”تمہارے گھر میں نے کل بھی پیغام بھیجا تھا مگر تم کل آئے ہی نہیں۔” عبدالکریم پینٹر نے سامنے کھڑے اس چودہ پندرہ سالہ سرخ و سفید خوبصورت دبلے پتلے لڑکے سے کہا جس کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں۔
”کل میں کچھ مصروف تھا۔ آپ کا پیغام ملا تھا مگر اس وقت میں گھر پر نہیں تھا۔ اس لیے نہیں آ سکا۔” لڑکے نے بڑے مؤدب انداز میں کہا۔
”چلو خیر’ کوئی بات نہیں … میں نے اس لیے کل پیغام دے دیا تھا کہ کچھ ارجنٹ کام آن پڑا تھا۔ تم کل آ جاتے تو کام کچھ جلدی ہو جاتا۔” عبدالکریم نے پینٹ کے ڈبے کو کھولتے ہوئے کہا۔
”میں آپ کا ارجنٹ کام سب سے پہلے کر دوں گا۔ آپ کو وقت سے پہلے کام مل جائے گا۔” لڑکے نے اطمینان دلایا۔
”ہاں وہ تو مجھے پتا ہے … کام تو تم فوراً کر دو گے۔ مگر میں تو تمہاری سہولت کے لیے ہی کہہ رہا تھا۔ جلد کام پر پہنچ جاتا تو تمہیں ہی آسانی ہوتی۔ اتنی افراتفری میں کام نہ کرنا پڑتا۔”
وہ لڑکا جواب میں کچھ کہنے کے بجائے دکان کے اندر داخل ہو گیا۔
”اس الماری میں دیکھو۔ چارٹ اور کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔” عبدالکریم نے اسے اندر جاتے دیکھ کر پیچھے سے آواز لگائی۔ وہ لڑکا سیدھا اس الماری کی طرف چلا گیا۔ الماری میں کچھ چارٹ اور کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے ان کتابوں کے نشان زدہ صفحات کو کھول کر دیکھا۔ کچھ دیر وہ انہیں دیکھتا رہا پھر عبدالکریم کی طرف آ گیا۔
”یہی صفحات ہیں؟” اس نے باری باری عبدالکریم کو وہ کتابیں کھول کر دکھائیں۔
”ہاں یہی ہیں … ویسے میں نے ایک کاغذ پر ان صفحات اور ان چیزوں کے نام بھی لکھ دیے ہیں جنہیں تمہیں چارٹ پر اتارنا ہے … تم ایک دفعہ اس کاغذ کو بھی پڑھ لو اور دیکھ لو کہ یہ وہی صفحات ہیں۔” عبدالکریم اسے ایک کاغذ تھماتے ہوئے کہا۔
لڑکے نے کاغذ پر نظریں دوڑائیں۔
”یہی سارے صفحات ہیں۔” اس نے کاغذ کو جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ پرسوں چاہیے۔” عبدالکریم نے بتایا۔
”میں کوشش کروں گا کہ کل ہی آپ کو بنا کر دے دوں۔” لڑکے نے ایک شاپر میں ان کتابوں کو ڈالتے ہوئے کہا۔
”کل دے دو تو اور اچھا ہے۔” عبدالکریم نے کہا۔
”مجھے مار کر دے دیں۔” لڑکے کو اچانک خیال آیا۔
”دیکھ’ لو وہاں سامنے پڑے ہیں۔” عبدالکریم نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا۔
وہ لڑکا بڑے مانوس انداز میں الماری کے اس حصے کی طرف بڑھ گیا جہاں بہت سے مارکرز اور مختلف قسم کے رنگ اور برش پڑے ہوئے تھے۔ اس نے باری باری دو تین مارکرز کو ایک کاغذ پر چلا کر چیک کیا اور پھر انہیں بھی اس شاپر میں ڈال لیا جس میں اس نے ان کتابوں اور چارٹس کو ڈالا تھا۔
”پھر میں جاؤں؟” لڑکے نے باہر نکلتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں تم جاؤ …” عبدالکریم نے اس سے کہا۔ مگر پھر آواز دے کر اسے روک لیا۔
”میں سوچ رہا ہوں کہ تم سے اب بینر لکھوانا بھی شروع کر دوں… بہت کام آ رہا ہے آج کل میرے پاس اور میں وقت پر کر ہی نہیں پا رہا۔” عبدالکریم نے ایک ڈبے میں تارپین کا تیل انڈیلتے ہوئے کہا۔ ”تم نے سوچا ہے کبھی بینر لکھنے کا؟”
