امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Ten
9:10am
عمر نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کیا اس نے کل رات کو بال کٹوائے تھے۔ پولس فورس میں آنے سے پہلے تک وہ سال میں کئی بار ہیر سٹائل تبدیل کرنے کا شوقین تھا۔ دس سال پہلے سول سروس جوائن کرنے کے بعد اگرچہ یہ شوق کچھ کم ہو گیا مگر ختم نہیں ہوا۔ سول سروس میں وہ جس حد تک ہیر کٹ کے بارے میں آزاد روی کا مظاہرہ کر سکتا تھا اس نے کیا مگر پولیس سروس میں آکر یہ شوق یکدم ختم ہو گیا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ کریوکٹ کو ہی اپنائے ہوئے تھا۔
کل رات بھی اس نے بالوں کو اسی انداز میں ترشوایا تھا، دو چار بار بالوں میں برش کرنے کے بعد اس نے برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا اور پرفیوم اٹھا کر اپنے اوپرسپرے کرنے لگا۔ سپرے کرتے ہوئے اپنی گردن پر نظر آنے والے چند سرخ نشانات نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔
پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے گردن اوپر کرکے اپنے کالر کو کچھ کھولتے ہوئے ان نشانات کو دیکھا۔ کل شام کو گالف کھیلتے ہوئے اسے اس جگہ پر اچانک جلن اور خارش ہوئی تھی یقیناً کسی کیڑے نے اسے کاٹا تھا رات کی نسبت وہ اب کچھ معدوم ہونے لگے تھے۔ اس نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے اپنے کالر کو ایک بار پھر درست کیا پھر پلٹ کر اپنے بیڈ کی طرف گیا اور بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی رسٹ واچ اٹھا کر اپنی کلائی پر باندھنے لگا۔ رسٹ واچ باندھنے کے بعد اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل سگریٹ کیس اور لائٹر اٹھایا۔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر اس نے ان چیزوں کو ٹیبل پر رکھا اور سٹینڈ پر لٹکی کیپ اتار کر پہننے لگا۔ کیپ پہن کر اس نے ایک آخری نظر آئینے میں اپنے اوپر ڈالی پھر مطمئن ہوتے ہوئے اس نے ایک بار پھر موبائل، سگریٹ کیس اور لائٹر کو اٹھا لیا پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا وہ واپس سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ اس بار اس نے دراز کھول کر اس کے اندر موجود والٹ نکالا اور اسے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس کی نظر اس کتاب پر پڑی جسے وہ رات کو سونے سے پہلے پڑھ رہا تھا۔ کتاب کو اس نے اوندھا کرکے کھلی حالت میں بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔




اسے حیرت ہوئی، وہ عام طور پر کتابیں کبھی بھی اس طرح نہیں رکھتا تھا۔ پھر اسے یاد آیا رات کو وہ یہ کتاب پڑھ رہا تھا جب جوڈتھ کی کال آئی تھی۔ اس نے فون پر اس سے بات کرتے کرتے کچھ بے دھیانی کے عالم میں کتاب کو بک مارک رکھ کر بند کرنے کے بجائے اسی طرح سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ جوڈتھ سے بات ختم کرنے کے بعد دوبارہ اس کتاب کو پڑھنا چاہ رہا تھا مگر جوڈتھ سے اس کی بات بہت لمبی ہو گئی اور اس نے جس وقت فون بند کیا۔ اس وقت عمر کو نیند آنے لگی تھی۔ وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوئے بغیر ہی سو گیا تھا۔
