سوزِ دروں — سندس جبین

گاڑی اس کے قریب زَن سے گزری اور اپنے پیچھے چھینٹیں اس کے لباس پر چھوڑ گئی۔ وہ بلبلا کر سیدھی ہوئی مگر جیسے ہی اس کی نظر گاڑی اور اس کے ڈرائیور پر پڑی وہ تھرا کر رہی گئی۔
” فیض….. ” اس کے لبوں سے بے آواز نام اد ا ہوا اور وہ تیزی سے واپس مڑ گئی ، چہرے پر چادر ٹھیک کرتے ہوئے وہ تیزی سے مڑ کر ٹریفک پولیس لین سے نکل گئی۔ اس سے ہر صورت یہاں سے غائب ہونا تھا ۔ وہ اس شخص کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
اس کے اندر طوفان برپا ہو گیا تھا ۔ وہ یہاں تھا ؟؟ وہ حیرانی سے سوچتی تنگ گلی میں سر جھکائے چل رہی تھی ۔ وہ یہاں کیا کررہا تھا ؟؟اور وہ اسے دیکھ لیتا تو ؟ اس کی آنکھیں تلخیوں سے بھرگئیں ۔ اس نے غصے اور ضد سے سوچا ….. ”ہاں ٹھیک ہے وہ اسے دیکھ لیتا تو پھر کیا ہوتا ؟ وہ کتنا ترس کھاتا اس پر ؟”
یہ لڑکی وہ کب تھی جسے وہ جانتا تھا ؟یہ تو کوئی بدلی ہوئی لڑکی تھی ۔ جب کہ وہ آج بھی ویسا ہی تھا ۔
فیضان خان! اس کے لیے فیض!
اس کی ریش ڈرائیونگ، ماتھے پر گرے بال ، آنکھوں کی سرخی اور بھنچے لب آج بھی ویسے ہی تھے ۔
پتا نہیں اس شخص میں بدلاؤ کب آئے گا ؟ اس کی حالت بتاتی تھی ابھی تک نہیں بدلا اور امکان بھی نظر نہیں آتا تھا ۔ وہ مختلف سوچوں میں ڈوبی گلی پار کر گئی ۔
٭…٭…٭





جب اسے پیغام ملا کہ پرنسپل اس سے ملنا چاہتے ہیں تو ا سے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ آج اس کی میٹنگ کا رزلٹ کچھ اچھا نہیں نکلنے والا ۔ اسے اپنے خلاف چارج شیٹ کا پتا تھا۔ اس نے کل ایک سٹوڈنٹ کو کلاس ڈور بند کرنے پر تھپڑ مارا تھا ۔ بات ایک تھپڑتک رہتی تو شاید معاملہ نہ بگڑتا ۔پر ہوا یوں کہ وہ بچہ تھپڑ کھا کر کسی ڈیسک کے کونے سے جا ٹکرایا اور آنکھ کے قریب سے جلد پھٹ گئی اور خون بہنے لگا ….. اور اتنے ” تشدد” کے بعد کیسے ممکن تھا کہ اس بچے کے والدین شکایت لے کر نہ آتے۔ اور جب وہ پرنسپل آفس میں پہنچی تو توقع کے عین مطابق وہ ہاتھ میں اک پیپر پکڑے اس کے منتظر تھے ۔اس نے ایک طویل سانس لیا ۔ انہوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر بلا توقف اسے پیپر پڑھ کر سناتے گئے ۔اس کے پاس ان چارجز کا کوئی جواب نہیں تھا جو وہ اسے پڑھ کر سنا رہے تھے ۔وہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی ۔ اب وہ اس سے وضاحت چاہ رہے تھے کہ آیا واقعی ایسا ہی ہوا تھا ؟ وہ بھی جانتی تھی کہ وہ لازماً اس معاملے پر اپنی تحقیق مکمل کر چکے ہوں گے اور اب اسے صرف رسماً کارروائی کیلئے بلایا گیا تھا۔
اس نے تصدیق کر دی کہ بات وہی تھی جو ان تک پہنچی تھی ۔اب وہ سرد مہری سے اس سے اس کے اس عمل کی وضاحت چاہ رہے تھے ۔
اس نے اُکھڑے اکھڑے تاثرات کے ساتھ انہیں دیکھا ۔پھر سر جھٹک کر خشک لہجے میں بولی :
“It’s not a court and you are not a prosecutor…I don’t have a need to justify myself.”
