امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”عمر جہانگیر ہمارے ایک بہت قابل آفیسر تھے۔” آئی جی نے اشارہ پاتے ہی اپنے بیان کا آغاز کیا۔
”ان کے ساتھ ہونے والا حادثہ دراصل ہمارے پورے ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ جیسا کہ آپ کو منسٹر صاحب نے بتایا۔ پولیس نے اپنی انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم حالات کا جائزہ لینے اور شواہد کی مدد سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔”
ایک رپورٹر نے آئی جی کی بات کو کاٹا ”سر یہ جو آپ اڑتالیس گھنٹے کی بات کررہے ہیں۔ آج تک کون سی پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟” آئی جی کے ماتھے کے بل کچھ گہرے ہوگئے۔
”اگر پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوتی تو آج ہم اور آپ یہاں کھڑے ہو کر یہ گفتگو نہ کررہے ہوتے۔ پچھلے ایک سال میں جب سے آپ آئی جی پنجاب بنے ہیں۔ سات مختلف رینکس کے آفیسر کو مارا گیا ہے اور پولیس اس سلسلے کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔”
اس بار آئی جی نے قدرے ترشی سے اس غیرملکی براڈ کاسٹنگ کے ادارے سے وابستہ تیز طرار قسم کے پاکستانی صحافی کی بات کو کاٹ دیا۔
”پولیس نے ایک کے علاوہ تمام واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑ لیا ہے۔”




”اگر آپ واقعی مجرموں کو گرفتار کر چکے ہوتے تو آج آپ کا ایک اور آفیسر اس طرح مارا جاتا۔” اس رپورٹر نے بھی اتنی ہی تندی و تیزی سے کہا۔
صوبائی وزیر نے بروقت مداخلت کی۔ ”دیکھیں، یہ کچھ زیادہ ہی سخت قسم کا تبصرہ ہے جو آپ کررہے ہیں۔ آئی جی صاحب نے جب سے اپنی tenure شروع کی ہے، پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔”
”سر! آپ نہیں سمجھتے کہ اتنے سینئر آفیسر کے قتل کے موقع پر لاء اینڈ آرڈر کی بہتر صورت حال کی تعریف کچھ مذاق لگتا ہے؟” صوبائی وزیر چند لمحے کچھ نہیں بول سکے۔
”وہ…دیکھیں…وہ…اگر…آپ پورے ملک میں دیکھیں…تو…میں اس کے لحاظ سے صورت حال میں بہتری کی بات کر رہا ہوں۔” صوبائی وزیر بے اختیار بوکھلائے۔
”باقی تینوں صوبوں میں کبھی بھی اس طرح دھڑا دھڑ آفیسرز قتل نہیں ہوئے۔ خاص طور پر ایک سال میں۔ آخر پنجاب میں ہی ایسا کیوں ہور ہا ہے۔”
صوبائی وزیر کے ساتھ ساتھ آئی جی پنجاب کا دل چاہا کہ وہ اس رپورٹر کی بتیسی کے ساتھ ساتھ اس کی زبان نکال کر بھی اس کے ہاتھ میں رکھ دیں مگر ہارورڈ سے پڑھا ہوا وہ صحافی ایک وفاقی وزیر کا بیٹا تھا۔ وہ اس کی بکواس اور سوال سننے پر مجبور تھے۔
”آپ پنجاب کی آبادی بھی تو دیکھیں۔” وزیر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”آبادی سے آفیسرز کے قتل کا کیا تعلق ہے؟”
”میں لاء اینڈآرڈر کی صورت حال کے حوالے سے آبادی کا ذکر کر رہا ہوں۔” وزیر صاحب نے قدرے تحمل مزاجی کا ثبوت دیا۔ ”باقی صوبوں میں کم آبادی کی وجہ سے اتنے مسائل کا سامنا پولیس کو نہیں کرنا پڑتا جتنا پنجاب میں کرنا پڑتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم حالات کو اور بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔”
”آپ کا ایک ایس پی جو کسی شہر میں بادشاہ کے برابر ہوتا ہے وہ دن دیہاڑے اپنے گارڈ اور ڈرائیور کے ساتھ شہر کے بیچ میں قتل ہو جائے تو عام لوگ اپنی حفاظت کے لیے کس کی طرف دیکھیں۔” اس رپورٹر نے چیونگم چباتے ہوئے کہا۔
”پولیس اگر اپنے ایک آفیسر کو نہیں بچا سکتی تو وہ ایک عام آدمی کو کتنی سکیورٹی دے سکتی ہے۔”
”دیکھیں، جس شہر میں وہ تعینات تھے ، وہ پنجاب کے حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور عمر جہانگیر کے بارے میں محکمے کو کچھ ایسی خبریں ملی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ انہیں دھمکی آمیز فون کالز بھی کی جاتی رہی تھیں۔ پھر ہم اس پورے معاملے میں دہشت گردی کے عنصر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔ بہت سارے فیکٹرز ہیں جو ایسے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں مگر ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ ایسے حادثات دوبارہ نہ ہوں۔ تھوڑی دیر میں پولیس آفیسرز کی ایک ہائی لیول کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ کل وزیر داخلہ آرہے ہیں، وہ بھی ایک میٹنگ کررہے ہیں۔ ” اس بار آئی جی نے منسٹر سے اجازت لیتے ہوئے کہا اور رپورٹرز نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تو آئی جی کی جان میں جان آئی۔
