امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Three
12:40pm
اس کے موبائل کی بیپ بج رہی تھی سامنے بیٹھے ہوئے ملاقاتی سے بات کرتے کرتے اس نے میز پر پڑا ہوا موبائل ہاتھ میں لے کر کالر کا نمبر دیکھا۔ وہ جنید تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو جنید کیسے ہو؟” اس نے جنید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”فائن۔” دوسری طرف سے جنید نے مختصر جواب دیا۔ عمر کو حیرت ہو رہی تھی۔ جنید عام طور پر دن کے اوقات میں اسے آفس میں فون نہیں کرتا تھا اور وہ بھی کام کے دوران ۔ وہ رات کو اسے فون کیا کرتا تھا یا پھر شام کو۔
”اس وقت کیسے کال کر لیا تم نے؟” عمر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”تم لاہور کب آرہے ہو؟” جنید نے اس کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
”بس دو تین دن میں ، کیوں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” عمر کو اچانک تشویش ہوئی۔
”نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے، میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔” دوسری طرف سے اس نے کہا۔
”پھر تم رات کو مجھے کال کر لو یا پھر میں تمہیں کال کر لیتا ہوں۔”
”نہیں میں فون پر بات نہیں کرنا چاہتا۔” اس بار جنید کے انداز نے اسے کچھ چونکایا۔
”پھر؟”
”آمنے سامنے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”خیر تو ہے۔”
”ہاں خیر ہی ہے۔”
”کس چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟”
”بہت ساری چیزیں…یہ جب تم لاہور پہنچو گے تب ہی بتاؤں گا۔”
”اتنا پراسرار بننے کی کیا ضرورت ہے۔ صاف صاف بات کرو یار۔”




”تم لاہور پہنچ جاؤ پھر کافی صاف صاف باتیں ہوں گی۔” عمر ایک لحظہ کے لیے خاموش رہا۔
”علیزہ ٹھیک ہے؟” اس نے پتہ نہیں کیا جاننے کی کوشش کی۔
”ہاں بالکل ٹھیک ہے۔”
”شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں؟”
”وہ بھی ٹھیک چل رہی ہیں۔”
عمر کو کچھ اطمینان ہوا۔ کم از کم اس بار علیزہ اور اس کے درمیان کوئی گڑبڑ نہیں تھی، ہو سکتا تھا کوئی اور معاملہ ہو۔
”میں دو تین دن تک فارغ ہو کر لاہور آجاؤں گا۔ پھر اطمینان سے تم سے بات چیت ہو گی۔” عمر نے اس سے کہا۔
”میں صرف تمہاری واپسی کے بارے میں ہی جاننا چاہتا تھا۔”
”اچھا پھر میں کروں گا تمہیں رات کو کال۔ کچھ گپ شپ رہے گی ابھی آفس میں ہوں۔” عمر نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
٭٭٭
Two
1:20pm
”میں چائے پینے آیا ہوں آپ کے ساتھ۔” سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے سیشن جج رضوان قریشی نے عمر سے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کے کمرے میں آیا تھا۔ اس کا آفس عمر کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ وقتاً فوقتاً عمر کے دفتر میں آتا جاتا رہتا۔ دونوں چائے اکثر ساتھ ہی پیتے۔
عمر نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے گھنٹی بجا کر اردلی کو بلوایا اور چائے لانے کے لیے کہا۔
”چلیں آج آخری بار آپ کو چائے پلوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تو پھر موقع نہیں آئے گا۔” عمر نے اردلی کے جانے کے بعد رضوان قریشی سے کہا۔
”کیوں ابھی تو آپ چند دن اور ہیں یہاں۔”
”ہاں مگر یہاں کچہری میں آج میرا آخری دن ہے۔ پرسوں سعود ہمدانی چارج لے رہے ہیں۔ کل میں یہاں نہیں آؤں گا۔ کچھ courtsey calls میں مصروف رہوں گا۔” عمر نے تفصیل بتائی۔
