تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”تم ایسا کرو میری طرف آجاؤ … یہاں سے اکٹھے ہی فائزہ کی برتھ ڈے پر چلیں گے۔ پہلے کچھ وقت ساتھ گزاریں گے۔ لنچ تم میرے گھر پر ہی کرنا … اس کے بعد شام کو فائزہ کی طرف چلیں گے۔ بعد میں میں تمہیں ڈراپ کردوں گی۔” امبر نے فون پر تمام پروگرام طے کرتے ہوئے رخشی سے کہا۔ ”ویسے بھی کافی دن ہو گئے ہیں ہمیں اکٹھے ہوئے۔”
”چلو ٹھیک ہے’ میں آ جاؤں گی۔” رخشی رضا مند ہو گئی۔
”میں دس بجے ڈرائیور کو بھجوا دوں؟”
”دس بجے … ؟ اتنی جلدی میں آ کر کیا کروں گی؟ نہیں’ تم بارہ بجے کے قریب بھجوانا۔”
”کوئی نہیں۔ میں دس بجے کے قریب ہی بھجوا رہی ہوں … تم بس تیار رہنا …” امبر نے اس کی بات رد کرتے ہوئے کہا۔
”امبر! چھٹی کا دن ہے۔ میں تو سو رہی ہوں گی اس وقت …” رخشی نے کچھ احتجاج کرنے کی کوشش کی۔
”تم میری طرف آ کر سو جانا اور نہ بھی سوؤگی تو کیا فرق پڑے گا’ جانتی ہو کہ ہم اکٹھے کتنا انجوائے کریں گے۔” امبر نے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے … میں آ جاؤں گی … کوئی اور حکم؟” رخشی نے مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔
امبر اس کی بات پر ہنسی … ”نہیں اور کوئی حکم نہیں’ تم سناؤ’ تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے؟”
”جاب تو بس ٹھیک ہی جا رہی ہے۔ ابھی تو شروع کی ہے۔ سیکھنا پڑ رہا ہے سب کچھ۔” رخشی نے کہا۔
”پاپا تو بڑی تعریف کر رہے ہیں تمہارے کام کی۔” امبر نے کہا۔
”تمہارے پاپا ویسے ہی بہت حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں’ کوئی اور باس ہوتے تو میں تو شاید کام دیکھ کر بھاگ جاتی مگر تمہارے پاپا بہت گائیڈ کر رہے ہیں۔” رخشی نے کہا۔
”نہیں … تم یقینا اچھا کام کر رہی ہو گی یا تمہارے کام میں سپارک ہو گا۔ ورنہ پاپا کام کے معاملے میں لحاظ کرنے والے آدمی نہیں ہیں۔ نہ ہی ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔” امبر نے کہا۔ ”وہ تو اس معاملے میں طلحہ اور اسامہ کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔”
”پھر یہ تمہاری وجہ سے ہو گا۔ آخر انہوں نے مجھے تمہارے ریفرنس سے جاب دی ہے۔”
”اب تم بار بار یہ یاد دلانے کی کوشش نہ کرو … کہ انہوں نے تمہیں میرے کہنے پر جاب دی ہے۔ انہوں نے کسی نہ کسی کو تو رکھنا تھا اور تم سے بہتر چوائس ان کے لیے اور کیا ہو سکتی تھی۔ کوئی اور ان کے لیے اتنی محنت سے کام کبھی نہیں کرتا۔”
”تمہیں کیا پتا کہ میں محنت سے کام کر رہی ہوں؟” رخشی نے مذاق کیا۔
”مجھے پتا ہے ‘ تم محنت سے ہی کام کر رہی ہو گی۔ میں تم کو اچھی طرح جانتی ہوں۔” امبر نے بڑے یقین سے کہا۔ ”میں ویسے بھی پاپا سے تمہارے بارے میں پوچھتی رہتی ہوں۔ اگر تم اچھا کام نہ کر رہی ہوتیں تو وہ تو مجھے شروع میں ہی کہہ دیتے کہ تمہاری دوست کو رکھ کر مصیبت کا شکار ہو گیا ہوں۔ وہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتی۔ مگر انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔ اور میں نے تمہیں بتایا ہے’ نا وہ تمہاری تعریف کرتے رہتے ہیں۔” امبر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”وہ خود بہت اچھے ہیں۔ تم بہت لکی ہو کہ وہ تمہارے فادر ہیں۔”
