ان دونوں کی منگنی کوئی دوچار دنوں کی بات نہیں تھی بلکہ تین سال کا عرصہ مکمل ہونے والا تھا۔ ٹیسی ایک بار ضرور اپنی اور اس کی منگنی کی سالگرہ کو اتنی ہی دھوم دھام سے مناتی تھی جتنی کہ سال میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین بار اپنا جنم دن….
پارٹیز، سیر و تفریح اور شاپنگ کے علاوہ دنیا میں اگر اس نے کوئی بامقصد کام کیا تھا۔ تو وہ اپنے ذاتی بیوٹی سیلون کا آغاز تھا۔ شہنام حقانی کو اس سے امید نہیں تھی کہ وہ اپنے پروفیشن کو لے کر اتنی سیریس ہوگی لیکن یہاں اس نے ثابت کیا تھا کہ وہ واقعی کسی کام کو سنجیدگی سے بھی لے سکتی ہے۔
گوکہ اس پروفیشن میں بھی وہ حادثاتی طور پر ہی آگئی تھی۔ شوق تو اسے ماڈل گرل بننے کا تھا۔ لیکن اس کا چھوٹا قد، اور فربہی مائل جسم ہمیشہ اس کے شوق کی راہ میں رکاوٹ ہی رہے۔
فی الحال وہ ملک کی ٹاپ میک اپ آرٹسٹ میں سے ایک تھی لیکن اس کی مشہوری کی وجہ اس کے کام میں مہارت سے زیادہ شہنام حقانی کی منگیتر ہونا تھا۔ ایک بے حد معمولی اور عام سی شکل و صورت رکھنے والی لڑکی کا منگیتر مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔ یہ بات اس سے ملنے والی تقریباً سبھی لڑکیوں کو رشک و حسد جیسے جذبات سے دوچار کرتی تھی۔ ٹیسی اس حقیقت سے واقف تھی اس لیے وہ اس بات کا بھرپور حِظ اٹھاتی تھی جب کہ دوسری طرف شہنام اسے دل سے پسند نہ کرنے کے باوجود، اس کے نخرے اٹھانے پر مجبور تھا۔ لیکن ساری زندگی کے لیے نہیں۔
اسے صرف دو باتوں کے انتظار تھا۔
ایک اس بات کا کہ آفاق راؤ کو تیسرا اور کامیاب دل کا دورہ کب پڑے گا اور دوسرا یہ کہ ٹیسی اسی منگیتر سے بیوی کے درجے پر کب فائز ہوگی۔
یہ اس کی الٹی سیدھی حرکتیں، ناز نخرے اور جذباتی بلیک میلنگ صرف تب تک کا ہی کھیل تھی۔ اس کے بعد کس طرح بازی پلٹتی ہے شہنام حقانی نے بہت پہلے سے اور بہت اچھی طرح سوچ رکھا تھا اور اسے پورا یقین تھا کہ حالات کا اس کی مرضی کا رخ اختیار کرنے کے بعد، اس کی کوئی چال ناکام نہیں ہوگی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ کوئی ٹٹ پونجیا تھا جو کسی امیر شہزادی سے شادی کرکے دن رات اپنی قسمت بدلنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ بزنس میں تو وہ بھی تھا لیکن آفاق راؤ کی طرح اس کا بزنس دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیلا ہوا نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے ملک کے چند بڑے شہروں تک محدود لاکھوں کا کاروبار تھا۔ اور اس لاکھوں کے کاروبار کو اربوں میں بدلنے کے لیے اسے ٹیسی نام کی تجوری اپنے نام کرنی ہی تھی۔ کس طرح کرنی تھی؟یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ آخر کو وہ بھی ایک کامیاب بزنس مین تھا۔
******
وہ بار بار حیرت بھری بے یقینی سے اپنے لشکارے مارتے نئے جوتے، موزے، یونیفارم اور بیگ کو دیکھتی تھی۔ یہ بیگ بالکل نیا اور یقینا اندر سے خالی نہیں تھا۔ اس کے اندر اس کی نصاب کی بالکل نئی نکور کتابیں، رجسٹر اور اسٹیشنری کا سامان موجود تھا۔
سامنے وسیع و عریض کالج گراؤنڈ اور اور گراؤنڈ سے پرے کالج کی بلند عمارت، اِستادہ تھی۔
اس نے زور سے پلکیں جھپکیں اور خود کو یقین دلایا۔ اس کا واقعی کالج میں داخلہ ہوگیا تھا۔ نہ صرف داخلہ بلکہ پڑھائی سے متعلق تمام جملہ اخراجات بھی بہ خوشی اٹھا لیے گئے تھے۔
انسان کی زندگی میں کچھ موڑ اس قدر اچانک اور اس کی مرضی کے عین مطابق آتے ہیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی اور حیرت کے اظہار کے لیے چھلانگیں لگائے یا ٹھٹھے….
