کلاس روم اس وقت ہنستے کھلکھلاتے ہوئے چہروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر چہرے پر سُرخی تھی۔ ہر لب کے کنارے پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں بائیں ممکنہ حد تک….. کئی ایک کی نظریں اس طرف تھیں۔ اس ایک چہرے کی طرف جو اس بھری جماعت میں سنجیدہ تھا۔ وہ واحد چہرہ کسی اور کا نہیں خود اس کا تھا۔
کلاس ٹیچر سمیت، وہاں موجود ہر لڑکی اس کا مضحکہ اُڑانے میں مصروف تھی۔ اس کے چہرے پر چند لمحے پہلے چمکتی شوق کی برق اب ندامت کے عرق میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اٹھی ہوئی گردن بہ تدریج جھک رہی تھی اور ساتھ میں نگاہیں بھی اور پھر یوں ہوا کہ….
جھکتے جھکتے اس کی نظریں اپنے ان ہی پھٹے ہوئے جوتوں پر جاکر ٹک گئی تھیں جن کا مضحکہ اس بھری جماعت میں اب باجماعت اڑایا جارہا تھا۔
بات بہ ظاہر اتنی بڑی نہیں تھی۔
سالانہ فن فیئر میں لگائے جانے والے اسٹالز کی قیمتوں پربات چل رہی تھی۔ لڑکیاں جوش و خروش سے اپنا نام اور مصنوعات ٹیچر کو لکھوارہی تھیں۔
کوئی آرٹس اینڈ کرافٹس کی مصنوعات لے کر آرہی تھی تو کوئی ثقافتی کڑھائیوں والے ملبوسات کی، کسی کو مہندی میں دلچسپی تھی تو کسی کو چوڑیوں میں۔ چند ایک لڑکیاں کھانے پینے کی شوقین تھیں سو ان کا اپنی پسندیدہ اشیاء کا اسٹال لگانے کا ارادہ تھا۔ اس نے جو اپنی ہم جماعتوں کا جوش و خروش دیکھا تو جلدی سے ہاتھ اٹھادیا۔
اس کے ذہن میں بھی فوری طور پر یہی خیال آیا کہ اگر وہ گھر سے کوئی کھانے کی چیز بناکر لائے تو فن فیئر کے موقع پر اسے بھی اسٹال لگانے اور چند روپے کمانے کا موقع مل سکتا ہے۔ لیکن ٹیچر نے نہ صرف اس کے ارادوں پر پانی پھیرا بلکہ اس کی اچھی خاصی بے عزتی بھی کردی تھی۔
”میرا خیال ہے کہ جن پیسوں سے آپ اسٹال خریدنے چلی ہیں۔ ان ہی سے اپنے لیے نیا یونی فارم اور جوتے خرید لیں تو آپ کے لیے زیادہ بہتر ہو گا۔” اس کی اسٹال خریدنے والی بات کے جواب میں، ٹیچر نے خاصے طنزیہ انداز میں سر پیر تک جس انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا اس سے نہ صرف کلاس میں چند لمحے کے لیے خاموشی چھاگئی تھی بلکہ اس کے بعد ابھرنے والے قہقہوں نے اسے اس کی اوقات اور حیثیت بھی اچھی طرح باور کرادی۔
اسے یوں لگا جیسے کسی نے بھرے بازار میں اسے کیچڑ میں دھکا دے دیا ہو۔ وہ سر سے پیر تک غلاظت میں لت پت بے بسی سے چاروں جانب کھڑے لوگوں کو ہنستے اور لطف اٹھاتے دیکھ رہی تھی لیکن کچھ کر نہیں پارہی تھی۔
کچھ دیر تک یونہی اس کی ذات کو مذاق کا کا نشانہ بنانے کے بعد ٹیچر اور دوسری ہم جماعت لڑکیاں دوسری جانب متوجہ ہوگئی تھیں۔ لیکن اپنی جگہ ساکت کھڑے سے واپس بیٹھنے تک اس کے دل میں اپنی خواہش پوری کرنے کا خیال راسخ ہوچکا تھا۔
”میں فن فیئر میں حصہ ضرور لوںگی۔ چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے” سیٹ پر واپس بیٹھنے سے لے کر چھٹی کی بیل بجنے پر اپنا بیگ اٹھاکر اسکول سے باہر آنے تک اس کے ذہن میں یہی سوچ پلتی رہی اور وہ وقتاً فوقتاً اس سوچ میں پختگی کا پانی اپنے ارادوں میں ڈالے جارہی تھی۔
