امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”نہیں…تم جانتے ہو گورنمنٹ سروس میں رہ کر میں کسی غیر ملکی سے تو شادی نہیں کر سکتا۔”
”مگر تم تو اس میں ہمیشہ سے انٹرسٹڈ تھے۔”
”وہ تو اب بھی ہوں…مگر شادی؟ نہیں شاید اگر کبھی سروس چھوڑ دی اور شادی کے بارے میں سوچنے لگا تو شاید جوڈی سے ہی کر لوں۔”
”اب سروس چھوڑنے کا سوچ رہے ہو؟” جنید کی سنجیدگی میں کچھ اضافہ ہو گیا۔
”فوری طور پر تو نہیں مگر In the long run شاید…ابھی میں ایم بی اے کروں گا پھر اگر کسی انٹرنیشنل ایجنسی میں جاب مل گئی تو دوبارہ پاکستان نہیں آؤں گا، نہ ملی تب میں پی ایچ ڈی کروں گا پھر دیکھوں گا کیا آپشنز ہوتے ہیں میرے پاس، ہو سکتا ہے تب تک پاکستان میں حالات کچھ بہتر ہو جائیں اور میں دوبارہ جاب کے لیے یہاں آ جاؤں مگر ابھی میرے پاس بہت سارے ” شاید” ہیں۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔
”تمہیں کہیں بھی ٹک کر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے، اب آہستہ آہستہ یہ عادت اپنا لو۔” عمر اس کی نصیحت پر مسکرایا۔
”میں جپسی ہوں۔ میں کہیں بھی بہت دیر تک نہیں رہ سکتا، یہ سب کچھ سیکھنے سے نہیں آتا یہ سب کچھ قدرتی ہوتا ہے۔” اس بار اس کی آواز قدرے دھیمی تھی۔ شاید کچھ اور سال گزر جانے کے بعد مجھ میں کچھ تبدیلیاں آجائیں۔ God Knows۔”
اس نے ڈائننگ ہال میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے خالی لہجے میں کہا۔ ”چھٹی پر کب جا رہے ہو؟” جنید نے موضوع بدل دیا۔
”بس کچھ دنوں کی بات ہے، سامان وغیرہ کی پیکنگ شروع کروا دی ہے، بیس تک میں لاہور میں ہوں گا بائیس کو فلائٹ ہے میری۔”
جنید کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔




”کیا مطلب؟”
”کس بات کا؟”
”کہاں کی فلائٹ ہے تمہاری؟”
”امریکہ کی۔”
”تم میری شادی اٹینڈ کیے بغیر جاؤ گے؟” جنید کو یقین نہیں آیا۔
”مجبوری ہے۔”
”کیا مجبوری ہے؟” جنید برہم ہو گیا۔
”مجھے امریکہ جا کر اپنے آپشنز دیکھنا ہیں۔ کون سی یونیورسٹی بہتر رہے گی اور اس طرح کی اور بہت سی چیزیں…میں نے تو آج اپنی فلائٹ کی بکنگ بھی کروا لی ہے۔”
”I don’t believe it، تم میرے ساتھ اس طرح کرو گے۔”
”کیا کر رہا ہوں جنید! میرا پرابلم سمجھو یار۔”
”کیا پرابلم سمجھوں میری شادی روز روز تو نہیں ہو گی۔”
”مجھے پتا ہے روز روز نہیں ہو گی لیکن میں واپس آؤں گا، یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہونے کے بعد کلاسز شروع ہونے سے پہلے آؤں گا۔ تم لوگوں کو ڈنر وغیرہ دوں گا فکر مت کرو۔” عمر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”اتنی جلدی تمہیں کلیئرنس کیسے مل گئی، ابھی تو تم نے چارج چھوڑا بھی نہیں ہے اور تمہیں خود احساس ہونا چاہیے تھا دو تین دن آگے پیچھے ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”مجھے بہت فرق پڑتا ہے۔ تئیس کو مجھے امریکہ میں ہوناہے،ہر قیمت پر کیونکہ ایک لمبا چوڑا سلسلہ ہے وہاں میرے کاموں کا، یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ مجھے بائیس کی فلائٹ ملی ورنہ میں تو بیس کی کوشش کر رہا تھا، مگر اب بیس کو لاہور پہنچنا ہوگا۔ تمہارے ساتھ سارا دن گزاروں گا بلکہ تمہارے گھر پر۔ میری اور تمہاری دوستی اہم ہے، شادی میں آنا نہ آنا اہم نہیں ہوتا۔”
