سوزِ دروں — سندس جبین

اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے سامنے دیکھا ۔ وہ دھوپ میں کھڑا تھا…، نظریں سیل پہ جمائے، اس نے بس یونہی نظر اٹھائی تھی کہ دھوپ کی چمک سیدھی اس کی آنکھوں میں پڑی تھی ۔
نورالصباح کا دل تھم سا گیا ۔
دھوپ اور روشنی سے وہ دوبھورے کانچ ، مزید چمک اٹھے تھے ۔ ا س سے اگلا قدم اٹھانا دشوار ہو گیا ۔ اس کا سیل وابریٹ کررہا تھا ۔ اس نے بے خیالی میں سیل دیکھا وہاں ایک نیا پیغاچمک رہا تھا ۔
” اتنے چاہنے والے ہیں ، کوئی بھی ہو سکتا ہے ”۔اس نے پڑھتے ہوئے عبدالہادی کو دیکھا جو کہ میسج سینڈ کرنے کے بعد خفیف سامسکرارہا تھا ۔ جیسے خود ہی اپنی بات کا لطف لے رہا ہو۔
نور الصباح کوئی جواب دئیے بغیر اس کے قریب آگئی ، وہ ایک دم چونکا۔
”نور ” وہ مسکرایا ۔
”حکم ” نورالصباح نے ہلکا سا سر خم کیا ۔ عبدالہادی کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ۔
”کیسی ہو؟ ”اس نے نرمی سے کہتے ہوئے سیل اپنی جینز کی پاکٹ میں ٹھونسا اور اپنی آستینیں فولڈ کرنے لگا ۔ وہ دونوں چلتے ہوئے اب لان کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
بہت دفعہ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ جانے انجانے میں ہم اپنے آپ کو زندگی کے اس گرداب میں پھنسا لیتے ہیں جہاں سے واپسی نا ممکن ہو جاتی ہے ۔
نور الصباح آئیڈیلسٹ تھی ۔ اس کی زندگی خواب بنتے گزری تھی ۔ اس نے خوابوں کی تعبیر کی ہمیشہ خواہش کی تھی ۔ تعبیریوں مجسم اس کے سامنے آئے گی، اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ بھلا محبت کرنے والے ایک دل کے سوا اسے کیا تعبیر چاہیے تھی ۔
اس کے لئے عبدالہادی کافی تھا ۔
اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لئے صرف اللہ کافی ہے ۔ اور انسان بڑا ہی خود غرض اور ناشکرا ہے ۔
٭…٭…٭





”تم نے کبھی میری بات اگنور نہیں کی ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر تم موبائل کیوں نہیں بدل رہیں؟” وہ خفا خفا سا بول رہا تھا ۔ نور کے اندر چھن سے کوئی چیز ٹوٹی تھی ۔وہ دونوں اس وقت لائبریری میں بیٹھے ہو ئے تھے ۔ ارد گر د اسٹوڈنٹس کا رش اب قدرے کم ہو چکا تھا ۔ اس سمسٹر کے مڈ ایگزامز شروع ہورہے تھے ۔اس لیے آج کل وہ عام طور پر لائبریری میں پائے جاتے تھے ۔
اس وقت بھی وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف تھے جب ہادی کو پھر سے اُس کا موبائل یاد آگیا تھا ۔
نور نے اس کی بات سن کر وہی کمزور سی وضاحت دوبارہ دینے کی کوشش کی تھی ۔مگر آج ہادی نے اس کی بات قطع کر دی۔
”It’s not a big issue،میں لادیتا ہوں موبائل ، یہ تو پرابلم ابھی solveہو گیا۔” وہ اطمینان سے بولا، نور کا رنگ بدلا۔
