سوزِ دروں — سندس جبین

وہ آنکھیں بند کیے اس کے پیچھے چلتی ۔۔۔ اندھی محبت اور اندھی تقلید ۔۔۔ وہ تھا ہی ایسا، کوئی اور بھی ہوتا تو وہ بھی یوںہی ہتھیار پھینکتا جیسے نورالصباح نے پھینک دئیے ، وہ تھا ہی ایسا چلتی پھرتی چھے فُٹی قامت، بھورے کانچ جس پر ٹھہرتے اسے کہیں ٹھہرنے کے قابل نہ چھوڑتے ، ہونٹ جسے دیکھ کر مسکرا دیتے وہ پھر مسکرانا بھول جاتا ۔ اس میں مصنوعی شان و شوکت نہ تھی، نہ اسے ادائیں آتی تھیں ۔ وہ تھا ہی ایسا ۔۔۔ کسی شہزادے کی مانند پر شکوہ اور پر تمکنت ، جب شانِ بے نیازی سے وہ گزرتا تو کئی دل کچلے جاتے ۔
حُسن بے خبر تھا اور بے خبر حسن انجانے میں کیسی تباہیاں ڈھاتا ہے، وہ بے خبر تھا ۔
وہ تو بس پڑھنے آتا تھا ، بے خبری میں محبت کا سبق ایسا پڑھا کہ کچھ اور پڑھنے کے قابل ہی نہ رہا ، اب وہ یونیورسٹی تو آتا تھا، پڑھتا نہیں تھا ۔ بس اسے سنتا تھا جس کی چمکتی آنکھیں اسے اک انجانی دنیا کی سیر کراتی تھیں، جس کی بے ساختہ باتیں اس کی سماعتوں کو سکون بخشتی تھیں، جس کی ہنسی، اور کیسی تھی اس کی ہنسی ؟ بالکل یوں جیسے چاندی کے تھال پہ سونے کے سکے گر کر بج اٹھیں ۔۔۔ ایسی دل خاک کر دینے والی ہنسی، جس نے اسے ہنسنا بھلا دیا تھا ۔ ایسی ہی تھی اُن دونوں کی محبت ۔۔۔۔
یونیورسٹی ٹائمنگ کتنی تھوڑی لگتی تھی ۔ ابھی آئے ۔۔۔ اور ابھی ہی چار بج بھی گئے ۔
وہ سارا سارا دن کلاسز میں بیٹھنے کے باوجود ٹیکسٹ کرتے رہتے ،ان کے پروفیسرز کیا پڑھاتے تھے، اُس کی بلا جانے۔ وہ تو بس اس کو پڑھنا چاہتی تھی جس کی ٹھوڑی پر اک ریشمی سیاہ تِل تھا جس کے آگے رات کی سیاہی بھی کمتر تھی ۔
وہ اس کے سامنے بیٹھتا تووہ اکثر ہی ٹھہر ٹھہر کر سانس لیتی کہ کہیں تنفس تیز ہوا تو اس کا تخیل ہوا سے نہ اُڑ جائے۔
وہ اس کی جان تھا ،وہ اس کی زندگی تھا ،وہ اس کی سانس تھا۔وہ ۔۔۔۔ عبدالہادی اس کا تھا ۔
٭…٭…٭





”کہاں ہو؟” اس نے ہاتھ نیچے کر کے جلد ی جلدی میسج لکھا ۔ کلاس چل رہی تھی، اسی وجہ سے وہ تفصیل پوچھنے سے قاصر تھی ۔
”Wait”اس کا پیغام چمکا ۔ نور کا چہرہ بجھ گیا ۔ وہ آج اتنا لیٹ کیوں تھا ؟؟؟ آج تو وہ خاص تیاری کے ساتھ آئی تھی ۔ یوں تو محبو ب کی نظر کا انتظار ہمیشہ ہی رہتا ہے مگر آج اس کی تیاری کچھ خاص تھی ۔ آج محب کامن تھا کہ وہ محبوب کی نظر میں بھا جائے ، سراہنے والی آنکھ آج سراہے جانے کی منتظر تھی ۔
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی وہ چیزیں سمیٹتی تیزی سے باہر نکلی ۔ اور پھر کاریڈور میں رک گئی۔ اسے رکنا ہی پڑا،وہاں وہ تھا جسے دیکھ کر وہ یوں نظر انداز کر کے نہیں جا سکتی تھی ۔وہا ں ”فیضان خان” تھا ۔