اس کی زندگی میں بھی یہ موڑ بالکل اچانک ایک سہ پہر کو آیا جب آنکھ کھلنے پر اس نے باہر اپنے تایا کی آواز سنی۔
فوری طور پر اس کے احساسات کسی بھی مہمان کی آمد پر بے زار کن ہی ہوتے تھے۔ لیکن کسل مندی سے ایک گہری سانس کھینچنے پر سموسوں اور جلیبیوں کی گرم رس دار خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی تو اسے بستر سے اتر کر باہر آنا پڑا۔
تایا وحید الدین، نظام الدین سے عمر میں کئی سال بڑے تھے۔ نظام الدین کے سگے بھائی نہ ہونے کے باوجود وہ نظام الدین کی سب اولادوں سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گھر سے میلوں دور کے فاصلے پر رہنے کے باوجود سال میں تین چار چکر تو لگا ہی لیتے تھے۔ بچے تایا کو ہمیشہ سے چاچا بلاتے تھے۔ یونہی بے وجہ… منتشا ان کی اس وقت آمد کو بھی معمول کا چکر ہی سمجھی تھی لیکن ان کے لائے ہوئے گلاب جامن کھانے سے اس نے جب، ان کی آمد کا سبب جانا تونرم ملائم گلاب جامن اس کے حلق میں اٹک گیا۔
”سارہ کا ماشا اللہ سے یونیورسٹی میں ایڈمشن ہوگیا ہے۔”
سارہ ان کی بڑی بیٹی تھی جب کہ چھوٹی بیٹی ابھی اسکول میں ہی تھی۔ چاچا وحید کی بس دو بیٹیاں ہی تھیں جن کو اعلیٰ تعلیم دلانا ان کی زندگی کا مقصد تھا اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے کتنے سنجیدہ تھے یہ اس وقت منتشا کو وہاں بیٹھے ہوئے پتہ چلا۔ چاچا وحید نے پندرہ سے بیس منٹ تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر لیکچر دیا اور نظام الدین پر زور دیا کہ وہ اپنے سب بچوں کو اچھی تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کرے۔ اسی پندرہ منٹ کے دورانیہ میں منتشا نے یہ طے کیا تھا کہ ان سے اکیلے میں میٹنگ کتنی ضروری ہے۔ پھرجتنے دورانیہ میں چاچا نے نظام الدین کے کانوں میں اپنی بات انڈیلی منتشا نے اتنے دورانیے میں طے کیا کہ میٹنگ کب اور کہاں کرنی ہے۔ کس طرح کرنی ہے کہ چاچا وحید تک اس کا پیغام یا مرضی پہنچ جائے اور باقی کے تمام معاملات وہ خود ہی سنبھال لیں۔
چاچا کی لڑکیوں کی تعلیم کے بار ے میں سنجیدگی اور تفکر آمیز طرز عمل اس بات کی یقین دہانی تھا کہ وہ نہ صرف منتشا کی بات کو دھیان سے سنیںگے، بلکہ حتی المقدور اس کی مدد بھی کریںگے۔ لیکن بات یوں شروع اور اس طرح ختم ہو گی، یہ گمان میں بھی نہ تھا۔
اس نے تو فقط ضد لٹکا کر ان کے سامنے اپنی خواہش کا ذکر کیا تھا جو حسرت بننے جارہی تھی۔
چاچا وحید کو عرصہ دراز سے معدے میں تکلیف کی شکایات تھی۔ وہ رات کے کھانے کے بعد کبھی بھی چہل قدمی کیے بغیر نہیں سوتے تھے۔
صابرہ دن بھر تھک ہار کر اور اقبال اور نظام الدین خجل خوار ہوکر سونے جاچکے تھے۔ جب اس نے بے حد خاموشی اور چپکے سے گلاس بھر کے دودھ نکالا اور ذرا سا ٹھنڈا پانی ملاکر وہ چھت پر لے آئی۔
