سوزِ دروں — سندس جبین

اُسے پتا ہی نہ چلا کہ کب صبح کے پانچ بجے وہ تب چونکی جب اس کے موبائل نے ”بیٹری لو” کا سائن دیا ۔ اور وہ نہیں جانتی تھی مگر ایک عجیب بہاؤ تھا جس میں وہ دونوں بہتے چلے جارہے تھے اور دونوں ہی اس کے انجا م سے ناواقف تھے اور جب وہ یونیورسٹی میں ملے تو ایک دوسرے سے نظر نہ ملا پارہے تھے۔ نجانے اتنی شرم کیوں آرہی تھی ۔ نور کے گالوں کی لالی چھپائے نہ چھپتی تھی ۔
اور عبدالہادی۔۔۔ وہ تو ہواؤں میں تھا ۔وہ آج مسلسل نور کو دیکھ رہا تھا، اس کا دل ہی نہ بھرتا تھا۔ دل بھرتا بھی کیسے؟ وہ اتنی خوبصورت آج سے پہلے کبھی نہ لگی تھی۔ آخر ایک ہی رات میں وہ کون سا جام پی کر آئی تھی ۔وہ سوچنے پر مجبور تھا، دل تھا کہ پنچھی کی مانند اُڑان بھرتا اس کی سمت لپکتا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کئے اس ضدی دل کی مانتا چلا گیا ۔اور اُسی شب فیضان کے ساتھ بیٹھے وہ بہت کھویا سا تھا اور فیض اسے باور کروا رہا تھا کہ وہ بدل گیا ہے۔ اب وہ لنچ کے لیے ان سب کے ساتھ باہر نہیں جاتا تھا اب وہ اپنا لنچ لان میں نور کے ساتھ کرتا تھا ۔ فیضان نے اسے کئی بار دیکھا تھا مگر کبھی اسے جتایا نہیں تھا ۔
اور اب گزرے کچھ دن سے عبدالہادی کا عجیب طرح سے بدلا رویہ اسے الجھن میں مبتلا کررہا تھا ۔ وہ من موہنا سا لڑکا اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا ۔وہ بدل گیا تھا اور فیض ہی اس راز سے واقف تھا کہ اس کے دوست کی تبدیلی کے پیچھے وہ روشن چہرے والی لڑکی نورالصباح تھی۔ مگراُسے تبدیلی پسند نہیں تھی۔ ہاں اُسے تبدیلی بالکل پسند نہیں تھی۔ نہ لوگوں میں، نہ دوستوں میں، نہ رویوں میں اور نہ ہی رشتوں میں۔
وہ چیزوں کو ایک جیسا اور دائمی دیکھنا چاہتا تھا۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تبدیلی کائنات کا اصول ہے، اچھی اور بری دونوں طرح سے ہی یہ تبدیلی انسان کی زندگی کو بہتری یا بد تری کی طرف لے کر جاتی ہے۔
اُسے لگا تھا کہ اگر اس رات نورالصباح کو وہاں سے نہ بھیجتا تو شاید کچھ غلط ہو جاتا۔مگر وہ صرف ایک چیز سے واقف نہ تھا کہ وہ ”غلط”ہو چکا تھا ۔
٭…٭…٭

”مجھے نیند نہیں آتی اب ، مجھے تم بہت یاد آتی ہو نور ، میرا دل چاہتا ہے میں تمہیں اپنے پاس رکھوں” وہ بوجھل انداز میں بول رہا تھا ۔۔نور نے لب کچلتے ہوئے یہ لفظ سنے اور پھر ضبط کا بندھن ٹوٹا اور اس کی سسکیاں بے اختیار ہوگئیں وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی ۔
”مجھ سے اب دور نہیں رہا جاتا ۔۔۔ یہ درد نہیں سہا جاتا ، مجھے اپنے پاس لے جاؤ ناں”۔ وہ بے بسی سے چور تھی۔