پورے راستے اس کا سر جھکا رہا۔ ایک کے بعد ایک بڑھتے قدموں پر جمی نظروں میں ہر قدم کے بعد اپنے پھٹے ہوئے جوتے دیکھ کر غصہ کچھ اور بڑھ جاتا تھا۔ پورا راستہ وہ روز کی طرح گھٹنوں سے اچکتی قمیص ہاتھوں میں دبوچ کر نیچے کھینچتی رہی اور دل ہی دل میں اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ارادے پختہ کرتی رہی تھی۔
”ضرور حصہ لوںگی چاہے کچھ ہوجائے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔”
******
وہ ایک بھرپور دوپہر تھی۔ دھوپ ابھی دیواروں سے سر تک نہیں پہنچی تھی جب اس نے اس چھوٹے سے اسٹور نما کمرے میں قدم رکھا اور متلاشی نظریں چاروں طرف دوڑائیں۔ہر طرف دھول مٹی میں اٹا ہوا کاٹھ کباڑ ہی اس کا منتظر تھا۔ لیکن اسے اسی کاٹھ کباڑ میں سے اپنے لیے کام کی چیز تلاش کرنی تھی اور پھر وہ واحدکام کی چیز اس کی کھوجتی نگاہوں کے سامنے آگئی۔
چھوٹے سے کمرے کی میلی کچیلی دیواروں میں سے ایک پر لگے سوئچ بورڈ کے کئی ایک بٹنوں میں سے صرف دو ہی کام کرتے تھے۔ ایک پنکھے کے لیے اور دو پیلے زرد روشنی والے بیمار بلب کے لیے ۔ میل سے سیاہ پڑتے سوئچ بورڈ میں صرف یہی دو بٹن استعمال کے باعث قدرے صاف اور اصلی رنگت کے قریب تر تھے۔
اس نے نزدیک جاکر باری باری دونوں بٹنوں کو کھول کر چیک کیا۔ دونوں بٹن بالکل ٹھیک کام کررہے تھے۔ تسلی کے بعد اس نے اپنی مطلوبہ چیز کی طرف قدم بڑھادیے۔نزدیک جاکر اس نے مطلوبہ چیز کو دونوں ہاتھوں میں اٹھاکر اس کی جسامت کو نظروں میں تولا اور مطمئن ہوکر واپس رکھ دیا۔ یہ مرغیاں بند کرنے کا وہ ٹوکرے نما ڈبہ تھا جیسے زمین پر اوندھا کرکے مرغیاں بند کی جاتی ہیں۔ڈربہ اس وقت دھول مٹی اور مکڑی کے جالوں سے اٹا ہوا تھا۔ اسے اٹھاتے ہی دو ایک مکڑیوں نے نکل کر زمین پر تیزی سے بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کی پھرتیلی چپل تلے آکر جان سے گئیں۔
اس نے ڈربے کو دو تین بار زور سے زمین پر مارا۔ بے حد معمولی سی ”دھپ” کی آواز کے بعد واپس رکھ دیا۔ ایک نظر مڑ کر اپنے مطلوبہ ہدف پر نظر ڈالی۔ پھر اپنی نظروں کی رینج کے مطابق ڈربے کو سیٹ کیا اور بالآخر بالکل مطمئن ہونے کے بعد ڈربے کے قریب اکڑوں بیٹھ گئی۔
دونوں ہاتھوں سے ڈربے کو اٹھاکر اپنے سر پر اوڑھا۔
”اوں ہونہہ” ڈربہ بڑا تھا لیکن اتنا نہیں کہ وہ اتنی آرام دہ پوزیشن میں اس میں بیٹھ سکتی۔ ایک اور کوشش کے طور پر اس نے گھٹنے زمین پر رکھے اور خود کو بالکل نیچے کی طرف جُھکالیا۔ پھر ہاتھ بڑھاکر ڈربہ اونچا کیا اور خود پر اوڑھا۔ لیکن نہیں…. وہ ڈربے میں چھُپ گئی تھی۔ لیکن اس طرح کہ اس کے بعد کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ اسے اس حالت میں خود کو چُھپانا تھا کہ کسی نظروں میں آئے بغیر کامیابی سے اپنا کام کرسکے۔
مایوس ہوکر وہ ایک بار پھر کھڑی ہوئی۔ ایک بارپھر اردگرد نظریں دوڑائیں اور اس بار اسے پہلے سے زیادہ بہتر چیز نظر آتی۔
وہ اوپر تلے رکھے ہوئے لوہے کے ٹرنک تھے جن کے اندر خود اس کے ناکارہ سامان کو قیمتی کا لیبل لگاکر محفوظ کیا گیا تھا بلکہ سالہا سال سے کیا جارہا تھا۔ ذرا سی کوشش کے بعد وہ ان ٹرنکوں کے اوپر ڈربے سمیت پہنچ چکی تھی۔
کمرے میں موجود واحد روشن دان اس کے سر سے ذرا سا ہی دور تھا۔ اس نے دیوار سے ٹیک لگائی اور دیوار کے سہارے اس ڈربے کو ترچھا کھڑا کرکے خود کو اس میں چھپالیا۔
”ہم….. م….. م….”