چاچا بھی اس کی ادا پر نثار ہی ہو گئے کہ وہ ان کے معدے کی تکلیف کا سوچ کر ٹھنڈا پانی ملا دودھ لے کر آئی۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر کی ہانکنے کے بعد جب وہ اپنے ٹریک پر آئی تو چاچا وحید کو اس کامیابی اور خوبصورتی سے اپنی مظلومیت اور بے چارگی کا یقین دلایا کہ انہوں نے اگلے ہی دن ناشتے کی میز پر سب کے سامنے اور درمیان میں ہی منتشا کی پڑھائی آگے جاری رکھوانے کی ذمہ داری اٹھالی۔
یہ ایک بے انتہا زور دار دھماکہ تھا۔ صابرہ کے اعصاب کے پرخچے اڑتے اڑتے بمشکل بچے۔ نظام الدین نے اپنا کھلا منہ کافی دیر بعد بہ دقت بند کیا۔ اقبال اور کنول کی حالت بھی مختلف نہ تھی۔ تقریباً سب لوگ ہی اپنی اپنی جگہ اس دھماکے کے اثر سے سُن رہ گئے تھے۔ صرف منتشا تھی جو اندر باورچی خانے میں بیٹھی ٹھنڈی چائے میں پاپے ڈبو کر کھاتے ہوئے اپنی ہنسی روکتی رہی کیونکہ وہ جانتی تھی یہ صرف ایک دھماکہ نہیں تھا۔ وہ اور بھی کچھ چھوٹے موٹے پٹاخے چھوڑنے والے تھے۔
”میں منی کی پڑھائی کا پورا خرچہ اٹھاؤںگا۔ اس کا صرف داخلہ نہیں بلکہ یونی فارم، جوتے، بیگ، کتابیں اور ضرورت پڑی تو ٹیوشن کا خرچہ بھی اٹھاؤںگا۔”
ناشتے پر خوش گوار ماحول کی جگہ ایک عجیب سی سوگواری نے لے لی تھی۔
”لیکن بھائی صاحب آپ کیسے یہ سب کریںگے۔ آپ وہاں منی یہاں۔” کافی دیر بعد سناٹے میں، نظام الدین کی جھجک آمیز آواز گونجی اس نے صابرہ اور دوسرے افراد کے سوال کو زبان دی تھی کیونکہ اس کے علاوہ اور کسی کی جرأت تھی نہ اجازت۔
”کس نے کہا میں وہاں اور منی یہاں…. منی میرے ساتھ جارہی ہے۔ آج اور ابھی…”
اس کے لبوں سے پھوٹنے والی ہنسی بالکل بے ساختہ تھی۔ وہ اتنی دیر سے کالج کے جس ماحول سے کٹ گئی تھی۔ ایکا ایکی اس میں واپس پلٹی تو ایک بالکل اپنی جیسی لڑکی کو نزدیک کھڑاپایا۔
اس کے نزدیک اس کے اپنے جیسی وہ لڑکیاں تھیں جن کی شکلوں پر پیدائشی مسکینی کی مہر لگی تھی۔
”کیا میں آپ سے دوستی کرسکتی ہوں۔”
ایک مسکین شکل والی لڑکی نے اس سے بے حد اپنائیت سے پوچھا تھا۔ لیکن…..
”جی بالکل نہیں شکریہ….” جواب نے سامنے والی لڑکی کو ہکا بکا کردیا تھا۔
اپنے جیسی لڑکی سے مراد وہ لڑکیاں تھیں جو بہتر شکل و صورت کے باوجود اپنی دوسری چیزوں سے حالات کی ماری لگتی تھیں۔ اور وہ ان جیسی یعنی کہ اپنی ہی جیسی دوسری لڑکیوں سے دوستی کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
اس کی دوستی، کسی بہت چنیدہ اور خاص لڑکی سے ہونی تھی۔ اس لڑکی کو اس نے خود ہی چننا تھا۔ اور کس طرح اس کے اور اپنے درمیان دوستی کو پروان چڑھانا تھا یہ بات وہ بہ خوبی جانتی تھی۔
اس کی شخصیت کا خاصہ ہی یہی تھا کہ وہ اپنے ہنر سے واقف تھی۔ نہ صرف اپنی خوبیوں سے بلکہ ان کے استعمال سے بھی۔
اس نے سامنے کھڑی لڑکی پر اپنے روکھے جواب کا ردِ عمل دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور اٹھ کر داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
ابھی ابھی اندر داخل ہونے والی ایک الٹرا ماڈرن لڑکی نے اس کی توجہ کھینچ لی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا۔ ”تھا جس کا انتظار وہ شاہکارآگیا۔” اسے پتا چل گیا تھا کہ اسے کس لڑکی سے دوستی کرنی ہے اور کیوں کرنی ہے یہ وہ پہلے ہی جانتی تھی۔