عبدالہادی بے قرار ہو گیا ۔ بھلا اسے یوں روتے ہوئے کب دیکھ سکتا تھا وہ ۔ وہ تو اس کی جان تھی ۔
”نور میری جان، رو مت ۔۔۔میں تمہارے پاس ہی تو ہوں ۔۔۔ محسوس کروناں۔”اس کے انداز میں تڑپ تھی ۔ وہ کچھ اور شدت سے رونے لگی۔ پتا نہیں یہ کیساراستہ تھا۔ کتنا مشکل اور درد ناک تھا۔ وہ اس قدر تھک گئی تھی کہ ساری رات اس سے بات کرنے کے باوجود سکون، نہیں ملتا تھا۔سکون پتا نہیں کہاں کھو گیا تھا۔ نہ نماز پڑھنے کو دل کرتا تھا نہ ہی تلاوت میں توجہ ٹکتی۔۔۔ اندر کہیں یہ احساس گہر ا تھا کہ یہ راستہ غلط تھا ،ضمیر شاید کبھی زندہ تھا مگر اب وہ اگر جاگتا بھی تو وہ نظریں پھیر لیتی ۔ ان کی گفتگو ٹیکسٹ پر ہر حد پار کر چکی تھی ۔ وہ بہت عام انداز میں بہت بڑی بڑی باتیں کر جاتے تھے ۔۔۔شروع شروع میں ایک بار دونوں کو شرمندگی ہوئی جو کہ بعد میں ڈھٹائی میں بدل گئی تھی ۔ اُن کے نزدیک یہ ”محبت ” تھی ۔ اب تو ایک ذرہ برابر احساس بھی باقی نہ رہا تھا ۔ عبدالہادی نے اس پر عنایات کا ڈھیر لگا دیا تھا ۔ ڈیزائنرکُرتے، پرفیومز ، گھڑیاں اور وہ نیو موبائل بھی تو شامل تھا اس میں ۔۔ جس میں سے کبھی اس نے بیلنس ہی نہ ختم ہونے دیا تھا ۔ اور وہی نور جو بیگ میں پراٹھا رول کر کے جس میں آملیٹ اور چیز کی فلنگ ہوتی تھی جسے وہ پیپر میںلپیٹ کر آرام سے کہیں بھی بیٹھ کر کھا لیا کرتی تھی، اب وہ اس کشٹ سے بھی آزاد ہو چکی تھی ۔ اب لنچ اُسے ہادی کے ساتھ کرنا ہوتا تھا اور ظاہر ہے اس کی پے منٹ بھی وہ خود کرتا تھا ۔ اور یوں درحقیقت وہ اس کے لیے پاگل ہو چکی تھی۔۔۔ اور اسے لگتا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک تھی ۔ بھلا کون کرتا ہے آج کل کسی پر اتنی مہربانیاں؟ صرف وہی جو محبت کرتا ہو ۔ عبدالہادی اس کے لیے پاگل تھا ۔ اس کا دیوانہ تھا، اس پر جان چھڑکتا تھا اور اس کا بس چلتا تو وہ کائنات اس کے لیے خرید لاتا ۔ اسے نور کے سوا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا ۔
اور جب وہ عبدالہادی کو خود پر اتنا مہربان پاتی تو لگتا ہر خواب سچ کا روپ دھار کر سامنے آگیا ہو ، اور وہ اور بھی اس کے پیچھے دیوانی ہوتی جاتی تھی ۔ اسے لگتا تھا کہ بھلا اب مزید کس چیز کی جستجو باقی رہ گئی ہے ۔ سب کچھ تو مل گیا تھا ۔ سمسٹرکا مڈ آیا تو وہ دونوں جیسے ہوش میں آگئے ۔ ۔۔اب ”محبت بھرے ”ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اسٹڈیز کی بات بھی کرنا پڑتی تھی۔ دل تو نہ کرتا مگر مجبوری تھی او ر ایک دن یوں ہوا کہ وہ رات بات نہ کر پائی۔ شدید سر درد کی وجہ سے وہ سو گئی جب اگلی صبح جاگی تو عبدالہادی کی اکیس مسڈ کالز اور اکتالیس میسجز دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی ۔ اس نے لرزتی انگلیوں سے اسے جوابی پیغام لکھنے کی کوشش کی مگر جذبات کا غلبہ اس قدر تھا کہ اس کے آنسو نکل آئے اور وہ کچھ بھی ٹائپ ہی نہ کر سکی ۔ وہ کیا کرتی ؟؟؟
