سوزِ دروں — سندس جبین

مگر اسے اتنا کنفرم پتا تھا کہ بات چھوٹی تھی یا بڑی ، بات تھی ضرور۔۔۔۔ اور اُس ‘بات’ کا ہونا ہی در حقیقت اس کی تکلیف کا اصل مآخذ تھا ۔
اُس نے ایسا کب چاہا تھا ؟ وہ تو اُن دونوں بے وقوفوں کی بے وقوفیوں سے بڑے اچھے طریقے سے آگاہ تھا۔ صرف مناسب وقت کا منتظر تھا تاکہ عبدالہادی خود اُسے بتا دے ۔ مگر اس سے پہلے کہ بات عبدالہادی کے ذریعے اُس تک پہنچتی، بات سارے جہان میں پھیل گئی اور پھیلی بھی تو کس گری ہوئی شہرت کے ساتھ؟؟؟
وہ تو اُس لڑکی کو بچانا چاہتا تھا ۔ وہ کتنی بے وقوف تھی ، کیسے آنکھیں بند کر کے اُس کے پیچھے چلتی جارہی تھی اور سمجھتی تھی کہ کوئی بھی واقف نہ تھا حالاں کہ اُن کے پور ے ڈیپارٹمنٹ کو علم تھا کہ عبدالہادی اور نورالصباح ایک دوسرے کی محبت میں پاگل ہو چکے تھے ۔ مگر باقی سب کے حواس اچھی طرح سلامت تھے ۔ اگر وہ دونوں یہ سمجھتے تھے کہ کوئی آگاہ نہ تھا تو یہ اُن کی اپنی حماقت تھی ۔
وہ سارا دن اُس کے ساتھ گھومتا تھا، اُس کے ساتھ لنچ کرتا تھا، اُس کے ساتھ کیفے جاتا تھا اُس کے ساتھ لائبریری بیٹھا رہتا تھا اور اس سب کے باوجود اُسے لگتا تھا کہ کوئی بھی اُن کے طوفانی عشق سے آگاہ نہ تھا تو اُس کی بے وقوفی ہی تو تھی ۔
بھلا یونیورسٹی جیسی جگہ پر جہاںلو گ اِک پل میں فسانہ گھڑنے کو تیار رہتے ہوں کیسے ممکن تھا کہ وہ دونوں نظروں میں نہ آتے ؟ سب کو ”نظر” آتا تھا ۔ سب آگاہ تھے مگر کوئی بھی عبدالہادی کے سامنے بات نہیں کرتا تھا ۔
آج اس واقعے کو تین دن گزر چکے تھے ۔
عبدالہادی ہر جگہ سے غائب تھا ۔ اُس کا فیس بک اکاؤنٹ، اُس کا سیل سب بند تھا۔
وہ ہر جگہ سے جا چکا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کہاں تھا؟
فیضان کو اس کی پریشانی تھی مگر اتنے نازک موڑ پر اُسے چھیڑنا مناسب نہیں تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ عبدالہادی سنبھل جائے اور اس شاک سے نکل آئے ۔ یہ ٹراما اس کی ذات پر بہت بڑا دھچکاتھا۔ اُسے سنبھلنے کے لیے یقینا وقت چاہیے تھا اور فیضان بہ خوشی اُسے وقت دینے کو تیار تھا۔
سوچتے سوچتے اس کی چئیر کی حرکت ذرا دیر کے لیے رکی۔
”مجھے حیرت ہے کہ چُھپ کر لباس تبدیل کرنے والا انسان اپنے رب کے آگے بے پردہ ہونے سے کیوں نہیں ڈرتا ؟
کیا وہ نور کو گاڑی میں چُھپا کر لے جاتے ہوئے اللہ کو بھول گیا جس کی آنکھ ساری کائنات کی نگران ہے ؟؟؟
کیا وہ نور کو کمرہ بند کرتے ایک پل بھی اُس ذات کا خیال نہ آیاتھا جس کے ڈرسے پہاڑ بُھر بھری مٹی ہو جاتے ہیں ؟؟؟
اُسے ساری دنیا سے شرم آئی تھی، بس اللہ سے حیا نہ کی ؟؟؟
اُس کے اندر تلخی بڑھ گئی ۔
”تو پھر عبدالہادی تم یہ ڈیزرو کرتے تھے ”اُس کے چہرے پر سر د مہری تھی ۔
”ایک معصوم لڑکی کو ورغلا کر اپنے پیچھے پاگل کر کے یہ کیسے سوچ سکتے ہو تم کہ اُس کا انجام اچھا ہو گا؟”
وہ نفرت سے خود کلامی کررہا تھا ۔اور اُس کے چہرے پر چھائی نفرت دم بہ دم گہری ہوتی جارہی تھی۔