******
چاچا وحیدالدین کی بیوی عالیہ چاچی بہت اچھی نہیں تھی۔ لیکن اتنی بری بھی نہیں تھی کہ ان کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے۔
اس نے پہلے دن وحیدالدین کی بات اور فیصلے پر ناک منہ چڑھایا تھا۔
”لو دو لڑکیوں کی ذمہ داری پہلے ہی سر پر ہے۔ اور آپ ایک اور کو اٹھاکر لے آئے۔” اسے اپنی آواز نیچی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ گھر اس عورت کا تھا اور یہ اس کی راج دھانی تھی۔ وہ یہاں کی ملکہ تھی۔ اسے آواز نیچی کرنے کی عادت بھی نہیں تھی۔
منتشا نے فقط چند منٹوں میں اندازہ لگالیا تھا کہ وہ اس کی آمد سے کوئی خاص خوش نہیں ہوئی تھیں۔ صرف یہی نہیں اس نے اور بھی بہت سے اندازے لگائے تھے جو بعد میں بالکل ٹھیک ثابت ہوئے۔ سب سے پہلے اندازے یعنی عالیہ چاچی کی ناگواری کے بعد جو دوسرا اندازہ اس نے لگایا وہ اس گھر کے ماحول کے بارے میں تھا۔ اس کے اپنے گھر اور اس گھر کے ماحول میں زمین اور آسمان جتنا فرق تھا۔ یا اتنا جتنا آگ اور پانی میں ہوتا ہے۔ یہی فرق باقی ماندہ اندازے لگانے میں حاوی رہا۔
”اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بیٹیاں ہی چاچے کی توجہ و محبت کا مرکز تھیں۔”
”ایک حد تک آزادیٔ رائے حاصل ہونے کے باوجود دونوں لڑکیاں سارہ اور فارہ اپنی حدود پہچانتی تھیں۔ اسی طرح گھر کے دوسرے معاملات میں بھی دونوں کو آزادی حاصل تھی لیکن ایک حد تک….”
”گھر کے اندر ہر فرد کو اپنی مرضی کے معمولات سیٹ کرنے کی اجازت تھی مکمل اجازت۔ ”بھوک لگنے پر کسی بھی وقت کچھ بھی کھایا پیا جاسکتا تھا۔ نیند آنے پر کسی بھی وقت سونے پر کوئی پابندی نہیں تھی ہاں مغرب کی اذانوں کے وقت لیٹے رہنے سے منع کیا جاتا تھا۔”
”مغرب کے بعد گھر سے باہر جانا منع تھا۔ لیکن…”
”گھر میں کسی کو بلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔”
منتشا کو یوں محسوس ہونے لگا گویا وہ کسی جنت میں قدم رکھ چکی ہے۔ گھر ایسے بھی ہوتے ہیں۔ اتنے پرسکون اور خاموش….
مائیں بیٹیوں پر اتنی توجہ بھی دیتی ہیں…
عالیہ، سارہ کو فیشل اور فارہ کو کلینزنگ کرنے کا کہتیں منتشا منہ کھول کر انہیں دیکھتی۔
رات میں گلاس بھر کر دودھ پینے کو ملتا تو وہ ندیدوں کی طرح غٹاغٹ چڑھاتی اور اس رات کو یاد کرتی جب وہ چاچا وحید کے لیے دودھ کا گلاس لے کر گئی تھی اور ان کے انکار کرنے پر نیچے آکر خود ہی پی گئی تھی۔ اس وقت جانے کہاں سے بلو آن دھمکا تھا۔
”جب چاچے کے لیے نکالا تھا تو خود کیوں پی گئی۔” اس کا انداز ایسا تھا جیسے منتشا نے بڑا گناہ کردیا۔
”ہاں تو… تو کیا ہوا تجھے تکلیف ہے کوئی۔”
اس کا انداز کتنا نرم لیکن جلاتا ہوا تھا۔ اورایک یہ گھر تھا۔
جو دل چاہے کھاؤ پیو، پہنو… جہاں دل چاہے آؤ جاؤ اور بس جو دل کرے کرتے جاؤ کرتے ہی جاؤ۔”
اس گھر میں صرف ایک ہی چیز کی پابندی تھی۔ جس میں منتشا کو ذرہ برابر ہی دلچسپی تھی اور وہ تھی پڑھائی۔
پڑھائی کرنی تھی اور روز کرنی تھی… اور یہ پابندی تمام تر آزادی پر حاوی تھی کیوں کہ وہ لاکھ بہانے کرتی یہ بات خوب جانتی تھی کہ وہ یہاں پڑھنے نہیں آئی تھی۔ وہ یہاں کسی اور مقصد سے آئی تھی۔
