امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

جنید کی امی کو اگر اس کی خاموشی، اس کا ہتھیار ڈال دینا لگا تھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ جن باتوں پر اسے پہلے سوچنا چاہیے تھا، وہ ان کے بارے میں اب سوچ رہی تھی۔ اشتعال اور جلد بازی میں کیے ہوئے فیصلے کے مضمرات اب پہلی بار اس کے سامنے آرہے تھے۔ یہ یقیناً جنید کی امی کی گفتگو کا نتیجہ نہیں تھا، اگرچہ ان کی گفتگو نے اس کی کنفیوژن اور پچھتاوے میں اضافہ کیا تھا مگر وہ اس پچھتاوے کا موجب نہیں تھیں۔ اسے ہر ایک سے اسی ردعمل کی توقع تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ خود اس قدر شرمندگی اور ندامت محسوس کرے گی، اگر دوسروں کو میری پروا نہیں ہے تو مجھے بھی دوسروں کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔” اس نے وہ نوٹس شائع کروانے سے پہلے سوچا تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسروں کی پروا کرنے کے لیے مجبور ہے۔ کم از کم وہ ہر شخص کو ناراض کرکے خوش رہنے والے لوگوں میں شامل ہونے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں رکھتی تھی اور جنید کیا واقعی، اس کے لیے کوئی احساسات رکھتی تھی…؟ اس شخص کے لیے جسے وہ چند ہفتوں میں اپنے ہم سفر کے طور پر دیکھ رہی تھی جس کے ساتھ وہ پچھلے ایک سال سے منسوب تھی جس کے ساتھ وہ مستقبل کو پلان کرتی پھر رہی تھی۔
وہ بار بار خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ جنید کو اس سے محبت نہیں ہے۔ اس سے شادی صرف عمر کی خواہش کا احترام تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسری طرف جو کچھ بھی تھا، کم از کم اس کے لیے جنید کوئی عام شخص نہیں رہا تھا، وہ اسے بار بار یاد آرہا تھا بہت آہستہ آہستہ اس کا غصہ اور اشتعال ختم ہو رہے تھے۔
اگلے دو تین دن جنید کے گھر والے آتے رہے، جنید بار بار فون کرتا رہا۔ نانو اسے سمجھاتی رہیں، ثمینہ اپنی مجبوریاں اسے بتاتی رہیں، سکندر نے کراچی سے لاہور آکر اس سارے معاملے پر اس سے بات کی۔




اس نے چوتھے دن ہتھیار ڈال دیئے۔ اس نے اعتراف کیا تھا وہ پریشر کے سامنے نہیں ٹک سکتی تھی۔ وہ مضبوط نہیں تھی، اگر وہ ایسی کوشش کر بھی لیتی تو بھی کیا وہ جنید اور اس کی فیملی کے بغیر رہ سکتی تھی۔ وہ نہیں رہ سکتی تھی…وہ انہیں بھول نہیں سکتی تھی۔ وہ انہیں کاٹ کر اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتی تھی۔
نانو نے اس کے فیصلے پر سکون کا سانس لیا تھا، اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا انہیں ہی کرنا پڑتا تھا، وہ خوش تھیں کہ وہ بچ گئیں۔
”میں نہیں جانتا۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟” جنید نے فون پر اس سے کہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے جواباً کہا۔
”تم میرے لیے بہت اہم ہو۔”
”میں جانتی ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”Last few days were a nightmare I’m happy I’m out of it”
(پچھلے چند دن ایک بھیانک خواب کی طرح تھے، میں خوش ہوں کہمیں اس سے نکل آیا)
وہ اس کے لہجہ سے اس کے سکون اور اطمینان کا اندازہ کر سکتی تھی۔
”جنید! آپ نے ایک حقیقت مجھے بتا دی، ایک مجھے آپ کو بتانی ہے۔ کیا ہم کل مل سکتے ہیں؟” علیزہ نے کہا۔
”کل…کل نہیں، کل میں مصروف ہوں گا۔” جنید کو یاد تھا کل عمر لاہور آرہا تھا اور اسے عمر کے ساتھ ہونا تھا۔
”پرسوں ملتے ہیں۔” ”ٹھیک ہے، پرسوں ملتے ہیں۔”
٭٭٭
عمر اور جنید ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر کررہے تھے۔
”پھر شادی کی نئی ڈیٹ کب طے ہو رہی ہے؟” عمر نے کانٹے سے مچھلی کے ایک ٹکڑے کو منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”پرسوں بابا جا رہے ہیں امی کے ساتھ۔” اس نے سلاد کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
”ہو سکتا ہے۔ پرانی والی ڈیٹ ہی دوبارہ رکھ دیں۔ ابھی بھی دس دن تو ہیں ایک نوٹس اور دینا پڑے گا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں یار! ڈیٹ چینج کرو۔ اس طرح تو ہم لوگ بڑے مشکوک ہو جائیں گے کہ پتہ نہیں پہلے کیوں شادی کینسل کر رہے تھے اور اب کیوں دوبارہ اس ڈیٹ پر کررہے ہیں۔ لوگ یہی سمجھیں گے کہ لڑکی نے کوئی مسئلہ کھڑا کیا ہے۔” عمر ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