”سر! آپ نے دہشت گردی کا ذکر کیا ہے۔ کیا آپ کا اشارہ مذہبی دہشت گردی کی طرف ہے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو خراب کرنے کے لیے یہ کسی غیرملکی ایجنسی کا کام ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے نکتہ اٹھایا۔
”میں نے آپ کو بتایا نا…اس مرحلے پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ، جیسے ہی ہم اس معاملے میں کچھ پروگریس کرتے ہیں پریس کانفرنس کے ذریعے آپ لوگوں کو پولیس کی تمام کارروائی کے بارے میں آگاہ کر دیں گے۔” آئی جی نے کہا۔
”عمر جہانگیر کافی متنازعہ شخصیت تھے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں کئی حوالوں سے وہ اخبارات میں آتے رہے۔ کہیں یہ کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے کہا۔
”ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔” آئی جی نے اس بار اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”سر! کیا اس قتل سے آئندہ آنے والی پولیس ریفارمز پر کچھ اثر پڑے گا؟” اس بار ایک دوسرے رپورٹر نے پوچھا۔
”کیسا اثر؟”
”کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پولیس کے اختیارات میں کمی اور رول میں تبدیلی کرکے آپ پولیس آفیسر کو مزید Vulnerable بنا دیں گے۔”
”اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے سسٹم سے پولیس اور عوام کے درمیان ایک بہتر ورکنگ ریلیشن شپ پیدا ہوگا اور اس طرح کے حادثات کا سدباب بھی ہو سکے گا۔ ”لاء اینڈ آرڈر” کی صورت حال بھی اور بہتر ہو گی۔” صوبائی وزیر نے اپنے پسندیدہ جملے کی ایک بار پھر گردان کی۔
”یعنی ایس پی جب ڈی پی او اور ڈی سی جب ڈی سی او کہلانے لگیں گے تو پھر وہ اس طرح کھلے عام سڑکوں پر نہیں مارے جائیں گے۔”
”شیراز صاحب! آج آپ کو ہوا کیا ہے۔ کس طرح کے سوال کررہے ہیں آپ بار بار؟” بالآخر صوبائی وزیر چڑ کر بول ہی اٹھے۔
”شیراز صاحب نے سول سروس کے ایگزام میں دوسری پوزیشن لی ہے اور چند ہفتوں میں اکیڈمی جوائن کررہے ہیں۔” ایک دوسرے رپورٹر نے لقمہ دیا۔
”پھر تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ پولیس سروس میں ہی آئیں گے تاکہ وہ بہتری جو ہم نہیں لا سکے آپ لائیں اور ہم بھی آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔” اس بار آئی جی نے اپنے چہرے پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”ویسے بھی پولیس کے محکمے کو ضرورت ہے آپ جیسے آفیسرز کی۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔۔” صوبائی وزیر نے آئی جی کے جواب میں کچھ اضافہ کیا اور اگلے کسی سوال سے پہلے اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا۔
”میں الو کا پٹھا ہوں۔ میں جاؤں گا پولیس سروس میں۔” شیراز صدیقی بڑبڑایا۔
٭٭٭
ہر چیز بہت تیز رفتاری سے ہوئی، دوسرے دن شام کے قریب عمر جہانگیر کی تدفین کر دی گئی۔ جہانگیر معاذ دوپہر کے قریب پاکستان پہنچ گئے تھے۔ زرا مسعود پاکستان نہیں آ سکیں۔ وہ ایک آپریشن کے لیے ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھیں اور ان کے شوہر نے بیماری اور آپریشن کے مدنظر انہیں اطلاع دینے سے معذرت کر لی تھی۔
معاذ حیدر جیسے خاندان کے لیے عمر جہانگیر کا قتل ایک بہت بڑا صدمہ تھا، یہ تصور کرنا بھی ان کے لیے مشکل تھا کہ ان کے اپنے خاندان کے کسی فرد کو بھی اس طرح دن دیہاڑے قتل کیا جا سکتا ہے۔
عمر کے قاتلوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ پتا نہیں چلا۔ وہ کون تھے؟ انہوں نے عمر کو کیوں قتل کیا؟ اور ایسے بہت سے سوالات کا کوئی جواب کہیں نہیں تھا۔ شاید آنے والا وقت بھی ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔
معاذ حیدر کا پورا خاندان اگلے کئی دن تک ان کے گھر پر جمع ہوتا رہا۔ موضوع گفتگو ہر ایک کے لیے عمر ہی رہا۔ علیزہ ان سب کو عمر کے بارے میں باتیں کرتے سنتی رہی۔