ایک بے حد مطمئن گہری سانس ہلکی سی آواز کے ساتھ اس کے سینے سے آزاد ہوکر فضا کو مرتعش کرگئی۔
اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے اور گردن کو حرکت دینے کی بھی گنجائش موجود تھی۔ پوزیشن سنبھال کر سب سے صبر آزما مرحلے کا آغاز ہوا اور وہ مرحلہ تھا انتظار کا مرحلہ۔ جب اس کے مطلوبہ اشخاص کمرے میں داخل ہوکر اس کے ہدف پر اپنی اپنی جگہ سنبھال لیتے۔
******
چھوٹے سے صحن میں چلچلاتی ہوئی دھوپ پورے طمطراق سے اپنی زلفیں بکھرائے اسی کی آمد کی منتظر تھی۔ اس کا دماغ کلاس روم میں ہونے والی بدکلامی نے ویسے ہی گرم کر رکھا تھا۔ مزید کسر دروازہ کھلنے میں دیر نے پوری کی۔
گرمی کی حدت سے تپتا سرخ ہوا چہرہ اور سوکھتا ہوا گلااس وقت دروازہ کھولنے والے کو ہی کچا چبانا چاہتا تھا۔ لیکن اسے اپنی خواہش پر بند باندھنا پڑا۔
دروازہ کھولنے والی صابرہ تھی۔ جس کے پاس اپنی اس سب سے ان وانٹڈ اولاد کا سلام سننے اور رُک کر جواب دینے تک کا وقت نہیں تھا۔اس نے اندر داخل ہوکر ایک تیز نظر صابرہ کی پشت پر ڈالی۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس کی آنکھوں میں کوئی غیر مرئی طاقت ہوتی تو اس وقت یقینا صابرہ کی پشت میں دو سوراخ ہوچکے ہوتے۔
صابرہ کو اس کی آمد سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے صرف دوپہر کے کھانے سے مطلب تھا۔ جو نظام الدین کے آنے سے پہلے ہر حال میں تیار کرنا تھا اور یہ اس کے لیے اس کی زندگی کاسب سے مشکل اور کٹھن ترین کام تھا۔ ابھی سے نہیں ہمیشہ سے اور شاید ہمیشہ رہا تھا۔ اندر ہی اندر کڑھتے ہوئے اس نے جلتا ہوا صحن پار کرکے برآمدے میں قدم رکھا۔ جھلنگے پلنگ پر ”بلو”، بیٹھا خربوزہ کھارہا تھا۔آن کی آن میں وہ اپنی حالت، صابرہ، دھوپ گرمی، اسکول، پھٹے جوتے، میلا، پیسے سب بھول گئی۔ لمحہ بھر رک کر اس نے للچائی اور منت آمیز نظروں سے بلو کی طرف دیکھا۔
”بلو…. ایک چکھ دے۔”
”نہیں۔” حسبِ توقع اس نے لمحے سے بھی کم وقت میں خربوزے کی پلیٹ کو کمر کے پیچھے کرکے ہری جھنڈی دکھادی۔
اس کے سوئے ہوئے زخم جاگ کر ہرے ہوگئے۔ اس نے بے انتہا زور دے کر داہنے کندھے کو دکھاتا ہوا بھاری بھرکم بیگ اتارا اور سیدھا بلو کے منہ پر دے مارا۔
بلو اس حملے کے لیے تیار ہوتا تب بھی وہ اس کے وزنی بیگ کی تاب نہ لاسکتا تھا۔ نتیجتاً خربوزے کی پلیٹ سمیت پلنگ سے نیچے گرا اور حلق پھاڑ کر رونے لگا۔
اس کے دل کو ذرا سکون ملا۔
”منی آگئی تو…. مجھے بلو کے رونے کی آواز سے پتا چل گیا۔”
نیم اندھیرے کمرے میں نیچے فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی کنول نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ہلکے سے ہنس کر کہا تھا۔ وہ جانتی تھی اس ہنسی میں بھی اس کے لیے سراسر طنز شامل ہے۔
اس نے دہلیز پر رک کر کنول کو دیکھا۔
وہ اپنی شادی کے لیے جہیز میں رکھے جانے والی کسی جوڑے کے دوپٹے پر زرتار بیل ٹانک رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اس وقت بڑا سکون اور لبوں پر بڑی خاص قسم کی مسکراہٹ تھی۔ اس نے کنول کی بات کا جواب نہیں دیا بلکہ بڑی بے نیازی سے آگے بڑھی اور زمین پر ہلکے پیلے رنگ کے دوپٹے پر اپنا مٹی دھول اور کیچڑ سے اٹا ہوا جوتا رکھتی ہوئی گزرگئی۔