”مگر ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔۔۔ ”نور نے گھبرا کر کہنا چاہا مگر ہادی نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی”
”ایکسکیوزمی! پیسوں کی بات کون کررہا ہے ”؟؟ اس کے بھورے کانچ استعجابیہ انداز میں اسے گھوررہے تھے، وہ کچھ مزید کنفیوز ہوگئی ۔
”میرا مطلب یہ تھا کہ ۔۔۔۔” اس نے گڑ بڑا کے وضاحت دینے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گئی ۔
”پلیز یار ۔۔۔ میرا موڈ خراب مت کرو۔ تمہارے اور میرے پیسے الگ الگ ہیں کیا؟ فرق کیوں کررہی ہو؟ وہ بُرا مان گیا ۔ وہ کچھ مزید اضطراب میں مبتلا ہوگئی ۔
”ایسا کب کہا میں نے ہادی ؟ غلط مت سمجھو مجھے۔” اس نے اپنا نچلا لب کچلتے ہوئے آہستہ سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔ ہادی کے چہرے کے تاثرات یک بہ یک بدل گئے، اس نے مضبوطی سے نور کا ہاتھ تھام لیا۔ نرم جلد، نازک سی اُنگلیاں، اُس کے رگ وپا میں برقی رو دوڑ گئی تھی ۔
”بس تو پھر ڈن ہو گیا ۔ میں اپنی شہزادی کے لئے اپنی پسند سے سیل فون لے کر آؤں گا ۔” وہ نرمی سے اس کا ہاتھ سہلا تے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
نورالصباح کے گال دہک اٹھے، یہ احساس ، یہ لمس کتنا جاں افزاء تھا ۔ اس کے اندر ایک عجیب سا اضطراب اُتر آیا، اس کا دل چاہا کہ وہ یہ ہاتھ مضبوطی سے تھام کر سینے سے لگالے۔
اس نے بہ مشکل خود پر قابو پایا تھا ۔ ورنہ دل دھڑکنے کے انداز سے اسے لگ رہا تھا کہ آج تو اس کے گالوں پر لازماً سُرخ پینٹ پھر چکا ہو گا ۔
عبدالہادی اس کے اندر کی کشمکش سے بے خبر اب کوئی اور بات شروع کر چکا تھا ۔
اگلے دن وہ اس کیلئے سیل فون لے آیا تھا ۔ نورالصباح کو جیسے یقین ہی نہ آیا تھا ۔۔ اس کی آنکھیں جگمگ کرتی تھیں اور اس دن وہ بہت ایکساٹمنٹ سے لان میں بیٹھے تھے۔ عبدالہادی اسے موبائل کا سسٹم سمجھارہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر، وہ موجود تھا ۔
اس کی گہری نظر ان دونوں پر تھی اور اس کی ساکن پُتلیوں کے پیچھے ایک آگ تھی ، گہری اور نیلی آگ!!!
٭…٭…٭
یونیورسٹی میں اسپرنگ فیسٹیول تھا اور ادبی سوسا ئٹیز پوری طرح اس کی تیار یوں میں مصروف تھیں۔ وہ سب اس میں حصہ لے رہے تھے، سوائے عبدالہادی کے ، جسے نور نے خود منع کیا تھا اوراس کا کہنا تھا:
”وہ سب چاہتے ہیں میں ماڈلنگ کروں ۔” عبدالہادی خط لیتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔ نور نے ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا ۔
”مگر میں نہیں چاہتی ۔” اس کا لہجہ مدھم تھا اور اس میں اضطراب کی کیفیت تھی ۔
وہ چونکا۔
”مگر کیوں؟”
”مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ تم اسٹیج پر جاؤ اور سب تمھیں دیکھیں” وہ ناک سکوڑ کر بولی۔
عبدالہادی کا قہقہہ بے اختیار تھا ۔
