تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”کچھ ہفتے پہلے تم نے طلحہ کو فون کر کے اپنے گھر بلایا تھا۔ کیوں؟”
رخشی اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکی۔ وہ اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ منیزہ کا لہجہ بہت ترش اور ان کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔
”میں … مجھے کچھ مدد کی ضرورت تھی۔” وہ بے اختیار اٹکی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ منیزہ کو طلحہ سے رابطے کے بارے میں کس نے بتایا تھا۔ جس نے بھی بتایا تھا اس نے اس وقت رخشی کے لیے بہت زیادہ پریشانی کھڑی کر دی تھی۔
”کس طرح کی مدد کی ضرورت تھی؟ مالی مدد کی؟” رخشی کا چہرہ سرخ ہوا۔ منیزہ کا انداز بے حد ہتک آمیز تھا۔
”اگر مالی مدد کی ضرورت تھی تو تم امبر سے کہتیں ۔ یا مجھ سے کہتیں … مگر … اس طرح طلحہ تک پہنچنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں؟۔”
”نہیں آنٹی ! مجھے مالی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔”
”ہاں ہونی بھی نہیں چاہیے … امبر بہت کچھ دیتی دلاتی رہتی ہے۔” رخشی بول نہیں سکی۔ منیزہ کو دوسروں کو ذلیل کرنے میں کمال حاصل تھا اور وہ اس وقت اس کمال کا بھرپور مظاہرہ کر رہی تھیں۔
”منہ اٹھا کر اس طرح رات کو طلحہ کو فون کر کے آخر تم کس طرح کی مدد حاصل کرنا چاہتی تھیں’ جو صرف طلحہ ہی کر سکتا تھا اور کوئی نہیں۔” منیزہ بولتی جا رہی تھیں۔
”اور طلحہ سے یا ہم سے آخر تمہارا رشتہ کیا ہے۔ جان نہ پہچان … میں تیرا مہمان … انگلی پکڑانے پر کلائی پکڑنے کی کوشش میں مصروف ہو تم۔”
منیزہ کی آواز بہت بلند تھی اور اب ڈرائیور جو لاؤنج سے گزرتے ہوئے واپس پورچ میں جا رہا تھا۔ رخشی اس کی نظریں خود پر جمی محسوس کر رہی تھی۔
”تم کس خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔ یہ تو میں نہیں جانتی مگر ہمارا خاندان ذرا اور طرح کا ہے … یہاں اس طرح کی باتیں نہیں ہوتیں۔ جس طرح کی تم کر رہی ہو۔” منیزہ بولتی جا رہی تھیں۔
”تم اگر اپنی مدد کا سلسلہ امبر کے کپڑے پہننے تک ہی محدود رکھو تو بہتر ہے۔ دوبارہ طلحہ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہاری وہ بے عزتی کروں گی کہ تم یاد رکھو گی … میں نے تو امبر کو کئی بار منع کیا ہے تمہارے ساتھ میل جول رکھنے سے’ مگر اس کا دماغ خراب ہے۔ وہ اسی طرح دوست اٹھا اٹھا کر لاتی رہتی ہے۔ ابھی وہ میری بات نہیں سن رہی مگر کچھ ماہ بعد جب وہ طلحہ کے گھر چلی جائے گی تو پھر خود ہی تمہارا اور اس کا تعلق ختم ہو جائے گا۔”
وہ بے حد تحقیر آمیز انداز میں کہہ رہی تھیں۔
”تم اس سے پہلے خود ہی یہ میل جول ختم کر دو تو زیادہ بہتر ہے۔ کافی الو بنا لیا ہے تم نے امبر کو … خاصا مال کما چکی ہو تم اس سے۔”
”آنٹی! آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” رخشی نے ایک لمبی خاموشی کے بعد سرخ چہرے کے ساتھ کچھ وضاحت دینے کی کوشش کی مگر منیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ اور بار بار مجھے آنٹی کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری اور میری ایسی تو کوئی رشتہ داری نہیں ہے کہ اس طرح کے رشتے بنا بیٹھو۔ یہ مکھن بازی تم کسی اور کے لیے ہی رکھو۔”
منیزہ نے کہتے کہتے امبر کو آتے دیکھ لیا تھا وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ امبر اب ان کے قریب آ گئی تھی۔
