سوزِ دروں — سندس جبین

وہ یہ ڈیزرو نہیں کرتی تھی۔ بھلا چند مارکس کے فرق سے صرف ایک سبجیکٹ رہ جانا۔ وہ بے تحاشا روئی اور غم و غصے کے عالم میں اُس نے یہ بھی سوچ لیا کہ وہ اگلی Attemptکسی صورت نہ دے گی ۔ مگر چند دنوں بعد اُن کافون آگیا ۔ وہی میٹھا لہجہ ، پیار بھری ڈانٹ۔۔۔ وہ اُسے سمجھارہی تھیں ۔ اُسے دوبارہ سے جوڑرہی تھیں اور وہ دھیان سے سنتی گئی ۔
اُسے واقعی ایک کوشش اور کرنی چاہیے تھی ۔
٭…٭…٭





”ناکامی ،کامیابی کی سیڑھی ہے ، جس وقت ہم مایوس ہو کر Quitکرنے کا سوچتے ہیں کامیابی اُس سے اگلے قدم پر ہمارا انتظار کررہی ہوتی ہے ”
ایک معرو ف جریدے میں فرنٹ پیج پر یہ چند لائنز لکھیں تھیں اور اس کو کھولا تو صفحہ نمبر اکیس پر وہ ایک مکمل انٹرویو تھا ۔
سی ایس ایس میں نوویں پوزیشن لینے والی لڑکی کی تصویر۔ جس کے سر پر ایک ریڈ اسکارف تھا اور ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ ۔
وہ ”نورالصباح کریم ” تھی ۔
جس نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی تھیں، بہت سے غلط قدم اُٹھائے تھے مگر اس نے مڑ کرناکامیوں کا ماتم نہیں کیا تھا ۔ماضی کو ماضی میں چھوڑ کر آگے بڑھ گئی تھی ، اپنے آج کو خوبصورت بنانے کی جدوجہد کی تھی اور اپنے مستقبل کی پلاننگ کی تھی ۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ عبدالہادی کو بھول گئی تھی ۔ اُس سے نفرت کرنے لگی تھی یا اُس کو بُرا جاننے لگی تھی ۔ ایسا کچھ نہیں تھا ۔
آج بھی وہ اُسے یاد آتا تو اُس کی آنکھیں نم ہو تی تھیں ، اُس کے دل میں کسک تھی ۔ وہ اُس کیلئے کہیں نہ کہیں نرم گوشہ رکھتی تھی ۔شاید اس لیے بھی کہ وہ اُس کی پہلی محبت تھا۔ اور پہلی محبت جیسی بھی ہو ایک لڑکی کو اُسے بھولنے میں وقت لگتا ہے ۔
اُس کی باتیں ،اُس کی یادیں آج بھی اسے تڑپاتی تھیں، مگر اب وہ سوچتی نہ تھی۔ کیوں کہ ان پر کڑھ کر سوائے اپنا خون جلانے کے وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکتی تھی ۔
وقت آگے بڑھ چکا تھا ۔
اُس کا مقام ، اُس کا سٹیٹس بدل چُکا تھا ۔ اب اُس کا ”وقت ” تھا ۔
٭…٭…٭
اور وہ محبت ۔۔۔اُدھر ہی کھڑی ہے ۔۔۔ وہیں رُکی ہوئی ،
فیضان خان کی محبت !
نورالصبا ح سے اُس کی محبت !
اُس روشن پیشانی والی لڑکی سے اُس کا پیار!
اور اُس کے ہمیشہ اسکارف میں ڈھکے سر سے اُس کا پاکیزہ عشق!