”I can’t believe Noor ، ادھر بھی تو سب دیکھتے ہیں ۔” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ نو ر اس کی خوبصورت ہنسی کو سنتی رہی۔
”مگر پھر بھی ۔۔۔” اس کا انداز ضدی تھا ۔
اس بار وہ بھی قدرے سنجیدہ ہو گیا ۔ اس نے حامی بھر لی تھی اور پہلی مرتبہ فیضان خان کو دھچکا لگا تھا ۔ایسا کب ہوا تھا کہ عبدالہادی یوں اسٹیج پر جانے سے انکار کرے ، وہ تو ہمیشہ فوکسڈ رہنا پسند کرتا تھا ۔ اسے پتا تھا کہ وہ ایک پیدائشی ہیرو ہے۔ لڑکیاں اس پر اس لیے مرتی تھیں کہ اس میں بناوٹ نہ تھی ۔ مگر اب۔۔۔۔؟؟؟ اور جب اس نے عبدالہادی کو کُریدنے کی کوشش کی تو وہ ہنستا رہا اور پھر بولا تو بس اتنا ہی ۔
”ہائی اتھارٹیز نے پرمیشن نہیں دی ”۔
اس کے انداز میں عجیب سی بے نیازی تھی اور آنکھوں میں چمک ، وہ مزیدکچھ پوچھے بغیر بس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔ وہ فیضان خان، جسے وہ سب لوگ معصوم اور بے خبر سمجھتے تھے ۔۔۔ اس راز سے بہ خوبی آگاہ تھا جسے وہ دونوں چھپاتے پھرتے تھے ۔وہ عبدالہادی اور نورالصباح، وہ دونوں کتنے پاگل تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ بے خبر تھا ۔ بھلا عشق بھی کبھی چھپا ہے؟؟؟
وہ تو اس پل ہی جان گیا تھا جب عبدالہادی کی نورالصباح پر پڑنے والی نظر میں چمک اتر ی تھی اور اس کے چہرے کے رنگ کھل اٹھے تھے ۔۔۔ اس پل جب کہ عبدالہادی خود بھی آگاہ نہ تھا، اس جذبے سے جو اس کی آنکھوں سے فیضان نے پالیا تھا ۔ اس بات کو وہ کیوں کر نظر انداز کر دیتا؟ مگروہ فی الوقت خاموش رہنا چاہتا تھا۔ وہ تب تک عبدالہادی سے کوئی بات ڈسکس کرنا نہیں چاہتا تھا جب تک وہ خود نہ کرے اور ہادی تھا کہ منہ سے بھاپ نکالنے کا روادار ہی نہ تھا ۔۔۔ مگر مدِمقابل بھی فیضان تھا ۔ بے حد حوصلے اور برداشت کا مالک ۔۔۔ بڑے صبر سے انتظارکررہاتھا کہ محبت کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ کیوں کہ وہ عبدالہادی کی شخصیت کے اس پہلو سے آگاہ تھا جس سے نورالصباح واقف نہ تھی ۔
٭…٭…٭





اسپرنگ فیسٹول پر اُس کی ڈریسنگ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ وہ یونیورسٹی کی روایتی لڑکیوں میں سب سے منفرد نظر آرہی تھی ۔آف وائٹ فراک جس پر ست رنگی نگینے لگے تھے اور ساتھ آف وائٹ اسکارف تھا،بازو چوڑیوں والے تھے اس لیے اُنگلیوں پہ صرف ایک رنگ تھی۔ ہاتھ میں آف وائٹ ننھا سا کلچ ۔۔۔ وہ تو پرستان کی کوئی بھٹکی ہوئی پری لگتی تھی۔ عبدالہادی کادل اتنا تیز دھڑکا کہ وہ گنگ سا رہ گیا۔ وہ دلکشی کی تصویر تھی ۔ وہ خوبصورتی کی اخیر تھی، وہ حسن کی عملی تصویر تھی ۔
وہ کیا تھی ؟؟؟ وہ فیصلہ نہ کر پایا تھا ۔
کبھی رنگوں سے کھیلو تم
مجھے تصویر کر ڈالو!
میں کوئی خواب ہوں شاید
اسے تعبیر کر ڈالو!
میری سوچیں بھٹکتی ہیں
زمانے کے سرائے میں
کبھی ممکن جو ہو تم سے
انہیں زنجیر کر ڈالو!
