امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”آپ چائے پئیں گے؟” علیزہ نے جنید سے پوچھا۔ ان دونوں کے درمیان تقریباً دو ہفتے کے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ وہ ہاسپٹل سے گھر تک، ہر جگہ موجود رہا تھا اور دسویں تک ہر روز اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر آتا رہا تھا مگر اس کے اور علیزہ کے درمیان براہ راست کوئی بات نہیں ہوئی۔ حادثے کے بعد آج پہلی بار وہ علیزہ سے مل رہا تھا اور اس کی فیملی اس کے ساتھ نہیں تھی، وہ جس وقت آیا تھا، اس وقت تانیہ واپس گھر جا رہی تھی اور علیزہ اس کے ساتھ پورچ میں کھڑی تھی، جب گیٹ سے جنید کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی۔ اس نے گاڑی تانیہ کی گاڑی کے پاس لا کر کھڑی کر دی۔ کچھ دیر اس کے اور تانیہ کے درمیان رسمی بات چیت ہوئی پھر تانیہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
”آیئے اندر آ جائیں۔” یہ پہلا جملہ تھا جو بہت دنوں کے بعد ان دونوں کے درمیان بولا گیا تھا۔
”نہیں، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔” جنید نے کہا اور وہ خاموشی سے لان کی طرف بڑھ گئی۔
اور اب وہ پچھلے دس منٹ سے لان کی کرسیوں پر چپ چاپ بیٹھے تھے، علیزہ نے اس گہری خاموشی کو توڑنے کے لیے اس سے پوچھا۔
”آپ چائے پئیں گے؟”
”نہیں، میں یہاں آنے سے پہلے چائے پی کر آیا ہوں۔” جنید نے جواباً کہا اور پھر کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ ”جوڈتھ نے فون کیا تھا تمہیں؟”
”جوڈتھ نے…؟نہیں…نانو سے اس کی دوبار بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے بتایا۔
”وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔”
”ہاں، نانو نے مجھے بتایا مگر یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ اس سے دونوں بار میری بات نہیں ہو سکی۔”
”وہ ہفتے کی رات کو پاکستان آرہی ہے۔” جنید نے بتایا۔ علیزہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، وہ کہہ رہا تھا۔




”وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی ہے۔” وہ جانتی تھی جنید کا اشارہ کس طرف ہے۔
”میں نے اسے اپنے گھر رہنے کے لیے کہا ہے مگر اس کی خواہش ہے یہاں ٹھہرنے کی۔”
”آپ ان سے یہاں آنے کے لیے کہہ دیں، مجھے اور نانو کو انہیں ریسیو کرکے خوشی ہو گی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ جانتی تھی جوڈتھ پاکستان کیوں آ رہی تھی۔
”انہوں نے آپ کو فلائٹ کی ٹائمنگز کے بارے میں بتایا ہے؟”
”اسے ایئر پورٹ سے میں ریسیو کر لوں گا۔” جنید نے کہا علیزہ خاموش رہی۔
”وہ یہاں ہماری شادی تک رُکے گی۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ ایک عجیب سی خاموشی ان دونوں کے درمیان در آئی تھی۔
”چند دنوں تک امی اور بابا تم لوگوں سے اس سلسلے میں بات کرنے آئیں گے۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
”انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں تم سے بات کروں تاکہ تم نانو کو اور اپنی ممی کو بتا سکو۔” علیزہ نے اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”میں چاہتا ہوں، شادی سادگی سے ہو۔ میں زیادہ دھوم دھڑکا نہیں چاہتا۔” وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے جس دن جنید کو اپنے اور عمر کے بارے میں بتایا تھا، اس سے اگلے دن عمر کے ساتھ وہ حادثہ پیش آگیا تھا۔ اس نے جنید سے کہا تھا کہ وہ اسے یہ سب کچھ اس لیے بتا رہی ہے کہ تاکہ حقائق سے آگاہ ہو کر وہ آسانی سے یہ فیصلہ کر سکے کہ اسے ابھی بھی علیزہ سے شادی کرنی ہے یا نہیں۔
پچھلے پندرہ دنوں میں جنید سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ جنید کی کیفیات اور تاثرات کے بارے میں نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ جنید کے سامنے ایک بار پھر عمر کے لیے اس کے جذبات اور احساسات عیاں ہو گئے تھے۔
اس نے بڑے وثوق سے عمر کے قتل سے ایک دن پہلے ہوٹل میں بیٹھ کر جنید سے کہا تھا کہ وہ عمر سے محبت کرتی تھی مگر اب نہیں کرتی۔ اس کے اور عمر کے درمیان اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب عمر کی اصلیت جان چکی ہے اور اس کی اصلیت جان لینے کے بعد وہ عمر جیسے دھوکہ باز اور خود غرض انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
