امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”پھر…؟” ایاز حیدر تقریباً تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے۔
”یکدم ہی بس کچھ پرابلمز آگئی تھیں۔ اس کی بہن کو کچھ ہفتوں کے لیے سنگاپور جانا تھا۔ خود اس کے ایک دو پروجیکٹس کی ڈیٹس کا مسئلہ ہونے لگا۔ اس کے کچھ دوسرے رشتہ دار بھی ان دنوں باہر سے نہیں آ سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ ایک ماہ کے لیے شادی آگے کر دی جائے۔”
عمر نے یکے بعد دیگرے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ نانو نے یقیناً علیزہ کو بچانے کے لیے اس نوٹس کو جنید کے گھر والوں کے سر تھوپ دیا تھا۔ یہ خوش قسمتی ہی تھی کہ ایاز حیدر نے سیدھا جنید کے گھر فون کرکے اس کے والدین سے بات نہیں کی تھی۔ ورنہ اس جھوٹ کا انکشاف ہو جاتا۔ وہ شاید عمر کے معاملے میں الجھے ہونے کی وجہ سے اس طرف اتنا دھیان نہیں دے پائے تھے۔
”جنید نے مجھ سے یہ سب کچھ ڈسکس کیا تھا بلکہ اس نے پوچھا تھا کہ اگر شادی کو آگے کر دیا جائے تو ہماری فیملی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا میں نے گرینی سے بات کی تھی۔ پھر یہی طے ہوا کہ شادی آگے کر دی جائے۔”
”اچھا مگر ممی نے تو مجھ سے کہا ہے کہ انہوں نے اچانک ہی درخواست کی تھی۔ یہ تو انہوں نے نہیں بتایا کہ تم نے ان سے اس سلسلے میں بات کی تھی۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”گرینی کے ذہن میں نہیں رہا ہوگا اور جہاں تک ریکویسٹ کی بات ہے تو وہ انہوں نے اچانک ہی کی تھی۔ ورنہ پہلے تو وہ بھی تیاریوں میں ہی مصروف تھے۔” عمر نے گول مول بات کی۔
”میں آج فون کروں گا ابراہیم کو، اس معاملے پر اگر تھوڑی بہت بات ہو جائے تو اچھا ہے۔”
”انکل ابراہیم تو کوئٹہ گئے ہوئے ہیں۔” عمر نے بڑی رسانیت سے کہا۔




”کل رات میں جنید سے بات کر رہا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا۔ وہاں کسی بینک کی بلڈنگ کا پراجیکٹ ہے جنید بھی دو چار دن تک وہیں جا رہا ہے۔ آپ آنٹی فرحانہ سے بات کر لیں۔” عمر نے آخری جملہ ادا کرتے ہوئے رسک لیا تھا۔
”نہیں، ان سے کیا بات کروں گا۔ ابراہیم کو آنے دو پھر ان ہی سے بات کروں گا۔” حسب توقع ایاز حیدر نے کہا۔
”اچھا پھر تم مجھے کرنل حمید سے اپنی ملاقات کے بارے میں جلد انفارم کرو۔” رسمی الوداعی کلمات کے ساتھ انہوں نے فون رکھ دیا۔
عمر کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا۔ پھر اس نے اپنے پی اے کو کرنل حمید سے کانٹیکٹ کروانے کا کہا۔
وہ ایک فائل چیک کر رہا تھا جب پی اے نے اسے فون پر اطلاع دی۔
”سر! کرنل حمید کاآپریٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کو ان سے کیا بات کرنی ہے؟”
”اس سے کہو کہ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”سر! میں نے یہی کہا تھا مگر وہ پوچھ رہا تھا کہ آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ بات بتائیں۔”
”اس سے کہو کہ میں اس کو بات نہیں بتا سکتا۔ وہ کرنل حمید سے میری بات کروائے۔” عمر نے کچھ سختی سے اسے ہدایت دی۔
کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی ”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ جب تک آپ بات نہیں بتائیں گے وہ کرنل حمید سے آپ کا رابطہ نہیں کروا سکتا۔” عمر کو اندازہ ہو گیا کہ کرنل حمید اسے آپریٹر کے ذریعہ زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