”تو مسئلہ کھڑا تو لڑکی نے ہی کیا تھا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں جو بھی تھا۔ ہم لڑکی والے ہیں، ہماری پوزیشن خراب ہو گی۔” عمر نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس سارے معاملے میں لڑکی والوں کا رول تو ہمارا ہی رہا ہے۔ تم لوگوں کو کیا پریشانی ہوئی ہے، سب کچھ تو ہمیں ہی کرنا پڑا ہے۔ منت سماجت صفائیاں وضاحتیں اور کیا کیا کچھ۔”
عمر نے مچھلی کھاتے کھاتے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”you deserved it”
تمہارے ساتھ یہی ہونا تھا کیونکہ کیا دھرا تو تمہارا ہی تھا۔” اس نے سنجیدگی سے جنید سے کہا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس کو میرے۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم چور ہو، ڈاکو ہو کیا ہو کہ میں تمہارے ساتھ اپنے تعلق کو اس سے چھپاتا۔”’
”میں پولیس والا ہوں اور وہ مجھے ان دونوں سے زیادہ برا سمجھتی ہے۔” عمر ہنستے ہوئے دوبارہ اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
”اگر کسی شخص سے محبت ہو تو اس سے وابستہ ہر چیزسے محبت ہو جاتی ہے۔”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ جنید اس کے قہقہے پر کچھ جھینپ گیا۔
”اس سے زیادہ گھسا پٹا جملہ تم اس موقع پر نہیں بول سکتے تھے۔ یہ کہاں سے پڑھ لیا ہے تم نے جس سے محبت ہو، اس سے وابستہ ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے۔” وہ اب بھی اس کے فقرے پر محظوظ ہو رہا تھا۔
”میں نے پڑھا نہیں ، میں نے سنا ہے۔”
”تو آپ نے غلط سنا ہے جنید ابراہیم صاحب! ایسا تو غاروں کے زمانے کا انسان بھی نہیں کرتا ہوگا اور آپ بیٹھے ہیں ایک جدید دور میں۔”
”زمانہ بدلا ہے…تعلق، احساسات اور جذبات تو نہیں بدلے۔”
”یہ بھی تمہاری ذاتی رائے ہے، مشینی دور کے انسان کے جذبات بھی بدل چکے ہیں۔”
”جو بھی ہے، اس کو مجھ سے وابستہ لوگوں کی پروا کرنی چاہیے اور تم مجھ سے وابستہ ہو۔”
”اوہ بھئی کیوں کرنی چاہیے کیا تم ایسا کرتے ہو؟” جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”میں ان تمام لوگوں سے محبت کرتا ہوں جن سے وہ کرتی ہے۔”
”اچھا؟ تو پھر تمہیں ان تمام لوگوں سے نفرت بھی ہونی چاہیے، جن سے وہ کرتی ہے۔”
جنید لاجواب ہو گیا۔ عمر ایک بار پھر اطمینان سے مچھلی کھانے میں مصروف تھا۔
”آسمان اپنی جگہ چھوڑ دے گا، زمین اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی مگر مجھے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ تم علیزہ کے خلاف کچھ کہو گے اور اس کے خلاف میری حمایت کرنا تو ویسے ہی ایک خواب ہے۔”
جنید نے اپنی پلیٹ میں پڑا ہوا چمچ اٹھاتے ہوئے کہا۔ عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”درست…تم یہ کوشش کر کیوں رہے ہو، تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہماری فیملی کا سلوگن ہے We are always right اور اپنی فیملی کے ایک ممبر کے خلاف اس طرح ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر میں باتیں کروں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
جنید نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے صرف ایک گہرا سانس لے کر اپنی پلیٹ میں کچھ ساس اور ڈالی، عمر مسکرانے لگا۔
”تمہاری یہ کزن۔۔۔” جنید نے کچھ کہنا چاہا عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے”میری کزن” وہ تمہاری ہونے والی بیوی ہے۔” عمر نے تصحیح کی۔
”او کے، اوکے My bride to be” جنید نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”یہ اسی طرح بعد میں کرے گی۔ تو میں کیا کروں گا؟”
”بعد میں کیا کرے گی۔ کم آن جنید! تم لوگوں کے درمیان واحد مسئلہ میں ہوں۔ میں یہاں ہوں گا نہیں تو تم لوگوں کا جھگڑا کس چیز پر ہونا ہے۔”
”تم کہیں اس لیے تو باہر نہیں جا رہے؟” جنید نے اچانک پوچھا۔ ”ورنہ اس طرح چھٹی پر جانے کا تمہارا ارادہ پہلے تو نہیں تھا۔”
