سوزِ دروں — سندس جبین

محبت ایک چراغ کی مانند ہے۔نامساعد حالات کی ہوا میں بھی یہ ٹمٹماتا ہے اور اس چراغ کی لو کو بہت کم لوگ سنبھال پاتے ہیں ۔کیوں کہ اس کوصرف محبت بھری حرارت ہی قائم رکھ سکتی ہے ۔ غلط فہمی ، نفرت اور شک اسے پل بھر میں بجھا دیتے ہیں ۔
اس کے نزدیک محبت کا دوسرا نام نورالصباح تھا ، وہ پہلی لڑکی جسے دیکھ کر وہ” عضِ بصر ” بھول گیا تھا۔ مگر بڑی دقتوں سے خود کو سنبھالتا رہتا تھا۔
اس گونگی محبت نے تو اس کو ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ اسے دیکھتا تو نظریں سنبھالتا ۔ اور عبدالہادی کو کیا ہوا تھا کہ وہ اس کا ہاتھ ”تھام” لیتا تھا ۔۔۔کتنی آسانی سے ، بنا کسی خوف و جھجھک کے؟ وہ حیران تھا۔





یہ کیسی محبت تھی اسے نورالصباح سے ؟ اسے تو لگتا تھا کہ محبت احترام کا دوسرا نام تھا ، دوسرے کی عزت سنبھالنے کا نام،اسے اپنانے کا نام تھا۔ یہ کیسی محبت تھی کہ ساری دنیا بھول کر اس کے گرد چکراتارہتا تھا اور پورا ڈیپارٹمنٹ اس کے پیٹھ پیچھے اس پر ہنستا تھا ۔ اور وہ بے وقوف سمجھتا تھا کہ وہ سب بے خبر تھے۔
آنکھیں تو سب کے پاس تھیں اور سب کو اس کی دیوانگی نظر آنے لگی تو فیضان کا دل کچھ مزید خوف زدہ ہو گیا ۔۔۔۔ وہ ڈر گیا کہ اگر عبدالہادی نے نور الصباح کے ساتھ اچھا نہ کیا تو۔۔۔؟؟ یہ یونیورسٹی کی محبت میں ننانوے فی صد یہی تو ہوتا تھا کہ اِدھر خمار اترا اور اُدھر بریک اپ۔۔۔ مگر کیا عبدالہادی اور نورالصباح کا انجام بھی یہی ہو گا ؟؟؟ اُسے ایسی بے چینی لگتی کہ وہ پوری پوری رات جاگتا رہتا ، سوچتا کہ عبدالہادی سے ڈائریکٹ بات کر لے کہ کیا وہ نور الصباح کے ساتھ سیریس تھا؟
پھر وہ سوچتا کہ شاید وہ خود بات کرے۔ وہی ہمیشہ والا حل سوچ کر وہ مطمئن ہو جاتا۔ مگر یہ اطمینان کب دیتا وہ خود کو؟
و ہ دونوں اپنے ”ریلیشن شپ” میں ایک قدم مزید آگے بڑھے تو فیضان کو لگا کہ وہ دیر کررہا تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں کو ساتھ بیٹھے دیکھتا تو اس کا دم گھٹتا ۔۔۔ اور جب اس نے یونی ورسٹی کے لان میں پہلی مرتبہ نورالصباح کا ہاتھ ہادی کے ہاتھ میں دیکھا تو اس دن اسے لگا وہ آدھا مر گیا تھا۔
بھلا اتنا آگے کب بڑھے وہ ؟؟؟
اس کی آنکھوں کا کرب سُرخی میں بدلتا گیا۔ اور وہ اسپرنگ فیسٹول والی رات۔۔۔۔ جب نور کو اس نے پارکنگ میں دیکھا، اس کا دل خون ہوا تھا وہ جان گیا تھا کہ وہ وہاں عبدالہادی کیلئے آئی تھی ۔
مگر وہ کیا کرتا؟ وہ کیسے ملنے دیتا دونوں کو ؟ کیسے اس آگ میں جلنے دیتا دونوں کو ؟ ایک اس کا بہترین دوست تھا اور دوسرا اس کا عشق !
