تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”تم گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کے لیے کوالیفائی کر سکتے ہو’ سب سے زیادہ خیالی پلاؤ پکانے کے لیے۔” ثانی نے ایک بار پھر اس کا مذاق اڑایا۔
”تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم مشہور ہو؟” ثومی نے اچانک اس سے پوچھا۔
”نہیں۔” ثانی نے قطعی لہجے میں کہا۔
”پھر تم احمق ہو۔” ثومی نے بے اختیار کہا۔
”اچھا فرض کرو’ تم مشہور ہو جاتے ہو پھر اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ایسے کون سے سرخاب کے پر لگ جائیں گے تمہیں۔”
”تمہیں پتا ہی نہیں ہے’ شہرت کی اور ہی بات ہوتی ہے۔ اب جیسے میں اور تم یہاں چل رہے ہیں’ پچاس لوگ بھی یہاں سے گزریں تو ہم پر ایک نظر ڈالنا پسند نہیں کریں گے اور اگر ہم مشہور ہوں تو یہاں پر ہمیں اس طرح پیدل چلتے دیکھ کر لوگوں کی بھیڑ لگ جائے گی۔”
ثانی بے اختیار ہنسی۔ ”پیدل چلتے دیکھ کر یا جامن کھاتے دیکھ کر … نہیں جامن اٹھاتے دیکھ کر۔” اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”آخر تم میری بات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتیں۔” وہ بے اختیار جھلایا۔
”اس لیے کہ تمہاری باتیں بے حد بچگانہ ہیں۔ صرف سڑک پر بھیڑ لگوانے کے لیے تم مشہور ہونا چاہتے ہو۔ احمق ہو تم۔” اس بار ثانی نے اسے ڈانٹا۔
”انسان ایک بار مشہور ہو جائے تو پھر اس کے پاس سب کچھ آ جاتا ہے۔ عزت ‘ دولت’ محبت’ سب کچھ … تم ذرا تصور تو کرو ایسی زندگی کا … کہ … فون پر فون آ رہے ہیں ‘ اخباروں میں تمہاری تصویریں اور انٹرویو شائع ہو رہے ہیں۔” وہ ایک بار پھر بڑی سنجیدگی سے ثانی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”لوگ تم سے آٹو گراف لے رہے ہیں۔ تمہارے ساتھ تصویریں کھنچوانا چاہتے ہیں۔ تمہیں اپنی تقریبات میں بلا رہے ہیں۔ تمہیں ہر جگہ وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا جا رہا ہے۔”
ثانی یک دم چلتے چلتے رک گئی۔
”کیا ہوا؟” ثومی نے اسے ٹھٹک کر دیکھا۔
”تم ایکٹر بننا چاہتے ہو؟”





”اگر تم وعدہ کرو کہ تم کسی کو بتاؤ گی نہیں تو میں اس سوال کا جواب دے سکتا ہوں۔” ثومی نے کہا۔
”مجھے تمہارا جواب نہیں چاہیے’ میں جانتی ہوں تم یہی بننا چاہتے ہو۔” ثانی غرائی۔ ”اور تمہیں شرم آنی چاہیے۔”
”اس میں شرم والی کیا بات ہے۔ کیا ایکٹر انسان نہیں ہوتے۔” ثومی نے بحث کی۔
”ہوتے ہوں گے’ بہرحال تم اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو تو زیادہ بہتر ہے۔ میٹرک ابھی تم سے ہوا نہیں ہے اور تم مشہور ہونے کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے ہو اور وہ بھی ایکٹر بن کر’ فضول چیز۔”
”میری تو ہر بات تمہیں فضول لگتی ہے۔ جب میں مشہور ہو جاؤں گا تو تم ہر ایک کو فخر سے بتایا کرو گی کہ یہ میرا بھائی ہے اور مجھے بچپن سے ہی پتا تھا کہ یہ مستقبل کا ایک بڑا انسان ہو گا اور میں نے ہمیشہ اس کی بڑی حوصلہ افزائی کی اور ہر معاملے میں اس کا ساتھ دیا۔” وہ اب اس کی نقل اتار رہا تھا۔