اس نے کتاب اٹھائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا بک مارک اٹھا کر اس کے اندر رکھا پھر اسے بند کر دیا۔ کتاب کو واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بجائے وہ کتابوں کے اس شیلف کی طرف بڑھ گیا اس نے کتاب کو اس شیلف میں رکھ دیا۔ اگلے کچھ دن اسے اتنے کام کرنے تھے کہ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس کتاب کو پڑھنے کے لیے اب وقت نکال سکے گا۔ کچھ دنوں تک اپنے کام نمٹانے کے بعد اسے اپنا سامان پیک کروانا تھا اور پھر اسے لاہور بھجوا دینا تھا اور اس کے بعد اسے لاہور سے امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جانا تھا۔
اس کتاب کو وہ اب شاید امریکہ جا کر ہی پڑھنے کی فرصت نکال پاتا۔ وہ بھی اس صورت میں اگر وہ اس کے ذہن میں رہتی اور وہ اسے امریکہ ساتھ لے جاتا ورنہ اگلے کچھ سالوں تک وہ کتابیں گرینی کی انیکس میں ہی پڑی رہنی تھیں۔ وہ امریکہ جانے سے پہلے اپنے سامان کو ایک بار پھر وہیں رکھوانا چاہتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اس نے جوڈتھ کو رات کو اپنی امریکہ واپسی کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وہ بے اختیار چلائی تھی۔
”تو بالآخر تم واپس آرہے ہو؟”
”ہاں بالآخر۔” عمر اس کے جوش و خروش پر مسکرایا۔
”کب تک رہو گے یہاں؟”
”اس مہینے کے آخر تک۔” کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اسے رات کو جوڈتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد آنے لگی۔
٭٭٭
Nine
9:20am
اسے اپنے کمرے سے نمودار ہوتے دیکھ کر ملازم تیزی سے اس کے کمرے کی طرف چلا آیا۔ عمر کے پاس آکر اس نے مؤدب انداز میں اسے سلام کیا عمر نے گردن کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر سیدھا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جبکہ ملازم میکانکی انداز میں اس کے بیڈ روم کی طرف چلا گیا۔
یہ روزانہ کا معمول تھا عمر کو اپنے کمرے سے باہر آتا دیکھتے ہی ملاز م اس کے بیڈ روم میں چلا جاتا اور پھر وہاں پڑا ہوا عمر کا بریف کیس اور اسٹک اٹھا کر اس کی گاڑی میں جا کر رکھ آتا۔
عمر عام طور پر نو بجے تک گھر سے نکل جاتا تھا مگر آج وہ قدرے لیٹ تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑے دوسرے ملازم نے بھی اسے دیکھ کر سلام کیا اور پھر اس کے لیے کرسی کھینچنے لگا۔ ناشتہ پہلے ہی ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھا۔ عمر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ٹیبل پر رکھیں اور پھر کرسی پر بیٹھنے کے بعد اپنی کیپ بھی اتار کر ٹیبل پر رکھ دی۔
ملازم جان چکا تھا، وہ آج ناشتہ کرنے میں کچھ وقت لگائے گا۔ عام طور پر وہ جب بھی کیپ نہیں اتارتا تھا وہ زیادہ سے زیادہ ایک سلائس چائے کے ایک کپ کے ساتھ کھاتا اور پانچ منٹ کے اندر ناشتہ کی ٹیبل سے اٹھ جاتا اور جب وہ اپنی کیپ اتار دیتا، اس دن وہ ناشتے میں کسی نہ کسی چیز کی فرمائش ضرور کرتا اور اکثر پندرہ بیس منٹ لگا دیتا۔
”سر! آفس سے فون آیا ہے۔” ملازم نے اس کے لیے چائے انڈیلتے ہوئے اسے اطلاع دینا ضروری سمجھا۔
”کس لیے؟” عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتا دیا کہ آپ آج کچھ دیر سے آئیں گے۔” ملازم نے کہا۔
”کوئی ایمرجنسی تو نہیں تھی؟”
”نہیں سر! وہ ایسے ہی روٹین میں اپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔” عمر نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سر ہلایا۔
”آج آملیٹ بنواؤ، فرائیڈ ایگ نہیں لوں گا۔” عمر نے ٹیبل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”جی سر۔” ملازم مستعدی سے ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
