تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”ہاں میں جانتا ہوں پھر بھی دعوت دے رہا ہوں کہ آپ دونوں میری طرف آئیں۔” ہارون کمال نے طلحہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”لنچ’ ڈنر … یا ویسے ہی … میرے گھر پر کچھ وقت گزاریں۔”
”ضرور کیوں نہیں … چند ماہ تک ہماری شادی ہو جائے گی۔ اس کے بعد ہم آپ کی طرف آئیں گے۔” طلحہ نے کہا۔
”وہ تو شادی کے بعد آئیں گے’ میں چاہتا ہوں آپ شادی سے پہلے ہی آئیں … میرا خیال ہے’ آپ اتنے کنزرویٹو تو نہیں ہیں کہ اس طرح آنا بُرا سمجھیں اور منصور بھی بہت براڈمائنڈڈ ہیں۔” ہارون کمال نے امبر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں … ایسی کوئی بات نہیں ہے … ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہم تو ویسے ہی کہہ رہے تھے۔” طلحہ نے ہم کا صیغہ استعمال کیا۔
”تو پھر آپ لوگ کب آ رہے ہیں میری طرف ؟” اس بار ہارون امبر سے مخاطب تھا۔
”ہم دونوں خاصے مصروف رہتے ہیں … ایک دوسرے کے گھر جانے کے لیے وقت نہیں ملتا پھر کسی تیسرے کے ہاں جانے کے لئے وقت نکالنا خاصا مشکل کام ہے۔” امبر نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”آپ دونوں کھانا کھانے کے لئے تو نکلتے ہی ہوں گے … جس طرح آج نکلے ہیں … تو ایسے ہی کسی دن کھانا ریسٹورنٹ میں کھانے کے بجائے میرے ہاں کھا لیں۔” ہارون کمال ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔
”میں نے آپ کو بتایا ناکہ ہمارے پاس ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے بھی بہت کم وقت ہوتا ہے … اور پھر کبھی ہم وقت نکال ہی لیں تو اس میں کسی تیسرے کو تو شامل نہیں کرنا چاہیں گے … آپ سمجھ سکتے ہیں اس بات کو۔”
ہارون کمال کے چہرے کا رنگ پہلی بار تبدیل ہوا۔ طلحہ نے بروقت مداخلت کی۔
”امبر مذاق کر رہی ہے … ہم کسی دن ضرور آپ کی طرف آئیں گے۔ بلکہ ہمارے لیے تو یہ ایک اعزاز کی بات ہو گی کہ ہم آپ کے ساتھ کھانا کھائیں۔”
”آپ کے لیے نہیں یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہو گی … اگر آپ میرے ہاں کھانا کھائیں۔”
ہارون کمال نے اپنی خفت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔




امبر نے کوئی جواب دیا نہ کوئی تبصرہ کیا’ اس نے اپنے سامنے پڑا ہوا سوپ کا پیالہ پیچھے سر کا دیا۔ اس وقت کوئی بھی اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ بہت بیزار بیٹھی تھی … اور ہارون کمال جیسے شخص کے لیے ایسے تاثرات کو پڑھنا یا پہچاننا قطعاً مشکل نہیں تھا’ وہ اس کی ناگواری کی وجہ جانتا تھا مگر اس کے باوجود وہ وہاں سے اٹھنا نہیں چاہتا تھا… زندگی میں بہت کم عورتوں میں اسے اس طرح کی کشش محسوس ہوئی تھی جیسی وہ امبر میں کر رہا تھا … بہت سالوں پہلے اس نے وہ کشش شائستہ میں محسوس کی تھی … اور وہ جنونیوں کی طرح اسے حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا رہا تھا … کئی سالوں بعد اس نے ایک بار پھر وہ کشش انیس بیس سال کی اس لڑکی کے لیے محسوس کی تھی جو اس وقت اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی … وہ عمر میں اس سے کم از کم پچیس سال چھوٹی تھی … مگر ہارون کمال بری طرح اس کے دام میں اسیر تھا۔
اس نے اپنی زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت عورت دیکھی تھی … وہ عورتیں اس کی زندگی میں آتی اور جاتی رہی تھیں … اس کے نزدیک وہ کھیل کے سامان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں … مگر سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی کے لیے اس کے احساسات ان تمام عورتوں سے بالکل مختلف تھے … اسے اس کا نخرا’ اس کا غصہ’ اس کی بے نیازی’ اس کی ناگواری’ اس کا اجتناب’ اس کی ہر بات’ ہر انداز اچھا لگ رہا تھا۔