کس قدر بڑا ظلم ہو ا تھا اس سے ، کو ئی اس سے پوچھتا؟ وہ رات سو گئی ، مگر سو کیسے گئی؟ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ دل چاہا اپنا سر دیوار سے دے مارے۔ پتانہیں کیا ہو گیا تھا اسے؟ بھلا ہادی کیا سوچتا ہو گا کہ وہ کتنی بد تمیز اور احسان فراموش تھی؟ اتنی لا پرواہی پر پتا نہیں وہ اسے معاف بھی کرتا یا نہیں ۔۔۔ اس نے کوئی ستاسی میسجز سوری کے لکھ کر اسے بھیجے ۔۔۔ جو اباً صرف یک حرفی رپلائے آیا تھا ”اوکے ” جو کہ اسے جلا کر راکھ کر گیا ۔ وہ جان گئی کہ وہ اس سے سخت ناراض تھا اور اسے لگا اس کی روح تڑپنے لگی ہو۔
ا س نے جلد ی جلدی یونیورسٹی جانے کی تیاری شروع کر دی۔ بنا ناشتہ کئے جب وہ یونیورسٹی پہنچی تو عبدالہادی کہیں نہیں تھا ۔ کلاس بنک کر کے وہ اپنے اور اس کے پسندیدہ بینچ پر آبیٹھی۔ اسے پتا تھا وہ کہیں بھی ہوا اِدھر ضرور آئے گا۔ موسم میں ہلکی سی خنکی تھی اور اسے یوں دھوپ میں بیٹھنا اچھا محسوس ہورہا تھا۔ وہ مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی ۔ اس کی آنکھیں عبدالہادی کو تلاش رہی تھیں ۔اور پھر وہ اسے کچھ دیر بعد نظر آگیا ۔ بلیک جینز اور ریڈ اپر میں وہ واقعی دیکھنے کی چیز لگ رہا تھا ۔ اس کی نظر نور پر پڑی تو وہ چونکا اور پھر تیزی سے اس کی طرف بڑھا ۔ ۔۔ اس نے دیکھا نور کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور چہرہ اُترا ہوا تھا ۔۔۔وہ وہیں بیٹھی نظریں جھکائے اپنے پیروں کو دیکھتی رہی ۔وہ اس کے پاس بیٹھ گیا ۔
”کیسی ہو” اس کا انداز سادہ ساتھا ۔
”ٹھیک” وہ اپنی آنکھوں پہ حیران تھی جو پھر سے بہنے کو تیار تھیں ۔
”یہ چہرے کو کیا ہوا ہے ”؟ وہ فکر مندی سے پوچھ رہا تھا اور بس ۔۔۔ نور کے آنسو بے اختیار بہتے ہوئے اس کے گالوں سے پھسلے اور اس کے ضبط کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُس کی گود میں رکھے ہاتھوں پر جا گرے۔
وہ دیکھ چُکا تھا اور شاید مزید ضبط کرنااس کیلئے بھی ممکن نہ رہا تھا ۔ وہ آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ پھر اس کا جھکا ہوا چہرہ اُٹھایا جو کہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔ وہ تڑپ ہی تو اٹھا ۔۔ دھیرے سے اس کا ہاتھ دبا کر اسے اٹھنے کا اشارہ کیا، وہ بنا کچھ بولے اس کے پیچھے چلتی گئی ۔ کسی تنویمی عمل کے معمول کی طرح۔۔۔!
