تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

”کیا سمجھاؤں میں اسے … منصور نے لاڈ پیار سے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ میری باتیں اس پر اثر کہاں کرتی ہیں۔ میں سمجھاتی ہوں تو وہ فوراً منہ پھلا کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر منصور … آپ کو تو ان کے مزاج کا پتا ہی ہے باقی بچوں کو بھی بگاڑا ہوا ہے مگر اس پر تو ان کا خاص کرم ہے۔ اس میں تو انہوں نے ایک اچھی عادت نہیں آنے دی۔” منیزہ بھول چکی تھی کہ شبانہ سے امبر کا کیا رشتہ ہے’ وہ کسی لحاظ کے بغیر بولتی جا رہی تھی۔
”میں تو بعض دفعہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہتی ہوں کہ آگے چل کر اس کا کیا ہو گا؟”
”خیر اب آگے کی تو تم فکر نہ کرو۔ جب گھر داری میں پڑے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ اور پھر طلحہ سے تو تم واقف ہی ہو۔ وہ خود ہی اس کی ایسی عادتیں چھڑا دے گا۔” شبانہ نے منیزہ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”اللہ کرے کہ وہ اس کی عادتیں سدھار دے ورنہ مجھے تو خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ بھی اسی طرح کی حرکتیں نہ کرنے لگے۔” منیزہ نے شبانہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”نہیں … اب طلحہ اتنا بے وقوف بھی نہیں ہے۔ بہت سمجھ دار ہے۔ اچھا میں اب فون بند کرتی ہوں پھر بات ہو گی تم سے۔ ” شبانہ کو اچانک احساس ہوا کہ گفتگو خاصی طویل ہو گئی ہے۔
”آپ بھابھی کسی دن آئیں نا میری طرف۔ اس بار تو بہت دن ہو گئے آپ کو چکر لگائے۔” منیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”ہاں … ہاں کیوں نہیں’ میں ضرور آؤں گی۔ میں تو خود سوچ رہی تھی’ تمہاری طرف آنے کا۔” شبانہ کو اس کی دعوت پر خوشی ہوئی۔
”تو بس پھر آپ چکر لگائیں میری طرف … پھر باقی باتیں تب ہی ہوں گی۔” منیزہ نے ان سے کہا۔
٭٭٭
”تم نے رخشی کو طلحہ کا فون نمبر دیا تھا؟” منیزہ شبانہ سے بات کرنے کے فوراً بعد امبر کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ منیزہ کے تیور اور لہجہ دیکھ کر اسے اس کے غصے کا اندازہ ہو گیا تھا۔
”اتنی رات کو اس وقت اچانک آپ کو رخشی اور طلحہ کیسے یاد آ گئے؟” کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے۔ اس نے قدرے لاپروائی سے منیزہ سے پوچھا۔
”میں تم سے جو پوچھ رہی ہوں’ مجھے اس کا جواب دو۔ مجھ سے سوال مت کرو۔” منیزہ نے کچھ اور تیزی سے کہا۔
”ہاں میں نے دیا تھا مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ممی؟” امبر نے کہا۔
”اور تم نے طلحہ سے کہا تھا کہ وہ رخشی کی مدد کرے۔” اس بار امبر خاموش رہی’ وہ حیران تھی منیزہ تک یہ بات کون پہنچا سکتا تھا۔
”کہا تھا نا؟”
”جب آپ کو پتا ہے تو پھر کیوں پوچھ رہی ہیں؟” اس بار وہ سنجیدہ ہو گئی۔
”اور تم نے طلحہ سے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے اس کے بارے میں نہ بتائے۔” امبر خاموش رہی منیزہ کے اشتعال میں اضافہ ہو گیا۔
”تم مجھے بے وقوف سمجھتی ہو … تمہارا خیال ہے کہ تم جب چاہو’ جو چاہو مجھ سے چھپا لو گی۔”
”ممی! ایسی بات نہیں ہے۔”
”ایسی ہی بات ہے۔ تمہیں میں کسی بات سے منع کرتی ہوں تو تمہاری سمجھ میں میری بات کیوں نہیں آتی۔”
”ممی! میں نے صرف اس لیے طلحہ سے یہ کہا تھا کیونکہ آپ ناراض ہو جاتی ہیں’ جس طرح اب ہو گئی ہیں۔ آپ کسی کی بات تک نہیں سنتیں۔ آپ کو رخشی ویسے ہی اچھی نہیں لگتی اور میں نے صرف آپ کے اس غصے سے بچنے کے لیے طلحہ کو منع کیا تھا۔”
”تمہیں میرے غصے یا ناراضی کی پروا ہوتی تو تم کبھی بھی رخشی کے ساتھ اپنا میل جول اتنا نہ بڑھاتیں۔” منیزہ اس کی صفائی سے مطمئن نہ ہوئی۔ ”اور پھر اسے طلحہ تک پہنچا دینا۔ شرم آنی چاہیے تمہیں امبر۔”