”کیسی ہیں ”؟ اُس کا انداز ہمیشہ کی طرح تھا ، جھکی آنکھیں ، ماتھے پر گرے بال اور عجیب مودبانہ سا انداز جیسے وہ بہت معزز ہو اور ہو اس کا ادنیٰ سا خادم ، اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
”آپ کیسے ہیں ”؟ وہ نرمی سے پوچھنے لگی ۔
”خیریت ہے ؟ آج کچھ خاص ہے کیا؟ ” وہ جھکی نظروں کے باوجود اس کی تیاری سے آگاہ تھا۔
نورالصباح کی آنکھیں پھیل گئیں ۔وہ واقعی آج اپنے ریگولر اسٹائل سے ہٹ کر ڈریس اپ ہوئی تھی ۔ اس کے پوچھنے پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ۔
”جی ہاں ۔ آج روزی کا برتھ ڈے ہے ۔ اُسی کی تیاری ہے ۔ آپ آئیں گے؟ ” اس نے تجسس سے پوچھا کیوں کہ اسے پتا تھا کہ اس سڑیل نے کبھی نہیں آنا ۔ اور وہی ہوا، فیضان نے ہلکا سا مسکرا کر انکار میں سر ہلادیا ۔ اس کی اپنی کوئی مصروفیت تھی ۔ وہ اسے جانتی تھی،بہت اچھے سے ، اسے یقین تھا ۔
”فیضان خان”
ان کا سب سے خاموش کلاس فیلو، پراسرار ، عجیب سا ، ماتھے پر گرے بالوں والا ،سرخ آنکھیں لیے ، ایک معروف و مقبول سیاست دان کا بیٹا ۔۔۔جو اپنی بی ایم ڈبلیو میں کسی شہزادے کی مانند یونیورسٹی آتا تھا اور جسے ان کا پورا ڈیپارٹمنٹ بگڑے رئیس کے نام سے پکارتا تھا ،وہ فیضان خان اپنی ذات میں ایک عجیب شخص تھا ۔
”عضِ بصر” کا حکم جتنی تاکید کے ساتھ اسلام نے دیا تھا اس نے پورا پورا اسے اپنے اوپر لاگو کیا تھا۔ وہ ہمیشہ اس سے نظر جھکا کر بات کیا کرتا تھا ۔ لڑکیوں سے دور بھاگتا مگر اس سے لازمی سلام دعا کرتا تھا ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ عبدالہادی کا سب سے عزیز دوست تھا۔ اسے کبھی کبھی حیرت ہوتی تھی ۔ دونوں میں بہت سے متضاد چیزیں تھیں مگر اس کے باوجود وہ دونوں بہترین دوست تھے ۔ اسے فیضان کا یوں ”آپ” کہنا ہمیشہ لطف دیتا تھا ۔ وہ اسے انجوائے کرتی تھی ۔ اس کے لہجے کا احترام اسے بھاتا تھا او رسب سے بڑی بات تھی کہ اس نے کبھی فری ہونے کی کوشش نہ کی تھی۔ وہ ہمیشہ مختصر گفتگو کرتاتھا ۔ مگر ایسا کبھی نہ ہواتھا کہ وہ اسے کہیں نظر آتی اور وہ نظر انداز کر کے چلا جاتا ۔۔۔۔وہ اس کے لیے لازماً رکتا تھا ۔ اسے دیکھ کر ٹھہرتا تھا اور نور الصباح کو بہ بہت عجیب لگا کرتاتھا ۔ شاید اس لیے بھی کہ وہ پڑھائی میں اتنا ہی نکما تھا جتنا کہ ایک بگڑا رئیس یا امیر زادہ ہو سکتاتھا ۔اور نورالصباح نے کبھی بھی اسے پڑھائی کے متعلق panic ہوتے نہیں دیکھا تھا ۔
عام طور پر اس کے بیگ میں ایک کتاب یا غلطی سے ایک نوٹ بک کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا ۔ کوئی پین یا بال پوائنٹ تو سرے سے موجود ہی نہ ہوتا تھا ۔ یوں ہی اتفاق سے ایک دفعہ وہ کسی لیکچر میں اکٹھے بیٹھ گئے تو اس دن وہ یہ بھی جان گئی کہ اس کی ہینڈ رائٹنگ کتنی رف اور نہ پڑھے جانے کے قابل تھی ۔ اسے اس دن عجیب ساافسوس ہو ا تھا ۔ اچھا خاصا ہیرو تھا مگر اُفسوس اتنا نالائق ہیرو۔ اس نے افسوس سے اسے ہیرو کے درجے سے ہٹا کر بس بگڑے نواب کے طورپر قبول کر لیا ۔
