”ہیلو امبر کیسی ہو۔” شائستہ نے امبر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ امبر بے اختیار کچھ حیرانی کے عالم میں ٹھٹک کر رک گئی۔ اس کے انداز میں کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ اسے توقع نہیں تھی شائستہ اس طرح یہاں مل جائے گی اور اسے مخاطب بھی کرے گی۔ وہ اس وقت ایک شاپنگ آرکیڈ میں کھڑی تھی۔ صبغہ اس سے کچھ فاصلے پر میک اپ کی کچھ چیزیں دیکھنے میں مصروف تھی جبکہ وہ خود … پرفیومز دیکھ رہی تھی جب اچانک شائستہ نے اس کے قریب آ کر اسے مخاطب کیا۔
”فائن آپ کیسی ہیں؟” اس نے اس جھٹکے سے نکلتے ہوئے کہا۔
”میں’ میں بھی ٹھیک ہوں۔ شاپنگ کے لئے آئی ہو؟۔ ” شائستہ نے ایک بہت سرسری سا جملہ بولا۔
”ہاں۔”
”کس کے ساتھ آئی ہو؟ کیا منیزہ بھی ساتھ ہیں؟”
”نہیں ممی نہیں آئیں صبغہ میرے ساتھ آئی ہے’ وہ وہاں کاسمیٹکس دیکھ رہی ہے۔”
اس نے کچھ دور کھڑی صبغہ کی طرف اشارا کیا جو ان کی طرف پشت کیے کھڑی تھی۔ شائستہ نے ایک لمحے کے لیے گردن موڑ کر ادھر دیکھا اور پھر امبر کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”آج کل کیا مصروفیات ہیں؟”
”کوئی خاص مصروفیات نہیں ہیں۔”
”ہم لوگ دو چار بار تم لوگوں کے ہاں گئے ہیں مگر تم سے ملاقات ہی نہیں ہو سکی۔ اس پارٹی میں ملاقات کے بعد آج ہی ملاقات ہو رہی ہے اور وہ بھی ایک شاپنگ آرکیڈ میں۔” شائستہ نے خوشگوار لہجے میں کہا ”تم آؤ نا’ کسی دن ہماری طرف۔”
”اوکے ۔ ممی آئیں گی تو میں بھی ان کے ساتھ آ جاؤں گی۔”
”منیزہ کو تو میں نے انوائیٹ کیا ہوا ہے … کہہ رہی تھیں کہ جلد ہی میری طرف آئیں گی۔” شائستہ نے کہا۔
”ممی آپ کا خاصا ذکر کرتی ہیں’ انہوں نے آپ سے وعدہ کیا ہے تو پھر بہت جلد آپ کی طرف آئیں گی۔” امبر نے مروتاً کہا۔
”منیزہ خود بہت اچھی ہیں۔ خیرتم شاپنگ کرو’ میں نے خوامخواہ تمہیں ڈسٹرب کیا۔”
شائستہ نے مسکراتے ہوئے اس سے الوداعی کلمات کہے اور پھر ایک طرف چلی گئی۔ صبغہ نے شائستہ کو امبر سے باتیں کرتے دیکھ لیا تھا مگر وہ ان کی طرف نہیں آئی۔ جب امبر صبغہ کی طرف گئی تو اس نے امبر سے کہا۔
”مسز کمال تھیں نا یہ ؟”
”ہاں وہی تھیں۔” امبر نے لاپروائی سے سرہلایا۔
”اچھی خاتون ہیں۔” صبغہ نے تبصرہ کیا۔ ”بہت کائنڈ سی ہیں۔”
”نہ صرف کائنڈ بلکہ بہت گریس فل اور گلیمرس بھی ہیں۔” امبر نے اضافہ کیا۔ وہ دونوں اب شاپنگ آرکیڈ کے اوپر والے حصے کی طرف جا رہی تھیں۔
”ہاں ‘ گریس فل اور گلیمرس تو ان کے شوہر بھی ہیں۔” صبغہ نے تبصرہ کیا۔
”ہوں گے مگر مجھے وہ پسند نہیں ہیں۔” امبر نے ناگواری سے کہا۔
صبغہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”تمہیں وہ پسند نہیں ہیں؟ تم کب ملی ہو ان سے؟ … گھر پر تو وہ جتنی بار بھی آئے ہیں تمہاری ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔” صبغہ نے کہا۔
