امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”وہ کتنی تکلیف سے گزرا ہو گا۔ کتنا درد برداشت کرنا پڑا ہوگا اسے۔” وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کون کہتا ہے کہ کسی شخص سے ایک بار محبت ہونے کے بعد اس سے نفرت ہو سکتی ہے۔ جو کہتا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ہے۔
Cycle of replacement میں صرف محبت کی replacement نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہوتا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے اپنے وجود سے نکال کر باہر نہیں پھینک سکتے۔ تہ در تہہ اس کے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں، کہتے جاتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ قریب آتا جاتا ہے اور وہ ہمارے دل اور دماغ کے اس حصے میں جا پہنچتا ہے کہ کبھی اس کو وہاں سے نکالنا پڑے تو پھر اس کے بعد ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔
وہ اس کی محبت میں اٹھارہ سال کی عمر میں گرفتار ہوئی تھی۔ وہ واحد شخص تھا جس سے وہ ہر بات کر لیتی تھی، بہت ساری وہ باتیں بھی جو وہ کبھی شہلا اور نانو سے بھی نہیں کر سکتی تھی۔
وہ واحد شخص تھا جو اس کے نخرے برداشت کرتا تھا۔ ناز اٹھاتا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی سے اتنی ضد نہیں کی تھی۔ کسی کو اتنا تنگ نہیں کیا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی کو برا بھلا بھی نہیں کہا تھا۔ کسی سے بدتمیزی بھی نہیں کی تھی۔ کسی پر چیخی چلائی بھی نہیں تھی۔
وہ واحد شخص تھا جو اس کی ہر غلطی اپنے کندھوں پر لینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ جو اسے محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اور وہ یہ سب کچھ جانتی تھی۔
اور اب جب وہ اپنی زندگی کا سفر ختم کرکے دنیا سے جا چکا تھا تو وہ اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑی رہ گئی تھی۔ کوئی دوسرا شخص اس کے لیے عمر جہانگیر نہیں بن سکتا تھا۔
دونوں ہاتھ سر پر رکھے وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک بار عمر کے سامنے پارک میں روئی تھی اور پھر اس کے بعد اس کے سامنے کئی بار روئی تھی۔ کیا کچھ تھا جو آج اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔ اسے پہلی بار لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ۔ سب کچھ…کہیں بھی، کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔
کیا تھا اگر وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ پھر بھی اس کا ہونا ہی کتنا کافی تھا اس کے لیے۔
کچھ فاصلے پر موجود ایک کمرے میں عمر جہانگیر کے جسم کو کاٹنے والے سارے نشتر اسے اپنے وجود پر چلتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی میں بہت سی تکلیف دہ چیزوں سے بچایا کرتا تھا اور وہاں بیٹھے علیزہ سکندر کی خواہش اتنی تھی وہ اس سب کے بدلے عمر جہانگیر کو صرف ایک چیز سے بچا لے…موت سے…
٭٭٭
رپورٹرز نے صوبائی وزیر کو گھیرا ہوا تھا۔ جو کچھ دیر پہلے ہاسپٹل پہنچے تھے۔
”آپ کا کیا خیال ہے سر! اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟’ ‘ ایک رپورٹر نے ان سے سوال کیا۔
”دیکھیں، اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس نے انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے امید ہے جلد ہی اس افسوس ناک حادثے کے مجرموں کو پکڑ لیا جائے گا۔” انہوں نے اپنے پاس کھڑے آئی جی پنجاب کو دیکھتے ہوئے کہا جو مودبانہ انداز میں سر ہلانے لگے۔
”کیا پولیس کو اس معاملے میں کوئی لیڈ ملی ہے؟” ایک اور سوال ہوا۔
”اس بارے میں آئی جی صاحب آپ کو زیادہ اچھی طرح بتا سکتے ہیں مگر میں نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی فوری طور پر آپ کو کوئی بریکنگ نیوز دے سکتے ہیں۔ پھر بھی بہتر ہے یہ سوال آپ ان ہی سے کریں۔” انہوں نے آئی جی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!