امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”نہیں ۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔”
”ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کے ساتھ تمہاری انگیجمنٹ کو۔ کیا اتنا آسان ہے تمہارے لیے اسے بھلانا۔” علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”اگر میں عمر کو بھلا سکتی ہوں تو جنید…اس کو بھلانا کیا مشکل ہے۔ عمر سے زیادہ لمبی ایسوسی ایشن تو کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی میری۔” اس نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”کہنے میں اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے علیزہ!” شہلا نے عجیب سے انداز میں کہا۔ علیزہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ واقعی کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
”اتنے عرصے سے تم جنید کے گھر آ جا رہی ہو۔ کیا تمہیں اپنی وجہ سے ہونے والی ان کی پریشانی کا بھی کوئی احساس نہیں ہو رہا۔”
وہ ساری گفتگو میں پہلی بار الجھ کر خاموش رہی اسے اگر اس سارے معاملے میں کسی سے شرمندگی تھی تو وہ جنید کے گھر والے ہی تھے اور کم از کم وہ ان کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر پا رہی تھی۔
”میرے پاس ان کے لیے معذرت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
”وہ واقعی یہ سب کچھ deserve نہیں کرتے جو میں کر رہی ہوں مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”
”دوسرا راستہ؟ علیزہ! تمہارے پاس فی الحال ہر راستہ موجود ہے۔ تم اگر اپنے فیصلے پر ایک بار نظرثانی کرو تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ تم اپنے معاملے کو بھی سلجھا لو گی۔”
”میں کسی معاملے کو سلجھانا نہیں چاہتی۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔ ”ہر چیز پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکی ہے۔”
”یا پہنچائی جا چکی ہے؟” شہلا نے کچھ دیر دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم یہی سمجھ لو۔”
”زندگی میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتا۔ ہر بار اور ہر جگہ سے واپس آیا جا سکتا ہے اگر تھوڑی سی عقلمندی اور دور اندیشی کامظاہرہ کیا جائے تو۔”
”اور یہ دونوں خصوصیات میرے اندر نہیں ہیں۔ یہ تو تم اچھی طرح جانتی ہو۔” اس نے تیز لہجے میں کہا۔
”آخر تم اتنی ضد کیوں کر رہی ہو علیزہ۔” علیزہ نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”اب پھر میرے سامنے تقریر مت کرنا کہ میں پہلے تو ایسی نہیں تھی …اب کیوں ہو گئی ہوں وغیرہ۔”
”مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تم خود ہی یہ سب جانتی ہو۔”
”ہاں، میں جانتی ہوں اور مجھے اپنی ہٹ دھرمی سے کوئی پریشانی نہیں ہے …یہ عادت دیر سے سیکھی ہے مگر میرے لئے یہ بہت فائدہ مند ہے …دیر آید درست آید کے مصداق۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا تقریباً تین گھنٹے اس کے ساتھ سر کھپا کر اگلے دن پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی تھی۔
٭٭٭




عمر دس منٹ کی اپائنمنٹ کا سن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
اس نے پولیس سروس صرف اس Absolute power (مکمل اختیارات) کے لئے جوائن کی تھی جو کسی پولیس آفیسر کے پاس ہوتی تھی …اسے اب یوں لگنے لگا تھا جیسے اس کے پر کاٹ کر آزادی دی گئی ہے …ہر گزرتا دن اس احساس کو بڑھاتا جا رہا تھا اور وہ یہ احساس رکھنے والا واحد آفیسر نہیں تھا …اسے اگر بے جا مداخلت بری لگ رہی تھی تو دوسرے آفیسرز کو کرپشن ختم کرنے کے لئے آرمی کا چیک تنگ کر رہا تھا …یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں تھی جس کے لئے سول سروس میں آتے تھے یہ دو سے چار اور چار سے آٹھ بنانے کا فارمولا تھا۔ جس کو سیکھنے کے لئے لوگ اس میدان میں کودتے تھے یا پھر کچھ کو وہ Authority اس طرف کھینچ لاتی تھی جو کسی بھی آفیسر کے پاس موجود ہوتی تھی اور آرمی، بیوروکریسی سے یہی دونوں چیزیں کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
عمر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔ اب بعض دفعہ اسے فارن سروس سے پولیس سروس میں آنے کے فیصلے پر افسوس ہوتا اور بعض دفعہ سول سروس میں سرے سے آنے پر اگر دوسروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بن کر ہی ناچنا تھا تو پھر تو پوری دنیا پڑی تھی …کہیں بھی جا سکتا تھا …کہیں بھی کیرئیر بنا سکتا تھا …آخر پاکستان ہی کیوں …وہ اکثر سوچتا اور اپنے فرینڈز اور کولیگز سے ڈسکس کرتا رہتا …اس ڈسکشن میں حصہ لینے والا وہ واحد نہیں تھا وہاں ہر دوسرے بندے کے پاس یہی مسائل تھے۔ پاور شیئرنگ آرمی اور بیورو کریسی دونوں کے لئے جیسے گالی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