”منی”
اگلے ہی لمحے کنول کے حلق سے دل خراش چیخ نکلی۔ آسمانی رنگ کے دوپٹے پر جوتے کا ڈیزائن چھپ چکا تھا۔
”اندھی ہے کیا دیکھ نہیں سکتی تھی۔ میرا اتنا خوبصورت دوپٹہ ناس مار دیا۔”
”کیا ہوا؟”
اس نے بے حد اطمینان سے بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہوئے بہن کی طرف دیکھا جس کی شکل اپنے دوپٹے کی درگت بننے پر رونے والی ہوگئی تھی۔
”اوہو… سوری، سوری کلو…. اندھیرا ہے نا، دھوپ میں سے آئی تو دکھائی نہیں دیا کہ تیرا دوپٹہ پڑا ہے۔”
”جھوٹ بولتی ہے منحوس ماری۔ اتنے پیارے دوپٹے کا حشر کر دیا۔”
کنول کی تلملاہٹ کی کوئی حد نہیں تھی۔ لیکن اس کی اپنی شخصیت کی بہرحال کچھ حدود تھیں۔ عمر میں بہن سے بڑی ہونے کے ناطے وہ صرف زبانی کھینچا تانی یا بہت ہوا تو گالم گلوچ تک ہی محدود ہوتی تھی ورنہ اس کی چھوٹی بہن کا کچھ بھروسہ نہ تھا کہ ہاتھا پائی میں کسی بھی جنگلی پہلوان کو مات دے دیتی۔
”تو کیا ہوا۔ غلطی سے پیر پڑگیا۔ جاکے دھولونا”
اس کی بے نیازی عروج پر تھی اور کنول جانتی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ منہ بناکر بکتی جھکتی دوپٹہ اٹھاکر باہر نکل گئی۔
وہ جانتی تھی کنول اتنی شریف بھی نہیں کہ اس حرکت کو یونہی ہضم کرجائے۔ ابا تک اس کی پہنچ نہیں تھی لیکن صابرہ تک وہ خود پر بیتے ظلم کی داستان ضرور پہنچائے گی مگر اس کی جوتی کو بھی کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔
اس نے ایک کے بعد ایک گندا جوتا اتار کر ہوا میں اڑادیا۔ اپنی لمبی چادر کو گولا بناکر پلنگ کے نیچے گھسیڑدیا۔
پیٹ میں دوڑتے چوہوں کو فی الحال گھنٹے بھر تک یونہی دوڑتا تھا۔ کیوں کہ گھر کا اصول تھا کہ نظام الدین کے کھانا کھانے سے پہلے گھر کے کسی بھی دوسرے فرد کو تازہ ہنڈیا میں کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ اور یہ اصو ل بھی بہ قول خود اس کے، اس گھر کے چند ایک… اصولوں میں سے ایک تھا۔ خالی جگہ میں وہ اپنے موڈ اور موقع کی مناسبت سے کوئی بھی لفظ لگالیتی تھی۔ جو بہرحال دائرہ اخلاقیات سے باہر ہی ہوتا تھا۔
کنول نے ماں کے سامنے پھپھولے پھوڑے۔
باورچی خانے میں حال سے بے حال پسینے اور گرمی میں چولہے کے آگے جھکی ماں کے لیے اس کی حرکت، اسے اور مزید آگ لگانے کے مترادف تھی لیکن جب تک صابرہ چنگھاڑی۔ وہ خالی پیٹ لیٹے، پلنگ پر گر کربے سدھ ہوچکی تھی۔ اس بات سے بے خبر، کہ بلو کی آہ و بکا اور کنول کی رونی صورت پرتاؤ کھاتی ماں، اپنے پھیپھڑوں کا زور لگاتی اسے پکار رہی تھی۔
”منتشا…. ا …. ا…..”
******
سر میں ابلتا پسینہ دھاروں کی صورت بہتا ہوا اب کمر پر لکیریں بنارہا تھا۔اس کی پتلی کمر گیلی ہوکر دیوار پر سیلن زدہ نشان چھوڑرہی تھی۔سر سے ذرا اوپر کھلے روشندان سے سورج کی دھوپ اپنی تپش اس پر یوں نچھاور کررہی تھی۔ جیسے کوئی داسی اپنے بھگوان پر منت کے پھول نچھاور کرتی ہے۔
مڑے ہوئے گھنٹے دہائیاں دینے لگے تھے۔ شدید گرمی کے سبب ہر تھوڑی دیر بعد پیدا ہوتی بے چینی نے اسے، اس کے پلان اور ضرورت سے ذرا بے رغبتی اور بوریت کا احساس پیدا کردیا تھا۔
جن دو شخصیات کی شخصی خوش نمائی کا بیڑہ غرق کرنے آج وہ یہاں بیٹھی تھی۔ اگر انہوں نے آنے کا ارادہ کینسل ہی کردیا تو….