”کیا میں اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو رہا ہوں؟” ہارون کمال نے غیر محسوس انداز میں اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے اسے دیکھا اور سوچا … ”اور اس عمر میں اور اس لڑکی سے … یا پھر یہ میری ایک اور دلچسپی ہے۔”
وہ خود سے سوال کرتے ہوئے ادھر اُدھر بے نیازی سے نظریں دوڑاتی ہوئی امبر کو دیکھ رہا تھا … اس کی نظریں اس کی خوبصورت گردن کے گرد لپٹی ہوئی اس چین پر تھیں جو ایک لاکٹ کی شکل میں طلحہ اور اس کا نام لیے ہوئے تھی … ہارون کمال نے سوپ پیتے پیتے طلحہ کو دیکھا ۔ بے اختیار اس کے اندر سے حسد اور نفرت کی ایک لہر اٹھی۔
”یہ شخص امبر جیسی لڑکی کے لائق نہیں۔”
ہارون کمال نے بے اختیار سوچا۔ ”یہ میڈیا کر آدمی امبر کے قابل نہیں ہے’ کم از کم ایسے آدمی کو امبر کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے۔” اس نے چمچہ رکھ دیا۔
”تھینک یو ویری مچ … سوپ واقعی بہت اچھا تھا۔” طلحہ نے چونک کر ہارون کمال کو دیکھا جو اس سے مخاطب تھا۔”میں اب چلتا ہوں’ میرا دوست میرا انتظار کر رہا ہو گا۔” ہارون کمال کھڑا ہو گیا۔
”مگر آپ نے تو ہمارے ساتھ ڈنر کرنا تھا۔” طلحہ نے اٹھتے ہوئے جیسے اسے یاد دلایا۔
”بالکل کرنا تھا … اگر میرا دوست ساتھ نہ ہوتا تو … بہرحال آج کیلئے سوپ ہی کافی ہے۔”
پھر کبھی ملاقات ہو گی تو یقینا آپ کے ساتھ ڈنر کروں گا…” ہارون کمال نے طلحہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
امبر کو بے اختیار خوشی ہوئی … اس نے سکون کا سانس لیا … ہارن کمال کے جانے کا مطلب تھا کہ وہ اطمینان سے طلحہ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ڈنر کر سکتی تھی’ اسے ایک بار پھر بھوک لگنے لگی۔
”گڈبائے … سی یو سون۔” ہارون کمال امبر سے مخاطب ہوا۔ امبر نے سر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ اس کے رخصتی کلمات کا جواب دیا۔
”تم بھی حد کر دیتی ہو امبر! اتنا برے طریقے سے ٹریٹ کرتے ہیں کسی مہمان کو۔” اس کے جاتے ہی طلحہ نے امبر سے کہا۔
”مہمان …؟ یہ ہمارا مہمان کیسے ہو گیا … میرے لیے وہ ایک Intruder تھا۔” امبر نے ناراضگی سے کہا۔
”وہ انکل منصور علی کا بہت اچھا دوست ہے۔” طلحہ نے اسے جتایا۔
”صرف چند ماہ کا اچھا دوست … وہ بھی کاروباری دوست …” امبر نے رکھائی سے تبصرہ کیا۔
”انکل منصور اس کے ساتھ بہت سے منصوبے بنا رہے ہیں … بہت لمبی پلاننگ کر رہے ہیں اور تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہارون کمال کو بزنس سرکل میں کیا سمجھا جاتا ہے۔” طلحہ نے اسے متاثر کرنے کے لیے کہا۔
”مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اسے بزنس سرکل میں کیا سمجھا جاتا ہے۔” امبر پر رتی برابر اثر نہ ہوا ”اور جہاں تک پاپا سے اس کی دوستی کی بات ہے تو یہ اس کا لحاظ ہی تھا کہ میں نے اسے اپنی ٹیبل پر نہ صرف بیٹھنے دیا … بلکہ سوپ بھی پینے دیا … ورنہ میں کسی کو اس طرح منہ اٹھا کر یہاں بیٹھنے دیتی۔؟”
”اس کے ساتھ ڈنر کرنے کے لیے بڑے بڑے لوگ مرتے ہیں۔”
”میں ان لوگوں میں شامل ہوں اور نہ ہی تمہیں شامل ہونا چاہئے … ہر دوسرے بندے سے تم متاثر ہو جاتے ہو۔” امبر نے اس بار کچھ ناراضی سے اسے جھڑکا۔
”بات متاثر ہونے کی نہیں ہے … جو شخص جیسا ہو’ اس کے بارے میں وہی کہا جاتا ہے۔ ہارون کمال بزنس کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہے۔”