٭…٭…٭





دُکھ بھی میرے ساتھ یہ کیسا ہوا
بحر تھا میں ، تو ملا، صحرا ہوا
آنسوؤں کا کرتے ہو مجھ سے سوال
آنکھ میں اِک دریا ہے پھیلا ہوا
زندگی مسلی ہوئی تصویر ہے
اور منظر بھی بہت اجڑا ہوا
اب تو یہ باتیں پرانی ہو گئیں
کاٹتے ہیں ہم جو ہو بویا ہوا
خواب میں بھی بے قراری ہے ہمیں
اور ایک غم ہے تھکا ہارا ہوا
ہوٹل کے اس خالی کمرے میں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ نور کا رنگ بے حد زرد اور چہرہ مرجھایا ہوا تھا مگر اس کی آنکھوں میں ابھی بھی ایک لپک اور چمک تھی اور وہ آنکھیں عبدالہادی کے چہرے پر جمی تھیں ۔
وہ اپنا چہر ہ نقاب میں چھپا کر یہاں آئی تھی ۔۔۔ اُسے اب ہر کسی سے ڈر لگتا ہے، اُسے لگتا وہ سب اُسے جانتے تھے کہ یہ وہی لڑکی تھی جو اُس کے بعد اُس کا ذہن بند ہو جاتا۔ بہت مشکل سے اُس نے ایک دوسرا نمبر لیا اور عبدالہادی سے رابطہ کیا تھا ۔۔۔اور یوں وہ دونوں آج نو دن بعد مل رہے تھے ۔
اس کمرے میں آنے کا آئیڈیا بھی عبدالہادی کا تھا ۔ وہ دونوں کسی پبلک پلیس پر ملنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔سو اس ہائی کلاس ہوٹل میں اُس نے روم بک کروا لیا تھا ۔
وہ اس وقت اس کے سامنے تو بیٹھا تو تھا مگر اُس کا چہرہ بد ل چکا تھا ۔ وہ عبدالہادی شہاب منیر کا چہرہ تھا ۔ نور الصباح کا ”ہادی ” نہیں تھا ۔
اُس کی آنکھیں بدلی ہوئی تھیں، وہ بھورے کانچ، اُن میں نرمی، اُنس اور محبت نہیں تھی۔
مگر نورالصباح اس سے بے خبر تھی ۔ وہ بس اُس سے ایک ہی بات پوچھ رہی تھی ۔ ”کیا اُسے بھی ”رسٹی کیٹ ” کر دیا گیاہے ؟”
مگر عبدالہادی کے لب خاموش تھے ۔اُس کی آنکھوں میں ایک ہی منظر جامد تھا ۔
پاپا اُسے گھر لے آئے تو خود گیٹ پر ہی گر گئے ۔۔۔ اُنھیں انجائنا کا اٹیک ہو اتھا ۔ وہ شاید اس نفسیاتی جھٹکے کو سہ نہیں پائے تھے ۔ سہ پاتے بھی کیسے؟ اُس لڑکی کی وجہ سے جو خدا جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی؟ اُن کے بیٹے نے یہ حد سے بڑھا ہوا قدم اٹھا یا تھا ۔
وہ انہیں ہاسپٹل لے کر بھاگا ، ماما کو بھی اس نے وہیں بلا لیا تھا ۔ اُنہیں ٹریٹمنٹ دیا گیا۔ چند گھنٹوں بعد وہ ہوش میں آگئے ، مگر ان کی حالت بے حد نازک تھی ۔
وہ جیسے چند گھنٹوں میں ہی نُچڑ گئے تھے ۔ وہ مسلسل اُن کے سرہانے بیٹھا رہا ۔ اُسے بڑی اچھی طرح احساس ہوا تھا کہ اگر وہ ذرا سی بھی دیر کرتا تو انجام نجانے کیا ہوتا ؟ وہ اُس سے بات نہیں کررہے تھے۔ اور وہ تڑپ رہا تھا ۔
ماما سجدۂ شکر ادا کرنے گئیں تو وہ اُن کے شانے سے لگ کر بلک اٹھا ۔ اس وقت اُسے باپ کے سوا کچھ نظر نہ آرہا تھا ۔
”پاپا! مجھے اللہ کی قسم ہے میں نے کچھ نہیں کیا۔ مجھے ایسے سزا نہ دیں ۔ مجھ سے بات کریں ”۔
”عبدالہادی ! مجھ سے وعدہ کرو ” اُن کی آواز آہستہ اور کمزور تھی ۔
”کیسا وعدہ ؟” وہ سیدھا ہو ا ۔
”تم اُس لڑکی سے کبھی نہیں ملو گے ۔” اُن کے انداز میں کوئی نرمی نہیں تھی ۔ عبدالہادی کے چہرے کا رنگ ایک دم سفید پڑ گیا ۔