اس سے آگے سوچ کر ہی اس کی ہمت جواب دیتی جارہی تھی۔
دن کی روشنی کسی الہڑ مٹیار کی طرح شام کے سنولائے ہوئے محبوب سے ذرا پرے اکڑوں بیٹھی، دھیرے دھیرے اس کی اور سرکتی تھی۔ اور اس کا دل اس الہڑ مٹیار کی ڈھلی عمر کا سوچ کر کچھ اور بے چین ہوا جاتا تھا۔
”اللہ! کہیں شام نہ ہوجائے۔”
یہ خود کلامی نہیں تھی۔ بلکہ اتنی دیر سے کی جانے والی محنت اور جان لیوا انتظار کے اکارت چلے جانے دکھ بھری پکار تھی۔ اور شاید ہی پکار سن لی گئی تھی۔
عین اس وقت جب وہ تنتنا کر مرغی کا ڈربہ خود پر سے ہٹاکر ٹرنک سے نیچے لڑھکانے والی تھی۔ کمرے کا ہلکی ہوا سے بھڑجانے والا دروازہ بے حد معمولی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھلا۔
چار قدم اندر داخل ہوئے۔
چوروں سی چاپ….
مدھم مسکراہٹ….
چپکی چپکی چہ مگوئیاں…
چوکنی چال….
وہ خود بھی چوکنی بلی کی مانند بیٹھ گئی۔
اندر آنے والے دو نفوس تھے دونوں ہی اس کے جانے پہچانے تھے اور اسے یقین تھا کہ آنے والے وقت اسے بھی اچھی طرح پہچان جائیںگے۔
ابھی دھوپ نے سکڑ کر سائیوں کی گود میں پناہ لینا شروع نہیں کی تھی۔
اندر داخل ہونے والوں نے پنکھا چلادیا۔ اور اوپر گرمی اور پسینے میں سڑتی ہوئی اس کی جان تازہ دم ہوگئی۔
”اوفوہ، تھوڑا دور تو ہٹو”
نسوانی آواز میں الفاظ کے برعکس ایک خاص قسم کا بلاوا تھا۔ تبھی معنی خیز مردانہ ہنسی فضا میں بکھرگئی۔
”دیکھیں گے ہم بھی۔ یوں کب تک دور ہٹاؤگی۔”
اس نے اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالا۔ اور ایک چمکتا ہوا اسمارٹ فون باہر نکالا۔ یہ فون اس نے کہاں سے حاصل کیا تھا۔ یہ بھی ایک الگ اور لمبی کہانی تھی۔ فی الحال تو وہ بے آواز بٹنوں سے کھیلتی رہی۔ اور ان دھوکے بازوں کی بے خبری سے بھی….
******
یہ چوبیس گھنٹے اس کی زندگی سب سے مشقت بھرے چوبیس گھنٹے تھے۔
بارہ گھنٹے اس نے ذہنی مشقت جھیلی تھی صرف یہ سوچ کر دماغ تھکانے میں کہ اسکول میں لگنے والی مینا بازار کے دکان داروں کا حصہ بننے کے لیے اسے جو رقم درکار تھی۔ وہ اسے کہاں سے ملے گی گو کہ رقم بہت معمولی تھی۔ لیکن اس جیسی لڑکی کے لیے کبھی کوئی چیز معمولی نہیں رہی تھی۔سوائے خود اس کے اور اس کی زندگی کے… جو اس کے اپنے خیال میں گھر والوں کے لیے معمولی سے بھی کوئی کم درجہ چیز تھی۔
اس وقت اس معمولی خاندان کی معمولی فرد کے معمولی ذہن کیا غیر معمولی کھچڑی پک رہی تھی۔ اس سے بے نیاز سامنے بیٹھی صابرہ نے ایک گالی سے نواز کر اسے اپنی ٹانگیں دبانے کو کہا تھا اور بند مٹھی کھول کر ہاتھ میں ہوئے پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ نکال کر ان کی شکنیں دور کرنے لگی تھی۔