”پارٹی سے جلدی واپس آ جانا… وہیں مت بیٹھ جانا۔ تمہارے پاپا انتظار کریں گے تمہارا کھانے پر۔” منیزہ نے امبر سے کہا۔
”آپ پاپا کو بتا دیں کہ میں فائزہ کی برتھ ڈے پر جا رہی ہوں۔ کھانا تو میں وہیں کھا کر آؤں گی۔” امبر نے کہا۔





”میں انہیں بتا تو دوں گی مگر تم جانتی ہو’ جب تک گھر آ کر تمہیں دیکھ نہ لیں۔” انہیں تسلی نہیں ہوتی۔ بار بار مجھ سے پوچھتے رہیں گے تمہارے بارے میں۔”
”آپ فکر نہ کریں … میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی ورنہ فون پر ان سے بات کر لوں گی۔” امبر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”چلو رخشی! چلیں …” اگلا جملہ اس نے رخشی سے کہا۔ منیزہ اب لاؤنج سے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔ رخشی خاموشی کے ساتھ امبر کے ساتھ چلنے لگی۔
”ممی نے کچھ کہا ہے تم سے؟” امبر نے اس کے ساتھ چلتے چلتے اچانک اس سے پوچھا۔
”نہیں…” اس نے امبر کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”وہ تم سے کچھ کہہ تو رہی تھیں … میں سن نہیں سکی مگر ان کی آواز سنی تھی جب میں لاؤنج میں داخل ہوئی کیا کہہ رہی تھیں وہ؟”
امبر کو اس کے انکار سے تسلی نہیں ہوئی’ پتا نہیں کیوں اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ رخشی اور منیزہ کے درمیان کوئی بات ضرور ہوئی تھی۔
”وہ مجھ سے میرا حال چال پوچھ رہی تھیں۔” رخشی نے عجیب سے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔ ”اس سوٹ کی تعریف کر رہی تھیں کہ یہ مجھ پر بہت اچھا لگ رہا ہے۔”
”ارے یہ ممی نے کہا؟” امبر اپنی حیرت چھپا نہیں سکی۔ ”میں تو سمجھ رہی تھی کہ وہ ناراض ہوں گی۔ انہوں نے پہچان تو ضرور لیا ہو گا اس سوٹ کو۔”
”ہاں’ انہوں نے پہچان لیا تھا مگر وہ ناراض نہیں ہوئیں … بلکہ خوش ہوئی تھیں۔ تمہاری ممی بہت مہربان ہیں۔” اس نے امبر کو دیکھتے ہوئے عجیب سے انداز میں کہا۔
”اور ایسے مہربان لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔”
”ہاں ممی اچھی ہیں۔ بس کبھی کبھی ذرا عجیب باتیں کر دیتی ہیں مگر وہ واقعی بہت کائنڈ ہیں۔”
امبر نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کی تائید کی اس نے رخشی کے چہرے کے تاثرات پر غور نہیں کیا تھا’ وہ دونوں اب باہر پورچ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں۔
٭٭٭
”آپ آج کل کچھ پریشان ہیں؟”منیزہ نے اس رات منصور علی سے پوچھا۔ وہ سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کی بات پر اچانک چونک گئے۔
”نہیں … کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟”
”ویسے ہی مجھے لگ رہا ہے کہ آپ آج کل بہت پریشان ہیں۔” منیزہ نے اطمینان سے کہا۔
”میں پریشان نہیں ہوں’ صرف مصروف ہوں۔” منصور علی نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں’ کوئی نہ کوئی بات تو ہے … جو آپ مجھے نہیں بتا رہے۔” منیزہ مصر ہو گئیں۔
”تمہارا کیا خیال ہے … کیا بات ہے جو میں تمہیں نہیں بتا رہا۔” منصور علی نے اس بار بہت سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”یہی تو میں آپ سے جاننا چاہ رہی ہوں۔ خود مجھے کیسے پتا چل سکتا ہے کہ آپ کو کیا پریشانی ہے۔”
”تم جانتی ہو’ میں نئی فیکٹری لگانے کے لیے پیپر ورک کر رہا ہوں۔ کچھ اپنی فیکٹری کی مصروفیات ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مصروفیات بڑھیں گی۔ کم نہیں ہوں گی۔” منصور علی نے کہا۔