ہر چیز اُسی طور قائم و دائم تھی ۔
وہ بھولا نہیں تھا۔ بھول سکتا ہی نہیں تھا۔ اُس کا وہی سرخ اس کارف میں لپٹا ریڈ رائڈنگ ہُڈ جیسا معصوم چہرہ ۔۔۔ جو کہ ایک میگزین کے صفحہ نمبر اکیس پر تھا ۔
وہ روشن آنکھیں جن کے پار شاید بیتے دنوں کاعکس دُھندلا سا نظرآتا تھا ۔
اُس کی تابندہ پیشانی پر کامیابی کی چمک تھی ۔اور وہ اُسے اتنے عرصے بعد آج دیکھ رہا تھا تو بہت دیر اُس کی تصویر دیکھتا رہا ۔
اُس کی آنکھوں میں خوشی کی بھری نمی تھی۔ آج صرف وہی سرخ رو نہ ہوئی تھی، فیضان بھی کامران ہو گیا تھا۔ اُس تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ ساڑھے تین سال پیچھے چلا گیا۔
اُن دنوں وہ دن رات پاگلوں کی طرح صرف نور کو ڈھونڈ رہا تھا اور یونیورسٹی کو یکسر بھولا ہواتھا۔ اُسی دوپہر اُس نے لبنیٰ خالہ کو کال کی ۔ وہ اس کی اکلوتی خالہ تھیں۔ بے حد خوبصورت، نفیس اور شائستہ مزاج، اپنا اسکول چلا رہی تھیں ۔ پتا نہیں کیوں اُس کا دل بہت بھرا ہوا تھا اور اس کی دوست جیسی خالہ، اُن سے بات کر کے یقینا وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ۔ اُس نے کال کی تو وہ پک کر کے اپنے انٹر کام پر مصروف ہو گئیں ۔
”فیضان ! بیٹا دو منٹ ہولڈ کیجئے گا۔” اُسے ہولڈ کروا کے وہ اپنے انٹر کام پر بات کرنے لگیں ۔
”اقرا ! وہ لڑکی بیٹھی ہوئی ہے ؟ بی کام والی ؟ ہاں کیا نام تھا ؟ نور ۔۔۔۔ پورا نام ۔۔۔ اچھا نورالصباح ۔۔۔اوکے بھیج دیجیے۔” انہوں نے بات کرتے کرتے ہدایات دیں تو فیضان اُچھل ہی پڑا ۔ کیا وہ ”نورالصباح ” تھی اُس کی ؟
وہی نورالصباح ۔۔۔ ”نورالصباح کریم ۔”
اُس کا دل تیز گام کی طرح دھڑ دھڑ کرنے لگا ۔
‘خالہ ! میری بات سنیں ۔” وہ تیزی سے بولا اور پھر وہ آہستہ آہستہ کچھ سمجھانے لگا ۔
کون تھی نورالصباح ؟
وہ کیا چاہتا تھا ؟
کب سے ڈھونڈ رہا تھا اُسے ؟؟
وہ سب انہیں بتاتا گیا ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اب اُنہیں کیا کرنا تھا ۔ اُس نے سوچا تھا اب اُسے ہر حال میں اُس لڑکی کو بچانا ہے، اُ س کی ٹوٹی بکھری زندگی کو سمیٹنا ہے ۔ اُسے زندگی کی طرف لے کر آنا ہے ۔اُسے اپنی ذات پر یقین کرنا سکھانا ہے ۔
اور یہ سب کسی صورت خالہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا ۔اُسے یہ ہر صورت کرنا تھا ۔
اُس رات وہ اُن کی طرف گیا اور اُس کی سی وی پکڑے کتنی دیر دیکھتا رہا ۔ یہ معجزہ نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ وہ جتنا شکر ادا کرتا کم ہوتا ۔ کیسے وہ اس کی تلاش میں خوار ہورہا تھا اور وہ یوں اچانک بیٹھے بٹھائے مل جائے گی اسے جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔
خالہ بے چین تھیں ۔
اُنہوں نے کبھی اُسے یوں کسی لڑکی کے لیے پریشان نہ دیکھا تھا ۔ وہ ان سے بہت اٹیچ تھا اور جب وہ اسے پوچھتیں کہ اُسے اب تک کوئی لڑکی کیوں پسند نہیں آئی تو بس وہ مسکرا کر ٹال دیتا۔