اپنے پلنگ پر نشئیوں کی طرح پڑی منتشا نے کسی قدر سستی اور حد درجہ بے زاری سے اس کے حکم کو سنا جسے بجالانے کے اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ لیکن اس کا ارادہ اتنی جلدی بدلے گا اس بارے میں اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا۔صابرہ نوٹ دیکھ کر اچھی طرح تشفی کرنے کے بعد انہیں اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ رہی تھی۔وہ یونہی پڑی ترچھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ جب صابرہ گرہ کس چکی تو بہ ظاہر بڑی بے زاری اور دل نہ چاہنے والے انداز میں اٹھ کر اس کی پائنتی پر آ بیٹھی۔
رات دھیرے دھیرے بھیگ رہی تھی۔ گھر والے نیند میں جاچکے تھے اور صابرہ بھی انٹا غفیل ہونے ہی لگی تھی۔ جب نیندوں میں اس نے اپنی بیٹی کی آواز سنی۔
”اماں…. اپنا دوپٹہ تو دیکھ کس قدر ناس مارا ہورہا ہے۔ تم نے کیا بلو کی ناک بھی اسی سے صاف کی ہے۔”
اس کی آواز اتنی ہی بلند تھی کہ صابرہ کے حواس پر جاگ اٹھے لیکن اٹھ کر چار قدم دور سوئی کنول تک نہ پہنچے۔
”ہوں…. ں…..” صابرہ کے جڑے ہوئے لبوں سے بے ربط ہنکارا نکلا۔
”کل دے دینا میں دھودوںگی یا کلو مشین لگائے گی تو دھودے گی۔”
اس نے بے حد احتیاط سے اس محبت کا مظاہرہ کیا جس کا حقیقت میں اس کے دل و دماغ میں تو کیا۔ اس کے لب و لہجے تک میں شائبہ نہ تھا۔
صابرہ ایک بار پھر بے ڈھنگی ”ہوں” کرکے بے خبر ہوچکی تھی۔
اس نے سرہانے پڑا دوپٹہ اٹھایا۔ بغل میں دابا۔ بے حد احتیاط سے چارپائی سے اتر کر الماری کھولی۔ اور اس میں سے بالکل اس دوپٹے جیسا دوسرا دوپٹہ نکالا۔ گھر میں عموماً ایک ہی ڈیزائن کے کپڑے ساری عورتوں کے لیے اکھٹے لاکر سلوالیے جاتے تھے جن کی درزن کنول ہی ہوتی تھی۔ بے پروائی کا یہ عالم تھا کہ رنگ تک مختلف نہ ہوتے تھے۔ بہ قول ابا کے اس طرح کپڑوں کے خرچے میں تھوڑی بچت ہوجاتی تھی۔
یہ بھی گھر کے اصولوں میں سے ایک تھا کہ خواتین کے لیے پورا تھان خرید کر سب کے یونی فار م سی دو اور منتشا نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے لے کر کل تک اس اصول پر جی جان سے لعنت بھیجی تھی۔ لیکن آج اسے اس اصول پر ٹوٹ کے پیار آرہا تھا۔
اپنا دوپٹہ گول مول کرکے ماں کے سرہانے رکھنے کے بعد وہ اس کے دوپٹے کی گرہ کھولتی اپنے اسکول بیگ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
کوئی نہیں جانتا تھا اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے مگر جو بھی چل رہا تھا۔ وہ آگے چل کر کس قدر جنجال میں بدلنے والا تھا اسے سو فیصد یقین تھا۔ اس لیے اسے خود کو بچا کر دوسروں کو اس جنجال میں جھونکتا تھا۔
اسے زہر پلانا تھا لیکن اس طرح اس کی انگلیوں کی پوروں پر اس زہر کے چھینٹے تو کیا اس کی بو تک نہ ملے….