”مگر آپ اب رات کو بہت ہی دیر سے آنے لگے ہیں’ ایسا ہر رات ہی ہو رہا ہے۔” منیزہ نے اعتراض کیا۔
”تمہیں بتایا تو ہے میں نے کہ نئی فیکٹری کے سلسلے میں بہت مصروف ہوں۔”
”مگر آپ گھر کو اور ہم سب کو بھی بہت نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ بالکل وقت ہی نہیں دیتے ہمیں۔” منیزہ نے ایک اور شکوہ کیا۔
”تم خود گھر کو وقت دیتی ہو۔؟” اس بار وہ بے اختیار چڑے۔ ”تم خود سارا دن ادھر سے اُدھر بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں پھرتی رہتی ہو۔ پھر تمہیں میرے گھر پر توجہ دینے کا خیال کیسے آ گیا؟”
منیزہ حیرانی سے منصور علی کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ ”منصور آپ کس طرح کی بات کر رہے ہیں؟”
”کس طرح کی بات …؟ جو سچ ہے وہی کہہ رہا ہوں … تمہیں واقعی گھر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تم مجھ سے اس طرح بات کر رہی ہو جیسے گھر کے علاہ تمہیں کسی اور چیز کی پرواہی نہیں ہے۔” وہ جیسے پھٹ پڑے تھے۔ ”میں نے آج تک تم سے یہ نہیں کہا کہ تم بازاروں میں پھرنا اور رشتہ داروں کے گھروں کے چکر لگانے کم کرو۔ کچھ توجہ گھر پر دو … مجھ پر دو … تو پھر تم مجھ سے یہ سب کیوں کہہ رہی ہو … چند ہفتے میں اپنے کاموں میں مصروف کیا ہو گیا … تم اس طرح شکایتوں کے دفتر کھول کر بیٹھ گئیں۔” وہ اب اپنے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے انہوں نے گلاس میں پانی ڈالا اور پینے لگے۔
”تم کو یہ احساس نہیں ہے کہ میں سارا دن’ ساری رات تم لوگوں کے لیے خوار ہوتا پھرتا ہوں … صرف شکایتیں اور شکوے پیش کرنے آتے ہیں تمہیں … منیزہ صاحبہ’ یہ گھر اور یہ عیش و آرام میری اسی دن رات کی محنت کی وجہ سے ہی آپ کو میسر ہے …” وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔” میں اتنا مصروف نہ ہوں تو آپ لوگوں کو کچھ بھی نہ ملے۔ پھر پتا چلے …”
”آخر آپ کس بات کا غصہ نکال رہے ہیں مجھ پر … میں نے آخر ایسا کیا کہہ دیا ہے کہ آپ اس طرح طنز کرنے پر اُتر آئے ہیں۔” منیزہ نے کہا۔ ”میرا فرض تھا کہ میں آپ کو پریشان دیکھوں تو آپ کی پریشانی کی وجہ پوچھوں۔” منصور علی نے مزید مشتعل ہو کر اس کی بات کاٹی۔
”فرض کی بات مت کرو … فرائض اور بھی بہت سے ہوتے ہیں … صرف میرا دماغ چاٹنا ہی تمہارے فرائض میں شامل نہیں ہے۔”
”میں آپ کا دماغ چاٹ رہی ہوں۔؟” منیزہ کو بھی غصہ آ گیا۔
”نہیں۔ صرف دماغ نہیں چاٹ رہی ہو … تم میری زندگی بھی اجیرن کر رہی ہو۔” منصور علی نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
”ایک معمولی سی بات کیا پوچھ لی میں نے … آپ نے اس طرح لڑنا شروع کر دیا ہے کہ … اور زندگی کیا اجیرن کی ہے آپ کی۔” وہ مزید برہم ہو گئیں۔
”اگر آپ میرے’ اس گھر اور بچوں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو احسان نہیں کرتے ہم پر۔”
”احسان نہیں کرتا … تو … اور کیا کرتا ہوں۔” وہ بلند آواز میں بولے۔
”میں بھی بہت کچھ کرتی ہوں آپ کے لیے’ بچوں کے لیے اور گھر کے لیے۔”
”کیا کرتی ہو تم … کھانے’ سونے اور شاپنگ کے لیے آوارہ گردی کے علاوہ …”
”منصور! آپ اب بس کریں۔ میں نے بہت طنز برداشت کر لیے ہیں آپ کے … میں اور نہیں سنوں گی۔”
”نہیں سنوگی تو کیا کرو گی … گلا دبا دو گی میرا؟” منصور علی کو منیزہ کے لہجے پر اور غصہ آیا۔
”نہیں ‘ میں کیوں گلا دباؤں گی … آپ دبا دیں میرا گلا …”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!