البتہ وہ چھٹی نہیں کرتا تھا ۔ نہایت پابندی سے یونیورسٹی آتا تھا ۔اس بات پر اسے اکثر حیرت ہوتی کہ جب اسے کلاسز میں سمجھ کچھ نہ آتا تھا تو آخروہ لینے کیا آتا تھا ۔ اور بی بی اے کی زنییا فیاض کیسے اس کی راہوں میں پلکیں بچھائے اس کی منتظررہتی تھی ۔ جسے وہ گھاس تو دور گھاس کا تنکا بھی نہیں ڈالتا تھا ۔
شرجیل جوکہ ان کا نہایت شرارتی کلاس میٹ تھا ،اسے زنییا فیاض سے اس قدر ٹوٹ کر ہمدردی محسوس ہوتی کہ اس کا بس نہ چلتا ورنہ وہ فیضان کا قیمہ کر دیتا جو اتنا نا شکرا تھا کہ اتنی پیاری لڑکی کو ٹھکرا رہا تھا ۔
مگر فیضان کو بھلا کیا پرواہ تھی ؟ وہ ایسی باتیں سننا بھی پسند نہ کرتا تھا ۔ اس لیے ہمیشہ شرجیل کو ڈانٹ دیتا ۔ دوسرا بڑا شوق اس کا دوسروں کو ضیافتیں کھلانا تھا ۔ تقریبا ً ہرروز ہی وہ کسی نہ کسی کو ساتھ لے کر نکل جاتا ۔ عموماً وہ پانچ لڑکوں کو گروپ ہوتا جو کہ فیضان خان، شرجیل حیات، فیصل شہروز، شاہ زیب علی اور عبدالہادی پرمشتمل تھا ۔





ایس ہی ایک دعوت میں جب وہ یونیورسٹی میں اس کے انتظار میں جھلس رہی تھی ۔ عبدالہادی کے سیل فون کی میسج ٹیون بجی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ میسج اوپن کرپاتا ۔۔۔ فیضان نے سیل اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اس سے بھی پہلے کہ وہ کوئی رد عمل دے سکتا ، میسج کھل گیا ۔
”There you are my love…I was missing you” آنسوؤں سے لبریز فیضان ساکت ہوگیا۔ اسے لگا شاید اس سے کچھ غلط ہو گیا ہو ۔۔۔ جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ۔۔۔ اسے اپنا آپ اتنا مجرم لگا کہ کھاناادھورا چھوڑا ، سیل اسے واپس کیا اور بس بھاگنے کی کی ۔
عبدالہادی الگ شرمندہ تھا ۔
وہ دونوں بہت اچھے دوست تھے مگر ایک دوسرے کے پرسنلز میں نہیں جاتے تھے اور آج ۔۔۔ اُف کیا ہو گیا تھا ؟ اس نے رات نور کو سارا واقعہ سنایا تو وہ ساکت رہ گئی۔ پھر کیا وہ جان گیا کہ ہادی اور نور انوالو تھے ؟؟؟
مگر ہادی نے اسے یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ اس نے نور کا نمبر اس کے نام کی بجائے پرنسز کے نام سے سیو کیا ہو ا تھا ۔ اس لیے اسے مکمل یقین تھا کہ وہ بوجھ نہ سکا ہو گا کہ پرنسز درحقیقت کون تھی ۔