******
اگلا دن اس کی توقع کے عین مطابق پوری ہنگامہ خیزیوں سمیت طلوع ہونا تھا لیکن، فی الحال یہ ہنگامہ خیزیاں صابرہ کی بے خبری اور بھائی اور باپ کے لیے ناشتے کی تیاریوں میں دبی ہوئی تھیں۔
کومل مشین لگاکر کپڑے ڈال کر ماں کے ساتھ باورچی خانے میں لگی ہوئی تھی۔ منتشا کو اندر آتا دیکھ کر اس نے رات کی بچی ہوئی روٹی تل کر چائے کے ساتھ جلدی سے سامنے لا رکھی اور اس کے ہمیشہ کی طرح بنا کچھ بولے چند نوالے زہر مار کیے اور تلخ چائے کا پورا کپ سِنک میں انڈیل لیا۔
ہاف فرائی انڈے اور آملیٹ کا ناشتہ نظام الدین اور اس کے وارثین کے لیے تھا۔ ان سے بچ جاتا تو یقینا باقی جملہ خواتین کے حصے میں بھی آ ہی جاتا لیکن اسکول کے لیے نکلتی منتشا کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ اور عافیت بھی اسی میں تھی کہ صابرہ کے ہوش میں آنے سے پہلے ہی گھر سے باہر نکل جائے۔
فی الوقت تو وہ رات میں بستر پر رکھا گیا دو پٹہ اوڑھے بے خبری میں جلدی جلدی کام نمٹارہی تھی اور اس کی یہی بے خبری منتشا کے لیے پروانۂ رہائی تھی۔ اس نے ایک چور نگاہ ماں کے پلوؤں پر ڈالی۔ جہاں کسی کنارے پر کوئی گرہ نہیں تھی۔ اور صابرہ بڑی مطمئن سی پراٹھے کے پیڑھے کو کبھی لمبا کبھی گول، کبھی لپیٹ تو کبھی کھول کر بل دے رہی تھی۔
وہ بیگ کندھے پر ڈال کر باہر نکلی۔ بے حد محتاط نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ کر اس حصے میں آئی جہاں مشین میں ڈالے جانے والے کپڑے کچھ زمین پر پڑے تھے۔ اور کچھ پہلے سے سرف میں بھگوئے گئے تھے۔
اس نے پہلے کپڑوں کے ڈھیر میں ہاتھ مارکر مطلوبہ دوپٹہ تلاش کیا۔ جلدی جلدی الٹے سیدھے اس کے کنارے کھولے پوری صفائی اور پلاننگ کے باوجود اتنی بڑی رقم کے خلاصہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں نامحسوس سی لرزش اتر آئی تھی اور دل اچانک ایک سو اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے لگا تھا۔
گرہ موجود تھی۔ اور اندر لپٹی شے بھی۔….
محض لمحہ بھر کے لیے دو پٹہ مُٹھیوں میں دبوچ کروہ کسی سوچ میں پڑگئی۔
اسی دم غسل خانے کے دروازے سے کسی کے کھنکھارنے کی آواز آئی۔ وہ جیسے ہڑبڑا کر جاگی اور فوراً دوپٹہ اٹھاکر سرف اور پانی سے بھری بالٹی میں بھگودیا۔ پھر دھڑکتے دل کے ساتھ پلٹ کر دیکھا۔
غسل خانے کے دروازے پر نظام الدین دھلے ہوئے چہرے اور کھچڑی بالوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے جلدی سے سلام کیا۔
”السلام علیکم ابا۔” اور اسی تیزی کے ساتھ گھر سے نکلتی چلی گئی۔
نظام الدین کے مزاج کی بھی اسے آج تک سمجھ نہیں آئی تھی۔ اسے یوں اسکول جانے کے لیے تیار لیکن میلے کپڑوں کے ڈھیر کے پاس کھڑا دیکھ کر کچھ بعید نہ تھا کہ اسے اچانک کنول پر پیار اور اس پر غصہ آجاتا۔ اور وہ اسے اچانک اسکول سے چھٹی کرکے کپڑے دھونے کے کام پر لگادیتا۔ اس وقت وہ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اسکول جانے کے لیے سر سے پیر تک تیار کھڑی ہے۔
بے موقع اور بے محل، صورتِ حال کے بالکل خلاف جاکر حکم جاری کرنا، اور گھر کی عورتوں سے بالجبر کروانے میں جانے اس کی کونسی مردانہ نفسیاتی جس کی تسکین ہوتی تھی۔ جس کا مظاہرہ وہ اکثر تو نہیں مگر کبھی کبھار گھر میں کر ہی جاتا تھا۔
کبھی بازار کے لیے نکلتے وقت عین ٹائم پر صابرہ کو روک لیتا۔ منتشا تو خیر کم ہی ساتھ ہوتی لیکن کنول ہڑ ہڑاکر رہ جاتی۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں ذاتی چیزوں خصوصاً شادی سے متعلقہ سامان کی خریداری کی چمک اس وقت اس کے چہرے پر ماند پڑتی۔ تو نظام الدین کے ساتھ ساتھ منتشا کو بھی یک گونہ سکون کا احساس ہوتا۔ لیکن اسی وقت اگر کنول کی جگہ منتشا خود ہوتی تو بس نہ چلتا کہ ساری دنیا کو آگ لگادے۔