ہاں وہ لڑکی نورالصباح اس کا دل تھی، اس کے سینے میں دھڑکن کی صورت سمائی ہوئی اس لڑکی کا نقصان وہ کیسے برداشت کرلیتا ؟؟؟ جب کہ عبدالہادی ! اسے کیا ہو گیا تھا؟ وہ بھلا اتنا کم عمل اور کم عقل کب سے ہو اتھا کہ سب بھو ل گیا ؟
کیا اسے وہ سبق یاد نہ تھے جب بچپن میں وہ دونوں قاری صاحب سے پڑھنے جاتے تھے تو قاری صاحب کتنے جلال میں آکر انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ نا محرم کو چھونا خدا کے نزدیک کس قدر بڑا گناہ تھا اور کتنا ناپسندیدہ عمل تھا ؟اور اس کی کسی بھی حال میں اجازت نہ دی گئی تھی مگر واقعی عبدالہادی سارے سبق بھول گیا تھا ۔
وہ کتنا بے رحم تھا ۔اپنے ہاتھوں سے اپنے مستقبل کو تو برباد کیا ہی تھا، ساتھ ہی اس لڑکی کو بھی لے ڈوبا۔
اُسے کسی ایک لمحے میں بھی یہ احساس نہیں ہو ا تھا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ وہ کس طرح اس لڑکی کو ذہنی طور پر Cripple کررہا تھا ؟کیسے اس کی ذہنیت سے کھیل رہا تھا ؟اسے یاد نہیں تھا کہ وہ اس کے ذہن کی ساری فارمیشن بدل رہا تھا۔ وہ ذرا بھی خوف زدہ نہ تھا کہ اگر وہ اس لڑکی کو اپنا نہ سکا تو اس کا انجام کیا ہوگا ؟؟؟
مگر یہ سب تو فیضان سوچتا تھا اور فیضان تو تھا ہی پاگل مگر ان دونوں کا کیا ؟ ان دونوں کو کون سا پاگل پن چھو گیا تھا ؟اور جب اس نے سنا کہ وہ دونوں بند کمرے میں تھے ؟ تو اس کے قدموں تلے جیسے زمین ہی نکل گئی تھی ۔اس نے ایسا کبھی نہ سوچا تھا۔ اپنے بدترین خدشات میں بھی اس کا ذہن اس طرف نہ گیا تھا کہ وہ دونوں اس قدر انتہائی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔
مگر یہ ہو گیا اور ہو ا بھی کہاں ؟ یونیورسٹی کے اندر ۔۔۔کلاس روم میں ؟
اُسے اس پل عبدالہادی سے نفرت محسوس ہوئی ، شدید نفرت۔ اس کا دل چاہا وہ اسے قتل کر دے ۔ وہ ظالم انسان اس معصوم لڑکی کو بھی تبا ہ کر گیاتھا ۔
اس کا دل چاہا کہ وہ اس کا گریبان پکڑ کر اس سے سوال کرے کہ کیا وہ ہوس میں اس قدر اندھا ہو چکا تھاکہ اسے جگہ اور مقام کا تقدس بھی بھول گیا ۔ کیا وہ اس قدر بے قابو ہو گیا تھا؟
فیضان کو اس لمحے اس کے دوست ہونے پر شرم آئی تھی اور بعد کی رپورٹس اسے کلاس فیلوز سے ملتی رہیں کہ ان دونوں کو یونی سے ایکسپل کر دیا گیا تھا ۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ عبدالہادی اتنا آسان شکار نہ تھا ۔ وہ اس کی طرح سیاسی فیملی سے تعلق تو نہ رکھتا تھا مگر بہر حال وہ ایک متمول گھرانے کا بیٹا تھا اور فیضان اس کے پاپا کو پرسنلی جانتا تھا، وہ کسی صورت اسے یوں ایکسپل نہیں ہونے دے سکتے تھے ۔