وہ یہاں اپنے خواب پورا کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے آئی تھی۔ آگے جانے کا راستہ، اوپر چڑھنے کا راستہ جو اسے اس کا خواب پورا کرنے میں مدد دے سکے۔ اس کی منزل تک اس کی راہ نمائی کرسکے۔ یا کم از کم وہ سفر مسلسل کرسکے۔ جو اپنی منزل تک رسائی کے لیے اسے درپیش تھا۔
اپنے خواب کی تعبیر کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ اپنے گھر، گھر کے افراد اور ماحول کو وہ کہیں پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اب وہ خواب اسے اور واضح دکھائی دینے لگا تھا۔ وہ ہر حال میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔ وہ شہرت اور دولت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ترجیحات میں ایک پُرسکون اور عزت والی زندگی شامل نہیں رہی تھیں۔ وہ اپنی دانست میں بہت آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ وہ ایک سپر ماڈل بننا چاہتی تھی۔
******
شروع کے چند دن کی کوششوں کے بعد وہ نہ صرف اس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی بلکہ اس کی دوستی کا شرف بھی اسی کے نصیب میں لکھا گیا۔
چند ایک دن اس نے گہرا مشاہدہ کرکے اندازہ لگایا کہ وہ ایک بے حد خود پسند لڑکی ہے اور چاپلوسی اور خوشامد کو پسند کرتی ہے۔ اس کے ارد گرد جمگھٹا لگائے رکھنے والی لڑکیوں کی تقریباً پوری تعداد اس کیٹگری میں آتی تھی جسے عرف عام میں معمولی کہا جاتا ہے۔
چاہے مالی حالت ہو یا ظاہری وہ سبھی لڑکیاں دونوں معاملات میں اس سے مار کھائی ہوئی ہی تھیں۔ اس لیے نہ صرف اس کے نام نہاد حسن کے قصیدے پڑھتیں، بلکہ اس کے نازنخروں کو بڑھاوا بھی دیتیں۔
منتشا نے پہلے ہی دن اندازہ لگالیا تھا کہ صابرہ کے چرائے گئے رویوں کو استعمال کرنے کا وقت آن پہنچا۔ وہ روپے جواب بھی اس کے کالج بیگ کے کسی نہاں خانے میں تصویر کی صورت لگے بندھے پڑے تھے اور جن کی اصلیت اس کے علاوہ صرف کنول جانتی تھی۔
اس نے بھی اس کو دوست بنانے کے لیے اسی سیڑھی کا انتخاب کیا، جس پر چڑھ کر وہ منزل کے کسی قدر قریب جاسکتی تھی اور بہت جلد اس نے وہ سیڑھیاں تھوڑی خوشامد، چاپلوسی اور تھوڑے بہت خرچے کے بعد طے کرلی تھیں۔ کالج میں ان کی جان پہچان پہلے دوستی اور پھر بہت جلد اچھی دوستی کے نام سے جانی جانے لگی تھی لیکن وہ جانتی تھی اصل مقصد حاصل کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔
اس کی دوستی کتنی بھی مضبوط سہی مگر ابھی ظاہری حد تک ہی تھی، اسے کچھ اور مزید صبر کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شوبز تک رسائی کے لیے اس کے پاس فی الحال اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔
وہ کسی فقیر کی کٹیا میں رہنے والی منگتی تھی جو کوہ نور کی خواہش کر بیٹھی تھی اور ملکہ کے تاج سے پہلے اسے بادشاہ کے دربار تک پہنچا تھا اور بادشاہ کے دربار تک اسے صرف وہ پہنچاسکتی تھی۔ صرف وہ….