”اس سے کہو کہ صاحب کرنل حمید سے کوئی ذاتی بات کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد پی اے نے ایک بار پھر اس سے رابطہ کیا۔
”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ کرنل حمید دفتر میں ذاتی باتیں نہیں کرتے۔”
”تو پھر اس سے کہو کہ وہ ان کے گھر کا نمبر دے دے۔” پی اے نے کچھ دیر بعد اس سے کہا۔
”سر ! وہ کہہ رہا ہے کہ صاحب کا گھر کا نمبر ہرایرے غیرے کے لیے نہیں ہوتا۔” اس بار پی اے نے کچھ جھجکتے ہوئے تک کرنل حمید کے پی اے کے الفاظ پہنچائے تھے۔
”بات کراؤ میری اس آپریٹر سے۔” اس بار عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
”یس سر! ” پی اے نے مستعدی سے کہا۔
چند منٹوں کے بعد عمر نے دوسری طرف کسی کی آواز سنی۔
”ایس پی سٹی عمر جہانگیر بات کر رہا ہوں۔ کرنل حمید سے بات کراؤ۔” عمر نے کھردرے لہجے میں کرنل حمید کے پی اے سے کہا۔
”سر! وہ ابھی کچھ دیر پہلے آفس سے نکل گئے ہیں۔” اس بار کرنل حمید کے آپریٹر کا لہجہ مودب تھا شاید یہ عمر کے عہدے سے زیادہ اس کے لہجے کا اثر تھا۔
”کب واپس آئیں گے؟” عمر نے اسی انداز میں پوچھا۔
”سر! یہ نہیں پتا، وہ ٹیم کے ساتھ گئے ہیں۔”
”میں کل صبح ان سے ملنا چاہتا ہوں۔”
”سر! آپ یہ بتا دیں کہ آپ کس سلسلے میں ان سے ملنا چاہتے ہیں۔”
عمر نے اس کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”یہ جاننا تمہارا پرابلم نہیں ہے۔ میں ایس پی ہوں، کسی بھی سلسلے میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔” اس بار عمر کا لہجہ اتنا کھردرا اور تحکمانہ تھا کہ پی اے نے کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”تو سر! پھر آپ اپائنمنٹ لے لیں۔”
”اپائنمنٹ میرا پی اے طے کرے گا تمہارے ساتھ، میں نہیں۔”
عمر نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور پھر اپنے پی اے کو کرنل حمید کے آپریٹر کے ساتھ بات کرنے کے لیے کہا۔ کچھ دیر بعد پی اے نے اسے اگلے دن کی اپائنمنٹ کی تفصیل بتا دی تھی۔
٭٭٭
”بے وقوفی کی باتیں مت کیا کرو علیزہ! کیا تم نے طے کر رکھا ہے کہ۔۔۔”
علیزہ نے غصے کے عالم میں شہلا کی بات کاٹ دی۔ ”تم میرے سامنے نانو کے جملے مت دہراؤ…میں تنگ آ چکی ہوں اس طرح کے جملے سن سن کر۔”
شہلا ابھی کچھ دیر پہلے ہی علیزہ کے پاس آئی تھی۔ اس نے بھی اخبار میں وہ نوٹس پڑھ لیا تھا، وہ کوشش کے باوجود فون پر علیزہ سے رابطہ نہیں کر سکی۔ پھر وہ کچھ پریشانی کے عالم میں خود اس کے گھر چلی آئی تھی اور اب وہ علیزہ کو سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
”یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔” شہلا اس کے غصے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”آخر اس سارے معاملے میں جنید اور اس کی فیملی کا کیا قصور ہے بلکہ عمر کا بھی کیا قصور ہے۔ اس نے ایسا کون سا غلط کام کر دیا ہے جس پر تم اس طرح ناراض ہو رہی ہو۔”
”تمہارے خیال میں یہ غلط کام ہی نہیں ہے؟ تمہارے نزدیک تو پھر کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔”
”عمر نے کیا کیا؟ اس نے تمہیں جنید سے ملوایا ، تم نے خود اس کو پسند کیا…اور پھر تمہاری ہی مرضی کے مطابق اس سے تمہاری شادی ہو رہی تھی۔”