اور اب؟؟؟ وہ بے یقین تھیں ۔





وہ سُرخ آنکھوں میں نمی لیے اُس سی وی کو دیکھتا جارہا تھا اور انہوں نے دیکھا وہ اس کے نام پر انگلی پھیررہا تھا ۔اُنھیں یک لخت احساس ہواتھا کہ بات اتنی سیدھی نہ تھی ۔
آخر کون تھی یہ نورالصباح ؟ جس نے فیضان خان جیسے بندے کو ہلا کے رکھ دیاتھا۔وہ فوراً سے سب جان لینا چاہتی تھیں ۔ مگر جب وہ بولا تو اس نے اُن کے ہاتھ تھام کر بڑی شدت سے بس اتنا ہی کہا تھا:
”خالہ ! یہ مجھے بہت عزیز ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ خود کو ضائع کردے گی، آپ کو مجھ پر ایک احسان کرنا ہو گا۔”
اُس کے لہجے میں ایسی تڑپ تھی کہ انھیں مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی، وہ جان گئی تھیں کہ ”وہ لڑکی ” اُس کے نزدیک کیا تھی ۔
پتا نہیں آج کل کے زمانے میں وہ لڑکا، فیضان کون سے زمانے کی بات کرتا تھا ۔
تعلقات میں اتنی پاکیزگی انہوں نے کبھی نہ دیکھی تھی ۔وہ سامنے بیٹھا بولتا رہا اور انہیں اس لڑکی پر رشک آتا رہا ۔
بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟وہ ہچکچا سی گئیں۔”ناکامی ” کا خوف اس سے شیئر کیا تو ہلکا سا مسکرادیا اس کی سیاہ آنکھیں ذرا مدھم پڑ گئیں۔
”ناکامی کے خوف سے کوشش چھوڑ دینا انسانیت کا شیوہ نہیں ۔ ”
ناکامی ، کامیابی کی سیڑھی ہے ۔جس وقت ہم مایوس ہو کر Quit کرنے کا سوچتے ہیں، کامیابی اُس سے اگلے قدم پر ہمارا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔” اس نے مضبوط لہجے میں کہا ۔
ان کی آنکھوں میں ستائش ابھر آئی ۔لڑکے میں واقعی کچھ تھا ۔انہوں نے اسے تسلی دینے والے انداز میں اس کا شانہ تھپکا تھا ۔پھرسب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہونے لگا۔
انہوں نے اسے Motivate کیا۔۔۔۔ اس کے اند ر ٹوٹا ہوا اعتماد اور Self esteem کو جگایا اور اسے ایک ٹریک پر چلا دیا۔
وہ ہفتے میں ایک دفعہ ان کی طرف آتا اور خالہ کے تاریک بیڈروم میں کھڑا۔۔۔۔ روشنیوں میں گھری، کاغذات میں اُلجھی اس لڑکی کو دیکھتا جو اس کا دل تھی اور پھر پچھلے دروازے سے نکل جاتا۔
وہ ہمیشہ ان سے پوچھتا کہ اسے کچھ چاہیے تو نہیں ۔ وہ اسے بکس بتاتی رہتیں اور وہ لا دیتا ۔ وہ سی ایس ایس کی پروفیشنل کوچ تھیں ۔ خود بھی سروس کر چکی تھیں، پھر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ایک دو دفعہ انہوں نے اُس سے کہا کہ وہ اس سے ملتا کیوں نہیں تو وہ سر جھکا لیتا اور بس اتنا ہی کہتا ۔
”ابھی اس کا وقت نہیں آیا ۔”
اور وہ طویل سانس بھر کر اُس کے صبر کو دیکھتیں ۔ پھر اسے سمجھانے لگتیں کہ اس لڑکی میں تو کریز اور اسکل تھی، وہ تو کچھ کر ہی جائے گی ۔وہ خود بھی کچھ کرے ۔
آگے سے وہ سر ایک طرف گرا کے ہنس دیتا ۔ پھر بے نیازی سے ماتھے کے بال سنوار کے کہتا :