جاذبہ شبنم عرف… جیز۔
******
کالج میں داخلے کو چھ مہینے گزرچکے تھے۔
اس عرصے میں جہاں جیز اور اس کی دوستی مستقبل اور مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھی تھی۔ وہیں وحیدالدین کے گھر والوں کی نظر میں اس کی پسندیدگی کا گراف پڑھائی کے حوالے سے بہ تدریج نیچے کی طرف آیا تھا۔
گھر کی تینوں خواتین کو اس سے جانے کون سی افلاطونی قسم کی امیدیں تھیں جنہیں اس نے بے دردی سے خاک میں ملایا تھا۔
شروع سال میں وہ ایک ایوریج اسٹوڈنٹ میں شمار ہوتی رہی۔ بعد میں اوسط سے نچلے درجے پر آگئی۔ اسی لحاظ سے گھر میں اس کی دوسری دلچسپیاں بڑھ گئیں۔
عالیہ اور سارہ نے کئی مہینے اس پر پڑھائی پر توجہ دینے پر زور دیا۔ گھر پر چھوٹے بڑے ٹیسٹ میں اس کے مایوس کن نمبرز اور پرفارمنس دیکھ کر صرف فاتحہ پڑھ کر رہ گئیں۔ سارہ کے لیے یہ بات قبول کرنا آسان تھی۔ کیوں کہ وہ خود بھی ایک شاگرد ہی تھی۔ لیکن عالیہ اس کی پڑھائی میں عدم دلچسپی دیکھ کر بہت جزبز ہوتی تھیں۔ آخر ان کے شوہر کے پیسہ لگ رہا تھا۔ اور اب تو بے دریغ لگ رہا تھا۔ جب سے وحیدالدین نے فارہ اور سارہ کی طرح اس کا بھی ہفتہ وار جیب خرچ باندھ دیا تھا۔
جب سے انہیں پتہ چلا تھا کہ منتشا کو پڑھائی کے بجائے فیشن اور دوسری چیزوں میں زیادہ دلچسپی ہے۔ تب سے وہ دل ہی دل میں جلد از جلد یہ دو سال بخیریت وعافیت گزرجانے کی دعائیں مانگنے لگی تھیں۔ کیونکہ بہت دفعہ منتشا باتوں ہی باتوں میں انہیں چونکادیتی تھی۔ کوئی ایسی حرکت کوئی ایسی بات، جو انہیں چوکنا کردیتی۔ پتہ نہیں کیوں لیکن اپنی تمام تر میٹھی زبان اور خدمت گزاری کے باوجود انہیں یہ لڑکی بس پریشان کن ہی لگتی تھی۔
”میرا دل یہیں ٹھکتا اس کی حرکتوں کی وجہ سے…”
وہ کئی بار تنہائی میں دبی زبان سے سارہ اور وحیدالدین کے سامنے اپنے دل کے خدشات باہر نکالتی رہتی تھیں۔ پتہ نہیں وہ کون سی حرکتیں تھیں جو گھر میں ان کے سوا اور کسی کو دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ سارہ ان کی باتوں کو ہنسی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی اور فارہ اپنی ماں کی دبی دبی ہدایات کے پیش نظر اس سے دور رہنے کی حتی الامکان کوشش کرتی تھی۔
عالیہ نے بہت جلد اس کی باتوں اور اٹھنے بیٹھنے کو بہ غور دیکھنا اور جائزہ لینا شروع کردیا تھا۔ انہیں بنا دیکھے اس کی کالج فرینڈ جیز سے بھی ایک ان دیکھی ان جانی سی پرخاش محسوس ہونے لگی تھی۔ اور اس جگہ منتشا اپنی تمام تر ہوشیاری کے باوجود مار کھاگئی تھی۔
وہ ایک کم عمر اور ناتجربے کار لڑکی تھی۔ جاذبہ سے دوستی کی ایکسائمنٹ اس نے گھر آکر بھی شیئر کی تھی۔ اور باتوں باتوں میں اس کا حلیہ اور ماڈلنگ کے شوق کے بار ے میں بھی بول بیٹھی تھی۔ وحیدالدین اور سارہ نے اسے سرسری جب کہ عالیہ نے باقاعدہ ہدایت کے ساتھ اسے اس لڑکی سے دور رہنے کے لیے کہا تھا۔
”تو کیا ہوا چاچی۔ ماڈلنگ کرنا اس کا شوق ہے۔ اور شوق تو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔”
پہلے اس نے حسب عادت ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑانا چاہا لیکن عالیہ ایک دم بدک اٹھیں۔
”پاگل ہوئی ہو کیا تم؟ شوق کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ کیسے؟ اگر کسی کو مرنے کا شوق ہو یا زہر پھانکنے کا۔ تو کیا اس کے ہاتھ میں زہر رکھ دیںگے لاکر؟”
وہ کچھ اس طرح بھڑکیں کہ منتشا حق دق ہوگئی اور سارہ کو درمیان میں پڑکے معاملہ رفع دفع کرنا پڑنا۔
گو کہ سارہ نے بعد میں اپنی طرف سے اس کی کافی برین واشنگ کی تھی لیکن وہ منتشا ہی کیا جو بات سمجھ جائے۔ لیکن ایک بات اسے اچھی طرح سمجھ آچکی تھی۔