”تو بھئی۔ میں کیا کروں اگر وہ بہت بڑا نام ہے تو … میرا اور تمہارا کیا تعلق ہے اس سے … یا ہمیں اس سے کیا لینا ہے کہ ہم اس کے سامنے بچھ بچھ جائیں یا اسے ریڈ کارپٹ ریسیپشن دیں۔” امبر نے ناگواری سے کہا۔ ”اس کو ویسے بھی بالکل مینرز نہیں ہیں … فوراً کھانا کھانے بھی بیٹھ گیا۔ میں اگر اس طرح کا رویہ نہ رکھتی تو وہ اس وقت بھی ہماری ٹیبل پر بیٹھا ہمارا وقت ضائع کر رہا ہوتا … اپنے احمقانہ قسم کے سوالات اور اندازوں سے۔”
”اگر انکل منصور نے ہارون کمال کے بارے میں تمہاری یہ باتیں سن لیں تو وہ واقعی بہت ناراض ہوں گے۔” طلحہ نے اسے ڈرایا۔
”پاپا ہر ایرے غیرے کے لیے مجھ پر ناراض نہیں ہوتے پھرتے … یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو اس لیے کوئی اور بات کرو بلکہ بہتر ہے کہ ڈنر آرڈر کرو … پہلے ہی ہمارا خاصا وقت ضائع ہو چکا ہے تمہارے اس ہارون کمال کی وجہ سے۔” امبر نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”آرڈر مجھے نہیں تمہیں دینا ہے۔” طلحہ نے مینوکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ امبر نے مینوکارڈ اٹھا لیا۔
خوشگوار باتوں کے دوران انہوں نے ڈنر کیا۔ ڈنر ختم کرنے کے بعد طلحہ نے اپنا والٹ نکالتے ہوئے ویٹر کو بلایا۔ ”بل لے آؤ”
”آپ کا بل ادا کیا جا چکا ہے سر۔”
”بل … ؟ کس نے ادا کیا ہے؟” طلحہ نے کہا۔
”ہارون کمال صاحب نے۔”
”وہ کہاں ہیں؟”
”وہ جا چکے ہیں۔” طلحہ نے امبر کو دیکھا’ جس کے ماتھے پر شکنیں اور گہری ہو گئی تھیں۔
٭٭٭
فاطمہ نے نماز ادا کر کے سلام پھیرا اور پھر گردن موڑ کر ثانی اور ثمر کو دیکھنے لگی۔ وہ دونوں کمرے کے ایک کونے میں پڑے ہوئے پلنگ پر بیٹھے ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے میں مصروف تھے… اور ہر چند منٹ کے بعد کسی بات پر ہنس رہے تھے … فاطمہ کے پاس ہونے کی وجہ سے وہ اپنی آوازوں کو حتیٰ المقدور کم رکھے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود جب وہ دبی دبی آوازوں میں ہنسنا شروع ہوتے تو نماز کے دوران فاطمہ کی توجہ بٹ جاتی۔
بالآخر اس نے سلام پھیرنے کے بعد کچھ تنبیہی نظروں سے انہیں گھورا۔ انہوں نے فاطمہ کو اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھا تو یک دم بالکل سیدھے ہو کر اپنی گود میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ان کے چہروں پر موجود چند لمحے پہلے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ ثمر باقاعدہ کچھ بلند آواز سے کتاب میں سے کچھ پڑھنے لگا جب کہ ثانی بھی کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھی اس وقت کوئی انہیں دیکھتا تو اسے یقین نہ آتا کہ وہ ابھی کچھ سیکنڈز پہلے قہقہے لگا رہے تھے۔
”تم دونوں اٹھ کر باہر صحن میں چلے جاؤ۔” فاطمہ نے کہا۔ وہ جانتی تھی کہ جیسے ہی وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگے گی ان دونوں کی سرگوشیاں اور قہقہے دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ وہ دونوں کچھ بھی کہے بغیر اپنی اپنی کتاب اٹھا کر مؤدبانہ انداز میں باہر نکل گئے۔ فاطمہ انہیں تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ کمرے کے دروازے سے باہر نہیں نکل گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نماز شروع کرتی۔ اس کے کانوں میں ایک بار پھر ان کی کھلکھلاہٹوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ اس بار بے اختیار فاطمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ وہ دونوں میٹرک کے اسٹوڈنٹس تھے’ کون کہہ سکتا تھا کہ آپس میں اس طرح شیروشکر وہ دونوں کبھی آپس میں جھگڑ بھی سکتے تھے۔