”میرے لیے بہت اہم ہے تم جو کر۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹی۔
”اچھا تم ایسا کرنا کہ تم بھی میری شادی پر نہ آنا ٹھیک…حساب برابر ہو جائے گا۔”
جنید کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ ”علیزہ تمہارے بارے میں جو کچھ کہتی ہے، ٹھیک کہتی ہے۔
تمہیں واقعی دوسروں کے جذبات اور احساسات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، مت آؤ میری شادی پر میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ۔” جنید ویٹر کو اشارہ کرنے لگا۔
”ویٹر کو مت بلاؤ۔ میرا خاصا لمبا ڈنر کرنے کا ارادہ ہے، ابھی تو ایک اور کورس چلے گا۔”
عمر نے کہا۔ جنید ویٹر کو اشارہ کرتے کرتے رک گیا۔
”بس اب اپنا غصہ ختم کرو پانی پیو۔ تمہیں پتا ہے تمہارے غصے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا، میں دیکھوں گا اگر ممکن ہوا تو فلائٹ کینسل کر دوں گا۔” عمر نے اسے تسلی دی۔
”تم وعدہ کر رہے ہو؟” جنید نے کہا۔
”میں ایک امکان کی بات کر رہا ہوں۔”
”مجھے تمہارے امکانات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھ سے صاف صاف بات کرو۔” جنید نے کہا۔
”یہ بحث ڈنر کے بعد کریں گے، ابھی کھانا انجوائے کرو یار!” عمر نے اسے ٹالا۔
جنید کچھ دیر اسے گھورتا رہا اور ایک بار پھر اپنی پلیٹ پر جھک گیا، کچھ دیر کے بعد وہ پہلے کی طرح گپ شپ میں مصروف تھے۔
کھانا ختم کرنے کے بعد عمر نے اپنا والٹ نکال لیا۔
”میں بل دوں گا۔” جنید نے اس سے کہا۔ ”تم کو یہاں میں لایا تھا۔”
”نہیں آج میں دوں گا ہمیشہ تمہارا کھایا ہے آج تم پولیس والوں کا بھی کھاؤ۔” عمر نے اپنا والٹ کھولتے ہوئے کہا۔
”ضرور کیوں نہیں، دو بل۔” جنید نے لاپروائی سے اپنا والٹ دوبارہ اپنی پاکٹ میں رکھ لیا۔ عمر نے ویٹر کو اشارہ کیا تھا۔
”جنید! میری گاڑی تم لے لو۔” اس نے اچانک کہا۔
”تم اسے بیچنا چاہتے ہو؟”
”شرم کرو اپنی چیزیں تمہیں بیچوں گا؟” عمر نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اب بل دیکھتے ہوئے ویٹر کو ادائیگی کر رہا تھا۔
”پھر…؟”
”آفر کر رہا ہوں کہ تم لے لو، تحفہ دے رہا ہوں یار! میں تو جا رہا ہوں گاڑی کا اب کیا کرنا ہے، بیچنا میں نہیں چاہتا کیونکہ جلدی میں جس طرح چیزیں بکتی ہیں، تم جانتے ہو اور رکھ میں سکتا نہیں۔ یہاں پاکستان میں کون دیکھے گا اسے تم میری طرف سے شادی کا تحفہ سمجھو، پچھلے سال لی ہے یار…! ابھی تو بالکل نئی ہے۔”
”لیکن میرے پاس تو گاڑی ہے۔” جنید نے کہا۔
”کوئی بات نہیں یہ بھی رکھ لو، یہ تم لے لو اپنی والی علیزہ کو گفٹ کر دینا۔” جنید اس کی بات پر ہنسا۔
”تمہاری گاڑی کو پہچانتی ہے۔ طوفان کھڑا نہیں کرے گی وہ؟”