کبھی کسی شادی یا تقریب میں روانگی سے پہلے چائے یا کھانا کھاکر چلنے کی رٹ لگادیتا۔ تو کبھی سارے بچوں کو دسترخوان پر سکون سے کھاتے دیکھ کر اتنا غدر مچاتا کہ ساری اولادیں کان دباکر آدھا ادھورا کھاکر ادھر ادھر کھسک لیتیں اور صرف بے چاری صابرہ، صبر کرنے کو رہ جاتی۔
منتشا اپنے باپ کی عادت اور اس کے ضدی بچے جیسے (حرام خور بہ قول منتشا) دل کی کلاٹھیوں سے خوب واقف تھی۔ اس لیے اڑتی ہوئی دہلیز پار کر گئی اورگلی کے نکڑ تک پہنچنے تک، پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
ابھی اسے اسکول اور گھر سے بہت دور دراز کہیں جاکر پانچ ہزار کے نوٹ کا کھلا بھی کروانا تھا۔ کیوں کہ صابرہ کے دوپٹے میں بندھی جس رقم کو آج واشنگ مشین کی گھن گھیریوں کی نظر ہوکر پرزہ پرزہ ہونا تھا۔ وہ رقم بہرحال دوپٹے کے پلو میں نہیں منتشا کی تحویل میں تھی۔
******
بے اختیار اس کا دل چاہا کہ سامنے بیٹھی عورت کی گردن مروڑ دے۔ اس کا موٹے نقوش، پمپلز کے نشانات اور گہری رنگت والا چہرہ گردن کی پشت پر لے جاکر اس کی چنی چنی آنکھوں کو باہر ابلتا ہوا دیکھے۔
یہ خواہش نہ بہت نئی تھی نہ غیر معمولی۔
وہ سامنے بیٹھی تن فن کرتی اس لڑکی نما عورت کا منگیتر تھا۔ اور اس کے بارے میں اکثر و بیشتر اس قسم کے خیالات کا اعادہ کرتا رہتا تھا۔ اس کا لایا ہوا پیش قیمت جیولری سیٹ، سرخ دیکھتے ہوئے رنگوں والے گلابوں کا یہ بڑا سارا بوکے اور کم ازا کم پانچ پونڈ وزنی کیک اس وقت بیڈ کے کنارے پر پڑے بلکہ گرے پڑے اپنی قسمت کو رورہے تھے۔اس نے ہاتھ میں لیا، اس بوکے گفٹ اور کیک کو چھونا تو درکنار ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسے ”جانو، سویٹی، اور سویٹ ہارٹ” قسم کے القابات سے مخاطب کرتا، اس کی ناراضگی دور کرنے کی جان توڑ کوشش کررہا تھا۔ یہ الگ بات کہ دل میں اس کا منہ توڑدینے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔
دوسری طرف وہ تھی۔
وہ ایک بلا تھی اور عموماً جس عورت کو بلا کہا جا تاہے۔ وہ ساتھ ساتھ خوبصورت بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہ صرف اور صرف ایک بلا تھی۔ بلائے ناگہانی کی طرح کبھی بھی کہیں بھی نازل ہوجانے والی۔ طوفان کی طرح تڑاتڑ بلا لحاظ بولنے والی اور تفتیشی افسر کی طرح تابڑ توڑ سوالات کرنے والی۔اس وقت بھی منہ پھیرتے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے شخص کو مکمل طو رپر نظر انداز کیے، موبائل میں مگن تھی۔ جب اس نے اپنی پشت پر ابھرتی آواز سنی۔
”مجھے کیسے اس سرپرائز پارٹی کا علم ہوسکتا تھا جب کہ تمہاری برتھ ڈے تو کل تھی بھی نہیں۔”
اس کے اسکرین سے ٹکراتی انگلیاں ذرا کی ذرا رکیں۔
”یہی تو میرا سرپرائز تھا۔”
پشت پر کھڑا مرد ہونق سا ہوگیا۔
”کیا مطلب۔”
”اب مطلب بھی میں بتاؤں تم کو۔ میری برتھ ڈے تھی نا، دل کررہا تھا۔ میں نے سرپرائز پارٹی رکھ لی۔ کسی کو اور خاص طور پر تمہیں کیا تکلیف تھی جو بیٹھ گئے میٹنگ میں جاکے۔”
”میری میٹنگ شیڈولڈ تھی۔ تمہاری سال میں دو دو تین تین بار آنے والی برتھ ڈیز کی طرح کوئی کھیل مذاق نہیں تھا۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں ناگواری چھلک آئی۔ اور اس نے اس لڑکی نما عورت کو حیرت سے منہ کھول کر پلٹتے دیکھا۔ دفعتاً مرد کو احساس ہوا کہ اس کے منہ سے کوئی انتہائی غلط نوعیت کی بات نکل گئی ہے۔ اور اس کی نوعیت تبدیل کرنے یا تلافی کرنے کا وقت بھی نکل گیا ہے۔ ”تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ میں اور میری مصروفیات فضول ہیں۔ How dare you say that(تمہاری اس طرح کہنے کی ہمت کیسے ہوئی)۔
وہ غضب ناک سی ہوکر غرائی۔