
قرض — وقاص اسلم کمبوہ
لاری اڈّے پر ہمیشہ کی طرح ٹریفک کی بہت گہما گہمی تھی۔ میں موٹر بائیک سے اُتر کر بک سنٹر سے دل والے لفافے خریدنے
![]()

لاری اڈّے پر ہمیشہ کی طرح ٹریفک کی بہت گہما گہمی تھی۔ میں موٹر بائیک سے اُتر کر بک سنٹر سے دل والے لفافے خریدنے
![]()

اس کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔ سفید چادر ٹانگوں پر پڑی تھی۔ چہرے پر موت کی زردی بند آنکھوں کے نیچے سے
![]()

توبہ ہے یار ۔۔۔ ابھی تک تم سے ایک فیصلہ نہی ہو پا رہا ۔۔۔؟ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے ۔۔۔ موبائل
![]()

’’یہ مقیت کون ہے؟‘‘ حور عین نے اپنا جھکا ہوا سر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں دروازے کے عین درمیان میں کھڑا سعدی اُس سے
![]()

’’ کل پہلا روزہ ہے نا امی‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں‘‘ امی نے تائید کی۔
![]()

تعلیم کی اہمیت پر ابا جی کے بہت لیکچر سنے، اماں کی صلواتیں بھی سنیں مگر اپنی ازلی ڈھٹائی کی بہ دولت ہم نے مانا
![]()

’’آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘ آنے والے نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’کہاں؟ ویٹنگ روم میں ہے ؟‘‘ اس نے سر اُٹھا کر
![]()

’میں ناہید سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ارسلان کی بات سن کر سارے گھر والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ’’کیا تمہیں لگتا ہے
![]()

سارا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا ۔ مسٹر اور مسز احسن کے چہرے بھی خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ آج علینہ کی دسویں
![]()

رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا
![]()