نہیں کرے گی یار! سمجھانا اسے، اتنا بھی فرمانبردار بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
”اچھا لے لیتا ہوں۔”
عمر مسکرایا ۔ ”اور میرا سامان گرینی کی انیکس میں آجائے گا۔ تم اور علیزہ چاہو تو وہ بھی لے لو۔” جنید نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیوں…؟”
”میں نے تمہیں بتایا ہے، میں لمبے عرصے تک باہر رہنا چاہتا ہوں۔ سامان پڑا پڑا خراب ہوتا رہے گا، ویسے بھی واپس آکر میں سب کچھ نیا لوں گا۔” عمر نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اتنا حاتم طائی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ واپس آکر ان چیزوں کو خود استعمال کرنا۔” جنید نے اسے جھڑکا۔
”میری آفربرقرار ہے۔ تم اور علیزہ جو چاہو، اس میں سے لے سکتے ہو۔” عمر مصر تھا۔
”گاڑی بہت کافی ہے۔ اس سے زیادہ مہنگا تحفہ میری شادی پر کوئی اور نہیں دے گا اور میں بہت زیادہ متاثر اور مرعوب ہو گیا ہوں۔ مزید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہاری چیزوں کا خیال رکھوں گا۔ علیزہ ہے، نانو ہیں کیوں خراب ہوگا سامان؟”
”گرینی علیزہ کی شادی کے بعد انکل ایاز کے ساتھ رہیں گی اسلام آباد میں، ملازم ہی ہوں گے دوچار، وہ بھی اپنے کوارٹرز میں، گھر تو تقریباً بند ہی ہو جائے گا۔ کون دیکھے گا اسے۔” وہ اب ریسٹورنٹ سے باہر نکل آئے تھے۔
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،میں اور علیزہ جاتے رہیں گے وہاں کوئی چیز خراب نہیں ہو گی I assure you۔” جنید نے اسے یقین دہانی کروائی۔
”تم کون سا صدیوں کے لیے جا رہے ہو، دو سال بعد آؤ گے ہی بلکہ اس سے پہلے ہی آنے کی کوشش کرنا۔” جنید نے اس سے کہا۔
”یہ تو آگے چل کر ہی پتا چلے گا۔” عمر نے کہا۔
٭٭٭
”مجھے عمر سے محبت تھی، ویسی ہی محبت جیسی آپ کرتے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ آپ کا دوست ہے اور میری محبت…میرے لیے کسی زمانے میں وہ سب سے اہم شخص تھا، اتنا اہم کہ میں اس کے کہنے پر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ تب مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ شاید میری محبت یکطرفہ نہیں ہے عمر بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔”
اس نے بت بنے جنید کو دیکھا اور سر جھکا لیا۔ اس نے اپنی کافی میں ایک چمچ چینی کا اضافہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی۔
”ایسا نہیں تھا۔ اسے مجھ سے محبت نہیں تھی، اسے مجھ میں دلچسپی تک نہیں تھی۔ اس کے نزدیک میں ایک امیچور، ایموشنل، احمق کزن تھی اس نے مجھے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھایا پھر شاید یہ جوڈتھ تھی جس کی جگہ اس نے مجھے کبھی نہیں دی میں نے اسے نانو کے ذریعے پرپوز کیا تھا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ یہ میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، ہم دونوں کے درمیان پھر سب کچھ ختم ہو گیا صرف تلخی رہ گئی۔ اس نے زندگی میں کبھی بھی مجھ سے سچ نہیں بولا کبھی نہیں۔ ہمیشہ جھوٹ ہوتا تھا اس کی زبان پر، ہر چیز، ہر حقیقت کو اس نے مجھ سے چھپایا مگر مجھے سب کچھ پتا چلتا گیا۔ کچھ وقت لگا مگر میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی گئی۔ اس لیے ناپسند کرتی ہوں میں عمر کو، اس لیے نہیں کہ اس نے میرے پرپوزل کو ٹھکرا دیا، شاید شروع میں یہی وجہ ہو مگر بعد میں یہ اس کی اصلیت تھی جس نے مجھے اس سے برگشتہ کیا۔ وہ میرا پرپوزل قبول کر لیتا تو بھی میرے لیے عمر کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا، میں کسی منافق اور دوغلے آدمی کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی اور جو آدمی بے رحم، خودغرض اور ظالم بھی ہو۔ اس کے ساتھ تو…آپ کو عمر کے بارے میں میں نے یہ سب کچھ نہیں بتایا کیونکہ مجھے آپ کے اور عمر کے تعلق کا پتہ نہیں تھا ورنہ میں یہ سب کچھ آپ کو بہت پہلے بتا دیتی، ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں اس طرح کی پسندیدگی اور break ups بہت عام ہیں، کوئی بھی شادی کرتے ہوئے یہ ساری چیزیں اٹھا کر دوسرے پارٹنر کے سامنے نہیں رکھتا نہ ہی ایسی چیزوں کے بارے میں اس سے پوچھتا ہے۔ میرے لیے بھی یہ بہت عام بات ہے لیکن اب جب مجھے آپ کے اور عمر کے درمیان تعلق کا پتا چل چکا ہے تو پھر آپ کو بھی میرے اور عمر کے بارے میں سب کچھ پتا ہونا چاہیے۔ سب کچھ…میں اسے پسند کرتی تھی۔ میں نے اس سے شادی کرنے کی کوشش کی میں ناکام رہی اور میں اب اس سے محبت نہیں کرتی ہوں میں شاید اب اس سے نفرت بھی نہیں کرتی ہوں۔
مگر ابھی تک دوبارہ شادی کی تاریخ کے بارے میں کچھ طے نہیں ہوا۔ اب آپ خود یہ طے کر لیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔”
وہ کافی کا آخری سپ لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ جنید ہلا تک نہیں، کسی مجسمے کی طرح وہ گنگ، دم بخود وہاں بیٹھا تھا۔ علیزہ مزید کچھ کہے بغیر ریسٹورنٹ سے باہر آگئی۔
جنید کا ذہن آندھیوں کی زد میں آیا ہوا تھا۔ عمر جہانگیر…اس نے یہ سب کیوں کیا…؟ اس طرح؟ صرف علیزہ نہیں تھی جسے تاریکی میں رکھا گیا تھا، وہ خود بھی اسی طرح اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ جنید نے اپنے احساسات کو شناخت کرنے کی کوشش کی…کیا یہ قابل یقین تھا کہ وہ عمر جہانگیر علیزہ کے بارے میں یہ جاننے کے باوجود کوئی خاص گوشہ نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ کیا وہ واقعی جوڈتھ سے محبت کرتا تھا۔ اسے کیا کرنا چاہیے تھا۔ کیا عمر سے بات کرنی چاہیے تھی۔ کیا جوڈتھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ وہ اس تاریکی سے نکلنا چاہتا تھا جس میں عمر اسے رکھ رہا تھا۔
اس نے ایک بار پھر اپنے احساسات کو ٹٹولنے کو پہچاننے کی کوشش کی غصہ… غصہ… غصہ… وہ زندگی میں کبھی اتنا مشتعل نہیں ہوا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!