وہ ڈسکس کرتے تھے، کس طرح انہوں نے عمر کو بہت سی چیزوں کے بارے میں سمجھانے اور آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی، کس طرح عمران تما م باتوں کو اگنور کرتا رہا، کس طرح اس کی لاپروائی اسے مختلف مواقع پر نقصان پہنچاتی رہی۔
اور ہر بحث کا نتیجہ ایک ہی نکلا کہ عمر کے ساتھ ہونے والے اس حادثے میں عمر کی اپنی غلطیاں بھی معاون تھیں۔ اسے بے ضرر بن کر سسٹم کا حصہ بننا نہیں آیا تھا، وہ ایک پاپولر آفیسر بھی نہیں تھا۔
علیزہ جانتی تھی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے عمر سے ہمدردی نہیں تھی، جو عمر کے ساتھ ہونے والے واقعے پر رنجیدہ نہیں تھا مگر اس سب کے باوجودوہ Facts اور figures (حقائق) کی بات کرتے تھے کیونکہ وہ سب پریکٹیکل لوگ تھے، حقیقت پسند جو کسی بھی چیز کو رشتوں اور جذباتی تعلق کے حوالے سے نہیں لے سکتے تھے۔
وہ سب عمر کواتنے بے تاثر اور غیر جذباتی انداز میں ڈسکس کر سکتے تھے مگر علیزہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی، وہ کوئی ایماندار آفیسر نہیں تھا۔ وہ بہت سے غلط کاموں میں ملوث رہا تھا، بہت سے لوگوں کو اس نے بہت تکلیف بھی دی تھی اور بہت سے لوگوں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بھی بنا رہا تھا۔ کوئی بھی اس کی موت کو ”جوبو یا وہ کاٹا” قرار دے سکتا تھا۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا تھا کہ عمر جہانگیر اسی سلوک کا مستحق تھا مگر وہ ایسا نہیں کہہ سکتی تھی۔
اس کی زندگی میں وہ اس پر بے تحاشا تنقید کرنے لگی تھی۔ اسے عمر جہانگیر کے کاموں پر اعتراض ہونے لگا تھا مگر اس کی موت کے بعد اسے یہ احساس ہوا کہ وہ اچھا آدمی نہیں تھا۔ اچھا آفیسر بھی نہیں تھا، دوسروں کے لیے مگر اس کے لیے وہ ہمیشہ اچھا ہی رہا تھا اور وہ عمر جہانگیر کو دوسروں کی عینک سے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بنیاد پر اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا۔
عمر کی موت کے ایک ہفتے کے بعد اس نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب اس سسٹم کے بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھ سکے گی۔ وہ کس منہ سے ان تمام چیزوں کے لیے دوسروں پر تنقید کر سکتی تھی جن کے لیے اس نے عمر جہانگیر کو معاف کر دیا تھا جن کے لیے وہ عمر جہانگیر کو بخشنے پر تیار تھی۔ اپنی فیملی کے اس فرد کو جس کے ساتھ اس کا جذباتی تعلق تھا۔
اسے نہیں پتا تھا کہ جہانگیر معاذ عمر کی موت سے کس حد تک متاثر ہوئے تھے، اس کے خاندان کے دوسرے مردوں کی طرح وہ بھی اپنے احساسات چھپانے اور چہرہ بے تاثر رکھنے میں ماہر تھے، یہ وہ خصوصیت تھی جو معاذ حیدر جیسے بڑے خاندانوں کے لوگوں کے ساتھ ساری عمر چلتی تھی۔
علیزہ نے نمرہ کی موت پر جہانگیر معاذ کو پریشان دیکھا تھا مگر عمر کی موت پر وہ بے حد خاموش تھے، ان کے اور عمر کے درمیان کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ وہ جانتی تھی، پچھلے چند سالوں سے ان دونوں کے درمیان بول چال تک بند تھی مگر خود وہ بھی پچھلے ڈیڑھ سال سے عمر کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی تھی۔ اس کے باوجود اس کی موت نے اسے بری طرح توڑ پھوڑ دیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جہانگیر معاذ کے اندر کتنی توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ آخر وہ ان کا بڑا بیٹا تھا۔
عمر کے حادثے کی وجہ سے اس کی شادی پس منظر میں چلی گئی تھی ۔ ثمینہ نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھا دیا تھا مگر انہوں نے جنید کی فیملی سے یا جنید کی فیملی نے ان سے اس معاملے میں فی الحال کوئی بات نہیں کی تھی۔
عمر کے دسویں کے بعد آہستہ آہستہ سب نے واپس جانا شروع کر دیا۔ ہر ایک اپنی اپنی زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ رہا تھا۔ جہانگیر معاذ بھی بارھویں دن اپنی فیملی کے ساتھ واپس امریکہ چلے گئے تھے۔
****




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!