امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”علیزہ ! اس کمرے میں چلی جاؤ، تانیہ وہاں ہے۔ میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔” عباس اسے ایک طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔
”مجھے موبائل دیں، مجھے فون کرنا ہے۔” وہ اب کسی دوسرے کو ریڈور میں تھی، اس کا ایک اور کزن خضر علی ان کے ساتھ تھا وہ اور عباس کچھ کہہ رہے تھے۔ علیزہ کے لیے ان کی باتوں کو سمجھنا مشکل ہو رہا تھا۔
ان کے ساتھ چلتے ہوئے وہ اب کسی کمرے میں داخل ہو گئی، وہاں تانیہ تھی اور اس کی فیملی کی چند دوسری خواتین بھی۔
”پلیز، فون دیں۔” اس نے کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”کس کو فون کرنا ہے، میں کر دیتا ہوں۔” عباس نے نرمی سے کہا۔
”عمر کو۔۔۔”
عباس نے تانیہ کو اشارہ کیا۔ ”Just take care of her” (اسے سنبھالو)
تانیہ نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جانے کی کوشش کی۔ وہ یکدم مشتعل ہوئی ، اس نے درشتی سے تانیہ کا بازو جھٹکا۔
”میں آپ سے فون مانگ رہی ہوں…اور آپ میری بات نہیں سن رہے۔” عباس باہر جاتے جاتے رک گیا۔ علیزہ کی آواز بے حد بلند تھی۔ عباس نے ایک نظر دروازے کے باہر موجود ہجوم پر ڈالی۔




”خضر! تم چلو، میں آتا ہوں۔” اس نے ساتھ کھڑے خضر سے کہا اور اس کے باہر نکلتے ہی دروازے کو آہستگی سے بند کر دیا۔
”مجھے فون دیں۔” علیزہ ایک بار پھر غرائی۔ ”میں اسے فون کرنا چاہتی ہوں۔”
”جسے تم فون کرنا چاہتی ہو، وہ اب نہیں ہے…پلیز تم۔۔۔”
اس نے عباس کی بات کاٹ دی۔
”میری بات کروا دیں اس سے…پلیز عباس بھائی! بات کروا دیں۔ آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہے، عمر کو کچھ نہیں ہوا۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔” اس بار اس کی آواز میں بے چارگی تھی۔
”اس کے پاس اتنی سکیورٹی ہوتی ہے، اسے کچھ کیسے ہو سکتا ہے، آپ خود سوچیں نا۔ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے عباس بھائی۔” وہ بے ربط جملے بول رہی تھی۔
کیا کہہ رہی تھی، نہیں جانتی تھی۔ کیا کہنا چاہتی تھی، اس سے بھی بے خبر تھی۔
عباس کے چہرے کی تھکن اور شکستگی اس کے خوف میں اضافہ کر رہی تھی مگر خوف…؟
”کیا خوف تھا اسے؟ بے یقینی؟ کیسی بے یقینی تھی؟
عباس نے اس بار کچھ نہیں کہا، وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔
علیزہ کی نظر پہلی بار اس کے بائیں ہاتھ میں پڑے سیلڈ پیکٹ پر پڑی جس کی سیل وہ اب کھول رہا تھا۔ پیکٹ کی سیل کھولنے کے بعد اس میں موجود چیزوں کو آہستگی سے ٹیبل پر الٹ دیا۔
وہ عمر کا موبائل ، گلاسز، سگریٹ کیس، لائٹر، گھڑی، والٹ اور چند دوسری چیزیں تھیں۔ وہ کچھ چیزوں کو پہچانتی تھی، کچھ کو نہیں پہچانتی تھی۔ کچھ بھی کہے بغیر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ میز کے قریب آکر کھڑی ہو گئی۔ میز پر پڑی ہوئی چیزوں میں سے کچھ خون آلودہ تھیں، وہ ان چیزوں کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کر سکی۔ بس دونوں ہاتھ میز پر رکھے ایک ٹک انہیں دیکھتی رہی۔
وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا ایک حصہ تھیں جسے وہ اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھتی تھی۔
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔ عمر جہانگیر ختم ہو چکا تھا، سامنے پڑا ہوا موبائل فون اب کبھی بھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا۔
اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا دیا اور مٹھیاں بھینچ کر روتی چلی گئی۔
”میں نے کبھی اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس طرح چلا جائے۔” وہ بے تحاشا رو رہی تھی، بچوں کی طرح، جنونی انداز میں۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ عمر سے نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی صرف ایک دھوکہ اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رہی تھی، صرف اس خواہش اور اس امید پر کہ شاید کبھی اسے عمر سے نفرت ہو جائے۔
کبھی …کبھی…کبھی…شاید کبھی…
٭٭٭
”تم کرسٹی کے مرنے پر اتنا روئی ہو تو میرے مرنے پر کتنا روؤ گی؟” عمر نے اس سے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”آپ کس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟” وہ بے اختیار برا مان کر بولی۔
”پوچھ رہا ہوں اپنی معلومات میں اضافے کے لیے۔ ” عمر مسکرایا۔