”جی نہیں ‘ میں کبھی کسی کو یہ نہیں بتاؤں گی کہ تم میرے بھائی ہو۔ اگر کسی نے پوچھا بھی تو میں کہہ دوں گی کہ یہ بچپن سے ہی بہت ڈھیٹ تھا اور اس کی ڈھٹائی دیکھتے ہوئے ہمیں یقین تھا کہ یہ کچھ بھی بن سکتا ہے۔”
”نہیں ‘ مس ثانی! آپ غلط کہہ رہی ہیں۔ تاریخ کبھی اس طرح نہیں لکھی گئی جس طرح آپ بتا رہی ہیں۔ ہمیشہ وہی کہا جاتا ہے جو میں نے کہا۔ ہر بڑے آدمی کے رشتہ دار اس کے ساتھ والے پہلے یہی کرتے ہیںجو تم کر رہی ہو اور بعد میں وہ سب وہی کچھ کہتے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں۔ تم دیکھ لینا’ تم بھی یہی کرو گی اور میں اتنا اعلا ظرف ہوں کہ میں کہوں گا کہ ہاں’ یہ بہت مدد کیا کرتی تھی میری’ میں آج جو کچھ ہوں’ اللہ کے بعد اپنے گھر والوں اور خاص طور پر اپنی چھوٹی بہن کے تعاون اور مدد کی وجہ سے ہوں۔” ثومی نے تقریر کے انداز میں کہا۔
”ایک تو میں تمہاری چھوٹی بہن نہیں ہوں’ جڑواں بہن ہوں اور دوسری بات یہ کہ مجھے دوسروں کی کامیابیوں کا تاج اپنے سر پر رکھ کر ملکہ کہلوانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ تم اگر ایک کامیاب ایکٹر بن بھی گئے تو تب تک میرے پاس بھی فخر کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔” ثانی یک دم سنجیدہ ہو گئی۔۔
”مثلاً کیا ہو گا تمہارے پاس کنیز!” ثومی نے بار عب انداز میں کہا۔
”جہاں پناہ! یہ تو وقت بتائے گا۔” ثومی مسکراتے ہوئے اس کو دیکھنے لگا۔
”ویسے تم بننا کیا چاہتی ہو؟”
”پتا نہیں۔”
”میں نہیں مانتا۔ کچھ نہ کچھ پلاننگ تو کی ہو گی تم نے ؟” ثومی نے سرہلایا۔
”میں تمہاری طرح پلاننگ نہیں کرتی بیس تیس سال کی’ میں صرف آج پر یقین رکھتی ہوں’ کل کی فکر میں نہ دبلی ہوتی ہوں نہ خوشی میں موٹی۔ جب کل آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ فی الحال تو میں میٹرک میں ہوں اور مجھے اس میں اچھے مارکس لینے ہیں پھر دیکھیں گے’ کہاں کھڑے ہیں۔” ثومی نے قدرے افسوس سے سرہلایا۔
”تم میں وہ اسپارک اور وژن نہیں ہے جو انسان کو آگے لے کر جاتا ہے’ جس طرح مجھ میں ہے۔” ثانی نے مسکراتے ہوئے ایک اور جامن منہ میں ڈالی۔
”مائی ڈیئر برادر! یہ تو وقت بتائے گا’ انسان صرف اسپارک اور وژن کی بنیاد پر آگے جاتا ہے یا محنت کے زور پر۔”
”تم دیکھنا ثانی! ایک دن میرے پاس اسی طرح کی ایک گاڑی ہو گی’ اسی کلرکی’ اسی ماڈل کی اور پھر میں کہوں گا ڈرائیور! ذرا میری بہن کو ڈراپ کر دینا جہاں بھی یہ چاہیں۔” اس نے بڑے اسٹائل سے کہا۔
”اور ہو سکتا ہے تب میرے پاس کاروں کا ایک پورا فلیٹ ہو اور میں تم سے کہوں۔ سوری’ میں منگل والے دن صرف مرسیڈیز پر سفر کرتی ہوں۔” اس کے سنجیدگی سے کہے گئے جملے پر ثومی نے اسے دیکھا اور پھر دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