”ڈیڈ کی پوری آئل کمپنی سنبھال رہا ہوں ۔مجھ سے پڑھا نہیں جاتا ۔”
اور یہ سچ ہی تھا ۔ وہ یونیورسٹی چھوڑ چکا تھا ۔ نہ وہاں دوست رہا نہ وہ پیاری لڑکی ۔وہ دو وجوہات جن کی وجہ سے وہ کبھی چھٹی نہ کرتا تھا ۔ جب وہی نہ رہیں تو اس کا دل بھی نہ لگا ۔اور اسے لگا کہ ایم بی اے دُنیا کا سب سے مشکل کام تھا ۔
عبدالہادی کے بارے میں اُس کے پاس مکمل رپورٹ ہوتی تھی ۔ وہ ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد اپنے پاپا کی فرم جوائن کرچُکا تھا اور آج کل وہ شہر کے ایک کامیاب بزنس مین کی شہرت حاصل کررہا تھا ۔آج کل وہ ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا جارہا تھا اور غالب امکان تھا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے متعلق سنجیدہ نہ تھا ۔
اور فیضان کو حیرت ہوئی تھی ۔ یہ نورالصباح کے بعد کوئی پانچویں لڑکی تھی جس سے اس کی دوستی ہوئی تھی اورسوائے نورالصباح کے ، وہ سب سے publicallyملتا رہا تھا اور وہ ساری لڑکیاں ہی خوبصورت اور اسٹائلش تھیں اور بہ ظاہر اُن سب کے ساتھ اُس کی دوستیاں ختم ہونے کی کوئی وجہ سمجھ نہ آئی تھی مگر فیضان اس کو جانتا تھا اور یہ عبدالہادی کی شخصیت کی خامی تھی کہ وہ مستقل مزاج نہیں تھا ۔ وہ چیزوں سے اور لوگوں سے جلدی بور ہو جاتا تھا ۔
اُسے تبدیلی پسند تھی اوروہ کوئی بھی رشتہ زیادہ دیر دلچسپی کے ساتھ اسے فوکس نہیں کرپاتا تھا۔ اسے “Newness” چاہیے ہوتی تھی اور عبدالہادی کے اسی خامی کی وجہ سے اُسے یقین تھا کہ وہ جلد یا بہ دیر نورالصباح سے Fed-upہوگا، پھر Irritate اور پھر Break up۔ وہ واقعی عبدالہادی کو جانتا تھا۔
اور وہاں وہ لڑکی ”نورالصباح ” اس سے بے خبر تھی کہ کوئی کس قدر اس کی ”خیر” کے لیے کوشش کررہا تھا ۔
وہ کامیابی کی جس سیڑھی پر چڑھ رہی تھی اس کے نیچے سہارا دینے والے ہاتھ ، اُس سیڑھی کو تھامنے والے ہاتھ فیضان خان کے تھے ۔
وہ واقعی بے خبر تھی ۔
٭…٭…٭





ہم کو لو ٹا ہے اس شہر نے اے جانِ وفا!
جس کی گلیوں میں محبت کا کچھ حساب نہ تھا
وہ جو آنکھوں میں محبت کو لیے پھرتے تھے
اُن کے دل میں تھی وہ نفرت کہ کچھ حساب نہ تھا
آج اس کا اس شہر، اس گھر میں آخری دن تھا ۔ اُس کی پہلی پوسٹنگ PSP میںہوئی تھی اور اُسے دودن بعد جوائننگ دینا تھی ۔ وہ اپنی پیکنگ کررہی تھی اور اس نے جب الماری کا وہ خانہ کھولا جس میں عبدالہادی کی ‘عنایات’ بند تھیں، تو چند لمحوں کے لیے اس کا دل بڑی گہرائی میں جا ڈوبا تھا ۔اُس کے ساتھ گزرا ہر لمحہ ا س کی آنکھوں کے سامنے کسی ریل کی مانند گزر گیا ۔
اُس نے خشک آنکھوں سے وہ کارٹن پیک کیا اور اوپر”گاربیج” کا ٹیگ لگا دیا ۔
اُسے ان تین سالوں میں یہ بات بڑی اچھی طرح سمجھ آچکی تھی کہ عبدالہادی اور اس کی محبت کیوں معتبر نہ ٹھہری تھی ؟