اس گھر میں چاچی اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ لہٰذا اسے چاچی سے ہر صورت بچ کر رہنا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسے جیز سے ہر صورت میں ٹچ رہنا تھا۔
اس روز کے بعد سے اس نے، چاچی سے خود کو ہر ممکن حد تک دور رکھنا شروع کردیا۔ اپنی طرف سے یہ اس کی بہترین احتیاطی تدبیر تھی لیکن اسے نہیں معلوم تھاایک دن عالیہ چاچی ہی اسے رنگے ہاتھوں پکڑے گی اور اس کی اونچی اڑتی پتنگ کی ڈور کاٹے گی۔
عالیہ چاچی اس کی زندگی میں ولن بن کر آچکی تھی۔ اور یہ ولن پوری طرح کھل کر اس دن سامنے آیا جس دن اس نے چاچی کو مشکوک نظروں سے خود کو گھورتے پایا۔
ان کے ہاتھ میں وہ اسمارٹ فون دبا ہوا تھا جو، اس نے اپنی ایک اسکول فرینڈ سے محض چنددن کے وعدے پر لیا تھا۔ کنول کا منہ بند کرنے کے لیے۔ اور بعد میں اپنی فطرت کے عین مطابق وہ وعدہ نبھانا بھول گئی تھی۔
چاچی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون دیکھ کر اس کا حلق خشک ہوچکا تھا۔
******
روشنیوں کی چکاچوند میں اس کی آنکھیں چندھیائی جارہی تھیں۔
اس نے ایک بار پھر بے یقینی سے اپنے قدموں کے سامنے دور تک بچھے سرخ رنگ کے قالین کو دیکھا جو سرخ گلابوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
دائیں بائیں کی لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے آگے ہی آگے کی طرف جھکے چلے آرہے تھے۔ کیمروں کے فلیش، شور، ہنگامہ، لوگوں کے بے ہنگم ہجوم کو قابو کرتے سیکوریٹی اہلکار، ہاؤ ہو…. جو اس کے سامنے آنے کے بعد مزید بڑھ گئی تھی۔
کئی ایک کے ہاتھوں میں بڑے بڑے گلدستے تھے اور وہ ان گلدستوں سمیت خود بھی اس کے قدموں میں نثار ہونے کے لیے بے تاب تھے۔
اس نے پلکیں جھپکیں اور نظر جھکاکر اپنے لباس کو دیکھا۔
وہ ایک بیش قیمت، سنہرے اور سرخ چمکیلے دھاگوں اور نگینوں سے مزین بے حد خوبصورت گہری سرخ میکسی میں ملبوس تھی۔ میکسی جس کی آستین سرے سے ندارد تھیں اس کے قدموں کو چھورہی تھی۔ اس کے بازو دودھیا سڈول اور بے حد ملائم تھے۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنی کلائیوں کو دیکھا۔
دائیں کلائی میں بے حد نازک سونے کی چین تھی جب کہ بائیں کلائی میں بالکل اس کی میکسی کے کلر کا بڑا سا سرخ گلاب لپٹا ہوا تھا۔ شاید یہ بھی کلائی میں پہننے والے زیور کی کوئی قسم تھی۔
اس نے سامنے کھڑے لوگوں کے جم غفیر کو دیکھا جو اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔ اور سامنے موجود قالین سے ڈھکی تین سیڑھیوں میں سے ایک قدم اتر کر نیچے آئی۔
لوگوں میں اسے آگے بڑھتے دیکھ کر جوش و جذبہ کچھ اور بڑھ گیا۔
وہ لوگ اب اور زیادہ چیخ رہے تھے۔ خوشی سے ایکسائمنٹ سے۔
اس نے مسکرا کر ایک گہری بھرپور سانس لی اور مزید نیچے اتر کر اپنے دونوں نرم بازو فضا میں پھیلادیے۔
فضا میں اس کے نیچے اترتے ہی ہلکے سے دھماکے کی آواز گونجی اور کہیں سے ڈھیر سارے ستارے اور گلاب کی پتیاں اس پر برسنے لگے۔
اس نے سر اٹھاکر اوپر کی طرف دیکھنا چاہا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس نے اپنی توجہ واپس سامنے کی طرف کرلی۔
سرخ قالین اور گلابوں سے ڈھکے روشن آگے ہی آگے چلتی جارہی تھی۔ اور سہج سہج قدم رکھتی ہوئی، لوگوں، گلابوں، روشنیوں اور ستاروں کے درمیان سے گزرنے لگی۔
چاروں طرف رنگوں اور روشنیوں کا سیلاب تھا، جو اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں سے وہاں کھڑا تھا۔
دولت کے ڈھیر تھے شہرت کی منزلیں تھیں اور عزت….
