امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

پورچ میں جلنے والی لائٹ کی روشنی میں اس نے جوڈتھ کو جنید کی گاڑی سے اترتے دیکھا۔ وہ ٹی شرٹ اور ٹراوزرز میں ملبوس تھی۔ نانو اس سے آگے تھیں اور اب جوڈتھ سے مل رہی تھیں۔ جنید ملازم کی مدد سے گاڑی سے اس کا سامان اتروا رہا تھا۔ علیزہ ، نانو سے چند قدم پیچھے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
زندگی میں پہلی بار جوڈتھ کو دیکھ کر اسے کوئی غصہ، کوئی حسد محسوس نہیں ہوا۔ جوڈتھ، نانو سے ملنے کے بعد اس کی طرف بڑھ رہی تھی پھر وہ اس کے مقابل آکر کھڑی ہو گئی۔ علیزہ نے ایک قدم آگے بڑھایا اور جوڈتھ کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے گال کو نرمی سے چوم لیا۔ جوڈتھ نے جواباً اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ دونوں کے درمیان کسی لفظ کا تبادلہ نہیں ہوا تھا۔ جوڈتھ کے انداز میں بہت گرم جوشی تھی، والہانہ پن تھا، بے اختیاری تھی اور کیا تھا۔ وہ جان نہیں سکی مگر جب وہ اس سے الگ ہوئی تو اس نے جوڈتھ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ علیزہ نے اس سے نظریں چرا لیں۔ اس کا ہاتھ تھام کر اس نے ثمینہ سے اس کو متعارف کروایا۔




