امربیل — قسط نمبر ۴

”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟”
وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی تھیں۔
”پتا نہیں اب کیا پرابلم ہے؟”
نانو بڑبڑائی تھیں۔
”انکل جہانگیر کل پاکستان آئیں گے؟”
اس نے اس بار سوال بدل دیاتھا۔
”نہیں ! پاکستان تو وہ دو دن پہلے ہی آچکا ہے!”
”انہوں نے آپ کو پہلے انفارم کیوں نہیں کیا؟”
”پتہ نہیں !”
”ملنے بھی نہیں آئے؟”
”اب میں کیا کر سکتی ہوں۔ اس کی مرضی ہے۔”
”پہلے تو سیدھا یہیں آیا کرتے تھے۔”
”پہلے تو بات ہی اور تھی۔ پہلے تو تمہارے نانا کی وجہ سے وہ سیدھا یہیں آیا کرتا تھا۔ اب جب سے ان کی ڈیتھ ہوئی ہے جہانگیر بہت لاپرواہ ہو گیا ہے۔”
”انکل لاہور میں ہی ہیں؟”
”پتا نہیں۔ یہ میں نے نہیں پوچھا۔ ہو سکتا ہے، لاہور میں ہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی کراچی میں ہو۔”
”کل کس وقت آرہے ہیں؟”
”کہہ رہا تھا کہ شام کو آئے گا۔”
”آپ نے ان سے پوچھا کہ یہاں کتنے دن رہیں گے؟”
”تم بے وقوف ہو علیزہ ! بھلا میں یہ کیسے پوچھ سکتی تھی۔ وہ سوچتا ماں کو پہلے ہی اس کی واپسی کی فکر پڑ گئی ہے۔”
علیزہ کا چہرہ خفت سے تھوڑا سرخ ہو گیاتھا۔
”نہیں ، میرا یہ مطلب نہیں تھا ، میں تو اس لئے پوچھنا چاہ رہی تھی تاکہ ان کا کمرہ اسی طرح سیٹ کر سکوں۔رہیں گے تو یہیں نا؟”
”ہاں، کہہ تو یہی رہا ہے کہ یہیں رہے گا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ عمر کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہ بتاؤں۔ میں نے کہا کہ عمر تو یہاں ہے ہی نہیں۔ کہنے لگا کہ پھر بھی اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ہونی چاہئے۔”
”انکل جہانگیر نے ایسا کیوں کہا؟”
علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
”آخر عمر سے وہ اپنی آمد کیوں چھپانا چاہ رہے ہیں؟”
”یہ تو میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔”
”پتا نہیں انکل جہانگیر اور عمر کا اتنا جھگڑا کیوں ہوتا رہتا ہے؟”
”دونوں غصہ ور ہیں۔ دونوں ہی اپنی منوانے والے ہیں۔ پھر جھگڑا نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ بہرحال تم جہانگیر کے لئے بھی کمرہ تیار کروا دو۔”
”نانو انکل اکیلے آرہے ہیں؟”
”ہاں ! اکیلا ہی آ رہا ہے۔”
نانو اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی تھیں۔
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے وہاں بیٹھی کچھ سوچتی رہی پھر اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ کمرے میں عمر کے کلون کی مہک ابھی تک موجود تھی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے اسٹڈی ٹیبل کی طرف گئی تھی، وہاں عمر کا وہ اسکیچ موجود نہیں تھاجو اس نے کل وہاں رکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عمر وہ اسکیچ دیکھ چکاتھا۔ اسے نامعلوم سی خوشی ہوئی تھی۔ وہ واپس مڑنے کو تھی جب اس کی نظر اسٹڈی ٹیبل کے پاس پڑی ویسٹ پیپر باسکٹ پر پڑی تھی۔ اس میں صرف ایک مڑا تڑا کاغذ پڑا ہوا تھا اور وہ اس کاغذ کو ہاتھ لگائے بغیر بھی جانتی تھی کہ وہ کونسا کاغذ تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!