ان کے چہرے پر سرخی چھلکی تھی ۔
” Then you are fired ” ۔ ان کے انداز میں قطعیت تھی ۔
اس کے دل پر کڑی گزر گئی مگر وہ حوصلے سے خود کو سنبھال کر اٹھ گئی ۔ اس بات کا اندازہ تو اسے پہلے سے تھا کہ اسے فارغ کر دیا جائے گا ۔اس لیے غالباً اس نے کسی قسم کی صفائی ، معذرت یا وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھی تھی ۔ جب اس کو نکالنا ہی ان کا مقصد تھا تو وہ کیوں جھکی؟؟ اس نے ہٹ دھرمی سے سوچا تھا ۔
سٹاف روم میں آکر اس نے اپنی چیزیں سمیٹیں اور اسکا رف ٹھیک کرتی باہر نکل آئی ۔ ابھی ایک اور دریا کا سامنا باقی تھا۔
تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے
تو نے کس عالم بے حال میں لا پھینکا ہے
کمرے میں زر د روشنی تھی ، بالکل اس کے دل کی طرح ….. !! راکنگ چیئر پر جھولتا وجود آنکھیں بند کیے زرد روشنی میں مزید زرد نظر آتا تھا ۔یک لخت کرسی کی حرکت رک گئی، اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں ۔ اس کی آنکھوں کے زیریں کنارے سوجے ہوئے تھے اور آنکھیں سُرخ تھیں ۔ ٹیبل پر پڑا موبائل فون اب وائبریٹ کررہا تھا ۔ اس نے آگے جھک کر فون اُٹھا لیا ۔
”سر ! وہ نمبر گزشتہ تین ماہ سے بند ہے ۔ آخری بار جب وہ آن ہوا تھا تو اس کی لوکیشن یونیورسٹی کے آس پاس کی حدود تھیں ۔”
فون پر چند لمحے خاموشی چھائی رہی پھر وہ کچھ مزید احکامات دینے لگا ۔ کچھ دیر بعد اس نے فون بند کر دیا ۔ اس کی آنکھوں کی سرخی کے نیچے گہری اُداسی تھی ۔ اُ س نے کرسی پر جھولنا بند کر دیا اور خاموشی سے اُٹھ کر کھڑکی کے پاس چلا آیا ۔ جہاں لان تاریک تھا ۔ بالکل اُس کے دل کی طرح ، اس نے سلائیڈنگ ونڈو کھینچ کر پیچھے کر دی ۔ اب تیز ہوا کے جھونکے اس کے سینے اور چہرے سے ٹکر ارہے تھے ۔اس کے گھنے بال ہوا سے اُڑ رہے تھے ۔
اس نے تھکے ہوئے انداز میں سر چوکھٹ سے ٹکا دیا اور جلتی آنکھیں بند کرلیں ۔
اس کی بند آنکھوں کے سامنے ایک روشن چہر ہ تھا ۔
یونیورسٹی کے لان کا بہت کِھلا ہوا منظر، اوائل اکتوبر کے دن ، سٹوڈنٹس کا ہجوم اور اس کے درمیان وہ روشن چہرے اور چمکتی آنکھوں والی لڑکی !
”نور ۔۔۔نورالصباح”!!!
و ہ اس وقت مُسکراتی ہوئی اپنا اسکارف ٹھیک کر رہی تھی ۔دوسرے ہاتھ میں سیل فون تھا۔کچھ دیر بعد اس کے قریب وہ شخص آیا، وہ دونوں اب سرجھکاکر کوئی بہت ضروری بات کررہے تھے، وہ اس شخص کو جانتا تھا ۔
وہ اس کا دوست تھا ۔ سب سے قریبی دوست!