عمر اس وقت چائے کا دوسرا کپ پی رہا تھا جب ملازم آملیٹ کی پلیٹ لیے ڈائننگ روم میں داخل ہوا۔
”شکل تو خاصی اچھی لگ رہی ہے غفور!” عمر نے پلیٹ میں موجود مشروم والے آملیٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ذائقہ بھی اچھا لگے گا سر۔” ملازم نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا اور سلائس والی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔
”نہیں سلائس نہیں لوں گا۔ صرف آملیٹ ہی کھاؤں گا۔”
عمر نے اسے روک دیا۔ وہ اب چھری کانٹے کی مدد سے آملیٹ کے ٹکڑے کرنے میں مصروف تھا۔
”رات کو کیک کسٹرڈ اچھا بنا تھا۔ اگر ہے تو لے آؤ۔” اس نے مزید ہدایت دی۔
”جی سر۔” ملازم ایک بار پھر وہاں سے چلا گیا۔
جب وہ پیالہ لے کر وہاں آیا تو عمر آملیٹ کھانے میں مصروف تھا۔
”یہ واقعی ذائقے میں بھی اچھا ہے غفور! تمہارے کھانے دن بہ دن اچھے ہوتے جارہے ہیں۔”
عمر نے اسے دیکھ کر کچھ بے تکلفی سے کہا۔ غفور کا چہرہ اپنی تعریف پر چمکنے لگا تھا۔ عمر تعریف میں کبھی کنجوسی نہیں کرتا تھا۔ اس نے اب تک جتنے آفیسرز کے لیے کام کیا تھا اس میں اسے سب سے زیادہ عمر جہانگیر ہی پسند آیا تھا۔ وہ اگرچہ دوسرے آفیسر کی طرح ہی ریزرو رہتا تھا مگر وہ تعریف کرتے ہوئے ، کوئی تکلف نہیں برتتا تھا۔ وہ ویسے بھی خاصے کھلے دل اور جیب کا مالک تھا۔ اکثر اوقات اسے اور دوسرے ملازمین کو کچھ نہ کچھ دیتا رہتا تھا، ملازمین کی چھوٹی موٹی سفارشیں بھی مان لیتا تھا، یہ سب چیزیں بہت سے دوسرے آفیسرز میں بھی تھیں مگر غفور کو وہ اس لیے پسند تھا کیونکہ وہ غصے میں بھی ان کی تذلیل کرنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ غلطی کرنے پر جھڑکنے میں تامل نہیں کرتا تھا مگر یہ ڈانٹ ڈپٹ ایسی نہیں ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو تذلیل کا احساس ہوتا۔
”سر! رات کے لیے کیا بناؤں؟” غفور نے اس سے پوچھا۔
”جو چاہے بنا لو ، اب تو چند دن مہمان ہیں تمہارے تم جو چاہو کھلاؤ مگر رات کو تو شاید میں کھانے پر نہ آ سکوں۔ بہت دیر سے آؤں گا اور کھانا کھا…مگر عین ممکن ہے کہ آ ہی نہ سکوں مجھے کہیں ادھر ادھر جانا پڑے۔” عمر نے واش بیسن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں سر…میں پھر بھی کھانا بنا لوں گا۔ ہو سکتا ہے آپ آ ہی جائیں۔”
غور نے اس کے پیچھے لپکتے ہوئے کہا۔ وہ اب واش بیسن میں کلی کر رہا تھا۔ غفور کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہ خاموش رہا،غفور اب ٹاول سٹینڈ سے ٹاول اتار کر اسے دے رہا تھا۔ عمر ہاتھ خشک کرنے کے بعد دوبارہ ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کیپ اٹھا کر پہننے لگا۔ غفور نے مستعدی سے موبائل ، سگریٹ کیس اور لائٹر ٹیبل سے اٹھا کر عمر کی طرف بڑھا دیا۔ عمران چیزوں کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ غفور اس سے پہلے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ دروازے کے پاس موجود قد آدم آئینے کے پاس پہنچ کر عمر ایک بار رکا اور اس نے اپنی کیپ پر نظر ڈالی پھر مطمئن ہو کر اس نے دروازے سے باہر قدم رکھ دیا جسے غفور اب کھول چکا تھا۔
”خدا حافظ سر۔” عمر نے اپنی پشت پرروز کی طرح غفور کی آواز سنی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!