علیزہ پچھلے چار دن سے کرسٹی کے مر جانے کے بعد وقفے وقفے سے رو رہی تھی اور وہ فون پر کرسٹی کے بارے میں جاننے کے بعد اسلام آباد سے تعزیت کرنے آیا تھا۔ وہ اس قدر رنجیدہ اور دل گرفتہ تھی کہ عمر جو صرف ایک دن کے لیے آیا تھا، چار دن اس کے پاس رہا۔
چوتھے دن جب وہ ایئر پورٹ تک ڈرائیور کے ساتھ اسے چھوڑنے جا رہی تھی تو اس نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”اس طرح کی باتیں نہ کریں میرے ساتھ۔” علیزہ کو ایک بار پھر کرسٹی یاد آنے لگی۔ ”مجھے پتا ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔”
”کیوں؟” عمر کچھ حیران ہوا۔
”بس مجھے پتا ہے۔۔۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”تم میرے لیے رونا نہیں چاہتی ہو، اس لیے یہ کہہ رہی ہو؟” علیزہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آنے لگے۔
” او کے…اوکے…سوری۔” عمر نے بے اختیار دونوں ہاتھ اٹھائے۔ ”مگر کرسٹی بہت لکی ہے جس کے لیے تم اتنا روئی ہو۔” وہ معذرت کرتے ہوئے بھی کہنے سے باز نہیں آیا۔
٭٭٭
تانیہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کرنے کی کوشش کی، عباس ہونٹ بھینچے ان تمام چیزوں کو ایک بار پھر اسی لفافے کے اندر ڈال رہا تھا۔
”جسٹ ریلیکس علیزہ! رونے سے وہ آ تو نہیں جائے گا۔” تانیہ نے اس کے کندھوں پر کچھ دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔
”میرے رونے سے تو آ جاتا تھا۔” تانیہ کچھ کہہ نہیں سکی۔
”مجھے اس کے پاس جانا ہے…میں اس کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔”
”اس کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے علیزہ! میں کچھ دیر بعد تمہیں اس کے پاس لے جاؤں گا۔” عباس نے اس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔
وہ بے بسی سے روتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ بہت سالوں کے بعد وہ یوں کسی کے سامنے رو رہی تھی۔ آنسوؤں کو روکنے کی کوئی ارادی یا غیر ارادی کوشش کیے بغیر۔
”تم کبھی میچور نہیں ہو سکتیں علیزہ! تم کبھی میچور نہیں ہو سکتی ہو۔” اس حالت میں پہلی بار اسے عمر کی اس بات کا یقین آرہا تھا بلکہ اس وقت یہاں بیٹھے اس کی ہر بات کا یقین آ رہا تھا۔
وہ ٹھیک کہتا تھا۔ وہ جذباتی تھی، وہ امیچور تھی اور وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ان دونوں خامیوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ کوئی عمر سے بہتر اسے نہیں جان سکتا تھا۔
عباس اب کمرے سے باہر جا رہا تھا۔ عباس کے جسم پر موجود یونیفارم نے اسے ایک بار پھر عمر کی یاد دلائی تھی۔ کیا کچھ نہ تھا جو اب اسے اس کی یاد نہ دلاتا؟ وہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔
تو یہ ہوتی ہے زندگی
اور یہ محبت
ایک وقت میں ایک ہی چیز ختم ہوتی ہے، دونوں نہیں اور اس وقت اس کے دل میں عمر کے لیے کوئی شکایت، کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں تھا اور اب زندگی میں کبھی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
”فائرنگ کی تھی کسی نے۔ گاڑی میں اس کا ایک گارڈ اور ڈرائیور بھی مارا گیا۔ عباس کو اس ایکسیڈنٹ کی دس منٹ بعد ہی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ بہت اپ سیٹ تھا۔ یہاں سے خود ہیلی کاپٹر میں گیا تھا اس کی باڈی لانے کے لیے، میں کوشش کرتی رہی کہ تم لوگوں کو کسی طرح ٹریس آؤٹ کر لوں مگر نہیں کر سکی۔ خود عبا س نے بھی بہت کوشش کی۔”
تانیہ دھیمی آواز میں ساتھ والی کرسی پر بیٹھی کہہ رہی تھی۔ علیزہ کے لیے یہ سب اطلاعات بے معنی تھیں۔
”وہ چند دنوں میں امریکہ جانے والا تھا ایکس پاکستان لیو پر اور یہ سب کچھ ہو گیا۔” علیزہ نے یکدم سر اٹھا کر دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کو دیکھا۔
”تمہیں لگتا ہے، میں چلا جاؤں گا تو تمہارے اور جنید کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو میں واقعی دوبارہ کبھی تم دونوں کے درمیان نہیں آؤں گا۔ میں جنید سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گا۔”
”تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟” تانیہ نے اسے مخاطب کیا، علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا لگ گیا تھا۔
”تم ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس فرق یہ ہے کہ تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے جس دن یہ یونیفارم اتر جائے گا ، اس دن تم بھی اسی طرح مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
علیزہ نے شکست خوردگی کے عالم میں سر جھکا لیا۔
اس نے زندگی میں خود کو اس سے زیادہ شکستہ اور قابل رحم کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!