اور جلد ہی اس نے پتا لگوا لیا ۔۔۔ اس کے ہاتھ جہاں تک جاسکتے تھے، عبدالہادی سوچ بھی نہ سکتا تھا اور جب اسے پتا چلا کہ عبدالہادی کو اسلام آباد والے کیمپس میں مائیگریٹ کر دیا گیا تھا تو اس کے دل میں موجود غصہ اور نفرت مزید بڑھی تھی ۔
وہ جیسے مزید افسوس کا شکار ہوتا گیا۔ ہر مرد کی طرح سارا ملبہ اس لڑکی پر گرا کے اس کا دوست اسلام آباد کی ٹھنڈی فضاؤں میں لطف اٹھا رہا تھا ۔نقصان تو دونوں نے اٹھایا تھا ۔
عبدالہادی کو پبلک ڈس گریس کے ساتھ ساتھ فیملی انسلٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔
جب کہ نورالصباح کو پبلک ڈس گریس کے ساتھ یونی سے فارغ کیا گیا تھا ۔
سو نقصان تو دونوں کا ہوا تھا مگر عبدالہادی کا کیرئیر بچ گیا تھا جب کہ نوراالصباح کا تباہ ہو گیا تھا ۔اور یوں ۔۔۔۔ اس واقعے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد کا ذکر تھا۔
وہ لڑکی۔۔۔۔ نور الصباح آج بھی لا پتہ تھی ۔
اور وہ اس کی تلاش میں نڈھال ہو ا جاتا تھا ۔
٭…٭…٭





خوف ، افسردگی ، پشیمانی ، شرمندگی اور پچھتا وا ۔۔۔۔ یہ سب مل کر بھی اس کے دل کی حالت کو بیان نہیں کر سکتے تھے۔
وہ کچھ بھی بھول نہ پائی تھی۔ ہر لڑکی کی طرح اس کا دل، اس کا ذہن بھی وہیں رک گیا۔ وہ ارادتاً بھی اس مینٹل ٹراما سے باہر آنے کو تیار نہ تھی ۔
اسے نیند نہیں آتی تھی ۔ وہ اس کی تصویریں سامنے رکھ کر دیکھتی رہتی اور سوچتی کہ کیا وہ تلخ الفاط انہی ہونٹوں سے اد ا ہوئے تھے؟
وہ اس کی آنکھیں دیکھتی اور سوچتی کہ کیا یہ وہی بھورے کانچ تھے جو اسے دیکھ کر چمک اٹھتے تھے ؟
تو پھر یکا یک یہ بدلاؤ کیسے آگیا؟ یوں کیسے ایک دم سے وہ اس کی محبت سے بیزار ہو گیا؟ کیسے اپنے دعویٰ عشق سے دستبردار ہو گیا ۔
اس کے اندر ایک بے یقینی سی تھی ۔
اس نے اس کی دی ہوئی ہر چیز بہت سنبھال کر اپنی الماری میں لا ک کر دی ۔ جب وہی نہ رہا تو وہ چیزوں کا کیا کرتی ؟؟؟
اُسے لگتا تھا وہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ اسے لگتا تھا وہ عام مردوں سے مختلف ہو گا ۔
مگر وہ ان سب سے عام نکلا۔ اس کے حساب سے وہ سرخ رو تھا مگر افسوس! وہ اس سے پوچھتا کہ وہ اس کے حساب کتاب میں کہاں کھڑا تھا ؟ عبدالہادی شہاب نے بھی بہت سے مردوں کی طرح وہی طریقہ استعمال کیا تھا کہ جب وہ کسی لڑکی کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو اس کے کردار پر حملہ کرتے ہیں ۔
اس نے بھی نور کو کردار کی مار ماری تھی۔ اُسے احساس نہیں تھا کہ وہ اُسے جب کہہ رہا تھا کہ وہ ”اچھی لڑکی” نہیں تھی تو اس معصو م پر کیسے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ہادی کو اچھی کیوں نہ لگی؟