اُس کارخ گاڑی کی طرف تھا ۔ اس روز وہ اسے شہر سے بہت دور لے گیا ۔۔۔ بہت کھلی جگہ پر جہاں بہت سے درخت اور سبزہ تھا ۔۔۔ وہ دونوں گاڑی میں ہی بیٹھے رہے ۔۔۔ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کافی پلا رہا تھا ۔اور اس کا سر اس نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ دائیں ہاتھ سے کافی کا ڈسپوزایبل گلاس اس کے لبوں سے لگاتے ہوئے باتیں ہاتھ سے بال سہلا رہا تھا۔
نورالصباح کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا ہاتھ عبدالہادی کے سینے کے گرد لپٹا ہوا تھا ۔
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی ۔ وہ دونوں کوئی بات نہیں کررہے تھے ۔اور جب اس نے کافی ختم کر لی تو اس نے نور کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔ نور نے نظریں اُٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ”طلب ” واضح تھی۔
اور اس نے خاموشی سے سر ‘جھکا ‘دیا ۔
٭…٭…٭
وہ بھی ایگزامز سے پہلے ایک دن بور تھی جب عبد الہادی نے اسے واٹس ایپ دیکھنے کا میسج کیا۔ وہ تیزی سے نیٹ آن کرتی واٹس ایپ کھولنے لگی ۔ مگر اسے دھچکا لگا۔
وہاں اُس کی اور عبدالہادی کی تصویر تھی ۔ یہ کب لی گئی تھی، وہ آگاہ نہ تھی ۔
ہوبہو وہی انداز، دونوں ایک ساتھ گاڑی میں بیٹھے تھے ، اس کا چہرہ عبدالہادی کے کندھے پر تھا اور اس اگلی چیز نے اسے تھرا کررکھ دیا تھا ۔۔۔ عبدالہادی کے ہونٹ اس کی پیشانی پر تھے اور اُن دونوں کی آنکھیں بند تھیں ۔
اُسے یقین نہیں آیا۔ بھلا یہ تصویر کب بنائی تھی اُس نے کہ اُسے پتا ہی نہ چلا تھا ۔وہ یک ٹک موبائل اسکرین کو دیکھی جار ہی تھی،جب عبدالہادی کا پیغام چمکا۔
”کیسا لگا سرپرائز؟” وہ چہکا ۔
”بہت اچھا ۔۔۔۔ مگر یہ کب لی؟ ” وہ الجھن دور کرنا چاہتی تھی۔
”اُسی وقت لی تھی ۔۔۔ کیمرہ ساؤنڈ بند کر کے ” وہ مزے سے بتا رہا تھا ۔اور نور کے ہاتھ پیر سَنسنا اٹھے ، اُسے واقعی پتا نہیں چلا تھا کہ اُس نے کب لی تھی یہ تصویر؟ اور اُسے تین ماہ گیارہ دن کے اس ریلیشن شپ میں پہلی بار ”ڈر” لگا تھا ۔ عجیب سا ڈر ۔۔۔ اگر یہ تصویر کوئی اور دیکھ لیتا تو ؟ اور اس بات کا قوی امکان تھا کیوں کہ اُسے یاد تھا کہ اک بار یوںہی فیضان نے عبدالہادی کا فون دیکھ لیا اور نور کا میسج بھی اوپن ہو گیا تھا اور اگر دوبارہ بھی فیضان دیکھ لیتا تو؟؟؟ اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ رہی تھیں ۔
وہ خو ش نہیں ہو پائی تھی ۔خوش ہونا ممکن بھی نہ تھا۔
کسی کے اس تصویر کو دیکھ لینے کا خوف زیادہ بھاری تھا، دونوں انسان بہ ظاہر نامحرم اور اجنبی تھے اور اُن کی قربت کسی حال میں بھی جائز نہ تھی ۔
مگر ابھی بھی اُسے صحیح غلط کی بجائے اس بات کی زیادہ فکر تھی کہیں وہ کسی کی نظر میں نہ آجائے ۔اُسے عبدالہادی کے تصویر بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔
حالاں کہ ”اعتراض” ہونا چاہیے تھا۔