اس کی کس کو چاہ تھی۔
اس کے ہاتھ بار بار لبوں کو چھوتے اور فلائنگ کس فضا میں بکھرجاتے وہ آس پاس سے بے نیاز اپنے آپ میں گم اور مگن آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔
******
اس نے بے اختیار تھوک نگلا۔ پھر سامنے کسی پہاڑ کی طرح ڈٹی ہوئی عالیہ کو دیکھا۔
وہ بے حد طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”بولو…. کہاں سے آیا ہے یہ تمہارے پاس۔”
فوری طور پر کوئی جواب نہ سوجھنے کی صورت میں اسے کیا کچھ سننا اور بھگتنا پڑسکتا تھا یہ اسے سوجھ گیا تھا۔ انہوں نے اسے روکا بھی بے حد ڈرامائی انداز میں تھا جب کہ وہ بڑی مطمئن شاداں سی کالج کے لیے گیٹ سے نکل رہی تھی۔ وین والے نے گلی کا موڑ مڑتے ہی ہارن دے دیا تھا لیکن اب نہ جانے وہ منحوس کون سے گڑھے کھودنے میں مصروف تھا۔
”یہ میری… ایک دوست کا ہے۔” اس کا لہجہ لڑکھڑایا ہوا تھا۔
”تو تمہار ے پاس کیا کررہا ہے۔” ان کا لہجہ اور بھی کھرا ہوا۔
”میں نے اس سے لیا تھا دیکھنے کے لیے۔ پھر… کلاس آف ہوگئی اور وہ باہر نکل گئی تو… میں نے بیگ میں ڈال دیا۔’
سامنے کھڑی عورت کو چکردینا اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ وہ عالیہ تھی صابرہ نہیں اور اس وقت تو کسی ملکہ ٔ عالیہ سے مشابہ لگ رہی تھی۔
‘اتنی لاپروائی کیسے کرسکتی ہے کوئی لڑکی…”
ان کی بات ادھوری تھی۔ ابھی وہ کچھ اور بھی کہتیں لیکن اس نے چاچی کی پشت سے وحیدالدین کو نکلتے دیکھا۔ قدرے چوڑی گیلری میں ان کی آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ بآسانی وحیدالدین تک پہنچ سکتی۔
”اور پھر یہ تو آف ہے۔”
”تو بیٹری لو ہوگئی ہوگی۔”
”تم نے استعمال کیا ہے اسے۔” ایک اور حملہ….
”نہیں میں کیوں….”اس ہی دوران وین کا ہارن سنائی دیا، وین قریب ہی پہنچ چکی تھی۔
”تو پھر خود بہ خود بِنا استعمال کے کیسے بند ہوگیا۔”
”وہ میں نے… خود ہی بند کردیا تھا۔”
”کیوں… ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ بیٹری لَو ہوگئی ہوگی۔”
منتشا کو کوئی راہِ فرار نہیں سوجھ رہی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس بھُس میں ڈلی چنگاری کو بھڑکنے سے کیسے روکے۔
”کیا بات ہے بھئی کیا ہوگیا۔”
وین کے ہارن نے شور کیا اور وحیدالدین نے مداخلت…. منتشا کا کلاٹھیاں کھاتا دماغ ایک دم جیسے ہڑبڑایا اور پھر چوکنا ہوگیا۔
اس نے گہری سانس بھری۔ ایک ویسی ہی گہری سانس جو وہ کوئی بھی غیر متوقع بات، سامنے والے کے سر پر چھوڑنے کے لیے بھرا کرتی تھی۔
”چاچی۔ کیا آپ مجھ پر شک کررہی ہیں۔”
اس نے بہ وقت تمام ہونٹوں کو دائیں بائیں پھیلایا اور دل میں قبول کیا کہ آج سے پہلے اسے کبھی کسی بناوٹی مسکراہٹ کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑی ہوگی۔