میری دنیا تم ہی تک ہے
تمہیں کیسے بتاؤ ں میں ؟
میرا ، رانجھا بنو تم ہی
مجھے، بھی ہیر کر ڈالو!
اُس فنکشن میںلڑکوں اور لڑکیوں کی seating arrangements الگ الگ تھی اور اس سارے فنکشن میں وہ صرف ایک دوسرے کو ٹیکسٹ کرتے رہے تھے ۔۔۔وہ بہت بے قرار تھا ۔۔۔ اس نے ہمیشہ نور کو سادہ ہی دیکھا تھا، آج پہلی بار وہ یوں بن سنور کرآئی تھی کہ اس پر قیامت ڈھا گئی تھی۔ وہ کب بے خبر تھی ؟ بہ خوبی آگاہ تھی کہ اس نے عبدالہادی کو بسمل کر دیا تھا اور وہ اس کے تڑپنے کا تماشا دیکھ رہی تھی ۔ وہ ٹیکسٹ پر اپنی بے تابی کا والہانہ اظہار کررہا تھا ۔ ایسے لفظ جو اپنی حمد سے باہر تھے، بے باک اظہار او ر والہانہ لپک، وہ کان کی لوؤں تک سرخ پڑ گئی تھی ۔۔ مگر اس سے بُرا نہیں لگا تھا۔
حالاں کہ اسے بُرا لگنا چاہیے تھا ۔
فنکشن کے اختتامی حصے میں اسے عبدالہادی کا ٹیکسٹ آیا تھا ۔۔ وہ اُسے باہر آنے کا کہہ رہا تھا ۔ وہ تیزی سے کلچ پکڑتی با ہر نکلی، پارکنگ ایریا میں اسے تلاش کرتے وہ یک لخت کسی سے ٹکرائی اور بُر ی طرح ڈر گئی، اس نے نیم تاریکی میں مڑ کر دیکھا تو وہ فیضان تھا ۔
بلیک ٹو پیس میں ، شاید زندگی میں پہلی بار اپنے ماتھے پر بکھرے بالوں کو جیل سے پیچھے کئے اس کی سیا ہ آنکھوں کی سرخی اس پل کچھ مزید گہری ہو گئی تھی ۔
”آپ ؟ یہاں ۔۔۔؟ خیریت تو ہے؟” وہ بڑے غیر محسوس انداز میں سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
نور کے چہرے کا رنگ بدلا تھا ۔
”وہ ۔۔ وہ ہادی۔۔۔”؟ اس نے کہتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پارکنگ میں ایک جامد خاموشی تھی، دور کھڑے درخت ساکت تھے اور ان کے پتے یوں جھکے جھکے سے تھے جیسے کئی نادیدہ رازوں کے بوجھ سے جھکے جاتے ہوں ۔
”ہادی مطلب”؟ وہ فوراً بولا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کی ہلکی سی لہر بھی نہ تھی ۔
”مجھے اس سے کام تھا ۔” اس بار وہ قدرے سنبھل کر بولی تھی ۔ فیضان کے ماتھے پر اک گہری شکن آگئی تھی ۔
وہ اب ہاتھ میں پکڑے سیل کو دیکھنے لگی جس پر کوئی مزید ٹیکسٹ نہ تھا۔
”آج تو فنکشن ہے۔ کل کروالیجئے گا کام۔” اس کا انداز ہنوز سرد تھا۔
وہ جھلّا کر جواب دیے بغیر پلٹی اور پھر اسے وہ دور سے آتا نظر آگیا۔
مگر بہت عجیب ہوا۔ اس نے نور اور فیضان کو ایک ساتھ کھڑے دیکھ لیا تھا اور وہ ان کی طرف آنے کی بجائے دوسری طرف پلٹ گیا ۔
اسے عبدالہادی کے اس قدم کی سمجھ نہ آئی تھی، مگر وہ جھنجھلا کر آگے بڑھ گئی ۔واپسی رات آٹھ بجے کے بعد تھی اور اس وقت اسے گھر چھوڑنے والا کوئی نہ تھا سوائے عبدالہادی کے۔ اس نے اپنا تمام تر غصہ و ناراضی ایک طرف رکھتے ہوئے اسے ٹیکسٹ کیا ۔ جواباًوہ فوری طور پر اسے وہیں رکنے کا کہہ کر خود غائب ہو گیا اور ٹھیک دس منٹ بعد اس کا ٹیکسٹ آیا تھا کہ وہ گیٹ پر اس کا انتظار کررہا ہے وہ فوراً آئے ۔ اس بار اس نے سیکنڈ میں عمل کیا تھا کیوں کہ اس وقت وہ اس کے موڈ کی متحمل نہ ہو سکتی تھی ۔