”عمر سے کس نے کہا تھا کہ وہ مجھے جنید سے ملوائے، میرے ساتھ اتنی ہمدردی کرنے کی کیا ضرورت تھی اسے؟ غلط بیانی کرکے اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ کیا میرے اور اس کے درمیان اتنے اچھے تعلقات تھے کہ وہ اپنے بیسٹ فرینڈ کو میرے لیے اس طرح پیش کرتا اور وہ بھی ایسا دوست جو صرف اس کے کہنے پر مجھے اپنے گلے میں لٹکا رہا تھا۔”
”علیزہ! تم کمال کرتی ہو۔ جنید تمہیں کیوں گلے میں لٹکائے گا۔ تمہاری طرح اسے بھی ایک لڑکی سے ملوایا گیا۔ اسے تم پسند آئیں اس لیے وہ تم سے شادی کر رہا تھا۔ کورٹ شپ اور کسے کہتے ہیں۔ ہماری فیملیز میں اسی طرح لڑکے لڑکی کو آپس میں ملوایا جاتا ہے۔ ملوانے والا کون ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اہم چیز تو یہ ہے کہ جس سے ملوایا جا رہا ہے وہ کیسا ہے اور کم از کم میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ عمر نے تمہیں کسی غلط آدمی سے نہیں ملوایا۔ تمہارے نزدیک عمر کا دوست ہونے کے علاوہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ ایسی خرابی ہے جو تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو نظر نہیں آئے گی۔”
”ہر چیز اس طرح نہیں ہے جس طرح تم میرے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ عمر نے جنید کو پریشرائز کیا ہے مجھ سے شادی کرنے کے لیے۔”
”یہ ناممکن ہے جنید۔۔۔”
”اس نے مجھ سے خود کہا ہے کہ اس کی عمر سے اتنی گہری دوستی ہے کہ عمر اسے میرے بجائے کسی اور سے بھی شادی کا کہتا تو وہ اسی سے شادی کر لیتا۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جنید اس طرح کا آدمی لگتا ہے تمہیں کہ وہ آنکھیں بند کرکے عمر کے کہنے پر کسی کے بھی گلے میں شادی کا ہار ڈال دیتا یا اس کی فیملی اس طرح کی نظر آتی ہے تمہیں کہ وہ کسی بھی لڑکی کو آسانی سے قبول کر لیتے۔۔۔” شہلا نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”جنید جتنا میچور اور سوبر آدمی ہے وہ کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ چاہے یہ بات وہ اپنے منہ سے کہے تب بھی۔ اسے اگر یہ احساس ہو جاتا کہ تم اس کی فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکتیں یا تمہارے ساتھ اس کی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہو سکے گی تو وہ کبھی بھی تم سے شادی نہ کرتا۔ عمر کے کہنے پر بھی وہ اپنی فیملی کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔آخر تم اس بات کو محسوس کیوں نہیں کرتیں۔”
”میں کچھ بھی محسوس کرنا نہیں چاہتی۔ میں اس سب سے باہر نکل چکی ہوں اور میں بہت خوش ہوں۔”
”ہر بے وقوف آدمی تمہاری طرح ہی سوچتا ہے۔ مصیبت میں قدم رکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ مصیبت سے نکل چکا ہے۔ آخر تم خطرہ دیکھ کر کبوتر کی طرح کب تک آنکھیں بند کرتی رہو گی۔” شہلا نے کچھ چڑ کر کہا۔ ”ہر کام سوچے سمجھے بغیر کرتی ہو تم۔ نانو کو کتنے لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا اور وضاحتیں کرنی پڑیں گی۔ یہ سوچا ہے تم نے؟”
”میں کیوں سوچوں؟نانو سوچیں اس کے بارے میں آخر انہوں نے بھی تو مجھے ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھا تھا۔”
شہلا کچھ بے بسی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔ ”تمہیں واقعی کوئی افسوس، کوئی دکھ نہیں ہو رہا۔ اس رشتے کو ختم کرکے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!