”بہت اچھا وقت گزرا عمر جہانگیر صاحب آپ کے ساتھ…اچھی گپ شپ ہو جاتی تھی۔”
”ہاں مگر دس پندرہ منٹ کی۔۔۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلیں دس پندرہ منٹ ہی سہی مگر اچھا ٹائم گزرتا تھا۔” رضوان قریشی بھی مسکرایا۔
”اس میں کوئی شک نہیں۔” عمر نے سر ہلاتے ہوئے ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔
”لاہور جانے سے پہلے میری طرف ایک چکر لگائیں ، کھانا کھاتے ہیں اکٹھے۔” رضوان قریشی نے آفر کی۔
”ضرور کیوں نہیں مگر کھانا کھانا ذرا مشکل ہے، ان دو تین دن کے لئے خاصی کمٹمنٹس ہو چکی ہیں میری مگر جو کچھ آفیشل فیرویل اور ڈنرز ہو رہے ہیں، اس میں تو آپ بھی انوائیٹڈ ہوں گے، اکٹھا کھانے کا موقع تو وہاں بھی مل جائے گا۔” عمر جہانگیر نے کہا۔
”آفیشل ڈنر میں اور گھر پر ہونے والی دعوت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
”پھر کبھی سہی رضوان صاحب! بعد میں ملاقات تو رہے گی آپ سے۔” عمر نے کہا۔
”کہاں میل ملاقات رہے گی…آپ تو فوری چھٹی پر بیرون ملک جا رہے ہیں۔” رضوان قریشی نے یاد دہانی کروائی۔
”ہاں مگر پاکستا ن آتا جاتا رہوں گا اور پھر دوبارہ جوائن تو کرنا ہی ہے۔”
”تب کیا پتہ ہم کہاں ہوں…آپ کہاں ہوں۔”
”جہاں بھی ہوں گا میں آپ سے رابطہ رکھوں گا۔” عمر نے کہا۔
اگلے پندرہ منٹ اس نے رضوان قریشی کے ساتھ چائے اور سگریٹ پیتے ہوئے گزارے۔ پھر رضوان قریشی بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے مل کر آفس سے نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد عمر نے اگلے پندرہ منٹ وہاں موجود عملے کے ساتھ الوداعی بات چیت کی۔ اپنے آفس میں موجود اپنی چیزوں کو وہ پہلے ہی اپنی گاڑی میں بھجوا چکا تھا۔
٭٭٭
One
1:50pm
کچہری میں موجود اپنے آفس سے نکل کر وہ دوبارہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔ جبار گاڑی چلاتے ہوئے دوبارہ اسے مین روڈ پر لے آیا۔ عمر نے ایک بار پھر سن گلاسز لگا لیے تھے۔
”کار سروس کروا لی ہے میری؟” عمر نے جبار سے پوچھا۔
”جی سر…میں کروا کر گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔”
”کسی خرابی وغیرہ کے بارے میں کہا تو نہیں مکینک نے؟”
”نہیں سر…گاڑی بالکل ٹھیک ہے، اس نے چیک کی تھی اچھی طرح۔”
عمر سر ہلاتے ہوئے باہر دیکھنے لگا پھر اچانک ایک خیال آنے پر اس نے کہا۔
”راستے میں سے سگریٹ کا پیکٹ لینا ہے۔”
”جی سر۔” ڈرائیور نے کہا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے راستے میں نظر آنے والی ایک مارکیٹ کے سامنے پارکنگ میں گاڑی روک دی اور کچھ کہے بغیر گاڑی سے اتر گیا۔ وہ عمر کے لیے اکثر اسی مارکیٹ کی ایک شاپ سے سگریٹ خریدا کرتا تھا۔
وہ تین منٹ میں سگریٹ خرید کر واپس آگیا۔ عمر نے سگریٹ کا پیکٹ اس سے لیتے ہوئے سگریٹ کو کیس میں رکھنے کے بجائے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالا اور پیکٹ کو ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ ڈرائیور تب تک گاڑی سٹارٹ کرکے اسے ریورس کرتے ہوئے پارکنگ سے نکال رہا تھا۔ پولیس موبائل باہر سڑک پر ہی کھڑی تھی۔ ڈرائیور گاڑی ایک بار پھر مین روڈ پر لے آیا۔