نورالصباح کو عبدالہادی سے یہ واحد اختلاف تھا کہ وہ اس کے ساتھ اپنے ریلیشن کو خفیہ رکھنا چاہتا تھا اور خصوصاً اپنے سب سے عزیز دوست فیضان سے ۔۔ ۔ اسے اُلجھن محسوس ہوئی تھی ، وہ کیوں چھپانا چاہتا تھا؟بھلا عشق اور مُشک کبھی چھپتے بھی ہیں؟ اسے عبدالہادی کی اس منطق کی واقعی سمجھ نہ آتی تھی ۔ آخر اسے فیضان سے کیا تحفظات تھے ؟ کس چیز کی اِن سکیورٹی ؟؟؟ اور ایک دن بہت ہمت کر کے اس نے ہادی سے پوچھا تو وہ مسکرا کر بات ٹال گیا۔ اور صرف اتنا ہی کہا کہ وہ مناسب وقت پر سب کو بتا دے گا۔
اور حیران کن بات یہ تھی کہ فیضان نے وہ میسج پرھنے کے باوجود پوچھا نہ تھا کہ وہ میسج کس کا تھا ؟
نورالصباح کو یہ سن کر ہمیشہ کی طرح اچھا لگا تھا ۔ ٹھیک ہی تو تھا کہ وہ دوسروں کے پرسنلز میں نہیں گُھستا تھا ۔
٭…٭…٭
روزی کا برتھ ڈے شاندار گزرا تھا ۔ اس کی خواہش بہ خوبی پوری ہوئی تھی ، اس کے محبوب کی نظر اس پر ٹھہر سی گئی تھی۔۔۔ رُک سی گئی تھی۔۔۔ جم سی گئی تھی اس پر ۔۔۔ وہ بے ساختہ اسے دیکھ کر مُسکرایا اس وقت نورالصباح کی دل کی دھڑکن آسمان کو چھو رہی تھی ۔
وہ واقعی آج اپنے ریگولر اسٹائل سے ہٹ کر ایک لمبی انار کلی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں تھی ۔ ورنہ عموماً وہ جینز اور کُرتا پہنا کرتی تھی ۔ اور سر پر اسکارف ۔۔۔ جو ہر صورت اس کے لباس کا حصہ ہوتا تھا ۔ہادی نے کبھی اس کے بال نہیں دیکھے تھے ۔ اسکارف تو آج بھی اس نے لیا ہوا تھا مگر اس فراک نے ہادی پر عجیب غضب ڈھایا تھا ۔۔۔ اور جب سب اپنی باتوں میں مصروف تھے تو اس نے بہت آہستگی سے نورالصباح کے گر د جھک کر ہلکی سی سرگوشی کی تھی ۔
”ایک شاندار سی پک (Pic) لینا اس ڈریس میں۔ ”
نورالصباح نے سرخ گالوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلادیا تھا ۔ رات اس نے پکچر اسے واٹس ایپ کی تو ہادی پاگل ہی ہوگیا ۔فوراً اس کی کال آنے لگی ۔وہ فون سنبھالتی چھت پر بھاگی ۔۔۔ وہ بہت خوش تھی ۔
وہ محب تھی مگر آج محبوب کی دل نوازی اسے ہوا میں بہت اونچا اُڑا رہی تھی ۔ خوش نصیبی تھی کہ وہ اپنے محبوب کی نگاہ میں جچ گئی تھی ۔ ۔۔ حالاں کہ وہ تو ایک بے مایہ ، بے ریا داسی کی مانند نہ صلے کی چاہ۔۔۔ اسے دیوانہ وار ہادی کے گرد چکرانا پسند تھا ۔
اسے یقین ہی نہ ہوتا کہ وہ اتنا شان دار اور با کمال شخص اس سے محبت کرتا تھا ۔۔ وہ اسے پسند تھی ؟؟؟
اسے خود پر رشک آتا تھا ۔ وہ کچھ مزید اس کے پیچھے دیوانی ہوتی جاتی تھی اور کون تھی بھلا نورالصباح ؟ کدھر سے آئی تھی ؟؟؟
ایم بی اے کے اس فرسٹ سمسٹر میں نورالصباح کا ایڈمیشن کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ اس نجی یونیورسٹی کی فیس آسمان کو چھورہی تھی۔ اس نے اپنی ساری جمع پونجی سے ایک سمسٹر کی فیس ادا کی تھی ۔ گھر میں والدین کے بعد بس اک چھوٹا بھائی تھا ۔ اس لیے ابا سے اپنی جنگ لڑتے ہوئے اور کسی کی مخالفت نہیں جھیلنا پڑی تھی ۔
