امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

”علیزہ بی بی! آپ ہاسپٹل چلی جائیں۔” وہ گاڑی پورچ میں روک کر ابھی نیچے اتر ہی رہی تھی جب مرید بابا نے اس سے کہا۔
”ہاسپٹل کس لیے؟” اس نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”عباس صاحب کا فون آیا تھا، انہوں نے کہا ہے۔” مرید بابا نے بتایا۔
”عباس کا…مگر کیوں؟” اس بار اسے تشویش ہوئی۔
”بس آپ وہاں چلی جائیں۔” مرید بابا نے کہا۔
”نانو اور ممی کہاں ہیں؟” علیزہ پریشان ہو گئی۔
”وہ لوگ شاپنگ کے لیے گئے ہیں۔ عباس صاحب بھی ان کا پوچھ رہے تھے پھر انہوں نے کہا کہ انہیں بھی پیغام دے دیں اور آپ کو بھی…وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ اپنا موبائل آن رکھیں اور ان سے رابطہ کریں۔” مرید بابا نے کہا۔
”کون سے ہاسپٹل؟” علیزہ نے گاڑی میں دوبارہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
”سروسز ہاسپٹل۔” مرید بابا نے کہا۔
”آپ نے ان سے پوچھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے نا؟”
”جی میں نے پوچھا…وہ کہہ رہے تھے، کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے؟”
”کس کا؟”
”عمر صاحب کا۔” اس کے دل کی ایک دھڑکن مس ہوئی۔
”عمر کا…وہ ٹھیک تو ہے؟”