عمر نے لائٹر سے ایک ہاتھ میں اوٹ بناتے ہوئے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ سلگایا اور پھر لائٹر کو دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ کھڑکی کے شیشے کو اس نے کچھ اور نیچے کر دیا تاکہ دھواں آسانی سے باہر جاتا رہے، وہ اب اپنے باقی دن کی مصروفیات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ گاڑی تیزی سے سڑک پر رواں دواں تھی۔ دائیں طرف سے ایک موٹر سائیکل نے عمر کی گاڑی کو اوورٹیک کیا۔ موٹرسائیکل پر موجود دو آدمیوں میں سے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے اپنے جسم کے گرد چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ عمر کی گاڑی میں موجود گارڈز ہاتھ میں پکڑے ہتھیار لے کر یکدم چوکنا ہوتے ہوئے اوورٹیک کرتے ہوئے اس موٹرسائیکل کو دیکھنے لگے۔
سگریٹ پیتے ہوئے عمر نے بھی ونڈ سکرین سے آگے نکلتی ہوئی اس موٹرسائیکل کو اچٹتی نظروں سے دیکھا۔ موٹرسائیکل پر بیٹھے داڑھی والے نوجوان لڑکوں میں سے کسی نے عمر کی گاڑی کی طرف نہیں دیکھا تیزی سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور اسی تیز رفتاری کے ساتھ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ عمر کی گاڑی سے بہت آگے نکلتے ہوئے آنے والی ایک دوسری سڑک پر مڑ گئے۔
پیچھے بیٹھے ہوئے گارڈز یکدم مطمئن ہو گئے۔ عمر نے سگریٹ کی راکھ کو جھٹکا اور سگریٹ کا ایک اور کش لگایا گاڑی کی سپیڈ اب آہستہ ہو رہی تھی۔ انہیں بھی اسی سڑک پر مڑنا تھا جس سڑک پر وہ موٹرسائیکل گئی تھی۔
اس سڑک پر مڑتے ہی وہ موٹرسائیکل رک گئی۔ پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے نے بڑی پھرتی کے ساتھ اپنی چادر کے اندر سے ایک اسٹین گن نکالی اور اس کے ٹریگر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بالکل خاموشی سے موٹرسائیکل پر یوں بیٹھ گیا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔ اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ چند راہگیروں اور اکا دکا موٹرسائیکل اور گاڑی والوں نے انہیں دیکھا مگر صرف تجسس بھری نظروں سے دیکھ کر گزر گئے۔
اسٹین گن پکڑے ہوئے لڑکے کے ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی نے اچانک سگنل دینا شروع کر دیا۔
”آگیا۔” اس کے منہ سے نکلا، کسی نے یقیناً موڑ پر پہنچنے والی عمر کی گاڑی کے بارے میں انہیں اطلاع دی تھی۔ موٹرسائیکل چلانے والا موٹرسائیکل کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے ہوئے مستعد ہو گیا۔ اسٹین گن اوپر ہو گئی۔ عمر کی گاڑی کا بونٹ نظر آیا۔ گاڑی مڑ رہی تھی۔ اس نوجوان نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے ٹریگر دبا دیا۔ پہلا برسٹ ٹائرز پر پڑا تھا۔ گاڑی کو یکدم بریک لگے اور اس سے پہلے کہ گاڑی کا ڈرائیور یا گارڈز صورت حال کو سمجھ کر کچھ کر سکتے دوسرے برسٹ نے ونڈ سکرین کو چھلنی کر دیا۔ پولیس کی پیچھے آنے والی موبائل نے اچانک سائرن بجانا شروع کر دیا۔ موٹرسائیکل ایک فراٹے کے ساتھ اس سڑک پر بھاگنے لگی۔ وہ نوجوان اسٹین گن اپنی چادر کے اندر کر چکا تھا۔ جب تک موبائل موڑ مڑ کر عمر کی گاڑی کراس کرتے ہوئے آگے آئی اس سڑک پر سے موٹرسائیکل غائب ہو چکی تھی۔
٭٭٭
Zero
2:00pm
فضا میں تڑتڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ہی جبار چلایا۔