”تم اُس سے کبھی بات نہیں کر و گے۔ تم اس کی شکل تک نہیں دیکھو گے ۔”
”مگر پاپا ۔۔۔”؟ وہ اٹک گیا ۔
”سنو عبدالہادی! اگروہ لڑکی اچھی ہوتی، اُس کی تربیت اچھی ہوتی تووہ کبھی بھی تمہیں آگے بڑھنے نہ دیتی ، اگر اُس میں حیا ہوتی تو وہ کبھی تمھارا ساتھ نہ دیتی مگر دیکھواُس نے تمہارا ساتھ دیا اور تمھیں پتا ہے اگر عورت ساتھ نہ دے تو مرد کچھ نہیں کرسکتا ۔ اگر تم اس حد تک آگے بڑھنے پر مجبور ہوئے تو وہ تمہارے ساتھ برابر کی شریک ہے بلکہ اُس نے ہی تمہیں اُکسایا ہوگا، اور میں بالکل نہیں چاہتا کہ ایسی ”گندی لڑکی ” کسی بھی صورت تمہاری زندگی میں شامل ہو۔”
”وہ ایک بھیانک سایہ ہے عبدالہادی !جس نے اپنی چھایا سے تمھاری تربیت کو گہنا دیا ہے۔ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے عبدالہادی !” و ہ سر د اور بے رحم لہجے میں کہتے جارہے تھے اور عبدالہادی کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا ۔
مگر وہ کوئی بھی وضاحت دیئے بغیر اُن کی باتیں سنتا چلا گیا ۔ وہ دیر تک اُسے سمجھاتے رہے پھر اُس نے وعدہ کر لیا کہ وہ بس ایک آخری بار اُس سے ملے گا اور دوبارہ زندگی میں اُس کی شکل نہیں دیکھے گا، نہ آواز سنے گا ۔
اور پاپا کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالتے ہوئے اُس کی ٹانگیں بے جان تھیں اور اُس کے ہاتھ میں لرزش تھی ۔
اور اب اُس کی منجمد آنکھیں دیوار پر جمی ہوئی تھیں اوروہ وعدے کے مطابق آخری بار ”نورالصباح ” سے ملنے آیاتھا اور وہ کس قدر کملائی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ کتنا اُترا ہوا تھا ۔ اور وہ کیسے بے تابی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
مگر وہ۔۔۔ عبدالہادی ۔۔۔ اُس کا دل جو بہت نرم تھا ۔ اس وقت و ہ پتھر کے ٹکڑے میں ڈھل چکا تھا اور یہ پتھر کی خاصیت ہے کہ اُس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔
وہ اُسے دیکھ رہا تھا مگر اُس کا ذہن اُسے قبول نہیں کررہا تھا ۔ اُسے اپنی ”عزت ”کا خیال آرہا تھا ۔ اُسے پاپا یاد آرہے تھے ۔ اُسے وہ دن یاد آرہا تھا جب وہ اپنے دوست کے ساتھ ریکٹر آفس گئے تھے اور نہ جانے کتنے واسطوں اور دلیلوں کے ساتھ اُنہیں عبدالہادی کو یونیورسٹی سے رسٹی کیٹ کرنے سے روکا تھا ۔ اُ ن کی لازماً کوئی ڈیل ہوئی تھی جس سے وہ بے خبر تھا اور اُسے بے خبررکھا گیا تھا۔ بڑی راز داری سے عبدالہادی کی مائیگریشن اسلام آباد والے کیمپس میں کر دی گئی۔
اور جب پاپا اُسے بتا رہے تھے تو وہ کتنے پریشان اور زرد لگ رہے تھے ۔ عبدالہادی کے دل پر بوجھ بڑھ گیا تھا ۔
