سوزِ دروں — سندس جبین

”کچھ بتانے کے لیے ہے ہی نہیں خالہ۔” اُس کی آنکھوں میں اضطراب کودا تھا۔
”تم نے بہت کچھ کیا ہے اُس کے لیے، آج اگر وہ اس مقام پر ہے تو وجہ تم ہو فیض۔ اگر تم نہ بتاتے تو میں کیسے جان پاتی کہ نورالصباح کو کیسے سمیٹنا تھا ؟ کیسے اُسے گائیڈ کرنا تھا ؟ یہ تو تم تھے فیضان جس نے دن رات اُس پر انویسٹ کیا ، نوٹس، بکس ، لیپ ٹاپ یہ سب میں نے کب کیا اُس کے لیے ؟؟یہ سب تو تم نے کیا ناں اور تم کہتے ہو کہ بتانے کیلئے کچھ ہے ہیں نہیں۔” وہ حیرت سے بولتی چلی گئیں۔ نورالصباح کے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی جارہی تھی ۔
”محبت ہے نا اُس سے ، اور محبت میں ”احسان” نہیں کیا جاتا۔ نہ ”احسان” جتایا جاتا ہے۔ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ وہ خود کو ضائع نہ کرے ، اپنا نام بنائے اور اللہ کا شکرہے آج وہ کامیاب ہے ، اس معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتی ہے ۔” وہ نرمی سے بول رہا تھا ۔اُس کے چہرے پر سکون تھا اور آنکھوں میں اُس کے لیے بات کرتے ہوئے ایک اُنس تھا ۔ اب مزید سننا ممکن نہ تھا۔ وہ بے جان قدموں سے پیچھے ہٹی ، پتا نہیں اُس کا ذہن کیوں سُن ہو رہا تھا ۔ اُس نے بے جان ہاتھوں سے وہ پھول ملازمہ کو دیے اور ایمر جنسی کا کہہ کر باہر نکل آئی ۔





اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھارہا تھا ۔
”فیضان، محبت ، احسانات؟؟؟”
انکشافات اتنے بڑے تھے کہ وہ سہ نہیں پارہی تھی، اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی کے اس موڑ پر اس کی ملاقات فیضان سے ہوگی۔
اُس کا کردار ایک بگڑے رئیس سے بڑھ کر ایک مہربان اور بے غرض انسان میں کب بدلا؟
اُسے ”نورالصباح” سے کیسی محبت تھی ؟
وہ کون تھا ؟ پاگل ،دیوانہ ،سرپھرا۔۔۔۔ وہ کیا تھا؟ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔
اُسے رونا آرہا تھا ۔
کیوں تھا و ہ اتنا اچھا ؟ کیوں تھا وہ اتنا پاکیزہ نفس؟
اور آج تین سال بعد اُس کے ذہن میں عبدالہادی کے دئیے گئے زخم تازہ ہو ئے تھے۔ اُس نے کہا تھا وہ ”اچھی لڑکی ” نہیں تھی ۔
اور کتنی عجیب بات تھی اُس بُری لڑکی کو وہ دیوانہ سا فیضان کتنے سالوں سے ”اچھا ” سمجھ رہا تھا ۔ یقینا وہ کچھ نہیں جانتا تھا ۔وہ کتنا پاگل تھا کہ اُس کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔ اُس کے لیے ایک ”غیبی مدد” بن کر اُسے سمیٹ رہا تھا ۔
اُس کے لیے دوسروں کے آگے ریکوئسٹ کررہا تھا ۔ اُسے وہ ساری بُکس اور نوٹس یاد آئے ۔۔۔ جو میم لبنیٰ نے اُسے دیے تھے ۔ اُسے کچھ مزید رونا آیا ۔ سی ایس ایس کی بُکس خریدنا کبھی بھی اُس کے بس میں نہ تھا ۔ وہ بہت مہنگی بُکس تھیں جن میں سے اُس نے بہ مشکل پانچ یا چھے ہی خریدی تھیں ۔
اور اب اُسے وہ ڈھیر یاد آیا جن کی قیمت ہزاروں میں تھی ، اور وہ لیپ ٹاپ!
اُس کے سکتہ زدہ دماغ کیلئے ایک اور جھٹکا ۔
وہ لیپ ٹاپ بھی انہوں نے اسے یہ کہہ کر دیا تھا کہ وہ استعمال کرنے بعد بھلے ہی واپس کر دے ۔
و ہ اُس شخص کا کیا کیا واپس کرے گی ؟
کیا وہ کبھی اُس شخص کے آگے کھڑی ہو پائے گی ؟
کیا وہ کبھی اُس سے نظر اٹھا کے بات کر پائے گی ؟
کیا وہ کبھی فیضان کی محبت کا ‘احسان’ اُتار پائے گی؟
آہ!!!