”ایک ملاقات تو اسی پارٹی میں ہوئی تھی جہاں پاپا پہلی بار ان کی فیملی سے متعارف ہوئے تھے۔ اور دوسری ملاقات چند دن پہلے ایک ہوٹل میں ہوئی ‘ جہاں میں اور طلحہ کھانا کھانے کے لیے گئے تھے۔”
صبغہ خاصی دلچسپی کے ساتھ سن رہی تھی۔
”وہ خود ہماری ٹیبل پر آ گئے۔ طلحہ نے انہیں اپنے ساتھ کھانے کی آفردی اور تم انہیں دیکھو۔” امبر نے تنفر سے کہا۔ ”انہوں نے فوراً آفر قبول کر لی’ بلکہ بیٹھ گئے اسی وقت ہمارے ساتھ کھانا کھانے۔ مجھے تو بے حد غصہ آیا ان پر بھی اور طلحہ پر بھی نہ وہ یہ آفر کرتا نہ یہ ہمیں چپکتے۔”
”کیا فرق پڑتا ہے اگر انہوں نے تمہارے ساتھ ڈنر کر لیا۔” صبغہ نے نرمی سے کہا۔ ”طلحہ بھائی نے انہیں اس لیے انوائیٹ کیا ہو گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاپا ان کے ساتھ کوئی جوائنٹ وینچر کرنے والے ہیں بلکہ میرا خیال ہے یہ پاپا کے ساتھ چند بار فیکٹری بھی گئے ہیں۔”
”ہماری ان کے ساتھ اتنی بے تکلفی یا شناسائی تو نہیں تھی کہ وہ ایک رسمی دعوت نامہ اس طرح فوراً قبول کر لیتے۔ وہ بھی اس صورت میں جب وہ دیکھ رہے تھے کہ وہاں صرف میں اور طلحہ بیٹھے ہوئے ہیں’ وہ تو ہمارے رشتے سے بھی واقف ہوں گے پھر اس طرح منہ اٹھا کر وہاں آ کر بیٹھ جانا … حیرت ہے۔ وہ اتنے کامیاب کیسے ہیں جب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی تمیز نہیں ہے۔
اور اس پر بھی یہ کہ وہ بات سے بات نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ضرورت سے زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ میں نے بھی بنا کسی مروت کے ظاہر کر ہی دیا کہ مجھے ان کاوہاں بیٹھنا ناپسند ہے۔ آخر اٹھ کر چلے ہی گئے۔” امبر نے کہا۔
وہ دونوں اب شاپنگ آرکیڈ کے اوپر والے حصے میں پہنچ چکی تھیں۔
”پاپا کی ان کے ساتھ بہت دوستی ہے۔ اگر انہوں نے پاپا سے شکایت کر دی تو؟ پاپا کتنا ناراض ہوں گے۔” صبغہ نے اس سے کہا۔
”میں نہیں سمجھتی کہ وہ پاپا سے شکایت کریں گے۔ ویسے تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاپا ایک دوست کے لیے کبھی مجھے نہیں ڈانٹ سکتے۔” امبر نے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔
”ہاں’ میں جانتی ہوں لیکن اگر تمہارے رویے کی وجہ سے انہوں نے پاپا کے ساتھ بزنس ڈیلز ختم کر دیں تو پاپا کو کتنی مایوسی اور نقصان ہو گا۔ تمہیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔”
”پاپا کا بزنس ان کا محتاج نہیں ہے۔ ویسے بھی ہارون کمال ہی پاپا کے ساتھ مل کر بزنس کرنا چاہ رہے ہیں۔ پاپا نے ان سے ایسی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔” امبر نے اسی انداز میں کہا۔
”اور تم جانتی ہو’ جاتے ہوئے انہوں نے کیا کیا؟” امبر کو یاد آیا۔ صبغہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”وہ ڈنر کا بل پے کر گئے جب ہم لوگوں نے بل پے کرنا چاہا تو ویٹر نے کہا کہ بل پہلے ہی پے کیا جا چکا ہے۔
صبغہ اسے دیکھتی رہی۔ اب یہ خوامخواہ احسان کرنے والی بات نہیں ہے اسی لیے میں تم سے کہہ رہی تھی کہ یہ مجھے اچھے نہیں لگتے۔”