وہ جانتی تھی، پچھلے پندرہ دن میں عمر کی موت پر اس کے ردعمل نے جنید پر یہ حقیقت آ شکار کر دی ہو گی کہ وہ اب بھی عمر سے محبت کرتی ہے۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ یہ اندازہ نہ کر پاتا ۔ وہ اپنے چہرے کو کبھی بے تاثر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ خوشی اور غم ہر تاثر اس کے چہرے سے جھلکتا تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے اپنے چہرے کی اس خوبی پر کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، کوئی غصہ نہیں آیا تھا۔
اس نے ان پندرہ دنوں میں ہر بار جنید کا سامنا ہونے پر کبھی یہ ظاہر ہونے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ عمر کی موت سے متاثر نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کے ساتھ اپنا جذباتی تعلق ختم کر چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی اور ذات کے گرد چڑھائے گئے ان خولوں سے تنگ آ گئی تھی جنہیں سنبھالتے سنبھالتے وہ پچھلے کئی سالوں سے ہلکان تھی اور شاید وہ لاشعوری طور پر جنید کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لینا چاہتی تھی کہ وہ کبھی عمر سے نفرت نہیں کر سکتی۔ اس کی موت اس کی تمام ناراضیوں اور غصے کو ختم کر گئی تھی۔
اور ان پندرہ دنوں کے بعد واحد چیز جس کا وہ سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور جس کی وہ توقع نہیں کر رہی تھی، وہ جنید کی طرف سے شادی کے بارے میں دوبارہ بات تھی۔ وہ اس وقت شادی کے بارے میں بالواسطہ طریقے سے بات کرتے ہوئے یقیناً یہ جتا رہا تھا کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
”کیوں؟” وہ اس وقت اس ایک سوال کے علاوہ اور کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔
”سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ کیوں اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں؟” اس نے جنید کے خاموش ہو جانے کے بعد سوال کیا۔ وہ اس کے عقب میں ایستادہ درختوں پر بیٹھے پرندوں پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔علیزہ کو لگا جیسے اس نے اس کی بات نہیں سنی ہو، اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس بار جنید نے درختوں سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
”شاید اس لیے کہ میں تمہارے ساتھ بہت زیادہ انوالو ہو چکا ہوں یا پھر شاید اس لیے کہ میں عمر کی فیملی سے اپنا تعلق ختم نہیں کرنا چاہتا۔ بہت کچھ تو پہلے ہی ختم ہو چکا ہے، جو باقی رہ سکتا ہے۔ میں اسے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔” وہ بڑے ہموار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”یا پھر شاید اس لیے کہ یہ عمر کی خواہش تھی؟” اس نے جنید کے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔ جنید نے اس کی بات کی تردید کی نہ اعتراف۔ وہ ایک بار پھر ان درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
”میں نے پہلی بار عمر سے تمہارا ذکر تب سنا جب وہ سول سروس کا امتحان دینے آیا تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے ہمارے گھر ٹھہرا تھا۔” علیزہ نے جنید کو جیسے بڑبڑاتے دیکھا۔ وہ ابھی بھی ان ہی پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔
علیزہ کو یاد تھا، وہ اس کی ناراضی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر کسی دوست کے ہاں شفٹ ہو گیا تھا مگر وہ اس دوست کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔
”پھر کچھ دنوں بعد اس نے کہا کہ وہ واپس گرینی کے پاس جا رہا ہے، میں ناراض ہو گیا۔ تب اس نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ کس طرح تم اس کے وہاں آ جانے پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہو اور پھر تم لوگوں کے درمیان دوستی ہو گئی تھی۔ میں نے عمر کی ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں سمجھتا تھا۔ وہ اس لیے زیادہ ہمدردی محسوس کر رہا ہے کیونکہ وہ خود بھی ایک بروکن فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔” علیزہ اسے دیکھتی رہی۔