یہ اُس سر پھرے نے انجانے میں کیسے بوجھ دھر دئیے تھے اُس کے کاندھوں پر ۔۔۔ کہ وہ ان کے بوجھ سے جھکے جاتی تھی۔
آج تین سال بعد وہ پھر اُسی ویران سڑک پر خالی ذہن کے ساتھ چل رہی تھی ۔
اُس کی آنکھوں میں بے یقینی کی نمی سی تھی ۔ اور اُس کے دل میں عبدالہادی اور فیضان کا موازنہ چل رہا تھا ۔
اور زندگی میں بہت دیر سے ، بہت ٹھوکریں کھاکر اُس نے یہ بات سیکھی تھی، جسے سیکھنے میں ہمیشہ وقت لگتا ہے کہ وہ ”جلد باز ” تھی ۔
خُدا اُسے پھولوں کا ٹوکرا دینا چاہتا تھا اور وہ صرف ایک پھول کی ضِد لگا کر بیٹھی رہی تھی ۔
پرواہ، فکر اور خیال۔۔۔ جو اُسے لگتا تھا کہ عبدالہادی کرتا تھا وہ تو اُس کی خام خیالی تھی۔
کیئر تو وہ تھی جو پچھلے تین سالوں بنا بتائے ، بنا جتائے فیضان اس کی کررہا تھا اور وہ صلے کی تمنا بھی نہیں کررہا تھا ۔ کیسا بُدھو تھا ؟
ہر خواہش ، ہر صلے سے بے پرواہ تھا۔ کیسا سادھو تھا ؟
اُسے دنیا داری کیوں نہ آئی ؟
آنسو قطار در قطار اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے ۔
٭…٭…٭





یہ ایک ہوٹل کا اندرونی منظر تھا جہاں ایک ٹیبل پر چند گلاب اور موم بتیاں روشن تھیں ۔
وہ وہاں دس منٹ پہلے ہی آیا تھا ۔آج خالہ نے اُسے لنچ کا کہا تو وہ انکار نہ کرسکا، اور اب وہ تھیں کہ انتظار کروائے جارہی تھیں ۔
وہ آج ایک ماہ بعد واپس آئی تھی اور اُسے ویک اینڈ گُزارکے چلے جانا تھا ۔ جب اُسے میم کافون آیا ۔ وہ اُسے لنچ پر بلا رہی تھیں۔ اُسے بھی انکار کرنا مناسب نہ لگا لہٰذا اُس نے حامی بھر لی ۔ ابھی وہ ہوٹل میں انٹر ہی ہوئی تھی کہ اُن کی کال آگئی کہ اُنھیں کسی ایمر جنسی ڈیتھ پر جانا پڑگیا تھا تو اس لیے وہ نہیں آسکیں گی۔ وہ انتہائی شرمندگی سے بار بار معذرت کررہی تھیں،سو اُسے ٹھنڈ ی سانس بھر کر اِٹس اوکے کہنا پڑا ۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی اُس کی آنکھوں نے داخلی دروازے کے دائیں جانب بیٹھے شخص کو فوراً پہچان لیا۔ وہ فیضان تھا ۔
وہ ایک طویل سانس بھر کر رہ گئی ۔ اُسے ساری بات سمجھ آگئی تھی ۔
و ہ اس وقت فون پر بات کررہا تھا اور اُس کے چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا کہ وہ سخت کبیدہ خاطرتھا ۔
”دیکھو بھانجے! دُنیا چاند پر پہنچ چُکی ہے اور تم ہو کہ اپنی داستان ِمحبت میں کسی قسم کا ٹوئسٹ لانے کو تیار ہی نہیں، اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ یہاں بھی میں ہی مدد کروں ۔اُسے بلا لیا ہے ۔ بالکل یوں ری ایکٹ کرنا جیسے انجان ہو اور یہ بتانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ میں تمہاری خالہ ہوں ۔ شادی کے بعد بتا دیں گے ۔اب سب سنبھال لینااور ہاں! مُنہ بند کرکے مت بیٹھنا بلکہ سیدھا پرپوز کر دینا ۔” وہ واقعی اُس کی ”خالہ ” تھیں ۔
یکے بعد دیگرے اُسے اپنے قیمتی مشوروں سے نواز کر یہ جا وہ جااور وہ دانت کچکچاکررہ گیا ۔
”یہ خالہ بھی نا۔” وہ زیر لب بڑبڑایا۔
