”بچے کتنے ہیں آپ کے؟” اختر صاحب نے اگلا سوال کیا۔
وہ خاموش رہی۔
”میں بچوں کا پوچھ رہا ہوں … بچے کتنے ہیں آپ کے ؟”
”بچے نہیں ہیں۔”
زرقا نے اپنے کندھے سے پھسلتے پلو کو سنبھالا تو سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائیوں پر اختر صاحب کی نظریں ٹک گئیں۔ انہوں نے اپنی عینک کو ایک بار پھر ٹھیک کیا اور نوٹ بک بند کر دی۔ انٹرویو کا اختتام ہو چکا تھا۔
”اختر صاحب! یہ کب شائع ہو گا؟’ زرقا نے انہیں نوٹ بک بند کرتے دیکھ کر پوچھا۔
”بہت جلد شائع ہو گا … آپ تو جانتی ہی ہیں۔ میرے کیے ہوئے انٹرویوز کی کس طرح دھوم مچ جاتی ہے۔” اختر صاحب نے پین بند کر کے اپنی جیب میں اٹکاتے ہوئے کہا۔
”بے شک … بے شک ۔” زرقا نے تائید میں سرہلایا۔
”آپ دیکھئے گا … اس انٹرویو کی بھی کیسی دھوم مچے گی۔” اختر صاحب نے گردن موڑ کر کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے بے نیازی کے عالم میں چائے پیتے ہوئے فوٹو گرافر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اسلم! اب تم میڈم کی کچھ تصویریں بنا لو … ویسے تو ان کی شخصیت ہی اتنی خوبصورت ہے کہ تصویریں خود ہی اچھی آئیں گی پھر بھی ذرا دھیان لگا کر کام کرنا …”
زرقا ان کی بات پر مسکرائی اور فوٹو گرافی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگی۔
٭٭٭
وہ دو کمروں پر مشتمل ایک منزل گھر تھا۔ کمروں کے سامنے مختصر صحن اور کمروں کے دائیں طرف کچن اور باتھ روم تھا۔ جن کے اوپر گزرنے والی سیڑھی اوپر کمروں کی چھت پر جاتی تھی۔ صحن میں پلستر کیا ہوا تھا اور صحن کی دیواروں کے ساتھ بنی ہوئی کیاریوں میں پودے لگے ہوئے تھے۔ ساتھ والے گھر میں موجود درخت کی شاخوں نے صحن کے ایک کونے کو مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا اور ان شاخوں کے سایہ میں ایک تحت پڑا ہوا تھا۔ کمروں کی دیواروں کے باہر بھی چھوٹے بڑے گملوں میں بہت سے پودے لگے ہوئے تھے اور کچھ بیلوں کو کمرے کی دیواروں کے ساتھ چڑھانے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
صحن کے ایک کونے میں حمام اور نل موجود تھا’ جس کے پاس پڑے ایک ٹب میں کچھ کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ صحن کی ایک دیوار کے ساتھ ایک سائیکل کھڑی ہوئی تھی اور سفیدی شدہ دیواروں کے پس منظر میں مختلف رنگوں سے سجی ہوئی وہ سائیکل … سائیکل کے بجائے کوئی آرائشی شے لگ رہی تھی۔
صحن میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ البتہ دائیں جانب کی سیڑھیوں پر ایک لڑکی کتاب لیے موجود تھی۔ وہ بڑی لاپروائی سے اپنی ٹانگیں دو تین سیڑھیوں پر پھیلائے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر چڑھائے بیٹھی ہوئی تھی۔ پاؤں میں عام سی دوپٹی کی چپل تھی۔ کتاب میں گم وہ اس وقت باہر گلی میں ابھرنے والی آوازوں سے بالکل بے نیاز نظر آ رہی تھی۔
وہ اس وقت اسکول سے بالکل مختلف نظر آ رہی تھی۔ اس کے بال اب بھی اسی طرح ربڑ بینڈ سے بندھے ہوئے تھے’ مگر سر پر موجود ہیئرپنز غائب تھیں۔ بالوں کی کچھ لٹیں اس کے گالوں اور کانوں پر لہراتیں تو وہ انہیں وقفے وقفے سے اپنے کانوں کے پیچھے کر لیتی اس نے قیض کی آستینیں بھی لاپروائی سے کہنی تک چڑھا رکھی تھیں۔ حلیے کے علاوہ باقی سب کچھ ویسا ہی تھا انفرادیت کا جو عنصر اسکول میں تھا وہ اب بھی نظر آتا تھا۔
چودہ پندرہ سالہ وہ لڑکا ہاتھ میں ایک کتاب پکڑے اندر کمرے سے نکلا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ صحن میں نکلتے ہی وہ ادھر اُدھر دیکھے بغیر سیدھا دبے پاؤں سیڑھیوں کی طرف گیا۔ اور یک دم اس کے سامنے آ گیا تو وہ چونکی’ مگر اپنی جگہ سے نہیں ہلی نہ ہی اس نے نظر اٹھا کر لڑکے کی طرف دیکھا۔ اسی طرح سیڑھیوں پر نیم دراز وہ کتاب پر نظریں جمائے رہی۔ مگر اب اس کی حسیات اس لڑکے کی طرف لگی تھیں۔