بنیادی طور پر اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ ابا دکان داری کرتا تھا ۔اماں گھر داری اور وہ بس فساد مچانے کو تیار ، یونیورسٹی پڑھنے کا خبط بھی خاندان بھر میں اس کے سوا کسی کو نہ اٹھا تھا ، جبھی ابا نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے ، وہ معصوم ضرور تھی مگر بے وقوف نہ تھی۔ یونیورسٹی ایڈمیشن لیتے وقت اسے اچھی طرح وہاں کی ضروریات و لوازمات کا اندازہ تھا ، اپنی استطاعت کو دیکھتے ہوئے اس نے حل بہت اچھا ڈھونڈا ۔ اس نے اتوار بازار سے دو جینز خریدیں اور چند کرتے اماں سے بنوا لیے ۔وہ سلائی میں ماہر تھیں، اس نے ان سے ڈیزائن والی کاپی سے ملتے جلتے کُرتے بنوائے جو حقیقتاً تو بہت مناسب قیمت میں بنے تھے مگر بہ ظاہر بہت مہنگے اور برانڈڈ لگتے تھے، یوں اس نے اپنی مالی حالت کو بڑی مہارت سے چھپا لیا۔ آئی کام سے ہی اس کے پاس گھر میں میتھس کی ٹیوشن کے لئے بچے آئے تھے جن کی فیس آرام سے اتنی ہو جاتی کہ اس کے آنے جانے اور یونیورسٹی کا خرچ نکل آتا تھا ۔
موبائل اس نے ضرورت کے مطابق چھوٹا سا رکھاہواتھا مگر ہادی کو اعتراض تھا ۔۔۔ وہ چاہتا تھا وہ کوئی نیا مہنگا موبائل لے لے جس میں ڈھیر ساری ایپلیکیشنز ہوں، تاکہ وہ آسانی سے ایک دوسرے کو تصاویر بھیج سکیں ۔
وہ اس کی فرمائش پر تھوڑا گھبرا گئی تھی ۔ پھر اس نے بڑے آرام سے یہ کہہ کر بات بدل دی کہ اُ س کے گھر کوئی لا کے دینے والا نہیں ۔ بھائی بہت چھوٹا تھا، ابا کو ان چیزوں کی الف ب بھی پتا نہیں تھی ۔اور وہ خود مارکیٹ کبھی گئی نہ تھی ۔ خاص طور پر موبائل مارکیٹ ۔۔ اپنے طور پر اس نے ہادی کو مطمئن کر دیا تھا مگر وہ مطمئن نہیں ہوا تھا ۔ وہ اس سے آگاہ نہ تھی ۔ غرض یہ کہ ہر چیز معمول کے مطابق پرسکون اور ہموار چل رہی تھی ۔
جب اس ندی میں پہلا کنکر گرا ۔
٭…٭…٭





اُس نے بے تابی سے مسیج لکھا اور فون سے بھیجا مگر وہاں ”resend” آرہا تھا ، اُسے دھچکا سا لگا۔ ایک خدشے نے اس کے اندر سر اُٹھایا، اس نے فوراً کریڈیٹ چیک کیا ، وہ زیرو پہ تھا ۔ اسے یقین نہیں آیا ابھی کل اس نے کارڈ ڈلوایاتھا جوکہ آج ختم ہو چکا تھا ۔ اس نے وقت دیکھا رات کے سوادس۔ وہ مایوسی سے بستر پر گر گئی وہ اب کیاکرے ؟
فون کی اسکرین پر اب مزید دو نئے پیغام چمک رہے تھے ۔ وہ مایوسی سے پیغام کھولنے لگی۔
”میری زندگی”۔ عبدالہادی کی محبت پھوٹ رہی تھی ۔
”میری نور۔۔۔۔” وہ بے تاب تھا ۔
اس نے بے ساختہ سیل فون کو جھپٹ کر دل سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں میںنمی اُتر رہی تھی ۔ اس کا محبوب اسے پکاررہا تھا اور وہ کیسی بد قسمت تھی کہ اُس پکار پر لبیک کہتی ہوئی نہ جا سکتی تھی۔ اس نے بے ساختہ زیر لب اللہ کی مدد طلب کی تھی ۔ وہ کس قدر بے بس تھی ۔