اِدھر اُدھر نظر گھما کر دیکھا تو چند لمحے ٹھٹھک سا گیا۔ وہ دروازے سے اندر داخل ہو چُکی تھی۔ وہ چند لمحے اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی۔ لباس پہننے کا انداز بھی وہی، لانگ کُرتا، جینز، فلیٹ چپل اور سر پر اسکارف اس کے ہاتھ میں موبائل اور ایک پاؤچ تھا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی جیسے مناسب جگہ تلاش کررہی تھی۔ اور یوں ہی اس کی نظر فیضان سے مل گئی۔ وہ حیران ہوئی اور پھر غالباً اس نے فیضان کو پہچان لیا۔ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ اس کا انداز ہمیشہ کی طرح احترام سے پُر تھا۔
نورالصباح کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ سے اس کے قریب آئی ۔
”السلا م علیکم” وہ ہلکا سا سر کو خم کرتے ہوئے بولاتھا ۔
اُس کے چہرے پر ایک ناکام سی حیرت تھی جسے ظاہر ہے نورالصباح فوراً پہچان گئی ۔
وہ جواب دے کر ہلکا سا مسکرائی ۔
”کیسے ہو فیضان ؟”
”ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسی ہیں ؟ یہاں کیسے ؟” وہ بہت مشکل سے حیران ہورہا تھا ۔ آنکھوں میں چمک سی اُبھری تھی ۔ نورالصباح کو عجیب سی خوشی ہوئی ۔
”ایک دوست کے ساتھ آنا تھا ۔ وہ کسی وجہ سے نہیں آ سکیں۔ ” اب وہ اس ”ایکٹنگ” سے محظوظ ہو رہی تھی ۔
”میں یہاں لنچ کرنے آیا تھا ۔ اگر مجھے جوائن کر سکیں تو ۔۔۔؟” وہ دھیمے انداز سے اُسے انوائٹ کررہا تھا ۔
اس با ر اس نے خوشدلی سے سر ہلا یا ۔ فیضان کے چہرے کی خوشی نا قابلِ بیان تھی ۔
اُ س نے آرڈر دینے سے پہلے اُس کی پسند پوچھی تو نورالصباح نے مُسکرا کر اُس پر چھوڑ دیا ۔ اور ہمیشہ کی طرح فراخ دلی کے ساتھ اس دن فیضان نے دل کھول کر ایک لمبا چوڑا آرڈر کیا تھا ۔ وہ دلچسپی سے اُس کی حرکات و سکنات نوٹ کررہی تھی ۔
وہ واقعی سر پھرا تھا !
”اور کیا کررہے ہیں آپ آج کل ؟”
”ڈیڈ کے ساتھ ہوتا ہوں ۔”
”ایم بی اے کمپلیٹ ہو گیا ؟”
”نہیں کیا ۔” اس کے انداز میں ہلکی سی شرمندگی تھی ۔
”کیوں ؟” اُسے حیرت ہوئی ۔
” بس دل نہیں کیا ۔” بے نیازی عروج پر تھی ۔
”اچھا” ۔ اس نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اور آپ؟”اس بار اس نے پوچھا ۔
”کچھ بھی نہیں ۔” لاپروائی سے کہا گیا۔
”کیا کررہی ہیں آپ آج کل ؟” اُس نے پوچھا ۔
”چھوٹی سی جاب۔” اس نے انتہائی انکساری سے کہا۔
”صحیح ہے جناب ۔” اس بار وہ ہنساتھا ۔
نور نے پہلی بار اُسے یوں ہنستے دیکھا تھا ۔ ہنستے ہوئے اس کی آنکھیں کونوں سے بند ہو گئیں تھیں ۔
”شادی ہوگئی آپ کی؟ ” اُ س کے انداز میں واضح تجسس تھا ۔ فیضان بُری طرح چونکا۔ شاید اُسے اس سوال کی توقع نہیں تھی ۔ ویٹرز کھانا لگانے لگے ۔ فیضان کچھ بولتے بولتے رُک گیا ۔
کھانا لگنے کے بعد نورالصباح نے پھر اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ وہ جیسے مدعا جان گیا تھا ۔
”نہیں ۔” اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
”اور آپ کی؟ ” اُ س نے فوراً بدلہ لے لیا ۔
اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے نور نے ہاتھ روک کر اُسے دیکھا ۔
”نہیں ۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔
پھر خاموشی۔۔۔۔ جسے کچھ دیر دونو ں نے نہیں توڑا۔