وہ واقعی ایک اندھی محبت کا شکار ہو چکی تھی اور اندھی محبت بند گلی کی طرح ہوتی ہے جس کے آگے کوئی راستہ نہیں ہوتا اور واپسی کے راستے انسان خود بند کر لیتا ہے ۔ پیپرز کے بعد اُن کا ٹور جارہا تھا ۔ وَن ڈے ٹور تھا اور اسلام آباد کے تاریخی مقامات دیکھنے تھے ۔سب ایکسائیڈڈ تھے مگر نور کو بڑی اچھی طرح پتا تھا کہ اُسے پرمیشن نہیں ملے گی ۔ اس لیے جب ہادی نے اُس سے ٹور کا کہا تو اس نے دبے دبے لفظوں سے اُسے اماں کا انکار سنا دیا ۔ جواباً وہ ہنس پڑا ۔اک ہلکی سی طنزیہ ہنسی ۔۔۔ نور کو کچھ عجیب سا لگا تھا مگر وہ خاموش رہی۔ وہ اُلٹا حیران ہو کر اُس سے پوچھنے لگ گیا کہ بھلا اُسے ”اجازت” کی ضرورت کب تھی؟ اُس کا انداز نور کو کچھ مزید چُبھا مگر وہ خاموش رہی اور پھر موضوع بدلنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ ٹور جانے میں ابھی چار دن تھے جب عبدالہادی نے اُسے بتایا کہ وہ اُس کے لئے ایک سرپرائز پلان کررہا تھا اور وہ دھیمے سے مسکر ادی ۔ اُسے اندازہ تھا کہ یہ بھی کوئی گفٹ ہو گا کیوں کہ عبدالہادی ہمیشہ اسی طرح سرپرائز گفٹ دیا کرتا تھا۔
اگلے دن وہ خاص طور پر وہی سیاہ فراک پہن کے گئی جو عبدالہادی کو بہت پسند آئی تھی۔
گلے میں سرخ شفون کادوپٹہ ڈالے، سر کو ایک سیا ہ اسکارف سے ڈھانپے وہ آج بدلی بدلی سی لگ رہی تھی، اس لیے بھی کہ اس کی سدا کی خالی آنکھوں میں آج کاجل کی گہری لکیر تھی۔





عبدالہادی نے جب اُسے دیکھا تو چند لمحے اُس کی نظر ہٹ ہی نہیں سکی ۔وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی اور اُس کا دل چاہا کہ وہ اُسے اُڑا کے کہیں دور لے جائے۔
”میرادل چاہ رہا ہے میں تمھیں کہیں چُھپا دوں”۔ وہ سخت بے تاب تھا ۔ کلاس کے دوران اُسے ٹیکسٹ کررہا تھا ۔نور نے سر جھکا کر مسکراہٹ دبائی ۔ یہ آخری کلاس تھی اس کے بعد یقینااُسے اس کا” سرپرائز ”مل جاتا ۔
کچھ دیر بعد سر نے لیکچر ختم کیا اور آہستہ آہستہ سٹوڈنٹس باہر نکلنے لگے ۔ عبدالہادی نے اُسے کہا تھا کہ وہ باہر مت جائے، اِدھر ہی رکے ۔۔۔ اس لیے وہ بہ ظا ہر خود کو مصروف ظاہر کرتی کتابیں سمیٹتی رہی یہاں تک کے سب باہر نکل گئے ۔
کچھ دیر بعد وہ کمرہ خالی ہو چکا تھا ۔نور نے اِدھر اُدھر دیکھا، اُسے یہ کمرہ بہت بُر ا لگتا تھا۔ پتا نہیں کیوں اسے یہاں عجیب سا خوف آتا تھا ۔
شاید اس لیے کہ اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی اور اُس کے ایک کونے میں دیواروں پر عجیب سے خاکے بنے تھے، مِٹے مِٹے سے۔عبدالہادی نے ایک بار اُسے بتایا تھا کہ یونیورسٹی کے کسی فنکشن میں اسے بھوت بنگلا بنایا گیا تھا اور کہنے والے کہتے تھے کہ لوگ واقعی یہاں ڈر گئے تھے ۔
عجیب پرُاسرار سا کمرہ تھا ۔
اس لیے وہ واقعی اِدھر زیادہ دیر بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھی مگر آج تو بیٹھنا مجبوری تھی ۔اور دوسری بات یہ بھی تھی کہ اُن کا آخری لیکچر اِدھر ہوتا تھا اس لیے بھی وہ ادھر ہی رک سکتے تھے ۔
اُس نے خیالات کو ایک طرف جھٹک کردروازے کو دیکھا جہاں عبدالہادی کسی سے بات کررہا تھا۔ پھر وہ دوسرا لڑکا وہاں سے چلا گیا اب وہ اُس کی طرف آرہا تھا ۔ نور کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ۔وہ ظالم آج قیامت ڈھا رہا تھا ۔ بلو جینز اور لائٹ پرپل شرٹ میں اُس کے بھورے کانچ چمک رہے تھے۔ اب وہ دونوں تنہا تھے ۔
نور نے اطمینان کا سانس لیا اب وہ بے تابی سے اپنے سرپرائز کا انتظار کررہی تھی۔ مگر اسے عبدالہادی کے ہاتھوں میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔
اُسے حیرت ہوئی۔
بھلا اس کا ”سر پرائز” کہاں تھا؟