”آپ ان سے بات کر لیں۔ انہوں نے جلدی فون بند کر دیا تھا۔” مرید بابا نے کہا۔
علیزہ نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بیگ سے اپنا موبائل نکالا اور اسے آن کرتے ہوئے عباس کے موبائل پر کال کی۔ لائن مصروف تھی۔ پریشانی کے عالم میں اس نے اپنی گاڑی باہر نکال لی۔ راستے میں اس نے ایک بار پھر عباس کو فون کیا۔ لائن اب بھی مصروف تھی۔ دوسری بار کال کرنے کے بعد فون رکھ رہی تھی، جب دوسری طرف سے کوئی کال آنے لگی۔ اس نے دیکھا، وہ عباس کا نمبر تھا۔
”ہیلو عباس بھائی! عمر کو کیا ہوا ہے؟” اس نے کال ریسیو کرتے ہی کہا۔ دوسری طرف چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عباس نے کہا۔
”تم کہاں ہو؟”
”میں سروسز کی طرف آرہی ہوں۔ ابھی گاڑی میں ہوں…عمر کو کیا ہوا ہے؟”
”کچھ نہیں ، معمولی سا ایکسیڈنٹ ہے، اب ٹھیک ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں، تم آرام سے ڈرائیو کرو…اپنی گاڑی میں آرہی ہو؟”
”ہاں۔”
”اور گرینی…؟”
”وہ میرے ساتھ نہیں ہے۔ شاپنگ کے لیے ممی کے ساتھ گئی ہیں۔”
”ٹھیک ہے، تم آجاؤ۔” وہ اب اسے اس گیٹ کے بارے میں بتا رہا تھا جہاں سے اسے آنا تھا۔
”میں سکیورٹی والوں کو تمہاری گاڑی کا نمبر دے دیتا ہوں، تمہیں روکیں گے نہیں۔” عباس نے کہہ کر فون بند کردیا۔ اس نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
”اس کا مطلب ہے کہ عمر ٹھیک ہے۔”
مگر پھر اسے خیال آیا کہ پتا نہیں اسے کتنی چوٹیں آئی ہوں گی…اور میں نے یہ بھی تو نہیں پوچھا کہ وہ زخمی کیسے ہوا ہے، اسے خیال آیا۔ عباس کو دوبارہ فون کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ سروسز کے پاس پہنچ چکی تھی اور وہ وہاں ہاسپٹل کی چار دیواری کے باہر جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں اور اہلکار دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ چیز غیر معمولی نہیں لگی۔ کسی حادثے میں پولیس کے اعلیٰ افسر کے زخمی ہونے پر پولیس کی نفری کا ہونا ضروری تھا اور پھر وہ جانتی تھی خود عباس بھی وہیں تھا، وہاں سکیورٹی کی بہرحال ضرورت تھی۔
وہ متعلقہ گیٹ سے اندر چلی گئی، اندر پولیس والوں کی تعداد باہر سے بھی زیادہ تھی، وہ گاڑی پارک کر رہی تھی جب اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی، دوسری طرف صالحہ تھی۔ گاڑی کے دروازے کو لاک کرتے ہوئے اس کی نظر سائرن بجاتی ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیوں پر پڑی جو اسی گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھیں۔
”ہیلو علیزہ !” دوسری طرف سے صالحہ کہہ رہی تھی۔
”ہیلو۔”
علیزہ نے گاڑی کے لاک کو چیک کرتے ہوئے کہا۔ اس کی نظر اب بھی اس ایمبولینس پر تھی جو رک گئی تھی مگر اس کے اردگرد پولیس اہلکاروں کا لمبا چوڑا ہجوم تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس میں عمر ہوگا۔ وہ کچھ مضطرب سی ہو گئی۔
”آئی ایم سوری۔” دوسری طرف سے اس نے صالحہ کو کہتے سنا۔
” کس لیے؟” وہ صالحہ کی بات پر کچھ حیران ہوئی۔ اس کی نظر اب بھی ایمبولینس پر تھی جس کا پچھلا دروازہ اب کھل چکا تھا۔
”عمر جہانگیر کی ڈیتھ کے لیے…یقین کرو…مجھے واقعی افسوس ہے۔” موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا۔
”ڈیتھ۔” اس نے بے یقینی سے کہا۔
”میرے خدا۔” وہ ایمبولینس سے نکالے جانے والے سٹریچر کو دیکھ رہی تھی۔
سٹریچر پر موجود سفید چادر جگہ جگہ سے خون آلود تھی۔
فوٹو گرافرز کی فلیش لائٹس…
سٹریچر کے ساتھ چلتا ہوا عباس…
اس کے بہت سارے دوسرے کزنز…
اس نے ایک قدم آگے بڑھایا…دوسرا…تیسرا…اور پھر اس نے خود کو بھاگتے پایا تھا۔
پاگلوں کی طرح ہجوم کو کاٹتے…
ایک پولیس والے نے اسے روکنے کی کوشش کی، اس نے پوری قوت کے ساتھ اس کو دھکا دیا…پھر اس کے کسی کزن نے اسے دیکھ لیا تھا اور دوبارہ کسی نے اسے نہیں روکا۔
وہ بھاگتی ہوئی سٹریچر کے سامنے آئی تھی۔ عباس نے اسے دیکھا تو سٹریچر پر رکھا ہوا ہاتھ ہٹا لیا اور چند قدم تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔ علیزہ کے گرد اپنا بازو پھیلاتے ہوئے اسے ایک طرف کیا تھا۔
سٹریچر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی، وہ اسی تیزی کے ساتھ اس کے سامنے سے گزر گیا…وہ اس کے اتنے قریب سے گزرا تھا کہ ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ چھو سکتی تھی۔ سفید چادر جہاں سب سے زیادہ خون آلود تھی، وہ اس کا سر اور چہرہ ہی ہو سکتا تھا…لیکن وہ ہاتھ نہیں بڑھا سکی۔
وہ یہ یقین ہی نہیں کر سکتی تھی کہ اس سٹریچر پر، اس حالت میں…اس سفید چادر سے ڈھانپا ہوا وجود عمر کا ہو سکتا ہے…
عمر جہانگیر کا…
اس کی نظروں نے آپریشن تھیٹر تک سٹریچر کا تعاقب کیا پھر اس نے گردن موڑ کر پہلی بار عباس کا چہرہ دیکھا۔
”عمر۔” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر حلق سے آواز نہیں نکلی۔ صرف ہونٹوں میں جنبش ہوئی تھی، عباس نے شکست خوردہ انداز میں سر ہلایا۔ وہ بے یقینی سے اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
ایک فوٹو گرافر نے ان دونوں کی تصویر کھینچی…فلیش لائٹ چمکنے پر اس نے عباس کو غضب ناک ہوتے دیکھا۔
”اس باسٹرڈ سے کیمرہ لے کر…دھکے دے کر اسے یہاں سے نکالو۔” وہ اب کسی سے کہہ رہا تھا۔
علیزہ نے چند پولیس والوں کو اس فوٹو گرافر کی طرف بڑھتے دیکھا۔
”عباس کو غلط فہمی ہوئی ہو گی، یہ عمر نہیں ہوگا، کوئی اور ہو گا، عمر اس طرح کیسے۔۔۔” ماؤف ذہن کے ساتھ اس نے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کو دیکھا۔
اس نے عباس کے بازو کو اپنے کندھے سے ہٹانے کی کوشش کی، وہ عمر کو اس کے موبائل پر رنگ کرنا چاہتی تھی۔
اسے یاد آیا، اس کے پاس نہ اس کا بیگ تھا، نہ فون…گاڑی کی چابی تک نہیں تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Read Next

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • It says extended and editted novel. To tarmim to yeh hoti. K umer na marta…and izafa yeh. K dono ki shadi hojati…being a writer u cud ha e done it ☹️

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!