آرمی کے بعد اگر ملک میں کوئی دوسرا آرگنائزڈ اسٹرکچر تھا تو وہ بیورو کریسی کا ہی تھا اور دونوں ایک دوسرے کے حربوں، ہتھکنڈوں اور چالوں سے بخوبی واقف تھے، یہی وجہ تھی کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو مات دینے میں ناکام رہتا تھا۔ دوسرے کے پاس پہلے ہی ہر چیز کا توڑ موجود ہوتا تھا …دونوں طرف بہترین دماغ اور بد ترین سازشی موجود تھے …دونوں طرف بہترین خوشامدی اور بہترین درباری موجود تھے اور دونوں طرف ذہین ترین احمقوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ اس بار پہلی بار آرمی نے سول سیٹ اپ پر کاری ضرب لگائی تھی اور پہلی بار بیورو کریسی کو واقعی اپنی پاور خطرے میں محسوس ہونے لگی تھی۔ کچھ نے محاذ آرائی کا رستہ اختیار کیا تھا کچھ نے بغیر کسی حجت کے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ عمر پہلی ٹائپ میں شامل تھا اور دوسری ٹائپ میں شامل ہونے کی تمام کوششوں کے با وجود اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
٭٭٭
وہ اگلے دن ساڑھے دس ہونے والی اپائنٹمنٹ سے پانچ منٹ پہلے ہی کرنل حمید کے آفس پہنچ گیا۔ یہ ایک حفاظتی قدم تھا جو تاخیر کی صورت میں کرنل حمید کی طرف اپائنٹمنٹ کینسل نہ ہونے سے بچنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔
کرنل حمید اسے آفس میں نہیں ملا۔ اس کا پیغام ملا۔ اس نے عمر کی اپائنٹمنٹ کینسل کروا دی تھی کیونکہ بقول پی اے ”صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں۔”
”یہ تمہارے صاحب کو پہلے پتا ہونا چاہیے تھا۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں پی اے سے کہا۔ ”اگر انہوں نے اپائنٹمنٹ طے کی تھی تو انہیں ملنا چاہیے تھا۔”
”اپائنٹمنٹ تو سر میں نے طے کی تھی کرنل صاحب نے تو نہیں کی تھی، وہ بھی آپ نے زبردستی اپائنٹمنٹ طے کروائی تھی۔”
پی اے اب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ تیزی سے کہہ رہا تھا شاید اسے عمر کے لئے کرنل حمید سے خاص ہدایات ملی تھیں عمر کو اس کے سامنے بے پناہ ہتک کا احساس ہوا۔
”وہ آپ کے لئے پیغام دے کر گئے ہیں کہ آپ چاہیں تو فون پر اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔” پی اے نے اس سے کہا۔
عمر اس کے پیغام کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہاں سے نکل آیا۔
اپنے آفس واپس آنے کے بعد اس نے ایاز حیدر کو فون کیا اور انہیں اس تمام معاملے کی تفصیلات بتا دیں۔
”میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھاکہ یہ آدمی مصالحت نہیں چاہتا۔” اس نے تفصیلات بتانے کے بعد کہا۔ ”یہ آدمی صرف میری بے عزتی کرنا چاہتا ہے۔ صرف مجھے اپنے سامنے جھکانا چاہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔” وہ تقریباً پھٹ پڑا۔
”اور اب تو میں دوبارہ کبھی اس کی شکل تک دیکھنے نہیں جاؤں گا۔” ایاز حیدر کچھ دیر خاموشی سے اسے بولتا سنتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”عمر ! میں چاہتا ہوں تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”کیا مطلب؟” وہ یک دم ٹھٹھک گیا۔
”ہاں، تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ، نہ تم یہاں رہو گے نہ یہ مسئلے پیدا ہوں گے۔”
”مگر میں کیوں چھٹی پر چلا جاؤں، اس سے میرا کیرئیر ۔۔۔”
ایاز حیدر نے اس کی بات کاٹی ”کیرئیر کی تم فکر مت کرو۔ میں ہوں اس کو دیکھنے کے لئے، تم بس چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”میں اس طرح اپنی جاب چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا، آپ …۔۔۔”
”تم نہیں جاؤ گے تو پھر تمہیں بھیج دیا جائے گا۔”
”آپ نے کہا تھا میری ٹرانسفر کر رہے ہیں۔” عمر نے انہیں یاد دلایا۔
”ہاں کر رہے ہیں۔ تمہاری خدمات وفاقی حکومت کو واپس کر رہے ہیں اور وہاں سے تم بھیجے جاؤ گے بلوچستان، کوئٹہ تم کو نہیں ملے گا، اور کون سا اور کیسا شہر مل سکتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں اچھی طرح ہو گا۔”
عمر کا دل ڈوب گیا۔ وہ بلوچستان یا سرحد بھجوائے جانے کا مطلب اچھی طرح سمجھتا تھا۔
”پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم چھٹی پر چلے جاؤ …کم از کم چھٹی کے بعد تم کسی بہتر پوسٹنگ کی امید تو رکھ سکتے ہو۔”
”انکل ! میں دو چار ماہ کی چھٹی نہیں چاہتا۔” عمر یک دم سنجیدہ ہو گیا
”مجھے دو سال کی چھٹی چاہیے …ایکس پاکستان لیو۔”
”کس لئے؟”
”بس میں واقعی اس سب سے تنگ آ چکا ہوں۔ اگر چھٹی پر ہی جانا ہے تو لمبی چھٹی پر کیوں نہیں۔”
”تم کرنا کیا چاہتے ہو اتنی لمبی چھٹی کا؟”
”میں کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اپنی اسٹڈیز کو دوبارہ شروع کروں، ایم بی اے کر لوں۔”
”اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ دو سال ضائع ہوں گے تمہارے۔” ایاز حیدر نے اسے بتایا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!