”حملہ سر۔” اس کا پاؤں بریک پر تھا۔ وہ آگے کچھ نہیں کہہ سکا۔ وہ دو طرف سے گولیوں کی زد میں آیا تھا۔ ڈرائیور سیٹ کی کھڑکی اور ونڈ سکرین سے…اچانک لگنے والے بریک کے جھٹکے سے عمر یکدم جھک گیا۔ اس کا سر ڈیش بورڈ کے پاس تھا۔ جب اس نے جبار کی چیخیں سنیں اور ونڈ سکرین کی کرچیوں کو اڑتے دیکھا۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے پہلے اپنے کندھے اور پھر اپنی گردن میں لوہے کی گرم سلاخیں سی گھستی محسوس کیں۔ وہ بے اختیار چلایا تھا پھر یکے بعد دیگرے اس نے کچھ اور سلاخوں کو اپنی گردن ، کندھے اور کندھے کی پشت میں دھنستے محسوس کیا۔ کتنی؟ وہ نہیں بتا سکتا تھا۔ پھر فضا میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ اس کا سر ڈیش بورڈ پر ٹکا ہوا تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بھی کوئی کراہ رہا تھا۔ درد کی شدت…چند سیکنڈز کے لیے کھلی نظروں سے اس نے ڈیش بورڈ سے سر ٹکائے ٹکائے اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے دیکھا۔ اس کے گھٹنے کے قریب خاکی ٹراؤزز خون سے بھیگ رہی تھی اس کی گردن کے اطراف اور عقب سے نکلنے والا خون ایک دھار کی صورت میں اس کی گردن کے نیچے والے حصے سے بہہ رہا تھا۔ اس نے سائرن کی آواز سنی۔ اس نے سانس لینے کی کوشش کی وہ جانتا تھا۔ پولیس موبائل ابھی اس کے پاس ہو گی وہ جانتا تھا وہ اگلے چند منٹوں میں ہاسپٹل لے جایا جائے گا، اس کے ذہن میں بہت سارے خیالات گڈمڈ ہو رہے تھے۔ چہرے آوازیں…ماضی…حال…چیزیں…لوگ…وہ سانس لینے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ چیخ یا کراہ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے احساسات مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوئے تھے اس نے دیکھا اس کے ہاتھ میں دبا سگریٹ خون کے اس تالاب میں گرا ہوا تھا جو اس کے پیروں کے پاس پائیدان میں جمع ہو گیا تھا مگر وہ ابھی سلگ رہا تھا ۔ اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں عجیب سے انداز میں اوپر اٹھ رہا تھا۔ چند سیکنڈ میں اس نے سگریٹ کے شعلے کو مکمل طور پر بجھتے دیکھا پھر دھواں بند ہو گیا۔
اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا اور اس کی ناک سے خون وہ اپنے سر کو سیدھا کرنا چاہتا تھا کوئی اس کا دروازہ کھول رہا تھا کوئی اس کے قریب بلند آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے علیزہ کے چہرے کو اپنے ذہن کی سکرین پر ابھرتے دیکھا۔ بے اختیار اس نے سانس لینے کی کوشش کی پھر اس نے اس کے ساتھ جنید کو دیکھا وہ سانس نہیں لے سکا۔ اسے اپنا دایاں بازو کسی کے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں محسوس ہوا۔ کوئی اس کے دائیں کندھے پر ماتھا ٹکائے رو رہا تھا۔ وہ ان آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی نمی کو شرٹ کے اندر اپنے بازو پر محسوس کر رہا تھا۔
”مجھ سے یہ مت کہو کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے، تمہیں پتہ ہے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
اس نے اپنے بائیں کندھے پر کسی کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی، کوئی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دائیں کندھے کو کسی کی گرفت سے آزاد ہوتے پایا۔ ایک گہری تاریکی نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا۔
ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ جو آخری احساس تھا، وہ کسی کے اسے گاڑی سے نکالنے کی کوشش کا تھا۔ اس کے ذہن میں ابھرنے والا آخری خیال اس کی ممی کا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!