”کس قدر ذہین آدمی ہو تم۔” عمر نے اسے سراہا۔ ”میں تو اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا کہ تم اتنی جلدی یہ سب جان جاؤ گے۔”
اس کی نظروں میں اب جنید کے لیے مضحکہ اڑاتی ہوئی ستائش تھی جنید بے اختیار کچھ شرمندہ ہوا۔
”میرا دماغ خراب ہے کہ میں تم دونوں کی خاطر باہر چلا جاؤں گا۔” اس بار عمر نے بدلے ہوئے لہجے میں تیز اور بلند آواز کے ساتھ کہا۔ ”میری ا ے سی آر دیکھو گے تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ میں کس طرح گردن تک پھنسا ہوا ہوں اور تم یہاں بیٹھے احمقوں کی طر ح اندازے لگا رہے ہو۔”
”مجھے ایسے ہی ایک خیال آیا۔” جنید نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”تم ایسے خیالات سے اپنے دماغ کو خالی رکھا کرو۔” عمر سلاد کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”علیزہ ایک اچھی بیوی اور محبت کرنے والی ماں ثابت ہو گی۔”
جنید اس کے تبصرے پر مسکرایا۔
I don’t doubt that (مجھے اس میں شبہ نہیں ہے)
”تو پھر آخر پرابلم ہی کیا ہے، ویسے بھی اگر تمہیں شادی کرنی ہے تو پھر اس طرح کی بے عزتی برداشت کرنے کا عادی ہونا چاہیے۔” عمر بات کرتے کرتے پھر اس کا مذاق اڑانے لگا۔
”جس سے بھی شادی کرو گے فرمانبرداری اور غلامی کی زندگی ہی گزارو گے۔ یہ شادی کی ایک Prerequisite (لازمی جزو) ہے جو ہر مرد کو پوری کرنی ہوتی ہے۔ کم از کم میں نے کوئی ایسا شوہر نہیں دیکھا، جس میں فرمانبرداری کی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔”
”تمہیں بہت تجربہ ہے ان تمام معاملات کا۔” جنید نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”ہاں بہت زیادہ تجربہ ہے مجھے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں سے حاصل کیا ہے، آج میں دوپہر کو عباس کے ساتھ تھا۔ وہ اپنا گھر بنوا رہا ہے، بے چارے نے اپنے بیڈ روم کی کلر سکیم اپنی مرضی کی رکھی۔ تانیہ آج اچانک دیکھنے چلی گئی۔ ہم دونوں لنچ کر رہے تھے جب وہ واپس گھر آئی اور اس نے وہ بے عزتی کی عباس کی کہ اس کی طبیعت صاف ہو گئی۔ بے چارے نے اسی وقت فون کرکے کلر سکیم بدلوانے کا کہا۔” وہ بے حد محظوظ ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تمہیں شرم آنی چاہیے عمر! تم مذاق اڑا رہے ہو اپنے کزن کا۔” جنید نے کچھ افسوس سے کہا۔
”مجھے کیوں شرم آنی چاہیے، میں تو بڑے اطمینان سے لنچ کرتا رہا اور عباس کی وضاحتیں اور معذرتیں سنتا رہا۔ یہ وہ عباس تھا جو اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا تھا، کوئی اس کے سامنے اونچی آواز میں بات کر لیتا تو ہنگامہ کھڑا کر دیتا اور اب جب تانیہ کو غصہ آتا ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور وہ کہہ رہا ہوتا ہے سویٹ ہارٹ، ڈارلنگ، ہنی۔” وہ اب کھلکھلا رہا تھا۔
”پلیز آہستہ…ملازم سن رہے ہیں۔ یہ دیکھو عمر آیا ہوا ہے۔ وہ کیا کہے گا…میں نے تانیہ سے کہا کہ بالکل فکر نہ کرو، نہ ملازم سن رہے ہیں نہ ہی میں کچھ کہوں گا تم اطمینان سے یہ سلسلہ جاری رکھو۔”
اس بار جنید اس کی بات پر ہنس پڑا۔ ”تم بھی بڑے ہی کمینے انسان ہو، تماشا دیکھتے ہو دوسروں کا۔”
”مجھے ان دونوں کاموں کی خاص تربیت دی گئی ہے سول سروس میں اور پولیس میں کمینگی اور تماشا دیکھنے کی اضافی صلاحیت کی وجہ سے ہی شمولیت اختیار کی تھی میں نے یہ صلاحیت نہ ہوتی تب بھی اتنا عرصہ پولیس میں رہ کر خود ہی آجاتی۔”
عمر مینو کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا، وہ شاید کچھ اور منگوانے کا سوچ رہا تھا۔
”تم شادی کرو گے تو میں دیکھوں گا۔ تم کتنے تیس مار خان ثابت ہوتے ہو، تم بھی اسی طرح کی فرمانبرداری دکھا رہے ہو گے جس پر دوسروں کا مذاق اڑا رہے ہو۔”
”میں اسی لیے شادی کر ہی نہیں رہا ہوں، زندگی آزاد ہی گزارنی چاہیے پابندیوں کے بغیر۔” اس نے ویٹر کو بلا کر ایک اور ڈش کا آرڈر دیتے ہوئے کہا۔
”اور جوڈی اس کا بھی یہی خیال ہے؟” جنید اس بار کچھ سنجیدہ ہو گیا۔
”جوڈی کا ذکر یہاں کہاں سے آگیا؟” عمر نے حیرانی سے کہا۔
”کیوں تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!