”نہیں سوچا تو کبھی نہیں … مگر میں نے اس طرح کے رنگ کبھی استعمال نہیں کیے جو بینر پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے کہ میں اچھا بینر لکھ سکوں گا یا اسے خراب کر دوں گا۔” لڑکے نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”اس بارے میں تم فکر مند نہ ہو … میں ہوں نا۔ تمہیں سب سکھا دوں گا … دو چار بینر لکھو گے تو خود ہی ہاتھ صاف ہو جائے گا۔ اور پھر بینر کے تو پیسے بھی زیادہ ملیں گے۔ چارٹ کے تو کچھ بھی نہیں ملتے۔ چھٹی کے دو چار دن میرے پاس آ جاؤ … میں تمہیں ساری بنیادی باتیں سکھا دوں گا … تم ماشاء اللہ ویسے بھی ہر کام بڑی جلدی سیکھتے ہو۔”
عبدالکریم نے اس کی تعریف کی’ لڑکے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”ٹھیک ہے۔ میں امی سے بات کر کے آپ کو بتاؤں گا…” اس نے عبدالکریم سے سے کہا۔ وہ دکان سے نکل کر اپنی اس سائیکل کے پاس جا کھڑا ہوا جسے مختلف رنگوں کے نقش و نگار سے پینٹ کیا گیا تھا یقینا یہ اس لڑکے کا اپنا ہی کمال تھا۔ وہ سائیکل کے ہینڈل پر شاپر لٹکا رہا تھا جب عبدالکریم نے ایک بار پھر اسے پیچھے سے آواز دی۔
”اپنے بھائی کو ذرا میرے پاس بھجوانا۔” لڑکے نے مڑ کر عبدالکریم کو دیکھا۔
”اچھا’ میں گھر جا کر انہیں بتا دوں گا۔ وہ شام کو ذرا دیر سے آتے ہیں۔ آپ دکان پر ہی ہوں گے؟”
”ہاں سات بجے تک تو میں دکان پر ہی رہوں گا… اگر سات بجے تک وہ آ سکے تو ٹھیک ہے’ ورنہ پھر اس سے کہنا کہ کل مجھ سے مل لے۔” عبدالکریم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ جی اچھا۔ میں کہہ دوں گا۔ لڑکے نے بڑی فرمانبرداری کے ساتھ کہا اور سائیکل پر سوار ہو گیا۔
عبدالکریم لاشعوری طور پر اسے دور جاتے دیکھتا رہا۔ اس کی نظروں میں اس لڑکے کے لیے ستائش تھی۔
٭٭٭
”مجھے یاد ہے بھئی … میں نہیں بتاؤں گا کسی کو بھی۔” منصور علی نے خوشگوار لہجے میں کہا۔ ”ویسے اگر تمہاری ممی کو پتا چل بھی جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ وہ خاصی اچھی خاتون ہیں۔”
”ہاں۔ مجھے پتا ہے وہ بہت اچھی خاتون ہیں … اور آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ رخشی کو پسند نہیں کرتیں۔” امبر نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
”آج کوئی خاص بات ہے۔ باپ بیٹی باہر سے ہی اکٹھے آ رہے ہیں۔” منیزہ نے ان دونوں پر نظر ڈالتے ہوئے کچھ تجسس کے عالم میں کہا۔
”روشان کہاں ہے؟” منصور علی نے منیزہ کی بات کے جواب میں الٹا سوال کر دیا۔
”اپنے ایک دوست کی طرف گیا ہے۔”
”اس وقت؟” منصور علی نے قدرے تشویش سے گھڑی پر نظر ڈالی۔
”سہیل آیا تھا لینے … ان دونوں کو کسی تیسرے دوست کی طرف جانا تھا … منیزہ نے روشان کے دوست کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی تمہیں روک ٹوک کرنی چاہیے۔ اسے … شام کے وقت اس کا باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا۔” منصور علی نے اسی انداز میں کہا۔
”بڑا نہیں ہوا … مگر بڑا ہو تو رہا ہے۔ اب اس عمر میں بچوں کو باندھ کر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں تو کہتی رہتی ہوں اسے … مگر آپ کو پتا ہے وہ کتنا ضدی ہے۔ امبر کی طرح آپ نے اسے بھی سر چڑھایا ہوا ہے پھر وہ میری بات کیوں سنے گا۔” منیزہ نے کہا۔