”پھر تو تمہیں شائستہ کمال بھی بری لگنی چاہیے۔” صبغہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ امبر کے مزاج سے بخوبی واقف تھی۔
”نہیں’ شائستہ کمال کیوں بری لگنی چاہیے’ مجھے وہ اچھی لگی ہیں۔ ہارون کمال سے تو بہت بہتر ہیں۔” امبر نے فوراً کہا۔ ”ہارون کمال کی طرح خوامخواہ گلے پڑنے کی کوشش تو نہیں کی انہوں نے اور نہ ہی فضول باتیں کرنے کی عادت ہے انہیں۔”
”تمہیں کیسے پتا ‘ تم انہیں کتنا جانتی ہو۔ ایک دوبار ہی ملی ہو۔” صبغہ نے فوراً اس کی بات کاٹی۔
”پھر بھی میں اندازہ کر سکتی ہوں۔” امبر نے مدافعانہ انداز میں کہا۔ ”اور تم جانتی ہو۔ میرے اندازے اکثر صحیح ہوتے ہیں۔”
”اکثر مگر ہمیشہ نہیں۔” صبغہ نے مسکرا کر کہا۔
”ہاں ۔ ہمیشہ نہیں … مگر اکثر میری چھٹی حس مجھے لوگوں کے بارے میں صحیح گائیڈ کرتی ہے۔”
امبر نے لاپروائی سے کہا۔ صبغہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور خاموش رہی۔
٭٭٭
سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے ثانی نے آخری چند لائنیں لکھ کر کاپی بند کر دی۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا اور ایک جماہی لی پھر اس نے سر اٹھا کر ایک نظر صحن میں دوڑائی۔ صحن کے تخت پر شہیر بیٹھا اپنے بوٹ پالش کرنے میں مصروف تھا۔ وہ پورے انہماک سے اپنے کام میں مگن تھا۔ ثانی نے مسکراتے ہوئے کچھ فخریہ اور ستائشی نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا۔ وہ اس کا آئیڈیل تھا۔ ہر کام میں’ ہر چیز میں’ ہر بات میں۔
وہ اٹھ کر تخت کی طرف چلی گئی۔ شہیر نے ایک ثانیہ کے لیے نظر اٹھائی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ ثانی اپنی کتابیں تخت پر رکھتے ہوئے شہیر کے عقب میں تخت … پر بیٹھ گئی اور شہیر کے گلے میں دونوں بانہیں ڈال کر اس کے کندھے کی پشت پر اپنا سر ٹکا دیا۔
چند لمحوں کے لیے پالش کرتے ہوئے شہیر کے ہاتھ رکے پھر وہ اس طرح اپنا کام کرتا رہا۔ وہ بہت لاڈ میں آتی تو یہی کرتی تھی۔
”بھائی! آج مجھے آئس کریم لادیں۔”
”میں ثومی سے کہتا ہوں’ وہ لادے گا۔” شہیر نے ہمیشہ کی طرح اس کا مطالبہ بلا حیل و حجت تسلیم کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں ۔ ثومی نہیں’ وہ میری آدھی آئس کریم کھا جاتا ہے۔ بس بھائی! آپ مجھے خود لاکر دیں۔” ثانی نے سر اوپر کر کے کہا۔
”نہیں کھائے گا … میں اس کی آئس کریم کے لیے بھی پیسے دے دوں گا۔”
”اس کو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا… وہ پہلے اپنی کھائے گا پھر میری بھی آدھی کھا جائے گا … آپ خود لا کر دیں۔”
”اچھا’ میں ابھی تھوڑی دیر میں لادوں گا۔” شہیر بالآخرمان گیا۔
”بھائی ! آئس کریم کھلانے ساتھ لے جائیں۔ مجھے تازہ آئس کریم کھانی ہے۔” وہ بالآخر اپنے اصلی مطالبے پر آئی۔
”وہ تو بہت دور جانا پڑے گا۔”