وہ تو اس کی ہر بات مانتی تھی۔مکمل طور پر اس کے زیرِنگین تھی۔ وہ جوکہتا وہی کرتی،جیسے کہتا ویسے کرتی پھر غلطی کہاں رہ گئی تھی ؟؟؟

سمجھ کر زندگی جس سے محبت کررہے تھے ہم
اُسے جب چھو کے دیکھا تو فقط خاکی بشر نکلا
اس نے عبدالہادی کو کبھی انسان سمجھا ہی نہ تھا ۔ اس نے ہمیشہ اسے خدا (نعوذ باللہ) سمجھا تھا۔
اُسے لگتا تھا کہ وہ اسے کبھی پیار کرنا نہیں چھوڑے گا ، کبھی اس کی پروا کرنا نہیں چھوڑے گا ۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔مگر کب تک ؟ ہر چیز کو زوال ہے۔ اس کو لگا تھا کہ اس کی محبت امر تھی۔ بھلا ایسی ”خود غرض” اور ”ہوس” کے نشے میں ڈوبی محبت جو کہ صرف ظاہر پرستی تک محدود ہو کر رہ جائے اُسے کم از کم محبت نہیں کہا جا سکتا،ہاں اُسے وقتی کشش یا پسندیدگی کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے ۔
مگر محبت؟؟؟
کیا محبت اتنی اندھی ہوتی ہے کہ اسلا م کے اصول ایک طرف ، انسانیت کے اصول ایک طرف اور یونیورسٹی کے اصول سب ایک طرف کرنے پر مجبور کر دے ۔
اور اب جب اس پر انکشاف ہوا کہ وہ واقعی اسے چھوڑ گیا ہے تو اسے احساس ہو اکہ وہ تو اس کے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہ رکھتی تھی جسے وہ ”گندی لڑکی” کہہ کر چھوڑ گیا ۔
اُس کا مزاج بڑا خوش طبع سا تھا ۔ گھر اماں ابا کے سوا بس ایک چھوٹا بھائی تھا ۔اورعام طور پر اُس پر ہی اس کا غصہ نکلتا۔۔۔۔ وہ بے چارہ الگ چھپتا پھرتا تھا اور اماں بھی خوب عاجز آگئیں تھیں۔ انھیں وہ یہ غصہ دکھاتی کہ وہ سمسٹر کی فیس نہیں بھر سکے اس لیے وہ گھر بیٹھ گئی ہے ۔
یونہی ایک دن بے کاری اور ضمیر کی مار سے تنگ آکر اس نے جاب کا فیصلہ کیا ۔ ایسے میں وہ پرائیویٹ اسکول اُس کے بڑا کام آیا جو قلیل تنخواہ میں کثیر کا م کرواتے تھے اور یوں وہ ان زہر ناک سوچوں سے بچنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی تھی ۔ یونہی ایک دن ایک اسٹوڈنٹ نے دروازہ بند کیاتو وہ ایک دم سے ڈر گئی ۔ اُسے اب بنددروازوں سے خوف آتا تھا ۔ یہ بنددروازے ہمیشہ اُس کے لیے کم بختی ثابت ہو ئے تھے ۔
اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔ اُسے اسکول سے نکال دیا گیا۔ اب وہ ایک دوسرے اسکول میں نوکری ڈھونڈنے آئی تھی ۔
٭…٭…٭





”جس رشتے کو معاشرتی قبولیت نہ ملے وہ ایک گالی بن جاتا ہے۔ ”مسز لبنیٰ خالد نے کہنا شروع کیا ۔ اُن کی آواز بہت میٹھی تھی۔ وہ ایک دراز قد خاتون تھیں جو کہ اپنے تیکھے خوبصورت نقوش اور شولڈر کٹ بالوں کے ساتھ ایک دلکش شخصیت کی مالک تھیں ۔
”آج کل کسی پر اعتبار کرنا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔”