”میری جان کدھرہو”؟ ایک نیا پیغام چمک رہا تھا ۔
اُس کے لب لرزنے لگے، شدتِ جذبات سے وہ سسک اٹھی ، اس وقت فون پر عبدالہادی کی کال آنے لگی ۔ وہ خوشی سے نہال سی ہو گئی اور دوسری بیل پر ہی اس نے کال پک کر لی ۔
”نور” وہ پریشان سا لگا ۔
”Sorry Hadi..I am very sorry ” وہ لب کچلتی آنسو پینے لگی ۔
”Why are you sorry?What happened?” وہ حیران ہوا ۔
”میری وجہ سے تم پریشان ہو گئے ناں ؟”
”ہاں۔ تم جواب نہیں دے رہی تھیں ناں تو میں پریشان ہو گیا ، پھر سوچا کال کرتا ہوں شاید سو گئی ہو ”۔ وہ نرمی سے وضاحت دے رہا تھا ۔
”میں ریپلائے لکھ رہی تھی مگر۔۔۔ میرا کریڈٹ ختم ہو گیا۔” اس نے انتہائی شرمندگی سے اسے بتایا۔
”کوئی بات نہیں ۔ ہم فون پر ہی بات کر لیتے ہیں ”۔ اُس نے اطمینان سے کہا ۔
نور کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ وہ اک سرشار خوشی میں بھیگتی فون تھامے وہیں دراز ہو گئی ۔ رات قطرہ قطرہ گزرتی جارہی تھی ۔ اس کی رگوں میں نشہ بھرتا جارہا تھا۔ اس کی آواز ، اس کی باتیں اس کی ہنسی ، وہ خوشبو کے سفر میں تھی ۔
وقت کا بہاؤ بہتا جارہا تھا اور وہ تب چونکی جب ساڑھے تین گھنٹے بعد فون بند ہوا۔ فون پکڑے پکڑے اس کا بازو اکڑ چکا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند ہوئیں تو ان میں عبدالہادی کی دلکش اور من موہنی صورت تھی ۔
اگلی صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے راستے میں اس نے سیل چیک کیا تو اس میں اچھا خاصا کریڈٹ تھا ۔ وہ حیران ہوئی اس نے فوراً ہادی کو میسج کیا ۔
” پتا نہیں کس نے مجھے کریڈٹ بھیجا ہے ”۔ اس کے سوال میں معصومیت اور آنکھوں میں شرارت تھی ۔ اس کا فوراً جوابی پیغام چمکا۔
” اتنے چاہنے والے ہیں آپ کے، کسی نے کروا دیا ہو گا ”۔
وہ تنگ کررہا تھا ۔
”کیا مطلب ”؟ اس نے منہ بنایا ۔
”سچ ہی کہہ رہا ہوں ۔” وہ شریر ہوا ۔
”بھلا کون”؟ وہ تجسس سے بولی ۔ سیل اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ یونیورسٹی کی راہداری میں تیز تیز چل رہی تھی ۔
” آپ کا شہزادہ ، آپ کا سلطان ، آپ کی زندگی ، آپ کی جان، آپ کی سانس اور آپ کا عبدالہادی ۔۔۔۔” وہ محبت سے کہہ رہا تھا ۔
نورالصباح کو جھٹکا سا لگا ۔ اسے رکنا پڑا ۔وہ سارے خوبصورت الفاظ جن سے وہ اُسے پکارتی تھی ، وہ ان ہی کا حوالہ دے رہا تھا ۔ اس کے لبوں پر ایک گہری مسکراہٹ آگئی اور آنکھوں کی چمک پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی ۔




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!