٭٭٭
”ممی! آپ کا پاپا سے کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” امبر نے اس شام منیزہ سے پوچھا۔ صبغہ بھی وہیں بیٹھی تھی۔ اس نے کچھ چونک کر امبر اور منیزہ کو دیکھا۔
”ہاں۔” منیزہ نے ترشی سے کہا۔ ”تمہارے پاپا نے اس سلسلے میں تم سے کچھ کہا ہے؟”
”نہیں’ پاپا نے تو مجھ سے کچھ نہیں کہا مگر آپ دونوں ہی کا موڈ کچھ دنوں سے آف ہے’ اس لیے پوچھ رہی ہوں۔ کس بات پر جھگڑا ہوا ہے۔” امبر نے منیزہ سے پوچھا۔
”یہ سوال میرے بجائے تمہیں اپنے پاپا سے پوچھنا چاہیے۔”
”میں پاپا سے پہلے ہی پوچھ چکی ہوں’ وہ کہتے ہیں یہ سوال مجھے ان کے بجائے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ آپ کہتی ہیں مجھے یہ سوال آپ کے بجائے ان سے پوچھنا چاہیے۔ آخر مسئلہ ہے کیا؟” امبر نے زچ ہو کر کہا۔ ”پہلے تو کبھی آپ دونوں کے درمیان جھگڑا نہیں ہوا۔ پھر آخر اب ایسا کیوں ہو گیا ہے؟”
”پہلے اس لیے جھگڑا نہیں ہوتا تھا کیونکہ تمہارے پاپا کو فضول باتیں کرنے کی عادت نہیں تھی’ اب پڑ گئی ہے تو پھر جھگڑا تو یقینا ہو گا۔” منیزہ نے تنفر سے کہا۔
”کیسی فضول باتیں؟”
”ہر طرح کی فضول باتیں’ فضول اعتراضات۔ تم باہر پھرتی رہتی ہو تم’ شاپنگ میں مصروف رہتی ہو’ تم گھر پر ٹکتی نہیں’ تو تم یہ کرتی ہو تم وہ کرتی ہو۔” منیزہ بڑبڑانے لگیں۔
”کمال ہے’ پاپا کی تو ایسی عادت نہیں ہے’ ایسی بات وہ کیوں کریں گے۔” امبر نے حیرانی سے کہا۔ ”وہ تو خود شاپنگ کے لیے لے کر جاتے ہیں تو اب …” منیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہی تو میں نے ان سے کہا کہ آخر اس طرح کی باتیں کر کیوں رہے ہیں آپ! میں نے ان سے صرف اتنا پوچھ لیا تھا کہ آج کل ضرورت سے زیادہ مصروف رہنے لگے ہیں وہ’ گھر بھی بہت دیر سے آتے ہیں’ اگر آئیں بھی تو سونے کے علاوہ اور کسی کام میں شریک نہیں ہوتے’ نہ بچوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں’ نہ انہیں کہیں لے کر جاتے ہیں’ حتیٰ کہ بچوں کے بارے میں پوچھتے تک نہیں۔ بس اسی بات پر وہ ایک دم مشتعل ہو گئے۔ میں تو حیران رہ گئی’ بیس سال کی شادی شدہ زندگی میں آج تک انہوں نے اس طرح بلند آواز میں مجھ سے بات نہیں کی اور طعنے دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بھی انہیں اچھی خاصی سنائیں’ آخر سمجھا کیا تھا انہوں نے مجھے۔ میں کسی ایسے ویسے خاندان کی تو نہیں ہوں۔”
منیزہ غصے کے عالم میں بولتی رہیں۔ امبر اور صبغہ خاموشی سے سنتی رہیں۔
”اس دن مجھ سے کہنے لگے کہ میں یہاں سے چلی جاؤں … میں نے بھی کہہ دیا کہ خود چلے جائیں’ میں کیوں چلی جاؤں۔ بس تب سے ان کا موڈ آف ہے۔ چڑچڑے تو پہلے ہی ہو رہے تھے’ اب بول چال بھی بند کر دی ہے مگر مجھے کوئی پروا نہیں۔ انہوں نے آخر سمجھا کیا تھا مجھے’ اس طرح باتیں کریں گے تو میں برداشت کر لوں گی۔” منیزہ نے کہا۔