اور عبد الہادی شہاب منیر کونورالصباح سے محبت تو تھی مگر یہ محبت اتنی بھی اندھی نہیں تھی کہ وہ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار لیتا ۔ اُس نے نورالصباح کو بُرا سمجھا تھا، نہ کہا تھا ۔بُرے تو وہ حالات تھے جنہوں نے اس سے یہ سب کروایا تھا۔ شہاب منیر نے نورالصباح کو اس لیے بُرا کہا کیوں کہ اگر عبدالہادی کو بُر ا کہتے تو بیٹا گنوا دیتے، سو انہوں نے بیٹا بچا لیا۔
قصور کسی کا بھی نہیں تھا۔ شہاب منیر نے بیٹا بچایا، اور عبدالہادی نے اپنا کیرئیر بچایا تھا۔
اور اگر کسی نے کچھ نہ بچایا تو وہ نورالصباح تھی ۔ جس نے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا ۔ سب ختم کر دیاتھا ۔
دُنیا صرف اس کے پیچھے بھاگتی ہے جو اُسے روند کر چلا جاتا ہے۔۔۔۔ جو دوسروں کے پیچھے بھاگتا ہے وہ تھکتا بھی ہے اور لٹتا بھی ۔۔۔
ضروری نہیں حادثات ”بُری قسمت” والوں کے ساتھ ہوں ۔ حادثات ان لوگوں کے ساتھ بھی ہو جاتے ہیں جو بڑے خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ مگر اُن میں اور عام لوگوں میں فرق صرف اتنا ہی ہوتا کہ Optimistic لوگ ٹھوکر کھا کر سنبھلتے ہیں ۔ خود کو خود سنبھالتے ہیں۔ سہارے نہیں تلاشتے۔
Don’t go for favours کبھی بھی کسی سے بھی فیور مت لیں۔ خود پہ بھروسہ کریں۔۔۔ یقین کریں گے تو راستے خودبخود کھلتے جائیں گے۔
نورالصباح کا کیرئیر ختم ہو اتھا ۔۔۔باقی تو سب لوگ اپنی جگہ ٹھیک ہیں ۔۔۔ اس لیے نورالصباح کو خود فیصلہ لیناہے کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔
ابھی بھی اُس غلطی کا ماتم کرنا ہے یا اُسے ماضی میں چھوڑ کر آگے بڑھنا ہے ۔ یہ فیصلہ بھی نورالصباح کو خود کرنا ہے کہ اُسے اپنی شناخت بنانی ہے یا یونہی بے شان مر جانا ہے ۔
٭…٭…٭
نوراالصباح کی جامد کھڑے پانیوں کی سی زندگی میں ایک نئی ہلچل مچ گئی تھی ۔
آج تک کسی نے یہ احساس ہی نہ دلایا تھا کہ اُسے آگے بڑھنا چاہیے ، اُسے ماضی کو ماضی میں چھوڑ دینا چاہیے۔ اُسے اپنی شناخت آپ بنانی چاہیے ۔ آج مسز لبنیٰ خالد ایک مہربان روح جب اُسے سمجھا رہی تھیں تو وہ چند لمحے بے یقین رہی تھی۔ بھلا آج کے نفسا نفسی کے عالم میں کون یوں کسی کا راہبر بنتا ہے، جب کہ ہر کوئی راہزن بننے کو تیا رہو۔
وہ اُن کی باتیں بڑے دھیان سے سنتی رہی اور پھر ان سے ہی مدد مانگ لی ۔ وہ بہ خوشی راضی ہو گئیں تھیں ۔ اُس نے اس بار اپنی زندگی کامختلف اور مشکل ترین گول چُنا تھا ۔ جیت یا ہار کا فیصلہ تو وقت نے کرنا تھا مگر اس نے ایک ٹارگٹ سیٹ کیا تھا اور ٹارگٹ کیا تھا ۔۔۔ اُسے سی ایس پی آفیسر بننا تھا ۔ وہ جو عبدالہادی شہاب اُس سے کہتا تھا ناکہ ”وہ کون تھی ؟کہاں سے آئی تھی ؟” تو اسے بتانا تھا کہ وہ ”نورالصباح ”تھی۔