”آپ پاؤں ایک طرف کر لیں … میں یہاں بیٹھنا چاہتا ہوں۔” لڑکے نے سامنے آتے ہی سنجیدگی سے بڑے مہذب انداز میں کہا۔ اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے نظر آنے والی مسکراہٹ اب غائب ہو چکی تھی۔ لڑکی نے اس کی درخواست پر توجہ نہیں دی۔ وہ بدستور کتاب کے مطالعے میں مصروف رہی۔
”میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے پاؤں ایک طرف کر لیں۔ میں یہاں بیٹھنا چاہتا ہوں۔”
اس بار لڑکے نے پہلے سے قدرے بلند آواز میں اس کو مخاطب کیا۔ لڑکی اب بھی اسی طرح بے نیازی سے پاؤں ہلاتے ہوئے کتاب پڑھتی رہی۔
”اچھا آپ اپنے پاؤں ایک طرف کر لیں۔ مجھے رستہ دیں۔ میں اوپر چھت پر جانا چاہتا ہوں۔”
اس بار لڑکے نے اپنی درخواست میں کچھ ترمیم کی۔ وہ سیڑھی کے درمیان میں بیٹھی ہوئی تھی اور سیڑھی اتنی تنگ تھی کہ جب تک وہ ایک طرف نہ ہٹ جاتی۔ کوئی آسانی سے وہاں سے نہیں گزر سکتا ہے … مگر وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ لڑکا وہاں سے گزر سکتا ہے اسی لیے اس کی درخواست پر توجہ نہیں دی۔ وہ اسی سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ مطالعے میں مصروف رہی۔
وہ لڑکا کچھ دیر اس کے سامنے کھڑا اس کے ردعمل کا انتظار کرتا رہا’ مگر جب وہ اسی طرح لاپروائی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتی رہی تو اس نے ان چار پانچ سیڑھیوں کی بچی ہوئی جگہ پر اپنے پیروں کو ٹکاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرنے کی کوشش کی۔ وہ گزرتے ہوئے منہ سے اس طرح کی آوازیں نکال رہا تھا جیسے وہ سیڑھی نہیں کوہ ہمالیہ کی کوئی چوٹی تھی’ جس پر اوپر چڑھتے ہوئے اسے بے حد دقت اور تکلیف ہو رہی ہو’ جن چار پانچ سیڑھیوں کو وہ دو سیکنڈ میں عبور کر سکتا تھا۔ انہیں عبور کرنے میں اس نے جان بوجھ کر دیر لگائی۔ وہ اوپر والی سیڑھی کی جگہ پر پاؤں رکھتا پھر نیچے اٹھا لیتا۔ پھر اُوپر چڑھنے کی کوشش کرتا پھر نیچے آ جاتا۔
لڑکی اس کی اس تمام سرگرمی کے دوران ٹس سے مس ہوئے بغیر سیڑھیوں میں نیم دراز اس کتاب کا مطالعہ کرتی رہی۔ مگر اس کے باوجود وہ مکمل طور پر اس لڑکے کی طرف متوجہ تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر لمحہ بھر کے لیے بھی کوئی ایسا تاثر نہیں ابھرا تھا’ جس سے اندازہ ہوتا کہ وہ اس لڑکے کی کسی سرگرمی سے متاثر ہوئی ہے۔
”شکر ہے اللہ کا … اوپر پہنچ گیا ہوں … اللہ راستہ بنانے والا ہے۔” لڑکے نے اس سیڑھی پر پہنچتے ہوئے کہا جس سے وہ لڑکی ٹیک لگائے ہوئے تھی۔ وہ کچھ دیر تک اس طرح گہرے سانس لیتا رہا جیسے واقعی کوئی پہاڑ سر کر کے آیا ہو۔ اور پھر اوپر چھت پر جانے کے بجائے ایک سیڑھی اوپر سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔ لڑکی نے اسے اپنے عقب میں بیٹھتے محسوس کر لیا تھا۔
”ادھر ہی بیٹھ جاتا ہوں … اوپر جانے کی تو اب ہمت نہیں رہی۔” وہ اب تھکے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اس لڑکی نے نظریں کتاب پر ہی رکھیں’ مگر اب اس کی چھٹی حس اسے بار بار متنبہ کر رہی تھی۔
”ثانی دو اور دو چار ہوتے ہیں نا۔” لڑکے نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔ ثانی نے نظریں کتاب سے نہیں اٹھائیں۔
”میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ آپ کا میتھس اچھا ہے۔”
لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
کچھ دیر خاموشی رہی’ اس کے بعد اچانک ایک ہاتھ کی ہتھیلی ثانی کی کتاب کے اوپر آ گئی۔
”آپ بولنا نہیں چاہتیں تو لکھ کر بتا دیں پلیز۔” اس نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر لکھا ہوا تھا۔