”اس میں شرم والی کیا بات ہے۔ طلحہ میرا شوہر ہے۔ آپ اگر میری مدد نہیں کریں گی تو میں اسی سے مدد مانگنے جاؤں گی۔” امبر کو ان کی بات بُری لگی۔
”تمہاری مدد … یہ تمہاری مدد ہے۔ تم ٹکے ٹکے کی سہیلیوں کے آگے پیچھے پھرتی رہتی ہو۔”
”امی پلیز میری فرینڈز کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔” امبر نے ناراضی سے منیزہ کی بات کاٹی۔
”مجھے پورا حق ہے تمہاری اس طرح کی سہیلیوں کے بارے میں بات کرنے کا … جو اپنا الوسیدھا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔”
”رخشی ایسی نہیں ہے ممی! اگر کوئی پریشانی میں ہے تو انسان کو اس کی مدد کرنی چاہیے’ اگر رخشی میری دوست نہ بھی ہوتی تب بھی وہ جس طرح کے حالات سے دو چار ہے۔ میں اس کی مدد ضرور کرتی۔” امبر نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”تم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے لوگوں کی مدد کا۔ تمہیں کچھ نہیں پتا کہ کس طرح کے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا چاہیے اور کیسے لوگوں کے ساتھ نہیں۔ بس ہر طرح کے لوگوں کو گلے میں لٹکائے پھرتی ہو۔ دوست ہے میری’ یہ ہے میری وہ ہے میری۔” منیزہ کا اشتعال اس کی بات پر اور بڑھ گیا تھا۔
”تمہاری یہ دوست اگر دوبارہ مجھے نظر آئی یا اس نے دو بارہ طلحہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو میں اس کی ایسی بے عزتی کروں گی کہ یاد رکھو گی’ نہ صرف تم بلکہ وہ بھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم اپنی اس دوست سے پہلے ہی میل جول ختم کر دو۔”
امبر نے بے یقینی سے منیزہ کو دیکھا اس نے اس سے پہلے کبھی کسی سلسلے میں اس سے اس طرح کی بات نہیں کی تھی۔
”آپ اگر میری دوست سے کچھ کہیں گی تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔” اس بار بے یقینی سے دیکھنے کی باری منیزہ کی تھی۔
”تم ایک لڑکی کے لیے۔ جس سے تمہاری جان پہچان ہوئے چھ ماہ گزرے ہیں’ اس کے لیے گھر کو …’ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔؟”
”ہاں میں چلی جاؤں گی۔ اگر آپ کو میری فیلنگز کا احساس نہیں ہے تو پھر مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہیے اور جہاں تک طلحہ کی بات ہے۔ وہ میرا شوہر ہے۔ وہ وہی کرے گا جو میں کہوں گی۔ میں نے اس کو رخشی کی مدد کے لیے کہا ہے۔ رخشی اس سے مدد مانگے گی تو وہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اگر نہیں کرے گا تو میں اس کو بھی چھوڑ دوں گی۔”
منیزہ کا غصہ یک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ امبر کو اچھی طرح جانتی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ محض دھمکی نہیں تھی۔ امبر واقعی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی تھی۔
”عقل کے ناخن لو امبر! ایسی لڑکیاں بہت چالاک اور مکار ہوتی ہیں’ وہ ہاتھ پکڑنے پر پائنچہ پکڑ لیا کرتی ہیں’ طلحہ کے ساتھ اس کا میل جول ہو گا تو اس سے تمہیں ہی نقصان ہو گا۔ ایسی لڑکیاں مردوں کو بڑی آسانی کے ساتھ پھانس لیتی ہیں۔” منیزہ نے اس بار کچھ تحمل سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔” اور وہ اس قدر خوبصورت ہے۔ اسے تو یہ کام کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ انہیں جیسے اور جس طرح کے حربے آتے ہیں’ وہ تم جیسی لڑکیوں کو نہیں آتے بعد میں تم بیٹھ کر رو ؤگی اور پچھتاؤگی میری بات نہ ماننے پر۔”
”آپ بہت عجیب باتیں کرتی ہیں ممی! بہت ہی عجیب … عجیب طرح کاشک رہتا ہے آپ کو ہر ایک پر۔ مجھے طلحہ پر پورا اعتماد ہے۔ وہ اس طرح کا آدمی نہیں ہے جیسا آپ اسے ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اور مجھے رخشی پر بھی پورا اعتماد ہے’ وہ بھی ایسی لڑکی نہیں ہے اور پھر چند مہینے کے بعد میری رخصتی ہو جائے گی۔ یہ کس طرح کے خدشے آپ خوامخواہ پالے بیٹھی ہیں۔” اس نے لاپروائی سے کہا۔