امبر نے قدر ے فخر سے کہا۔
”اس میں تو خیر کوئی شک کی بات نہیں ہے’ میں واقعی بہت لکی ہوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں مگر وہ بھی بہت لکی ہیں کہ وہ میرے فادر ہیں۔” رخشی نے اس بار قدرے بے تاثر لہجے میں اس کا جملہ دوہرایا۔
چند منٹ اور بات کرنے کے بعد امبر نے فون بند کر دیا وہ بے حد خوشگوار موڈ میں تھی۔
٭٭٭





امبر نے ٹھیک دس بجے ڈرائیور کو اسے لینے کے لیے بھجوا دیا تھا۔ وہ جب گھر پہنچی تو امبر کچھ دیر پہلے ہی سو کر اٹھی تھی۔
”خود تم ابھی سو کر اٹھی ہو اور مجھے تم نے سونے نہیں دیا۔” رخشی نے اس کا حلیہ دیکھتے ہوئے کہا۔
”خود بھی تو تمہارے لیے ہی اتنی جلدی اٹھ گئی ہوں’ ورنہ تم جانتی ہو’ میں اتنی جلدی تو نہیں اٹھ سکتی۔” امبر نے کسی معذرت کے بغیر کہا۔ وہ جماہی لے رہی تھی۔
”تم بیٹھو’ میں صرف دس منٹ میں شاور لے کر آتی ہوں۔” امبر نے اس سے کہا۔
دس منٹ کے بعد وہ واقعی دوبارہ کمرے میں تھی۔ رخشی یکے بعد دیگرے میگزین دیکھ رہی تھی۔ امبر کو باہر نکلتے دیکھ کر اس نے میگزین رکھ دیے۔ امبر نے ناشتہ اپنے کمرے میں ہی منگوالیا۔
شام چار پانچ بجے تک وہ دونوں وہیں کمرے میں بیٹھی باتیں کرتی رہیں پھر امبر فائزہ کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکت کرنے کے لئے تیار ہونے لگی۔ اس نے باری باری اپنی وارڈ روب سے کپڑے نکال کر رخشی کو دکھانے شروع کر دیے۔
”کون سا سوٹ پہننا چاہیے مجھے؟”
رخشی نے ستائشی نظروں سے اس کے کپڑوں کو دیکھا۔ امبر اگر ان میں سے کوئی ایک لباس چننے میں ناکام ہو رہی تھی تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی’ وہ ملبوسات کسی کو بھی اس الجھن کاشکار کر سکتے تھے۔
”یہ اچھا ہے’ یہ پہن لو۔” رخشی نے کچھ دیر ان کپڑوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک خوبصورت سیاہ سوٹ اٹھا کر کہا۔
”ہاں … مجھے خود بھی یہ بہتر لگ رہا تھا۔ یہ کچھ دنوں پہلے ہی خریدا ہے میں نے … ابھی تک پہنا بھی نہیں ہے۔” امبر نے ایک نظر اس سوٹ پر ڈالتے ہوئے کہا۔
رخشی اب باقی سوٹ باری باری اٹھا کر وارڈ روب میں لٹکا رہی تھی۔ ایک سی گرین سوٹ کو اٹھاتے ہوئے وہ بے اختیار رک گئی۔ وہ بہت خوبصورت سوٹ تھا۔ اتنا خوبصورت کہ وہ اس پر سے اپنی نظریں ہٹا نہیں پائی۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اس سوٹ کو اپنے جسم کے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی۔
”واؤ … کتنا اچھا لگ رہا ہے یہ تم پر۔” امبر کہتے ہوئے خود بھی ڈریسنگ ٹیبل کے قریب آ گئی۔
”ہاں یہ بہت خوبصوت ہے۔ کلر بھی اور ایمبرائیڈری بھی۔” رخشی نے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم یہ پہن لو …” امبر نے اس سے کہا۔
”کیا مطلب ؟”
”مطلب یہ کہ تم یہ پہن لو … برتھ ڈے پر جانے کے لیے۔”
”تم بھی حد کرتی ہو … میں تو تیار ہو کر آئی ہوں۔ یہ دیکھ نہیں رہیں۔” رخشی نے قدرے گڑبڑا کر وہ سوٹ اپنے جسم سے ہٹاتے ہوئے اس سے کہا۔
”کوئی بات نہیں’ دوبارہ تیار ہو جانا۔ لاؤ… میں اسے بھی پریس کرواتی ہوں۔” امبر نے اس سے سوٹ پکڑ لیا۔
”نہیں امبر رہنے دو … اس کی ضرورت نہیں ہے۔” رخشی نے اس سے کہا۔