وہ اس کے قریب آیا تو چند لمحے دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ نور کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور عبدالہادی کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جاتی تھی۔
”پتا ہے میرا کیا دل کررہا ہے ؟” وہ دھیمے لہجے میں بولا تھا ۔نور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔
”کیا ”؟ اُس کے لب ہلکے سے کھلے ۔
”میر اد ل کررہا ہے کہ تمھیں میں دنیا سے چُرا کرلے جاؤں ” ۔ اُس کی آنکھیں تو چراغ تھے جنہوں نے اس پلنور کے گالوں کے نیچے شمعیں جلاد یں تھیں ۔ اُس کے گال سُرخ پڑنے لگے ۔
”اتنی خوبصورت لگو گی تو کوئی خود کو کیوں کر بچا پائے گا ؟ کوئی کتنا قابو کر سکے گا اپنے ناتواں دل پر ؟ تم تو بے رحم حسینہ ہو۔ قطعی نرمی نہیں کرتیں ۔ کیسے خنجر سے وار کرتی جاتی ہو اور اس دل کو دیکھو کیسے لہو لہان ہوا پڑا ہے ۔ رگِ جاں میں ایک حشر برپا کر دیتی ہو ؟ بولو کیسے سنبھالوں خود کو ؟ بولو؟”
وہ اُسے گہری ، بے قرار اور بے تاب نظروں سے دیکھتا اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ رہا تھا ۔
نور نے گھبرا کر دروازے کو دیکھا جو کہ کھلا ہوا تھا ۔ وہ اک پل میں اُس کا مدعا جان گیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا ۔
یہ مضبوط لکڑی کا کافی بھاری دروازہ تھا جسے چٹخنی سے بند کیا جاتا تھا اور عبدالہادی نے ایک پل میں وہ چٹخنی چڑھا دی ۔
دروازہ بند کرنا بہت عجیب عمل ہے، یہ راز داری کو جنم دیتا ہے اور ایک پر اسرار احساس پیدا کرتا ہے اور اسے احساس نہیں تھا اُس نے ایک دروازہ بند کر کے اپنے لیے کیا کچھ بند کر دیا تھا۔ اُس بند دروازے نے اُس کی شہرت، کردار اور نام کے آگے ایک سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔
اور نورالصباح !
آہ۔۔۔ نورالصباح ، بے خبر روح، نہیںجانتی تھی کہ اُس نے اپنی لا علمی میں عبدالہادی سے کیا کروایا تھا۔وہ اُس کا ڈرا ہوا انداز، اس کی جھکی گری پلکیں جن کو گُریزاں انداز دیکھ کر عبدالہادی نے وہ دروازہ بند کیا تھا، وہ اُس کی نظریں ہمیشہ جھکا دینے والا تھا ۔
اُس بنددروازے نے اُس کے نصیب کی خوش بختی کے دروازے کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا تھا ۔
وہ دروازہ بند کرکے اس کی طرف آیا، دو چیئرز سیدھی کیں اور اُسے ایک پر بٹھا دیا۔ وہ کنفیوز سی اُسے دیکھے جارہی تھی، جو کہ اب دھیما سا مُسکرا رہا تھا ۔
اُس کی طرف دیکھتے ہوئے عبدالہادی نے اپنی دائیں پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹی سی ڈبیا نکال لی، نور کو یقین نہیں آیا ۔
اب و ہ ایک گُھٹنا زمین پر ٹکائے دوسرا کھڑا کیے اُس کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔۔۔ اُس کا دیوانہ اُس کا منتظر تھا ۔۔۔ نور بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
اُس نے ڈبیا کھولی ، وہاں وہ چیز تھی جس کی اُس نے عبدالہادی سے سب سے زیادہ خواہش کی تھی ۔۔۔ ایک خوبصورت رنگ،سادہ سی گولڈ کی رِنگ جس کے اندر ایک سُر خ نگینہ جوکہ چمک رہا تھا، ا ور اُس کی چمک سے نور کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جارہی تھی ۔ وہ سُرخ رنگ اُس کے دل جیسا تھا ۔




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!