وہ بچپن سے ان کی اسی طرح کی حرکتوں کی عادی تھی’ وہ دونوں Identical twins تھے مگر ان کی عادتیں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ ثمر بہت زیادہ شرارتی تھا۔ وہ جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود نچلا بیٹھنے والا نہیں تھا’ وہ بچپن سے ہی چھوٹی موٹی بیماریوں کاشکار ہوتا رہتا تھا مگر ان بیماریوں نے بھی کبھی اس کی ہمت نہیں توڑی تھی۔ وہ ہر وقت ثانی کو تنگ کرتا رہتا۔ اس کے شیطانی ذہن میں ہر لمحے ثانی کو تنگ کرنے کے لیے نت نئے منصوبے جنم لیتے رہتے تھے مگر اس کی شرارتوں کا دائرہ کار صرف ثانی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتا تھا۔ محلے میں یا اسکول میں کبھی کسی کو اس سے شکایت نہیں ہوئی تھی … صرف اس سے نہیں … بلکہ ان تینوں سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی تھی۔
اس کے برعکس ثانی زیادہ سنجیدہ اور سمجھ دار تھی … ثمر اور اس کا دن میں کم از کم دس بار جھگڑا ہوتا تھا مگر جھگڑا ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ان دونوں میں مصالحت ہو جاتی تھی۔ اس کو اگر ثمر پر غصہ آتا تھا اور وہ اس کی حرکتوں سے چڑتی تھی تو اس کی سب سے زیادہ دوستی بھی ثمر کے ساتھ ہی تھی … دونوں ایک دوسرے کے دل کی کیفیت صرف چہرہ دیکھ کر جان لیا کرتے تھے … اور اکثر ان دونوں کو ایک دوسرے کو اپنا مسئلہ بتانا نہیں پڑتا تھا … وہ دونوں اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے’ اسکول سے آنے کے بعد ان کا زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا تھا … پڑھنا … کھیلنا … کھانا … وہ تینوں کام ایک دوسرے کے ساتھ ہی کرتے تھے اور یہ روٹین اب سے ایسی نہیں تھی … بچپن سے ہی تھی …
ثانی پڑھائی میں بہت اچھی تھی … ثمر پڑھائی میں اوسط درجہ کا تھا … وہ محنت کرتا تو اچھے نمبر لے لیتا … نہ کرتا تو بمشکل پاس ہوتا … ثانی کو پڑھائی کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی جبکہ ثمر رنگوں میں بے انتہا دلچسپی رکھتا تھا … قدرتی طور پر اس کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی اور رنگ اس کے لیے ہمیشہ ہی ایک بہت پُرکشش چیز رہے تھے۔ اس کے پاس موجود کوئی چیز ایسی نہیں تھی جسے اس نے رنگوں سے نہ سجایا ہو … اس کی ہینڈرائٹنگ بھی بہت خوبصورت تھی۔ یہ واحد چیز نہیں تھی جس میں اسے دلچسپی تھی … وہ ہر طرح کی آوازیں نکال لیا کرتا تھا … ہر ایک کی نقل اتارنے میں ماہر تھا … بلکہ یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا … گھر میں ہونے والا اسی فیصد مرمت کے کام وہ کیا کرتا تھا … گھر میں ہونے والے رنگ روغن سے لے کر ساکٹ اور سوئچ بورڈ ٹھیک کرنے تک … ہر چیز وہی کیا کرتا تھا … واحد چیز جس سے اس کی جان جاتی تھی وہ پڑھائی تھی اور یہ واحد چیز تھی جس پر کوئی اسے بخشنے کو تیار نہیں تھا۔