”پھر اس کی باتوں میں اکثر تمہارا ذکر ہونے لگا۔ میں نے تب بھی غور نہیں کیا۔ تمہاری اور اس کی عمر میں بہت فرق تھا۔ تم ایک ٹین ایجر تھیں جبکہ عمر بہت میچور تھا۔ میرا خیال تھا وہ تمہارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ رہا ہے اور پھر تم سے ہمدردی بھی کرتا ہے، اس لیے غیر محسوس طور پر تم اس کے قریب آنے لگی ہو۔ میں نے تب بھی یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ تمہارے لیے اس کے دل میں کس طرح فیلنگز ڈویلپ ہو رہی ہیں۔” جنید نے اب علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تب بھی یہی سمجھتا رہا کہ اس کی سب سے زیادہ دوستی جوڈی کے ساتھ ہی ہے اور اگر کبھی اس نے شادی کی تو وہ اس سے ہی کرے گا۔ وہ دونوں ہم عمر تھے اور بہت لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کی بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ بھی تھی۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی سمجھتا۔”
”آپ نے ٹھیک سمجھا۔” علیزہ نے دھیمی آواز میں پہلی بار اس کی گفتگو میں مداخلت کی۔ ”وہ جوڈتھ سے ہی محبت کرتا تھا۔ وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔”
”میں سمجھتا تھا۔” جنید نے اس کی بات سن کر بھی اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں عمر کے بہت قریب ہوں، اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ایسا نہیں تھا۔” جنید عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”یہ صرف میری خوش فہمی تھی، میں یا اس کا کوئی بھی دوست اس کے اندر تک نہیں جھانک سکا۔ اس نے ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہم اسے صرف اتنا ہی جان سکے، جتنا وہ چاہتا تھا۔” وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔
”بعد میں اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے شادی کر لوں۔ وہ تب فارن سروس میں اپنی پہلی پوسٹنگ پر جا رہا تھا اور میں لندن میں آرکیٹیکچر کی مزید تعلیم کے لیے۔ تم اس وقت گریجویشن کر رہی تھیں۔” علیزہ کو یاد آیا کہ یہ وہ وقت تھا جب اسے مکمل طور پر یہ یقین ہو چکا تھا کہ صرف وہی نہیں، عمر بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ جب وہ یہ سمجھنے لگی تھی کہ بہت جلدی وہ اسے پرپوز کر دے گا اور وہ اس وقت کیا سوچ رہا تھا۔” جنید کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی امڈنے لگی۔
”میرا اس وقت شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور عمر کو بھی اس بارے میں کوئی جلدی نہیں تھی ”تم اپنی تعلیم ختم کرو، پاکستان آؤ، پھر تم سے اس بارے میں مزید بات کروں گا لیکن یہ بات طے ہے کہ تمہاری شادی علیزہ کے ساتھ ہی ہو گی۔” وہ مجھ سے کہتا تھا۔
”اگر وہ مجھے اچھی لگی تو، اس کے ساتھ میری انڈر سٹینڈنگ ہو سکی تو۔” میں ہر بار اس سے کہتا اور وہ مجھے یقین دلاتا۔
”علیزہ اور تمہیں اچھی نہ لگے۔ gem of a person ، جنید gem of a person جب بیس، تیس سال تم اس کے ساتھ گزار لو گے تو پھر تم میرے احسان مند ہو گے کہ میں نے دنیا کی سب سے بہترین لڑکی کے ساتھ تمہاری شادی کروا دی۔” مجھے آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا کہ میں عمر کو انکار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی بات منوا لیا کرتا تھا۔ کچھ سالوں کے بعد جب گھر میں میری شادی کا ذکر ہونے لگا تو عمر نے مجھے تم سے ملوایا مگر یہ کہہ کر میں تم کو عمر سے اپنی دوستی کے بارے میں نہ بتاؤں۔ مجھے تب بھی کوئی تجسس نہیں ہوا۔ اگر اس پورے دورانیے میں مجھے ایک بار بھی یہ خیال آ جاتا کہ وہ خود تم میں انٹرسٹڈ ہے تو میں…میں کسی قیمت پر بھی تم سے شادی کرنے کا نہ سوچتا، یا تم مجھے بتا دیتیں، تو تب بھی میں اس سارے معاملے کے بارے میں عمر سے بات کرتا۔