ثانی اسی خاموشی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں سے اٹھ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ صرف اسے تنگ کرنے کے لیے آیا ہے اور اب وہاں بیٹھا اسی طرح تنگ کرتا رہے گا۔
وہ سیڑھیوں سے اٹھ کر تیز قدموں کے ساتھ صحن میں موجود تخت پر آ کر بیٹھ گئی۔ لڑکا بھی پیچھے ہی چلا آیا اور اس کے پاس تخت پر آ کر بیٹھ گیا۔
”ہاں تو پھر دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں؟”
اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ اس طرح سوال کیا’ جیسے ثانی اسے خود وہاں جواب دینے کے لیے لے کر آئی ہو۔ ثانی نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور تخت سے اٹھ کر صحن میں موجود کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔
”اس کا مطلب ہے کہ چار نہیں ہوتے … پانچ ہوتے ہیں؟’ اس نے کرسی کے گرد چکر لگاتے ہوئے پوچھا ۔ ثانی اٹھ کر تخت کی طرف چلی گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے آیا۔
”اچھا اب ختم کرو یہ ناراضی … اور کتنی دیر چلے گی … میں نے تم سے کہا ہے ناں آئندہ نہیں کروں گا … کبھی نہیں کروں گا۔” اس بار ثانی نے اس کی طرف دیکھا اور پوری قوت سے اس کے بازو پر مکامارا۔
”مجھے ہاتھ نہ لگانا اور مجھ سے بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔” وہ غرائی۔
”میں نے مذاق کیا تھا۔ یقین کرو’ مذاق کیا تھا۔” اس نے قدرے لجاجت سے کہا۔
”کیوں کیا تھا … میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے مجھ سے ایسے فضول مذاق نہ کیا کرو۔”
”اچھا … اچھا اب نہیں کروں گا … وعدہ کرتا ہوں اب نہیں کروں گا۔” لڑکے نے کان پکڑ کر کہا۔
”نہیں بس میں اب تم سے بات نہیں کروں گی۔ مجھے تمہارے کسی وعدے پر اعتبار نہیں ہے۔ تم مجھ سے کبھی بات مت کرنا۔ سمجھے تم۔” ثانی نے دوبارہ کتاب کھولتے ہوئے کہا۔ ”جاؤ یہاں سے تم! میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔”
”اگر تم بات نہیں کرو گی تو میں اسی طرح تمہارا وقت ضائع کرتا رہوں گا۔” ثانی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر بلند آواز میں کہا۔
”بھائی … بھائی … دیکھیں’ یہ ثومی تنگ کر رہا ہے … پڑھنے نہیں دے رہا … بدتمیزی بھی کر رہا ہے۔”
ثمر نے تیزی سے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کھول کر اس پر نظریں جما لیں۔
”کیا مسئلہ ہے تم لوگوں کے ساتھ … ۔ کیوں تنگ کر رہے ہو اسے؟” شہیر نے اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے ثمر کو ڈانٹا۔” اسے پڑھنے دو … اور تم بھی جا کر پڑھو۔”
ثمر کتاب پر نظریں جمائے اس وقت دنیا ومافہیا سے بے خبر دکھائی دے رہا تھا۔ شہیر کی ڈانٹ پر بھی اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا نہ اس کی بات کا جواب دیا۔
”ثمر! ” شہیر نے اپنی بات کا کوئی ردعمل نہ دیکھ کر ایک بار پھر تنبیہی انداز میں اسے پکارا۔ ثمر یک دم ہڑبڑایا اور اس نے شہیر اور اپنے پاس بیٹھی ثانی کو باری باری کچھ حیرانی سے دیکھا۔
”آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں؟”
”ہاں’ میں تم سے ہی کہہ رہا ہوں … اندر کمرے میں جاؤ … بلکہ میرے پاس آ کر بیٹھو … یہاں میرے سامنے آ کر پڑھو۔”
”میں تو یہاں بیٹھا پڑھ ہی رہا تھا مگر ثانی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی… وہ کہہ رہی تھی کہ اسے کچھ سمجھنا ہے۔” اس نے بڑے مودب انداز میں شہیر سے کہا۔
”تم بے حد جھوٹے ہو … بلکہ جھوٹوں کے سردار ہو۔” ثانی بے اختیار تخت سے اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ ”اب اگر تم سیڑھیوں کی طرف آئے تو … بھائی! میں سچ کہہ رہی ہوں میں اسے بہت ماروں گی۔” ثانی نے آخری جملہ شہیر سے کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