وہ اندر سے بہت جل چکا تھا، بہت کُڑھ چُکا تھا، بہت رویا تھا ان دنوں کمرہ بند کرکے، اپنا نام خراب اور گندہ ہوتا دیکھنا اتنا آسان نہ تھا اور وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے گھر میں ایک معزز اور معتبر رکن رہا تھا ، یونیورسٹی اور سوسائٹی میں اور اب؟ وہ ہر جگہ ”نام ور” ہو چکا تھا اور یہ شہر ت بھی کیسی؟ اس کے اند ر آگ کی لپیٹیں اُٹھتی تھیں اور وہ جل جاتا ۔۔۔ بھلا ایسی بھی کیا اندھی محبت جو بندے کو مار ہی ڈالے ؟؟؟ یہ تباہی اس کی لڑکی کی وجہ سے آئی تھی جس سے اُسے ایسی تباہ کن محبت ہوئی تھی جس نے سب راکھ کر دیا تھا ۔ اُسے اپنے ”نقصانات ”یاد تھے اور ان کا شمار ناممکن تھا ۔۔۔ اور اُسے نورالصباح کے ”نقصانات” یا د نہیں تھے بلکہ اُس کے نزدیک اُس کا کوئی نقصان ہی نہیں ہوا تھا ۔





اپنے خیالات کے چُنگل سے باہر نکلتے ہوئے اُس نے نورالصباح کو دیکھا جو اب رو رہی تھی ۔۔۔ اور اس کے آنسوؤں نے اس پر ہمیشہ کی طرح عجیب اثر کیا تھا ۔۔۔ وہ خود کو روک نہ سکا ۔ اُ س نے آہستہ سے اُس کا سر اپنے ساتھ لگا لیا ۔ وہ اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ کرروتی چلی گئی اور وہ اس کا سر تھپکتا رہا۔ اس کے سوا اس کے پاس کوئی حل نہ تھا ۔ جب وہ روتے روتے تھک گئی تو آہستہ سے اُس سے الگ ہوگئی ۔ اُسے شائد عبدالہادی میں وہ تبدیلی محسوس ہوئی تھی جو وہ پہلے جانچ نہ سکی تھی ۔
اور اُس نے عبدالہادی کی آنکھیں دیکھیں۔ وہ بھورے کانچ جو بدل چکے تھے۔ وہاں وہ تاثر نہ تھا۔ وہ اُس کے ہادی کی آنکھیں نہ تھیں۔ وہ لرز گئی ۔ اُس نے بے ساختہ اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور عبدالہادی کا ہاتھ برف کی طرح سرد اور سخت تھا ، اُس کے اندر خوف نے ڈیرہ جما لیا۔ تو کیا اُس کے بدترین خواب اور وہم سچ ثابت ہونے کا وقت آگیا تھا؟؟؟ تو کیا وہ نارسا ٹھہرے گی ؟ کیا۔۔۔۔؟؟؟
اُس کے محبوب کا دل بدل گیا ؟ خوف اور دہشت نے کسی مکڑے کے جال کی مانند اُس کے دل کو جکڑ لیا ، وہ بے ساختہ آگے بڑھی اور عبدالہادی کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں لے لیا ۔
”بولو۔۔۔۔ ہادی مجھ سے بات کرو۔” وہ بے قراری سے بولی ۔
عبدالہادی کی سرد نگا ہ اُس کی جانب اُٹھی تھیں ۔
”تمہیں لگتا ہے نور کہ کرنے کے لیے کوئی بات بچی ہے؟” اُس کا لہجہ اجنبی تھا ۔
وہ کانپ گئی۔ ابھی تو اس کے سینے پر اس کے آنسوؤں کے نشان باقی تھے اورو ہ اتنا اجنبی بن گیا تھا؟ کیسے؟؟؟ اُسے یقین نہیں آیا ۔ کیا بدبختی ابھی تک اپنے سیاہ سائے کے ساتھ اُس کے پیچھے تھی ؟؟؟
”کیا مطلب ؟” وہ سہم سی گئی ۔
” بہت سادہ سی بات ہے نور ! میں اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہوں ” اُس کا چہرہ بے تاثر تھا اور نورالصباح کے ہاتھ اُس کے چہرے سے الگ ہو کر نیچے گر گئے ، وہ ساکت آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھتی رہی ۔