تب سے پرانا اور عزیز دوست۔۔۔ اس کا دوست۔
”عبدالہادی ”
وہ اب باتیں کرتے ہوئے دور ہوتے جارہے تھے ۔ فاصلہ بڑھتا جارہا تھا ۔جب کہ وہ اُسی طرح وہاں کھڑا س منظر کو تکتا جاتا تھا ۔
٭…٭…٭





جو کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات ِآہ و فغاں اور بھی ہیں
معاملہ صرف نوکری کا نہیں بلکہ اذیت دراذیت کا یہ سلسلہ تو دور تلک چلنے والا تھا ۔
اس پرائیویٹ اسکول میں مبلغ چھے ہزار روپے ماہوار پر نوکری اس کیلئے ایک نعمت تھی۔ وہ اسکول انتظامیہ کی معترف تھی جو چھے ہزارمیں چھتیس ہزار والا کام لیتے تھے اور اسے مصروف رہنے کا بہانہ چاہیے تھا ۔ کیوں کہ یہ نعمت غیر مترقبہ جیسی مصروفیات سے سوچوں کے جال میں اُلجھنے سے بچائے رکھتی تھی ۔
سوچیں ۔۔۔ گہری عمیق سوچیں ۔۔۔ تاریک سُرنگوں کی سی سوچیں ۔۔۔ سیاہ ناگ کے پھن کی سی اذیت ناک سوچیں ، اسے ان سوچوں سے بچنا تھا اور اس کے لیے اسے کوئی مصروفیت چاہیے تھی۔
اور فارغ رہنے کا مطلب تھا دوبارہ سے اُس ٹراما میں چلے جانا جس کا خوف اسے رات بھر سونے نہیں دیتا تھا خواہ اسے معاوضہ کم ملتا تھا مگر امی کو وہ بہت لگتا تھا ، کیوں کہ ان کے خیال میں وہ ایک ناکام انسان تھی جو کچھ بھی مکمل نہ کر پاتی تھی ۔ خواہ وہ پڑھائی ہو یا نوکری۔
یا پھر ۔۔۔”عشق ” کوئی اس کے اندر زور سے چلایا تھا ۔وہ سر جھٹکتی آگے بڑھتی گئی ۔
ماں کو تسلی دینے کے لیے باتیں کافی نہ تھیں ۔ اسے ہر صورت کوئی اور جاب ڈھونڈنا تھی ، کچھ اور کرنا تھا اور وہ بھی ایسا جس سے امی کو اس کی پچھلی چھے ہزار والی نوکری بھول جاتی ۔
اس نے ذہن میں ارد گر د کے سارے اسکولز کا سوچا، جہاں وہ اپنی بی کام کی ڈگری سمیت اپلائی کر سکتی تھی ۔ کافی دیر غور خوض کے بعد اس کے ذہن میں لائٹ پبلک اسکول کا نام جگمگایا۔
اس نے اگلے دن ہی وہاں اپنی سی وی ڈراپ کی تھی مگر تین دن گزرجانے کے باوجود اسے کوئی کال نہیں کی گئی تھی ۔ وہ قدرے مایوسی سے چوتھے دن اپنی مدد آپ کے تحت اُٹھی اور ہلکا پھلکا تیار ہو کر اسکول کی طرف نکل گئی ۔
اس کا ارادہ تھا کہ آج وہ ہر صورت پرنسپل سے مل کر آئے گی ۔ دو دن سے مسلسل وہ یہی بات سوچ رہی تھی کہ وہ کہیں بہترین جاب حاصل کر لے ، تاحال اسے کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی تھی جب ہی وہ آج یہ کام کرنے کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکل پڑی ۔
ہمیشہ کی طرح بہ ظاہر خوش اخلاق ریسپشنسٹ نے اسے انتظار پر لگا کر ایک طرف بٹھا دیا۔ مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد اسے کل آنے کو کہا گیا وہ یک لخت جیسے بڑ بڑاسی گئی۔ اُس نے تو سوچا تھا کہ اتنی دیر کا انتظار کوئی رنگ لائے گا مگر یہاں تو کہانی ہی اور چل پڑی تھی ۔ اس نے گھور کر ریسپشنسٹ کودیکھا اور فوراً اُٹھ گئی ۔ اُس کے قدم باہر کی طرف تھے جہاں پرنسپل کی گاڑی کھڑی تھی ۔ اگر وہ جا ہی رہی ہیں تو وہ انہیں ادھر بھی مل سکتی ہے، اس نے مضبوط ارادے سے سوچا۔ چند ثانیے گزرے تھے کہ اُسے پرنسپل نظر آئیں۔ وہ ایک دراز قدخاتون تھیںجو اس وقت موبائل پر بات کررہی تھیں۔ اُسی طرح بات کرتے کرتے انہوں نے جھک کر گاڑی کی چابی لگائی جب اس نے پیچھے سے آواز دی ۔