جس محبت میں خدا کی بنائی حدود کو توڑا جائے، جس محبت میں دوسرے انسان کو دیوتا مان کر پوجا جائے، جس محبت میں ایک انسان کو ‘عنایات’ کے سمندر میں ڈبو کر سر اٹھانے کے قابل نہ چھوڑا جائے اور وہ محبت جس میں ایک مضبوط مرد اپنی کمزوری کا الزام ایک کمزور لڑکی پر دھر کے اُسے لوگوں کے آگے شکار ہونے کے لیے چھوڑ جائے، تو یہ ”محبت” نہیں ہو سکتی ۔
ہا ں یہ ”ہوس” ہو سکتی ہے ۔ احساس برتری ہو سکتا ہے، مگر محبت نہیں ؟؟؟
چراغ محبت کو جلانا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اس کی لَو کو ناموافق ہواؤں سے بچانا ۔۔۔ اور جب ایک محبوب اپنے محب کو تڑپتا چھوڑ جائے تو چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتا ہے ۔
محبت ”آب کاری”کرتی ہے، خالی دل اور خالی گھر بھرتی ہے ۔۔ خالی آنکھوں کو روشنی سے نوازتی ہے ۔ اور وہ محبت جو روشنی چھین لے، اس کا نہ ہونا ہی بہتر ، اُس کا زندگی سے چلے جانا ہی اچھا ۔
٭…٭…٭
آج اُس نے ان کے لیے ایک سرپرائز رکھا تھا ۔ ایک خوبصورت تھینکس کا کارڈ اور گفٹ اور ساتھ ڈھیر سارے پھول۔۔۔۔
بس اُ س نے انہیں وقت نہ بتا یا تھا۔ اُن کے لیے تیار ہوتے ہوئے اُسے شدت سے احساس ہو اتھا کہ بعض لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔اس وقت وہ ایک بلو جینز اور لائٹ ییلوکُرتے میں ملبوس تھی جس کے ساتھ ییلو اسکارف تھا ۔ اسکارف آج بھی اس کے لباس کا حصہ تھا ۔اُس نے جلدی جلدی سامان سمیٹا اورروانہ ہو گئی ۔ اُس کے ہونٹوں پر پرُاطمینان مسکراہٹ تھی ۔
اُن کے گھر کے آگے رک کر اُس نے جلد ی جلدی شاپرز سمیٹے اور گیٹ سے اندر آگئی۔اُسے پتا تھا اس وقت وہ کیا کررہی ہوں گی۔
اُنہیں شام کی چائے ہمیشہ بیک لان میں پینا پسند تھا ۔۔۔ لاؤنج کا دروازہ کراس کر کے ان کا بیک لان شروع ہو تا تھا۔ اس نے سُرخ چہرے کے ساتھ گفٹ اور کارڈ ٹیبل پر رکھے اور صرف فلاورز تھامے تیزی سے آگے بڑھی مگر اُسے رکنا پڑا ، لاؤنج کی سلائیڈنگ ونڈو سے بیک لان کا منظر نظر آرہا تھا ۔ وہ اکیلی نہ تھیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا ۔ وہ اُس شخص کو جانتی تھی ۔بہت اچھی طرح سے جانتی تھی۔ ہاتھ میں چائے کا مگ تھامے، ماتھے پر بکھرے بالوں والا ، نیم وا آنکھوں کی سیاہی میں ہلکی سی سرخی لیے ، اس شخص کو وہ لاکھوں لوگوں میں پہچان سکتی تھی ۔ وہ فیضان خان تھا ، بگڑا رئیس ۔۔۔۔!!!
”اب تو یہ چُھپنا چُھپانا چھوڑ دو فیضان، کب تک بیک فٹ پررہو گے؟It’s time to celebrate۔” یہ میم لبنیٰ تھیں جو ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے کہہ رہی تھیں ۔
”خالہ ! محبت میں طلب ہوتی ہے نہ صلہ ۔” وہ مطمئن تھا ۔ چائے کا سپ لیتے ہوئے اُس نے ماتھے پر آئے نرم بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیا تھا ۔
”بات صلے کی نہیں فیض! مناسب وقت آگیا ہے کہ تم نورالصباح کو سب بتا دو۔”




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!