”میرا بہت نقصان ہوچکا ہے ۔۔۔ میں اپنے پاپا کو کھو ہی دیتا اگر چند پل مزید دیر ہو جاتی ۔۔۔ میرے پاپا ہارٹ پیشنٹ ہیں ۔اور تم اندازہ بھی نہیں کر سکتیں کہ اُن کو جب ریکٹر آفس میں جب بلایا گیا تو اُن پر کیا گزری؟ تمہارے گھر تو کسی کو پتا نہیں چلا نا، اس لیے تمہار ا تو کوئی نقصان ہی نہیں ہوا۔ مجھ سے پوچھو کیا کیا کھو چکا ہوں میں ۔ وہ سب غلط تھا ۔۔۔ میں اس سب کو بھول جانا چاہتا ہوں ، اپنی زندگی سے کاٹ کر پھینک دینا چاہتا ہوں اُن دنوں کو ؟مگر وہ میری یاداشت سے نکلتے ہی نہیں ۔۔۔ میر ادل کرتا ہے نور۔۔۔ میں اپنے ماضی سے بھاگ جاؤں مگر۔۔۔” وہ بول نہیں رہا تھا زہراُگل رہا تھا۔ اُس کے لفظ تھے یا آگ کے شرارے جو اُس کو جلارہے تھے ۔
”بس کر دو۔” وہ یک لخت چلا کر بولی ۔
”بہت سن چکی ہوں میں، تمہیں نقصانات کی فکر ہے ؟ میرا کیا ؟ یونیورسٹی سے مجھے نکالا گیا ہے۔۔۔ مجھے ؟” وہ اپنے زرد چہرے کے ساتھ چلا کر بولی تھی ۔۔۔ اُس کی آنکھوں کی نمی ٹھہر چکی تھی اور اُس کا تنفس پھولا ہوا تھا ۔
عبدالہادی کا چہر ہ سرخ پڑ گیا ۔
”ہا ں ہے مجھے نقصانات کی فکر، تم نے مجبور کیا تھا مجھے ، اُکسایاتھا مجھے وہ سب کرنے پر ۔۔۔” وہ طیش میں آگیا ، ایک لمحے کو وہ ڈر گئی ۔ اُس نے عبدالہادی کو پہلی بار غصے میں دیکھا تھا ۔
” میں نے ۔۔۔اُکسایا تھا ؟” وہ بے یقینی سے اُنگلی اپنی طرف کرتے ہوئے بولی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں خوف بڑھ گیا تھا ۔
” تم ایک باشعور اور مجبور مر د ہو ۔۔۔ میں نے اُکسایا تھا تو تم قابو پالیتے خود پر ، سنبھال لیتے خود کو، میں نے تمھارا ہاتھ نہیں پکڑا تھا ۔۔۔” وہ غم وغصے سے بولتی بیڈ سے کھڑی ہو گئی ۔
وہ بھی اُس کے سامنے آگیا ۔
”ہاں پکڑا تھا میں نے ہاتھ ۔ لیکن اگر تمہیں اپنی عزت کا خیال ہوتا تو تم مجھے روکتیں۔ مگر تم نے مجھے نہیں روکا۔ تمہیں چاہیے تھا تم ایک تھپڑ مارتیں مجھے۔ ”وہ سفاکی سے بول رہا تھا۔ نور کا چہرہ دم بہ دم نُچڑتا جاتا تھا۔
”بس کردو! خدا کے لیے بس کردو۔تھپڑ تو تم مجھے ماررہے ہو اور وہ بھی ایک کے بعد ایک۔۔۔” وہ نڈھال ہو کے بولی تھی۔ اُس کے ہونٹ سفید تھے۔
”حقیقت بھی تو یہی ہے نورالصباح ! کون ہو تم ؟ کہاں سے آئی ہو ؟ میں نہیں جانتا۔۔۔ مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تم ایک ”اچھی لڑکی ” نہیں ہو ۔میں اس تماشے کو آج ختم کر کے جانا چاہتا ہوں ۔ میں تم سے دوبارہ ملنا چاہتا ہوں نہ تمھاری آواز سننا چاہتا ہوں ۔ میں اور میری فیملی اس ساری انسلٹ کو برداشت کررہے ہیں جب کہ تمہاری فیملی کو توکچھ بھی پتا نہیں اس لیے اب یہ مظلومیت کا ڈراما بند کردو ۔میرا حساب کلیئر ہے ۔ جو بھی آج تک میں نے تمہارے لیے کیا، اپنی دلی آمادگی اور خوشی سے کیا ۔اس لیے کسی بھی چیز کی واپسی کا مت کہنا۔ ہمارے درمیان اب کوئی ”آئندہ ” نہیں ہے۔” اُس نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تھی ۔ وہ مڑا تھا۔
اُس کی ٹانگوں نے جیسے اس کا بوجھ اُٹھانے سے انکار کر دیا وہ لرزتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی ۔ دروازہ کھلا،اُسے عبدالہادی کی سفید شرٹ کی آخری جھلک نظر آئی اور دروازہ بند ہو گیا ۔ وہ جاچُکا تھا ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!