”ضرورت ہے … بس تم چپ رہو …” وہ ایک بار پھر اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھول کر ملازمہ کو بلانے لگی۔ رخشی کو بے اختیار یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ کچھ دیر بعد وہ لباس اس کے جسم پر ہو گا۔ اسے واقعی وہ بہت پسند آیا تھا۔
”تمہارا نیا سوٹ تھا … تم نے خوامخواہ …” امبر کے واپس اندر آنے پر اس نے ایک بار پھر کہنا چاہا’ مگر امبر نے قدرے لاپروائی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”کچھ نہیں ہوتا میرے پاس کپڑوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ مجھے تو بعض دفعہ نئے کپڑے خریدنے یا سلوانے کے بعد یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ میں نے انہیں پہنا ہے یا نہیں … اور کئی بار تو کپڑے اس طرح کئی کئی ماہ پڑے رہتے ہیں۔”
رخشی نے اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے دوبارہ ارڈروب میں کپڑے لٹکانے لگی۔
تقریباً پون گھنٹہ کے بعد وہ دونوں تیار ہو کر لاؤنج میں آ گئی تھیں۔ امبر کو اچانک کوئی کام یاد آ گیا۔
”تم بیٹھو’ میں صرف چند منٹوں میں آتی ہوں۔” وہ اس سے کہتے ہوئے خود واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔
جس وقت وہ لاؤنج سے سے نکل رہی تھی اس وقت منیزہ اندر داخل ہوئیں۔ وہ شاپنگ سے واپس آئی تھیں۔ ڈرائیور ان کے پیچھے شاپرز اٹھائے ہوئے تھا۔ رخشی انہیں دیکھ کر صوفہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ منیزہ کے چہرے پر اسے دیکھ کر بے حد عجیب سے تاثرات آئے تھے۔ انہوں نے ایک نظر میں ہی اس کے جسم پر موجود سوٹ کو پہچان لیا تھا اور اس بات نے یک دم ان کی خفگی میں اضافہ کیا تھا۔ وہ سوٹ ایک ہفتہ پہلے ہی وہ امبر کے لیے خرید کر لائی تھیں۔ انہیں پتا تھا کہ امبر نے ایک بار بھی ابھی اس سوٹ کو نہیں پہنا اور اس لمحے اسے رخشی کے جسم پر دیکھ کر انہیں غصہ آنا فطری بات تھی۔ انہیں نہ صرف رخشی پر غصہ آیا تھا بلکہ امبر پر بھی غصہ آیا تھا۔ رخشی نے انہیں سلام کیا۔ جس کا جواب منیزہ نے بڑی نخوت سے دیا۔ جواب دیتے ہی وہ ڈرائیور کو وہ سارے شاپرز اپنے کمرے میں رکھنے کے لیے کہنے لگیں۔
رخشی کی نروس نیس میں اضافہ ہو گیا۔ منیزہ کے سامنے وہ ہمیشہ اسی طرح نروس ہو جاتی تھی۔ منیزہ کی نظریں ہمیشہ ہی بہت چبھتی ہوئی ہوتی تھیں اور ان کی گفتگو بھی اسی طرح کی ہوتی تھی۔ رخشی اتنی بے وقوف نہیں تھی کہ وہ یہ بات محسوس نہ کر سکتی کہ منیزہ اسے ناپسند کرتی تھیں اور اس احساس نے اس کے دل میں بھی منیزہ کے لیے ناپسندیدگی کو جنم دیا تھا۔ وہ اس وقت بھی یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے صوفہ پر بیٹھ جانا چاہیے یا اس طرح کھڑے رہنا چاہیے۔ کیونکہ منیزہ نے اسے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا تھا’ اور خود ابھی منیزہ بھی کھڑی تھیں۔
منیزہ اب صوفہ پر بیٹھ گئی تھیں۔ ”بیٹھو … تم سے مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
انہوں نے رخشی سے کہا۔ وہ ان کی بات پر کچھ حیران … اور … شاید کسی حد تک محتاط بھی ہو گئی۔ کیا وہ منصور علی کے حوالے سے اس سے کوئی بات کرنا چاہتی تھیں یا پھر اس کی جاب کے حوالے سے ؟ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!