”اور آپ کے گھر سب کیسے ہیں ؟” وہ رسمی سوالات کرنے لگا۔
”سب ٹھیک ہیں ”۔ اُ س نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے اُسے کہا ۔
جواباً وہ اُسے اپنے بھائی کے بارے میں بتانے لگا جو کہ دو سال بعد امریکا سے واپس آرہا تھا کیوں کہ اگلے مہینے اُس کے بھائی کی شادی تھی ۔ وہ خاموشی سے رسمی گفتگومیں مصروف رہی ۔ اُ س کا بھائی قطعی طور پر اُس کی دلچسپی کا مرکزنہیں تھا ۔ کھانے کے بعد فون نمبرز کے تبادلے کے بعد وہ الگ ہو گئے ۔
٭…٭…٭





اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بام فلک
کون لا رکھتا ہے مہتاب بھلا قدموں میں
جس طرح میں نے تیرے دل کی پذیرائی کی
کون یوں سنگ نوازی پہ ہوا ہے مائل
رات کا پچھلا پہر تھا ۔ کمرے میںزرد روشنی تھی ۔ ہر طرف ایک عجیب سماں تھا ۔اُس کا کمرہ آج روشنیوں میں رنگا ہوا تھا ۔ کیسامیلہ سا لگا تھا آج اس ویرانے میں ۔ اُ س کی ہنسی کی کھنک ، اُسکی آنکھوں کی چمک اور اُ س کا خوبصورت چہرہ۔ کمرہ نورسے بھرا ہوا تھا ۔
وہ تین سالوں سے خود کو سنبھالتا آیا تھا اورآج وہ یوں سامنے آکر سارے اختیار چھین کر لے گئی تھی اور وہ بے بس سا دیکھتا رہ گیا ۔ کیسی ”ساحرہ ” تھی وہ ؟
آج پھر وہ ایزی چیئر پر جھول رہا تھا ۔اُس نے سوچا خالہ ٹھیک ہی کہتی تھیں ۔ وہ کب تک بیک فٹ پررہے گا؟ مگر پھر اُس نے سوچا اُسے فرنٹ لائن پرآنے کی عادت ہی کب تھی ۔
وہ تو صرف ایک جھلک کا طالب تھا اور آج اُس کی ایک جھلک دیکھ لینے کے بعد وہ کئی سال مزید جی سکتاتھا ۔ مگر یہ خالہ بھی ناں! وہ نا جانے کیوں اُس کو ہمیشہ کے لیے اُس کا بنانا چاہتی تھیں ۔
بھلا کیا وہ اتنا کم ظرف تھا کہ اپنے احسانات کا بدلہ مانگتا ؟
اُس کا ”ساتھ ”مانگتا ؟
نہیں وہ ایسے نہیں کرسکتا تھا ۔
محبت لُو دینا جانتی ہے جیسے اُس کی محبت تھی ،دیالو اور فراغ دل ۔۔۔۔۔!!!
اور اُس کے بعد بڑا عجیب ہوا ۔
وہ کبھی کبھار بات کرلیتے ۔ یونہی حال احوال ، موسم کا حال، ملکی حالات اور بس!
کوئی رسمی گفتگو کی انتہا دیکھناچاہتا تو اُن دونوں کی کالز دیکھتا ۔ ایک منٹ کی کال ، اور بس !
وہ آگے نہیں بڑھتا تھا کیوںکہ وہ چاہتا ہی نہیں تھا اور جب خالہ نے پوچھا تو ہنس دیا ۔
وہ جاننا چاہتی تھیں کہ پراگرس کیاتھی۔اور وہ آگے سے ہنس کے دکھا رہا تھا ۔ یعنی بات جوں کی توں ہی تھی ۔ اُنہیں غصہ آگیا ۔
اب مزید اُس پر یہ معاملہ ڈالنا فضول تھا ۔ وہ چاہتی تھیں کہ دونوں بھائیوں کی شادی اکٹھے ہی ہو جاتی ۔اُنہیں ہی سوچنا تھا دونوں کے بارے میں ۔ ماں تو اُن کی تھی نہیں ۔ اسی لیے انہوں نے ”بھانجے ” کو کچھ کہنے کی بہ جائے ڈائریکٹ اس کے ڈیڈ سے بات کی تھی ۔ اُنہیں نورالصباح کے بارے میں بتایا اور سٹوری لائن یہ تھی کہ وہ انہیں اپنے فیضان کے لیے پسند تھی۔ انہوں نے کہیں سے بھی یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ فیضان کی ذاتی پسندیدگی بھی شامل تھی ۔ ڈیڈ کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ؟ وہ بہ خوشی جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!