہیں سر! گھر لے آیا تھا میں رات کو…ہاسپٹل میں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔”
”یہ کون سی بیوی ہے پہلی یا دوسری؟” عمر جانتا تھا جبار کی دو بیویاں تھیں، دوسری شادی اس نے چھ ماہ پہلے ہی کی تھی۔
”سر! دوسری والی۔ ” جبار نے جواب دیا۔
”ہاں مجھے پہلے ہی اندازہ تھا۔ یہ دوسری بیوی ہی ہو سکتی تھی جس کے لیے تم اس طرح بھاگے بھاگے جا سکتے تھے۔”
عمر نے تبصرہ کیا۔ بیک ویومرر میں اس نے پیچھے بیٹھے ہوئے گارڈز کو آپس میں معنی خیز مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے دیکھا۔ جبار عمر کی بات پر کچھ جھینپ گیا۔
”نہیں ایسی بات نہیں ہے سر جی…میں تو پہلی کا بھی بہت خیال رکھتا ہوں۔” جبار نے عمر کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
”یہ قابل یقین بات تو نہیں ہے مگر چلو یقین کر لیتا ہوں۔” عمر نے قدرے شگفتگی سے کہا۔
وہ اب ایک بار پھر سڑک پر نظر آنے والی ٹریفک کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ گاڑی اب اس کے آفس کے قریب ہو گئی تھی۔ چند منٹوں کے بعد گاڑی اس کے دفتر کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی تھی۔ آفس کے اندر اور باہر اس کے عملے میں روٹین کی ہلچل نظر آنے لگی۔
٭٭٭
Seven
9:40am
عمر آفس میں پہنچ کر معمول کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ اس کا پی اے اس کے سامنے ٹیبل کے دوسرے طرف کھڑا تھا۔
” سر ڈی سی صاحب کی کال آئی تھی ، آپ کے آنے سے چند منٹ پہلے، انہوں نے کہا ہے کہ آپ آفس آئیں تو ان سے بات کروا دوں۔”
”کوئی ایمرجنسی ہے؟”
”نہیں سر! میرا خیال ہے۔ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔ وہ شاید کسی معاملے میں آپ سے بات کرنا چاہتے ہوں گے۔ میں نے ان کے پی اے سے اس بارے میں پوچھا تھا مگر خود اسے بھی کوئی اندازہ نہیں تھا مگر اس نے یہ ضرور بتایا کہ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔” پی اے نے اپنی رائے ظاہر کی۔
”کوئی اور کال آئی؟”
”نو سر…بس ان ہی کی کال تھی۔”
”میں ان سے کچھ دیر بعد بات کروں گا۔ تم فی الحال ڈکٹیشن کے لیے بیٹھ جاؤ۔” عمر نے اس سے کہا۔
”یس سر۔” پی اے مستعدی سے بیٹھ گیا۔ وہ اس فائل کو دیکھتے ہوئے اسے ڈکٹیشن دینے لگا۔ یکے بعد دیگرے اس نے ٹیبل پر پڑی ہوئی دو تین اور فائلز کو بھی دیکھا اور ان کے بارے میں بھی اسے ڈکٹیشن دی۔ وہ ساتھ ساتھ کچھ اور فائلز پر نوٹ لکھنے میں بھی مصروف تھا۔
تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد وہ آخری ڈکٹیشن دے کر ایک گہری سانس لیتا ہوا خاموش ہو گیا۔
”یہ بس اب میری آخری ڈکٹیشن ہے۔ کل میں شاید آفس نہ آؤں اور اگر آیا بھی تو زیادہ دیر کے لیے نہیں آؤں گا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”میرا خیال ہے دو تین دن تک سعود ہمدانی یہاں پہنچ ہی جائیں گے، ابھی اپنے کچھ کام نپٹا رہے ہیں ورنہ شاید اب تک پہنچ ہی گئے ہوتے۔” اس نے آنے والے ایس پی کا نام لیا۔
”اب میں مزید کوئی فائلز نہیں دیکھوں گا۔ سعود ہمدانی ہی آکر دیکھیں گے۔ خاص طور پر ان کیسز کی فائلز…انہیں اچھی طرح سٹڈی کی ضرورت ہے اس لیے میں انہیں چھوڑ رہا ہوں اب ان دو تین دنوں میں میرے کچھ وزٹس ارینج کر دو۔”
عمر نے کچھ جگہوں کے نام لیتے ہوئے کہا۔ پی اے اپنی نوٹ بک میں نوٹس لیتے ہوئے ”یس سر” کی تکرار کرتا گیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!