تمہارا انکشاف میرے لیے میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا اور اس شاک سے باہر آنے میں مجھے کئی سال لگیں گے۔”
”عمر مجھ میں کبھی بھی انٹرسٹڈ نہیں تھا، میں نے آپ کو بتایا تھا، وہ سب میری خوش فہمی تھی۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”جو بھی تھا۔ مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ تھا۔” جنید خاموش ہو گیا۔ علیزہ نے اس کی آنکھوں میں پانی تیرتے ہوئے دیکھا۔
”مجھے ابھی بھی یہ یقین نہیں آتا کہ وہ…وہ زندہ نہیں ہے۔ زندگی میں پہلی بار دو ہفتے گزر گئے ہیں اور میں اس سے رابطہ نہیں کر سکا، مل نہیں سکا، نہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا، ورنہ ہم لوگ کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ چاہے ملک میں ہوتے یا بیرون ملک۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے عمر سے بڑھ کر genuine (کھرا) آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہم دونوں کے درمیان بہت سے اختلافات ہوتے تھے۔ وہ بہت تسلط پسند تھا۔ میں ایسا نہیں تھا مگر اس کے باوجود ہمارے درمیان تمام اختلافات ختم کرنے میں پہل وہی کیا کرتا تھا۔ ”چھوڑو، کوئی اور بات کرتے ہیں۔” وہ خود جھگڑا شروع کرتا پھر یکدم موضوع بدل دیتا اور میں واقعی موضوع بدل دیتا۔ مجھے اب بھی یہ ہی لگ رہا ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا ہے۔
اس کی موت سے کچھ دیر پہلے اس سے میری بات ہوئی تھی۔ میں تمہارے سلسلے میں اس سے تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔” وہ دم سادھے جنید کو دیکھتی رہی۔
”وہ شاید جان گیا تھا کہ میں تمہارے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے رات کو فون کرے گا اور وہ رات اب کبھی نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ یہی کیا کرتا تھا، جو بات نہیں بتانا چاہتا تھا وہ نہیں بتاتا تھا۔ ” جنید کے لہجے میں شکست خورد گی تھی۔
”میں اب کسی معاملے کی تحقیق نہیں کرنا چاہتا۔ میں بس اس ایک رشتے کو قائم رکھنا چاہتا ہوں جو اس کی خواہش تھی مگر میں صرف اس کی خواہش کے احترام میں ایسا نہیں کر رہا ہوں، میں یہ اپنے لیے کر رہا ہوں، اپنی فیملی کے لیے کر رہا ہوں، تمہارے لیے کر رہا ہوں، تمہاری فیملی کے لیے کر رہا ہوں، کسی پچھتاوے کے بغیر، کسی بوجھ کے بغیر میں چاہتا ہوں ہم تمام پرانی باتوں کو بھلا دیں، زخموں کو کریدنے کی کوشش نہ کریں۔
زندگی کو آج سے شروع کریں، کچھ وقت لگے گا مگر پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے چند دن پہلے لاہور میں مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارا بہت خیال رکھوں اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے عمر کی بات نہ مانی ہو۔ میں کسی طرح سے بھی تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔”
علیزہ نے اسے اس جملے کے بعد کرسی سے اٹھتے اور لان سے نکلتے دیکھا۔ وہ اپنی آنکھوں کو مسلنے لگی۔
وہ اور جنید ایک ہی شخص کی محبت میں گرفتار تھے، صرف نوعیت مختلف تھی، تعلق کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔
لان میں چھائے سکوت کو پرندوں کی چہچہاہٹ توڑ رہی تھی۔ بہت دور، جنید گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے ڈرائیو وے سے نکال رہا تھا۔ اس نے ایک سال کے دوران پہلی بار جنید کی باتوں میں بے ربطی محسوس کی تھی۔ وہ بہت ہمواری اور روانی سے بات کیا کرتا تھا۔ آج پہلی بار اس کی گفتگو میں دونوں چیزیں مفقود تھیں۔ وہ خود اس سے کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں تھی۔ آخر جنید ابراہیم سے کیا بات کی جا سکتی تھی،تعزیت کی جاتی، افسوس کیا جاتا، کون کس سے کرتا۔ عمر کی موت نے دونوں کو ایک ہی طرح متاثر کیا تھا۔
عمر بالکل غلط کہتا تھا کہ اس کی موت سے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کی موت نے بہت سی زندگیوں کو وقتی طور پر ابنارمل کر دیا تھا، ان میں سے ایک زندگی اس کی تھی، دوسری جنید کی اور تیسری…؟ درد کی ایک لہر اس کے اندر سے گزری۔
”تیسری جوڈتھ کی۔” اس نے سوچا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!