امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Six
10:50am
میز پر پڑا فون اچانک بجنے لگا۔ عمر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ریسیور اٹھا لیا۔
”سر! ڈی سی صاحب کی کال ہے۔” آپریٹر نے اسے بتایا۔
”بات کرواؤ۔” عمر نے سامنے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، اب تم جاؤ۔” اس نے ریسیور کان سے لگائے ہوئے پی اے سے کہا۔ وہ کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحوں کے بعد عمر کو ریسیور میں سید سلطان شاہ کی آواز سنائی دی۔
”میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس آیا ہوں۔ آپ کو کال کرنے ہی والا تھا۔” عمر نے رسمی سلام دعا کے بعد قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”کوئی بات نہیں اب تو میں نے کر ہی لی ہے۔” سید سلطان نے دوستانہ انداز میں کہا۔
”آج رات کو کیا کررہے ہو؟”
”رات کو…کچھ خاص نہیں شاید پھر آفس میں ہی ہوں گا…یا پھر کہیں پٹرولنگ پر۔”
”تو بس ٹھیک ہے پھر تم رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ۔” سید سلطان نے طے کیا۔
”تمہاری آنٹی مجھے پہلے ہی کئی دن سے کہہ رہی ہیں کہ تمہیں کھانے پر انوائیٹ کروں۔ آج تم پھر ہماری طرف آ جاؤ۔ جانے سے پہلے ہمارے ساتھ ڈنر کر لو۔” سید سلطان نے بے تکلفی سے کہا۔
”I’m honoured آپ حکم کریں میں حاضر ہو جاؤں گا۔” عمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سید سلطان جہانگیر معاذ کے دوستوں میں سے تھے اور چند ماہ پہلے ہی عمر کے شہر میں ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔




”خیر حکم والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ حکم تمہارے باپ کو دیتا ہوں۔ تم باپ کی طرح ڈھیٹ نہیں ہو، میں جانتا ہوں ویسے ہی آجاؤ گے۔”
سید سلطان نے برجستگی سے کہا، عمران کے جملے پر ہنسا۔
”میں آپ کے انویٹیشن کا پہلے ہی انتظار کر رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔” سید سلطان نے اس کی بات کاٹی۔
”یہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے تم ایک دو بار سے زیادہ ہماری طرف نہیں آئے۔ اب تم کس قدر فارمل ہو کر اپنی حسرتوں کا اظہار کررہے ہو۔جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔ ایک بار کیوں دس بار کھاؤ۔ ”وہ اب اسے اپنے مشہور زمانہ انداز میں جھڑک رہے تھے۔
”جی…جی مجھے پتہ ہے۔ میری اپنی کوتاہی ہے۔” عمر نے فوراً کہا۔
”کوئی خاص ڈش بنوانی ہو تو بتا دو…میں تمہاری آنٹی سے کہہ دوں گا۔” سید سلطان نے آفر کی۔
”آنٹی کی ہر ڈش خاص ہوتی ہے۔ میں سب کچھ خوشی سے کھاؤں گا۔”
”ٹھیک ہے، پھر آٹھ بجے ہونا چاہیے تمہیں ہماری طرف۔” سید سلطان نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
٭٭٭
Five
11:00am
عمر نے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ وہ اس وقت اپنے آفس میں بالکل اکیلا تھا۔ سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ ان مقامی اخبارات پر ایک نظر ڈالنے لگا جو اس کی میز پر پڑے تھے۔ اس کے عملے نے اہم یا پولیس سے متعلقہ خبروں کو ہائی لائٹ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے اسے تمام اخبارات کا تفصیلی مطالعہ کرنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ بڑے قومی اخبارات کامطالعہ آفس میں صبح آتے ہی کیا کرتا تھا جبکہ لوکل اخبارات کی باری دوپہر کے قریب آتی تھی۔