”کوئی بات نہیں’ چلے جائیں گے … وین پر دیر تو نہیں لگتی’ صرف پندرہ منٹ لگیں گے آنے جانے میں’ آئس کریم کھا کر سیدھے گھر آ جائیں گے۔” وہ جوش سے پورا پروگرام سیٹ کر رہی تھی۔
”مگر میں نے تمہیں بتایا ہے ناں ‘ آج میں بہت مصروف ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔” شہیر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”پلیز پلیز … پلیز بھائی لے جائیں نا؟” اس بار اس نے منت سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ تم کپڑے تبدیل کرو’ چلتے ہیں۔” شہیر نے اپنے بوٹ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
ثانی بے اختیار خوش ہو گئی۔ اور تخت سے اٹھ کر اپنی کتابیں سمیٹتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔
”امی! میں بھائی کے ساتھ آئس کریم کھانے جا رہی ہوں۔” اس نے فاطمہ سے کہا جو اندر کمرے میں ایک قمیض کی ترپائی کرنے میں مصروف تھی۔
”مگر شہیر کو تو آج بہت کام کرنا تھا۔” فاطمہ نے اپنا ہاتھ روک کر کہا۔
”نہیں’ انہیں تو کوئی کام نہیں ہے ہم ویسے بھی جلدی آ جائیں گے۔ دس پندرہ منٹ میں۔” ثانی نے گول مول انداز میں بات کرتے ہوئے کہا۔
”اگر دس پندرہ منٹ کی بات ہے تو چلے جاؤ مگر دس پندرہ منٹ ہی لگنے چاہئیں۔ ایک دو گھنٹے نہیں۔” فاطمہ کو اس کا اور شہیر کا پتا تھا۔
”نہیں امی! ایک دو گھنٹے نہیں لگیں گے … ہم واقعی جلدی آ جائیں گے۔” ثانی نے فاطمہ کو تسلی دی۔
”آپ ثومی کو کیا بتائیں گی کہ میں کہاں گئی ہوں۔” اسے کپڑے نکالتے ہوئے اچانک خیال آیا۔
”کچھ نہ کچھ کہہ دوں گی۔”
”آپ اسے بتائیں کہ میں آئس کریم کھانے گئی ہوں تاکہ اس کو ذرا پتا چلے۔ بہت دکھ ہو گا اسے اور میرے تو کان کھا جائے گا جب میں واپس آؤں گی۔” ثانی کو اندازہ تھا۔
”نہیں میں اس سے یہ تو نہیں کہوں گی میں ویسے ہی کہوں گی کہ تم مارکیٹ گئی ہو۔” فاطمہ نے اسی انداز میں کہا۔
٭٭٭
”ثانی!” فاطمہ نے اسے مخاطب کیا۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ ثمر اور شہیر دوسرے کمرے میں تھے۔ وہ دونوں وہیں سوتے تھے جبکہ ثانی فاطمہ کے ساتھ اس کمرے میں سوتی تھی۔
”جی امی!” وہ فاطمہ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”اس طرح شہیر کے ساتھ بیٹھنا اور اس کے گلے میں بانہیں ڈالنا اب تم چھوڑ دو۔”
”کیوں امی؟” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ”اب تم بڑی ہو گئی ہو’ اس طرح بچوں کی طرح ساتھ چپکنا مناسب بات نہیں ہے۔” فاطمہ نے نرمی سے کہا۔
”مگر امی! وہ میرے بھائی ہیں۔”
”وہ تمہارا بڑا بھائی ہے’ اسی لیے سمجھا رہی ہوں … یہ بالکل مناسب نہیں لگتا کوئی دیکھے تو کیا سمجھے اور خود شہیر کو کتنی شرمندگی ہو گی۔”
”مجھے پتا ہے امی۔ مگر وہ مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں۔ اتنے اچھے لگتے ہیں کہ میرا خودبخود دل چاہتا ہے ان کے پاس بیٹھنے کو۔ ان سے باتیں کرنے کو۔”
فاطمہ عجیب سے انداز میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