”Excuse me Ma’am! ”
وہ پیچھے مُڑیں تو اسے دیکھ کر قدرے حیران ہوئیں ۔
”Can I have a minute please? ”۔ اس کا انداز ملتجی تھا ۔ وہ ایک لمحے کو رکیں پھر سیل فون پر کال بیک کا کہہ کر کال منقطع کر دی ، یعنی اب وہ اس کی بات سننے کے لیے تیار تھیں ۔وہ تیزی سے بات کرنے لگی ، صرف ڈھائی منٹ میں (اپنے منٹس) وہ انہیں سمجھا چکی تھی کہ اسے نوکری چاہیے ، ہر صورت چاہیے اور اِدھر ہی چاہیے۔ وہ اب قدرے دل چسپی سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھیں جو لمبے کُرتے پر جینز اور اسکارف میں ملبوس تھی ۔ پھر انہوں نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود آفس کی طرف گئیں ۔ وہ کچھ کنفیوز ہوئی مگر پھر اس نے خوش اُمیدی سے سوچا کہ شاید وہ اسے ہائر کر لیں ۔ وہ بھی ان کے پیچھے لپکی ، ریسپشنسٹ نے قدرے حیران نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر وہ نظر انداز کرتی اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ حسبِ توقع ان کا آفس شاندار تھا۔ وہ اپنی کُرسی پر بیٹھ چُکی تھیں ۔ انہوں نے اُسے بیٹھنے کا کہا تو وہ قدرے جھجھک کر ان کے سامنے پڑی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی ۔
”کون سی ڈگری ہے ،آپ کے پاس ؟”انہوں نے متوازن اور ہم وار اندا ز میں سوال کیا تھا ۔
یہ اُس کی توقعات سے بر عکس تھا ۔ اس کا خیال تھا وہ پہلے اُسے تعارف کروانے کو کہیں گی مگر۔۔۔۔!
”بی کا م”۔ اس نے مختصراً کہا ۔
”نیکسٹ سٹڈی کیوں نہیں کی؟ ”
”ایڈمیشن لیا تھا ۔ افورڈ نہیں کر سکی ، چھوڑنا پڑا”۔ اُس کا انداز بھی دو ٹوک ہو گیا ۔
”کہاں ایڈ میشن لیا تھا ؟” انہوں نے مزید پوچھا ۔
وہ کچھ الجھ سی گئی ، اتنی تحقیق کی وجہ ؟؟؟
مگر پھر سر جھٹک کر وہ اُنہیں اس نیم سرکاری یونیورسٹی کے بارے میں بتانے لگی جہاں اس نے اپنے ایم بی اے کا پہلا سمسٹر پڑھاتھا ۔
”کچا پھل کیوں کھانا چاہتی ہو ؟ ڈگری مکمل کرو اپنی ۔۔۔ کوئی ڈھنگ کی جاب کرنا۔ ابھی سے ان چکروں میں پڑ گئی تو ساری زندگی ان چند ہزار پر ہی محدود ہو کررہ جاؤ گی۔ ”ان کا انداز سادہ تھا ۔۔۔۔ کوئی طنز نہیں، کوئی غرور نہیں ۔
اُسے پہلی بار اچھا لگا ۔ ان کا انداز ٹھکرانے والوں جیسا نہ تھا ۔ اسے لگا وہ اُن سے بات کر سکتی تھی ان سے شیئر کر سکتی تھی ۔
٭…٭…٭





خاک اڑتی ہے ہم جدھر جائیں
یہ نہ ہو راستوں میں مر جائیں
پھر رہے ہیں ازل سے آوارہ
بے قراری گھٹے تو گھر جائیں
اُس کی آنکھیں جیسے تلخیوں سے بھری پیالیاں تھیں۔۔ افسردہ اور درد سے لبریز۔۔!