اس وقت بھی ان اخبارات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے بارے میں چند سرخیاں نظر آئیں اس کے پوسٹ آؤٹ ہونے کے حوالے سے چند خبریں لگائی گئی تھیں اور پھر ایک مقامی کالم نویس نے اس کی پوسٹنگ کے دوران اس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے کالم کو پڑھتا رہا۔ وہ کالم نویس ہر جانے والے افسر کی تعریف میں اس وقت تک زمین آسمان ایک کیے رکھتا تھا جب تک کہ نیا افسر نہ پہنچ جاتا اور نئے افسر کی آمد کے ساتھ ہی وہ کالم نویس پچھلے افسر کی برائیوں کی تفصیلات اور آنے والے کے قصیدے اکٹھے ہی پڑھنا شروع کر دیتا۔
اس وقت بھی اس کالم کو پڑھتے ہوئے اسے اس شخص کے جھوٹ اور چاپلوسی کی انتہا پر حیرانی ہو رہی تھی۔ اس نے وہ کام بھی اس کے کھاتے ہی ڈالنے کی کوشش کی تھی، جو اس نے وہاں اس شہر میں تو کیا کسی دوسرے شہر کی پوسٹنگ میں بھی کبھی نہیں کیے تھے۔ وہ کالم نویس قصیدہ خوانی میں کمال مہارت رکھتا تھا یا پھر وہ کالم بھی اس کے عملے میں سے کسی کی کاوش تھی۔ صاحب کو جاتے جاتے خوش کرنے کی ایک کوشش۔
وہ کچھ محظوظ ہو کر سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ کالم پڑھتا رہا۔
کالم پڑھنے کے بعد اس نے دوسری خبروں پر نظریں دوڑانا شروع کر دیں۔ ایک خبر بار کی طرف سے اس کے اعزاز میں الوداعی دعوت کی تھی۔ ایک اور دعوت چیمبر آف کامرس کی طرف سے دی جا رہی تھی۔ اسے وکیلوں اور کاروباری افراد سے جتنی چڑ تھی کسی اور سے نہیں تھی مگر پولیس سروس میں اسے سب سے زیادہ سابقہ ان ہی دو طبقات سے پڑتا تھا۔
دس منٹ میں ان اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد اس نے انہیں واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اپنے چپڑاسی کو بلوا کر اس نے گاڑی تیارکروانے کے لیے کہا۔ اسے اب کچہری جانا تھا۔
اپنے آفس سے نکل کر وہ باہر جانے کے بجائے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینے لگا۔ ہمیشہ کی طرح اسے اس دن بھی بہت سی چیزوں کی طرف اپنے عملے کی توجہ مبذول کروانی پڑی کچھ کے یونیفارم کی حالت اتنی ہی خستہ تھی جتنی ہمیشہ ہوتی تھی۔
دس منٹ میں اس نے اپنا راؤنڈ مکمل کیا اور باہر کمپاؤنڈ میں نکل آیا۔ اس کے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد ایک بار پھر گارڈز اور ڈرائیور نے اپنی نشست سنبھال لی تھی اس کے آفس سے کچہری تک کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا۔
٭٭٭
Four
11:35am
کچہری میں موجود اپنے آفس میں پہنچ کر اس نے وہاں موجود کاموں کو نپٹانا شروع کر دیا۔ ملاقاتیوں کی ایک لمبی لائن تھی جسے وہاں بھگتانا تھا اور ہر ایک کا مسئلہ ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ پولیس سروس میں آکر اس کی پنجابی میں جتنی روانی آئی تھی، وہ پہلے کبھی نہیں آ سکتی تھی۔ فارن سروس کا جہاں اور جہاں تھا، پولیس سروس کی دنیا اور دنیا تھی۔ مقامی زبان سے ناواقفیت بڑے سے بڑے افسر کو بھی بعض دفعہ بری طرح ڈبویا کرتی تھی۔ عمر نے پولیس سروس میں آنے کے بعد بہت جلدی اس زبان کا اس طرح کا استعمال سیکھ لیا تھا جس طرح کے استعمال کی ضرورت تھی باقی کی فصاحت و بلاغت اس کے ماتحت عملے نے اسے سکھا دی تھی۔
وہاں اس سے ملنے والوں میں زیادہ تعداد دیہاتیوں یا عام شہریوں کی تھی۔ وہ وہاں بیٹھنے کے اوقات میں ہمیشہ بڑی تیزی اور مستعدی سے ملاقاتیوں کو بھگتایا کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ جب وہاں سے اٹھتا۔ آفس کے باہر کوریڈور میں موجود ملاقاتیوں کی تعداداتنی ہی ہوتی۔
آج بھی وہ اسی پھرتی اور مستعدی سے درخواستوں پر احکامات جاری کر رہا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!