امبر نے ان کی بات پر گردن کو ایک جھٹکا دیا۔ ”بس ممی کو پتا نہیں کیوں ہر بات میں میرا ریفرنس دینا ضروری ہوتا ہے … بات کسی کی بھی ہو رہی ہو … ممی فوراً مجھ پر پہنچ جائیں گی۔ اور پاپا اگر روشان باہر چلا بھی جاتا ہے تو کیا برائی ہے … سہیل اس کا اتنا اچھا دوست ہے اور پھر اب روشان اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے جتنا آپ اس کو سمجھتے ہیں … اچھا ہے کچھ باہر نکلے گا تو اس میں کانفیڈنس آئے گا۔
”آپ اس معاملے میں زیادہ ہی محتاط ہو رہے ہیں۔
پہلے تو آپ کے پاس یہ لاجک تھی کہ اپنا ملک نہیں ہے۔ پتا نہیں کیسے لوگ ہوں اس کے فرینڈز کے گھر والے … اگر کچھ نقصان پہنچ گیا تو … ۔ مگر اب تو آپ اپنے ملک میں ہیں’ اس کے سارے فرینڈز اور ان کے گھر والوں کو جانتے ہیں۔ پھر آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ اس کے دوست بھی تو اسی کی عمر کے ہیں مگر وہ کتنی آزادی سے ادھر اُدھر گھومتے پھرتے ہیں اور روشان وہ بے چارہ ہر وقت مجھ سے شکایت ہی کرتا رہتا ہے۔” امبر نے اس کی حمایت کرتے ہوئے ایک لمبی تقریر کر ڈالی۔
”ایک اسے باپ کی سپورٹ … دوسرے تمہارے جیسی بہن کی … پھر میری وہ کہاں سننے والا ہے … میں نے اسی لیے اس کے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دیا ہے۔” اس سے پہلے کہ امبر کی بات کے جواب میں منصور کچھ کہتے… منیزہ بول اٹھیں۔ ”پھر آپ کہتے رہتے ہیں کہ میں اسے سمجھاؤں۔ اس پر چیک رکھوں…”
”اچھا اب تم روشان کے قصے کو رہنے دو۔ بچہ ہے’ وہ مجھے صرف اس لیے کچھ فکر ہوئی ہے … ورنہ ایسی کوئی برائی نہیں ہے اس میں۔”
منصور علی نے فوراً اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا۔ ”اب تم ایسا کرو کہ مجھے چائے پلاؤ۔”
”چائے تو ابھی آ جاتی ہے۔ میں نے ملازمہ سے کہہ دیا تھا آپ کی گاڑی کا ہارن سن کر … وہ ابھی لا رہی ہو گی۔” منیزہ نے ایک بار پھر ٹی وی کا والیم بلند کرتے ہوئے منصور سے کہا۔ امبر اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔
”بیٹا بیٹھو … تم میرے ساتھ چائے ہی پی لو۔” منصور علی نے بڑی محبت سے اسے دیکھا۔
”نہیں پاپا! کام ہے … پہلے بھی میںنے اتنا انتظار کیا آپ کا۔” اس نے جاتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
٭٭٭
منصور علی سے بات کرنے کے بعد امبر نے رخشی کو کال کی۔ ”رخشی! میں نے پاپا سے بات کر لی ہے۔”
”پھر … وہ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی نہ کوئی انتظام کر دیں گے۔ مگر چند دن لگ جائیں گے۔”
”مجھے اندازہ ہے’ مکان ڈھونڈنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔” رخشی نے سنجیدگی سے سے کہا۔
”بس ٹھیک ہے مجھے ویسے ہی خیال آ رہا تھا کہ شاید تم جلدی شفٹ ہونا چاہو۔” امبر نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
”اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم کالج کب سے آ رہی ہو؟” امبر نے اس سے پوچھا۔
”امبر! میں اپنی اسٹڈیز چھوڑنے کا سوچ رہی ہوں۔” دوسری طرف سے رخشی کی بات پر وہ کچھ چونک گئی۔