”یہ میری ممی ہیں، جوڈتھ ! ” جوڈتھ ثمینہ سے ہاتھ ملانے لگی۔
جنید تب تک ملازم کے ہاتھ جوڈتھ کا سامان اندر بھجوا چکا تھا اور خود بھی لاؤنج میں چلا گیا تھا۔
”آپ کپڑے چینج کر لیں، میں کھانا لگواتی ہوں۔” علیزہ نے جوڈتھ کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں کھانا نہیں کھاؤں گی، فلائٹ کے دوران کھا چکی ہوں۔ میں اس وقت صرف سونا چاہتی ہوں۔” جوڈتھ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”جیسے آپ چاہیں۔” علیزہ نے سر ہلا دیا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس وقت واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ جنید لاؤنج کے درمیان کھڑا تھا۔
”جوڈی! اب صبح ملاقات ہو گی۔” اس نے جوڈتھ سے کہا اور اس کے بعد ثمینہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا باہر نکل گیا۔
جوڈتھ چند منٹ نانو کے ساتھ لاؤنج میں کھڑی باتیں کرتی رہی پھر نانو نے علیزہ کو اس کے کمرے میں لے جانے کے لیے کہا۔ علیزہ اسے لے کر اس کمرے میں چلی آئی جہاں عمر ٹھہرا کرتا تھا، اس سے پہلے جوڈتھ کبھی عمر کے کمرے میں نہیں ٹھہری تھی۔ اسے ہمیشہ فرسٹ فلور پر ٹھہرایا جاتا، اس بار علیزہ نے اسے عمر کے کمرے میں ٹھہرایا تھا۔
وہ علیزہ کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہونے کے بعد آگے نہیں بڑھی۔ وہیں کھڑی رہی۔ علیزہ نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں کے پردے برابر کر دیئے۔ پھر اس نے پلٹ کر دیکھا۔ جوڈتھ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔ یوں جیسے وہ وہاں اس کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ علیزہ جانتی تھی وہ کس کے وجود کا احساس کرنا چاہتی تھی وہ عمر کا کمرہ تھا اور جوڈتھ بھی یہ بات جانتی تھی۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں۔ پانی میں نے رکھوا دیا ہے۔ فریج میں کچھ کھانے کی چیزیں بھی ہیں پھر بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔” علیزہ اس کے پاس چلی آئی۔
”نہیں۔ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔” جوڈتھ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوکے۔ پھر آپ آرام کریں۔ گڈ نائٹ۔” وہ دروازے کی طرف بڑھی، لیکن اچانک ہی جوڈتھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”میرے پاس رہو علیزے! میں آج رات یہاں سو نہیں سکوں گی۔” وہ اس کا چہرہ دیکھے بغیر بھی جانتی تھی کہ جوڈتھ کی آواز بھرا رہی ہے۔ اس کی آنکھیں اب پانی سے بھر رہی ہوں گی اور وہ اسی ایک لمحہ سے خوفزدہ تھی۔
اسے علیزے عمر کہا کرتا تھا۔ جوڈتھ کے منہ سے یہ لفظ سن کر کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچا۔ اب کوئی بھی اسے اس نام سے پکار سکتا تھا بس وہ ایک شخص نہیں پکار سکتا تھا جس کا نام عمر جہانگیر تھا۔ اس نے گردن موڑ کر جوڈتھ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ جوڈتھ جواب میں نہیں مسکرائی۔ وہ بس آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”اس کی تکلیف میری تکلیف سے بہت زیادہ ہے۔ اس نے اس آدمی کو کھویا ہے جو اس کا تھا۔ جسے وہ حاصل کرنے ہی والی تھی۔ میں نے اس شخص کو کھویا ہے جو کبھی میرا نہیں تھا نہ کبھی ہو سکتا تھا۔” جوڈتھ کی پشت پر اپنے بازو پھیلاتے ہوئے اس نے گیلی آنکھوں کے ساتھ سوچا۔
”میں آپ کے پاس ہی ہوں۔ آپ مجھ سے بات کر سکتی ہیں۔” اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
اس رات وہ دونوں جاگتی رہیں۔ عجیب تعلق تھا جو اس نے جوڈتھ کے ساتھ محسوس کیا تھا۔ جوڈتھ عمر کے بارے میں بتاتی رہی۔ وہ پہلی بار عمر سے کس طرح ملی۔ کہاں ملی، ان کی دوستی کیسے ہوئی، یہ دوستی کس طرح گہری ہو تی گئی۔” علیزہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
اگر کوئی سوال وہ جوڈتھ سے کرنا چاہتی تھی تو وہ صرف یہ تھا۔
”عمر کو اس سے محبت کب ہوئی تھی؟ کیسے ہوئی تھی؟” اور وہ جانتی تھی وہ اس سے کبھی یہ سوال نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنے دل کو ایک بار پھر کسی نشتر سے کٹتا ہوا محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس کے پاس جوڈتھ کو بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ کوئی راز…کوئی بات…کچھ بھی نہیں جوڈتھ سب کچھ جانتی تھی۔
عمر کے جہانگیر سے تعلقات کیسے تھے۔
عمر کے زارا کے ساتھ تعلقات کیسے تھے۔
عمران دونوں کی علیحدگی سے کتنا ڈسٹرب ہوا تھا۔
اسے کیا چیزیں خوش کرتی تھیں۔
کیا پریشان کرتی تھیں۔
سب کچھ، وہ سب کچھ جانتی تھی۔ وہ جوڈتھ کا چہرہ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
فجر کی اذان کے بعد وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”مجھے عمر سے صرف ایک شکایت تھی۔”
اس نے جوڈتھ کو کہتے سنا۔ وہ بیڈ پر پاؤں اوپر کیے بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ جاتے جاتے رک گئی۔ جوڈتھ کی آنکھیں متورم تھیں۔ وہ اس وقت جیسے کسی ٹرانس میں آئی ہوئی تھی۔
”اس نے میرا خیال رکھا…اس نے میری پروا کی۔ اس نے میری خواہشات کا احترام کیا۔ اس نے میرے ساتھ ہر چیز شیئر کی۔ بس اس نے مجھ سے محبت نہیں کی۔”
علیزہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔ جوڈتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”محبت…اس نے تم سے کی۔” وہ اب تھکے ہوئے انداز میں مسکرا رہی تھی۔
”تمہاری منگنی والی رات میں اسلام آباد میں تھی۔ اس نے مجھے رات دو بجے فون کیا۔ وہ بہت زیادہ ڈپریس تھا مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ کم از کم اس رات اسے ڈپریس نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس رات تمہاری اور جنید کی منگنی تھی۔ اسے بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے یہ کہہ دیا۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ مجھے لگا، فون ڈس کنکٹ ہو گیا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا۔
”میں نے آج اس کو بہت رُلایا ہے۔ بہت زیادہ ، میں نے آج اس کو بہت جھڑکا ہے، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ جنید کے ساتھ منگنی توڑنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ میں نے آج اسے بہت جھڑکا ہے۔ اسے بہت رُلایا ہے لیکن میں اس کے پاس سے اٹھ کر آیا ہوں تو مجھے لگ رہا ہے۔ میں تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ مجھے تو اس سے بہت محبت ہے۔ میں کیسے اسے جنید کے ساتھ دیکھ سکوں گا۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔”
اس نے، اس رات میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ میں تو تب تک یہی سمجھتی رہی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ…میں اگلے دن لاہور چلی آئی۔ میں نے اس سے کہا۔
تم علیزہ کی بات مان لو، اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو اس سے شادی کر لو۔” اس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ پچھلی رات شراب پی رہا تھا، شاید شراب کے نشے میں اس نے کوئی فضول بات کی ہوگی ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر میں جان گئی تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا یا شاید ویسی محبت نہیں کرتا تھا جیسی تم سے کرتا تھا۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ زرد چہرے کے ساتھ، پھر اس نے مڑ کر کمرے پر ایک نظر ڈالی۔
وہ وہیں کہیں تھا۔ اس کی راکنگ چیئر اسی طرح جھولتی محسوس ہوئی تھی جیسے وہ جھلایا کرتا تھا، ہر چیز پر جیسے اس کا لمس موجود تھا، ہر طرف جیسے اس کی آواز گونج رہی تھی۔ وہی دھیما ٹھہرا، گہرا لہجہ، وہی پرسکون، دل کے کہیں اندر تک اُتر جانے والی آواز… ”علیزے!” اور پھر وہی کھلکھلاتے ہوئے بے اختیار قہقہے۔ اس کمرے میں سب کچھ زندہ تھا۔ واہمہ عکس بن گیا تھا اور عکس حقیقت بن کر اس کے اردگرد پھرنے لگا تھا۔
اس نے مڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھا۔ جوڈتھ شاید اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے چلی آئی۔ ایک سایہ اس کے ذہن میں لہرایا، ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں یکدم کوئی نظر آنے لگا۔ اسے اپنی گردن پر، بالوں پر ایک پھوار سی پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”میں علیزہ کو Joy دوں گا۔ پھر Eternity۔”
اس نے مڑ کر جوڈتھ کو دیکھا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
وہ کچھ دیر جوڈتھ کو دیکھتی رہی۔ پھر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔
***
ختم شد




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!