وہ ایک ناکام انسان تھا ۔ اس کا باپ صحیح کہتا تھا کہ وہ کچھ بھی مکمل نہیں کرتا تھا وہ کر ہی نہ پاتا تھا ۔۔۔۔
اتنے وسائل اور رسوخ کے باوجود وہ آج پانچ ماہ بعد بھی اس ایک لڑکی کو ڈھونڈ نے میں ناکا م تھا، بُری طرح ناکام۔ اس کے ماتھے پر ناکامی کی چڑچڑاہٹ واضح نظر آرہی تھی ۔ اسے اندازہ تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد ڈیڈ کا بلاوا آجائے گا اور چوں کہ اس کا موڈ نہ تھا ان کا سامنا کرنے کا اس لیے وہ اٹھا، روم کی لائٹس آف کیں اور بیڈ پر ڈھے گیا ۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ وہ سویا ہوا ہے۔ اسے ڈسٹرب نہ کیا جائے ۔ اس نے سوچا صبح وہ کچھ دن کے لئے کہیں چلا جائے ۔ یونیورسٹی تو آج کل اسے زہر سے بھی بری لگتی تھی ۔ یونیورسٹی جانے کا اس کا کوئی موڈ نہ تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے پیچھے ماضی کے روشن دن تھے ۔ اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔
٭…٭…٭
محبت اس طرح جیسے گلابی تتلیوں کے پر
محبت زندگی کی جبین ِناز کا جھومر
محبت تھی۔۔۔ ہر سو محبت تھی۔۔۔۔۔ اس کی ہنسی محبت تھی اس کی آنکھیں محبت تھیں، اس کا پورا وجود محبت تھا۔
محبت کی سب سے بُری بات یہ ہے کہ یہ چھپتی نہیں ہے ۔۔۔۔ہر سو پھیل کر اپنی آمد کی خبر دے دیتی ہے ۔۔۔۔ جتنا چھپاؤ اتنا ہی شور کرتی ہے ۔۔۔۔ محبت اس کی کھنکھناتی ہنسی سے پھوٹتی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک سے ابھرتی تھی ۔۔۔۔ کوئی بھی اسے دیکھتا تو جان لیتا کہ وہ پگلی محبت کر بیٹھی تھی اور محبت بھی کیسی۔۔۔تباہ کردینے والی ۔۔۔۔سارے بند توڑ دینے والی ، پتا نہیں ایسی محبت سب سے پہلے آنکھوں پر پٹی کیوں باند دیتی ہے ۔۔۔۔ ایسی اندھی اور گہر ی محبت جو بس ایک شخص کے سوا کسی کو دیکھے نہ سنے ، وہ بس ایک پروانے کی مانند اس پہ نثار ہوئی جاتی تھی ۔ ہر طرف سے بے بہرہ اور بیگانہ ۔۔۔ بس اک اُس شخص کے سوا وہ کسی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی اور دیکھتی بھی کیوں؟
وہ شخص ایسا تھا کہ اسے محبوب بنایا جائے ، اُسے مانا جائے اور اس کی پرستش کی جائے ، اور جب اس نے اس کو دیکھ لیا تو اور کیا دیکھتی ؟؟؟
آنکھ نے اس کے سوا ہر نظارہ رد کر دیا ۔ دل نے اس کے سوا ہررشتہ توڑ دیا ۔۔۔ کان نے اس کے سوا کسی کوبھی سننے سے انکار کر دیا ۔
ایسی ہی تھی ان دونوں کی محبت ۔۔۔۔
نورالصباح اور عبدالہادی کی محبت۔۔




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!