اس کے برعکس پڑھائی ثانی کی پہلی ترجیح تھی۔ پڑھائی کے سامنے اس کے نزدیک ہر دوسری چیز ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ شہیر کی طرح شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھتی تھی اور وہ آئیڈلائز بھی شہیر کو ہی کرتی تھی … شہیر کی طرح اسے بھی میتھ میں بہت دلچسپی تھی… بلکہ اسے ہر اس چیز میں دلچسپی تھی جس میں شہیر کو دلچسپی تھی … جو چیز شہیر کو پسند تھی وہ اسے بھی پسند تھی … جو شہیر کو ناپسند تھی وہ اسے بھی ناپسند تھی … اس کی شکل و صورت اگر ثمر سے ملتی تھی تو اس کی عادات شہیر کی طرح تھیں … اپنی تعلیمی کامیابیوں کا آدھا کریڈٹ وہ شہیر کو دیتی تھی … اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا … بچپن میں اگرچہ فاطمہ ہی ان دونوں کو پڑھایا کرتی تھی مگر بعد میں یہ شہیر تھا جس نے اس کام کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔ وہ شہیر کی طرح ہر کام میں بہت آرگنائزڈ اور Calcuated تھی … جو نزاکت اور نفاست شہیر کی زندگی اور شخصیت کا حصہ تھی’ وہ لاشعوری طور پر کسی ورثہ کی طرح ثانی میں بھی آئی تھی۔
ثمر ان دونوں کے برعکس بہت لااُبالی تھا۔ وہ خاصا لاپروا بھی تھا … اگرچہ وہ شہیر اور ثانی کی طرح بہت آرگنائزڈ نہیں تھا مگر ہر چیز اس کے موڈ پر منحصر تھی۔ اس کا موڈ ہوتا تو وہ ہر چیز کو طریقے اور قرینے سے رکھتا … موڈ نہ ہوتا تو اس کی لاپروائی عروج پر ہوتی۔
تینوں میں بہت سارے تضادات ہونے کے باوجود چند چیزیں مشترک تھیں … ان کی زندگی صرف اپنے گھر تک محدود تھی۔ یہ چیز ان تینوں نے فاطمہ سے لی تھی … مسکراہٹ اور سلام دعا … ان دو چیزوں کے علاوہ کوئی تیسری اضافی بات وہ تینوں ہی کرنے کے عادی نہیں تھے … محلے کے باقی گھروں کے برعکس ان کے گھر کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا … صرف ضرورت کے وقت ان کے گھر کوئی آتا یا وہ خود کسی کے گھر جاتے … فاطمہ کو محلے کی دوسری عورتوں کی طرح گھنٹوں بیٹھ کر گپیں ہانکنے کی عادت نہیں تھی۔ اس محلے میں آنے کے بعد شروع شروع میں محلے کی خواتین نے شام کو اس کی واپسی کے بعد اس کے پاس بھی دیر تک بیٹھنے اور ادر ادھر کی باتیں کرنے کی کوشش کی تھی مگر آہستہ آہستہ انہوں نے خود ہی یہ کوشش چھوڑ دی۔ وہ مختصر بات کیا کرتی تھی اور اسے محلے کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محلے کے بہت سے بچے اس کے پاس ٹیوشن پڑھنے لگے تھے۔ آس پاس کے گھروں میں اس کی عزت ہوتی تھی اور یہ عزت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی تھی۔ اسے وہاں آئے بارہ سال گزر گئے تھے اور شروع کے سالوں کے برعکس اب کوئی اس کے شوہر اور خاندان کو کھنگالنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔
اس نے یہی ساری عادتیں ان تینوں میں بھی منتقل کی تھیں۔ اس کی طرح وہ بھی آس پاس کے گھروں میں ہونے والے واقعات اور سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں لیا کرتے تھے۔ اگر ایک طرف یہ فاطمہ کی وجہ سے تھا تو دوسری طرف ان تینوں کی اپنی اتنی مصروفیات اور سرگرمیاں تھیں کہ ان کے لیے ادھر اُدھر کی تانک جھانک کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ سہ پہر کو گھر آنے کے بعد وہ تینوں اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ چار پانچ بجے کے قریب محلے کے کچھ بچے فاطمہ کے پاس پڑھنے کے لیے آ جاتے … اور شام کو شہیر اپنی ٹیوشنز پڑھانے کے لے چلا جاتا … ثمر اس وقت اکثر وہ چارٹس وغیرہ بناتا تھا جو وہ ایک دکان کے توسط سے حاصل کرتا تھا اور جس کے عوض اسے اتنے روپے مل جاتے تھے کہ اس کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں … ثانی اکثر اوقات کھانا پکانے میں مصروف ہوتی۔
سات آٹھ بجے کے قریب وہ سب اکٹھے ہوتے تھے … کھانا کھانے کے بعد ایک بار پھر وہ سب اپنی پڑھائی میں مصروف ہو جاتے … اس طرح کی روٹین کے ساتھ وہ قدرتی طور پر ایک مخصوص ڈگر پر زندگی گزار رہے تھے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!