جب وہ اس کی گاڑی کے قریب پہنچی تو دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا ۔ اس کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی تیزی سے موڑی تھی ۔
گاڑی مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور یونی کے پیچھے لے جا کر اس نے گاڑی روک دی ۔ اندرونی روشنی جلائی ، نورالصباح کا چہرہ کسی جُگنو کی مانند چمکا اور عبدالہادی کی آنکھیں چُندھیا گئیں ۔
وہ دونوں یک ٹک اک دوجے کو دیکھتے رہے اور پھر اس کا ہاتھ والہانہ بے تابی سے نور کے ہاتھ کی بڑھا اور اس نے نور کے نرم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھام لیے ، وقت تھم سا گیا، بہت دور کہیں یونی کے ہال سے اُٹھتے گیت کی مدھم سی آواز آرہی تھی اور تاریکی میں اس پل وہ حد پار ہو گئی جس کے پار صرف تباہی تھی ۔۔۔
حلال و حرام کی وہ معمولی سی لکیر ۔۔۔ جس میں صرف نشہ تھا، لذت تھی،سرور تھا، مگر یہ سب جذبے کس قدر وقتی تھے۔
باقی رہ جانے والی تو صرف ایک ہی چیز تھی ، دائمی ذلت!
اُس نے نورالصباح کے ہاتھ بڑی مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لے کر بے تحاشا چومے تھے ۔۔۔ اور اس کا رنگ کیسے لالیاں چھلکا رہا تھا ۔
مزید کی طلب اور بے تابی حد سے رسوا تھی۔
مگر چوں کہ آغاز تھا اس لیے جھجھک دونوں طرف برابر قائم تھی ۔
واقعی یہ آغاز تھا ، بر بادی کا نقطۂ آغاز ۔۔۔ برائی آغاز میں بہت بے ضرر اور معمولی نظر آتی ہے، کسی دلکش جا ل کی طرح جو بظاہر بڑا ست رنگی نظر آتا ہے مگر جب یہ کسی پاکیزہ نفس کو بھٹکا کر اپنے بظاہر خوبصورت رنگوں میں جکڑ لیتا ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے اور اس کی جکڑن سے نکلنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ۔
٭…٭…٭





رات کی سیا ہی ہر سو پھیل چکی تھی ۔ وہ اس سیاہی کو مکمل طور پر فراموش کیے ایک دوسرے کے ساتھ ٹیکسٹ پر بات کررہے تھے ۔۔۔۔بے قراری ، بے چینی اور بے کلی تھی کہ بڑھتی جاتی تھی ۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں کو دیکھتی تھی جن پر عبدالہادی کا لمس ابھی بھی زندہ تھا۔۔ اور اس کے لبوں پر موجود مسکراہٹ ہوتی جاتی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں نشہ بڑھتا جاتا تھا۔اس لمس کی لذت نا قابل بیان تھی کیوں کہ یہ ایک نا محرم کا لمس تھا جس میں برائی اور گناہ کی آمیزش تھی اور برائی میں تو ہمیشہ ذی نفس کشش محسوس کرتے ہیں اور وہ کلی لمحہ لمحہ کھل رہی تھی ۔

Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!