اور جو راستہ اُس نے چنا تھا وہ کوئی آسان راستہ نہ تھا ، اس میں کھٹنائیاں تھیں، کھائیاں تھیں اور بڑی ہی ٹیڑھی شاہراہیں تھیں ۔
وہ اس کو آسان سمجھ کے کودی بھی نہ تھی ۔ اُس نے سوچا تھا کہ وہ اپنی جان لڑا دے گی ۔
اُس نے کچھ بکس خود خریدی تھیں ،کچھ بُکس اور نوٹس اُسے مسز لبنیٰ نے مہیا کر دئیے تھے ۔ وہ ہفتے میں ایک دن اُن کی طرف آتی اور وہ اس کا کام چیک کر دیتیں ۔ بلامعاوضہ اُس کی غلطیاں بتا دیتیں ، اُسے حوصلہ دیتیں۔
اُس نے بارہ مضامین کے دن تقسیم کیے ہوئے تھے اور ٹائم ٹیبل کی سختی سے پابندی کرتی تھی ۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر محنت کرتی تھی ۔ اس کی انگلش بہت اچھی تو نہ تھی مگر اُس نے بہتر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔ وہ دن رات پڑھتی ، لکھ لکھ کر دیکھتی، پھر بھی تسلی نہ ہوتی تو رونے بیٹھ جاتی اور اللہ سے مدد مانگتی اور اللہ سے مدد مانگنا وہ واحد کام تھا جس کو وہ سب سے زیادہ تُندہی سے کرتی تھی۔
اُسے اپنے گناہ یاد آتے تھے تو سجدے طویل ہو جاتے تھے ۔ مضامین کے انتخاب میں بھی انہوں نے اس کی مدد کی تھی ۔ اُس نے اپنی فیلڈ کے مضامین چھوڑ کر جنرل مضامین لیے تھے جن میں انڈوپاک ہسٹری،جرنلزم، پنجابی اور انٹرنیشنل ریلیشنز شامل تھے ۔اس کے علاوہ باقی چھے مضامین لازمی تھے ۔جن میں انگلش Essay ، اسلامیات ، پاکستان افئیرز، انٹر نیشنل افیئرز، جنرل سائنس اینڈ ایبیلیٹی اور انگلش کمپوزیشن شامل تھے۔
اُس نے ایک ایک مضمون کے الگ الگ شارٹ نوٹس بنائے تھے۔ چوں کہ سی ایس ایس میں ایک دن میں دو پیپر ہوتے ہیں اس لیے اُمیدواروں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ایک نظرری ویژن کر سکیں اور اس طرح وہ شارٹ نوٹس کام آتے تھے۔
اماں اس کی حرکتوں اور بدلتے ہوئے موڈز سے پہلے ہی نالاں رہتی تھیں ۔ اب جو اسے یوں پڑھائی میں جُتا دیکھا تو شکر ادا کیا کہ اُس کا دھیان ذرا بٹ گیا ہے ۔
اور جب صحرا پار کرکے ، اتنے کشٹ کاٹ کر اس نے پہلی کوشش کی،امتحان دیئے تو وہ فیل ہو گئی اور رزلٹ بڑا دل دہلا دینے والا تھا ۔وہ بارہ مضامین میں سے صرف ایک میں فیل ہوئی تھی۔۔۔اور وہ بھی English Essay میں۔ جس کی تیاری اُس نے سب سے زیادہ کی تھی اورجس کی پریکٹس میں اُس نے تین رجسٹر بھر دیے تھے ۔ اُسے یقین ہی نہ آیا ۔ وہ سارے Motivational Lectures جو وہ اسے وقتاً فوقتاً دیتی رہتی تھیں سارے ایک دم ناکام ہو گئے۔وہ بُری طرح ٹوٹ گئی ۔ اُس کی انرجی ایک دم زیرو پر آگئی ۔




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!