”اور بالفرض ایسا کچھ ہو بھی گیا تو اس سے کوئی نقصان ہو گا تو صرف مجھے ہی ہو گا۔ آپ میں سے تو کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا پھر آپ خوامخواہ کیوں فکر مند ہو رہی ہیں۔”
”اتنے اندھے اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے والے ہمیشہ اندھے کنویں میں گرتے ہیں۔” منیزہ نے قدرے تیزی سے کہا۔
”کچھ نہیں ہو گا ممی! کچھ بھی نہیں ہو گا۔ آپ کیوں خوامخواہ اس طرح کی باتیں سوچتی رہتی ہیں اور پھر رخشی نے طلحہ سے کون سی مدد مانگ لی ہے۔ ہو سکتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔” اس نے کہا۔
”رخشی نے طلحہ سے کون سی مدد مانگ لی ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے اس نے فون کر کے طلحہ کو کل اپنے گھر بلایا ہے۔” منیزہ نے کہا تو کچھ دیر کے لیے امبر خاموش رہ گئی۔
”تمہیں اس نے بتایا ہے یہ؟” منیزہ نے اس سے پوچھا۔
”نہیں۔ مجھے نہیں بتایا مگر بتا دے گی۔ ابھی تو اس نے طلحہ سے بات کی ہے اور طلحہ کون سا اس کے گھر چلا گیا ہے۔” امبر اب بھی اسی طرح مطمئن تھی۔
”وہ کل جا رہا ہے اس کے گھر … تم اسے منع کرو۔ بلکہ رخشی سے پوچھو کہ اس نے اس طرح تمہیں بتائے بغیر اسے کیوں بلوایا ہے۔؟”
”ممی! میں نے خود اس سے کہا تھا کہ اسے جب کبھی مدد کی ضرورت ہو’ وہ طلحہ کو فون کر لے۔ اب اگر اس نے کر ہی لیا ہے تو مجھے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔” امبر نے کہا۔
”دیکھ لو …! ابھی تک طلحہ نے بھی تمہیں فون کر کے رخشی کے اس رابطے کے بارے میں اطلاع نہیں دی۔ اور نہ ہی وہ دے گا۔”
”ممی! آپ کو ان کے اس رابطے کے بارے میں شبانہ آنٹی نے بتایا ہے۔؟”
منیزہ اس کی بات پر یک دم چپ ہو گئی’ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ اس طرح فوری طور پر شبانہ کا نام لے دے گی۔
”مجھے پہلے ہی توقع تھی کہ یہ ان ہی کی حرکت ہو گی۔ ورنہ طلحہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا کہ میں اسے کوئی بات چھپانے کے لیے کہوں اور وہ عمل نہ کرے۔
لیکن شبانہ آنٹی کو بھی آپ کی طرح خوامخواہ کے وہم رہتے ہیں۔ جب میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ کچھ نہیں ہو گا۔ تو آپ اطمینان رکھیں کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بلکہ شبانہ آنٹی سے بھی کہیں کہ وہ اس طرح رائی کا پہاڑ بنانے کی عادت چھوڑ دیں۔” امبر نے ناگواری کے عالم میں کتاب اٹھاتے ہوئے کہا۔
”تم منصور کو آنے دو’ آج میں ان سے تمہارے بارے میں بات کروں گی۔” منیزہ نے کچھ بے چارگی کے عالم میں کہا۔
”ضرور کریں بلکہ میں بھی پاپا سے بات کروں گی۔ آخر آپ کیوں اس طرح ہاتھ دھوکر میرے او رخشی کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔” امبر نے ناگواری سے کتاب کھول لی۔
منیزہ کچھ دیر غصے کے عالم میں اسے گھورتی رہی پھر تقریباً پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔ جاتے جاتے اس نے پوری طاقت سے اس کے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔
٭٭٭
”منصور! آپ جانتے ہیں امبر نے کیا کیا ہے؟” رات دیر گئے منصور علی فیکٹری سے واپس آئے تو منیزہ نے آتے ہی ان سے امبر کی شکایت شروع کر دی تھی’ وہ ابھی تک بری طرح غصے میں تھی۔
”کیا کیا ہے؟” منصور علی نے بڑے نارمل انداز میں اپنی ٹائی کھولتے ہوئے کہا۔ وہ منیزہ کی ان شکایتوں کے عادی ہو چکے تے۔
”اس نے رخشی کو طلحہ کا نمبر دیا ہے اور اسے رخشی کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے۔” منصور علی ٹائی کھولتے کھولتے اچانک رک گئے۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!