”یہ سب کچھ اس شخص ہارون کمال کی وجہ سے ہو رہا ہے۔” امبر نے کہا۔ ”اچھی خاصی پُرسکون زندگی گزر رہی تھی ہماری مگر پتا نہیں کیوں پاپا کو اس کے ساتھ فیکٹری شروع کرنے کی ضرورت آن پڑی۔ میں اسی لیے آپ سے کہہ رہی تھی کہ پاپا کو آپ منع کریں۔ انہیں ہارون کمال کے ساتھ بزنس کرنے کی ضرورت نہیں اور پھر اتنی اچھی طرح ہماری فیکٹری چل رہی ہے۔ ہمیں ضرورت ہی کیا تھی ایک نئی فیکٹری شروع کرنے کی۔ وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جسے پاپا جانتے تک نہیں۔” امبر نے کہا۔
”اب مجھے یہ تھوڑی پتا تھا کہ فیکٹری شروع کرنے پر یہ اس طرح گھر سے ہی غائب ہو جائیں گے اور پھر اس طرح کا رویہ … پہلے بھی تو بہت مصروف ہوتے تھے مگر کم از کم اس طرح بدتمیزی سے بات نہیں کرتے تھے’ جس طرح اب کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ یہ صرف ہارون کمال کے ساتھ فیکٹری شروع کرنے کی وجہ سے ہے۔”منیزہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔
”اگر اس نئی فیکٹری کی مصروفیت کی وجہ سے نہیں ہے تو پھر کس وجہ سے ہے۔ پاپا تو بہت خوش مزاج آدمی ہیں۔ چڑچڑے تو کبھی بھی نہیں رہے۔ حتیٰ کہ بیماری میں بھی’ پھر اب کس لیے ایسے ہو گئے ہیں۔ یہ صرف ہارون کمال کے ساتھ بزنس شروع کرنے کی وجہ سے ہے’ پاپا نے خود اپنے لیے ٹینشن کو بڑھا لیا ہے۔ جب چوبیس گھنٹے کام’ کام اور صرف کام ہو گا تو پھر اسی طرح ہو گا جس طرح پاپا کر رہے ہیں۔” امبر نے منیزہ کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
”ممی! آپ ان کے ساتھ بحث نہ کیا کریں’ نہ ہی جھگڑا کریں۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی آج کل ٹینشن میں ہوں۔ جب ایک بار فیکٹری شروع ہو جائے گی اور کام تھوڑا کم ہو جائے گا تو وہ خود ہی نارمل ہو جائیں گے۔ آپ تو جانتی ہیں وہ بہت زیادہ غصہ والے آدمی نہیں ہیں۔”
صبغہ نے پہلی بار اس گفتگو میں حصہ لیا اور بڑے متحمل انداز میں منیزہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی بات پر منیزہ یک دم مشتعل ہو گئیں۔
”میں منصور کے ساتھ بحث کرتی ہوں؟ میں جھگڑا کرتی ہوں؟ جس طرح کی فضول اور بے ہودہ باتیں وہ کرتے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ میں بات نہ بڑھاؤں۔ وہ اگر کام کی وجہ سے اسٹریس میں ہیں بھی تو میں کیا کروں۔ میں نے تو ان سے یہ سب کچھ کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ انہوں نے خود یہ سب کچھ شروع کیا تھا۔ اب کام کرنا پڑ رہا ہے تو کریں مگر اپنے مسائل کو ٹوکرے میں ڈال کر سر پر رکھ کر تو نہ پھریں اور نہ ہی دوسروں کے سروں پر انہیں انڈیلنے کی کوشش کریں۔” منیزہ شدید غصے میں آ گئیں۔ ”اور تمہیں ماں سے ہمدردی نہیں ہے۔ باپ سے ہمدردی ہو رہی ہے کہ وہ پریشانی میں یہ سب کچھ کر رہے ہوں گے’ کام کے دباؤ میں آ کر اس طرح کا رویہ رکھنے لگے ہیں’ میں کم از کم تم سے یہ توقع نہیں کر سکتی تھی صبغہ!”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!