تو کیا ہوا —– فرحین اظفر

”بڑا اوچھا نکلا۔” اب کی بار اس کے لہجے میں طنز کی گہری کاٹ تھی۔
”پیار تو کلوسے کرتا تھا اور شادی جہیز سے کرنا چاہتا تھا۔”
”تو کتنا غلط سوچتی ہے منی! کلو نے منہ جلالیا تھا اپنا۔ اپنی چیزوں کو کھاتی آگ کو بجھانے کی خاطر وہ دیوانوں کی طرح جا گھسی۔”
لمحے بھر میں اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اسے لگا وہ زندگی بھر اس جگہ سے ہل نہیں سکے گی۔
”اور کیوں نہ گھستی ایک لڑکی کے زندگی بھر کے ارمان ہوتے ہیں۔”
”میرے بھی کچھ ارمان تھے کچھ خواب تھے۔ ایک دوہا جو سے بیاہنے کے چکر میں انکار کیا۔” اب کی بار اس کی آواز میں فقط ایک اُداسی تھی۔
”پر تونے حرکت بھی تو کیسی کی تھی۔ اپنے ماں باپ کے منہ پر کالک تھوپی اور پھر ان کے سر میں خاک دھول ڈال کر بھاگ گئی۔”
اسے حقیقتاً محسوس ہوا کہ وہ اندر سے بدل گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس بار ”تو کیا ہوا!” نہیں کہہ سکی تھی۔
”میں نے جو بھی کیا اپنی زندگی کو برباد ہونے سے بچانے کی خاطر کیا۔”
”پر تو نے کنول کی زندگی تو برباد کر ہی دی نا!”
اگر وہ پہلے والی منتشا ہوتی تو صدف کی ہمت نہ تھی کہ اسے ایک لفظ بھی سناسکتی لیکن یہی تو بات تھی کہ وہ اب، وہ نہیں رہی تھی اور اس کا ادراک اسے بھی ابھی ابھی ہوا تھا۔
”شکر ہے اللہ موجود ہے اپنے بندوں کی پروا کے لیے خالد نے بیاہ کرلیا اس سے۔”
اگر اس کولڈ کارنر کی چھت اس لمحے اس سر پر آگرتی تو شاید وہ تب بھی اتنی حیران نہ ہوتی پر یہ بات کچھ بڑھ کر ہی تھی۔
”خا….لد…. سے۔” اس کے لبوں سے بمشکل نکلا۔
”ہاں تو اور کیا… خیر… اب تو بڑے سیٹ ہیں سب۔ خالد اور بالا دونوں سعودیہ چلے گئے۔ کچھ دن بعد کنول کو بھی بلوالیا۔ ریال بھیجتا ہے وہاں سے تیرا بھائی۔ بڑی خوش حالی آگئی ہے تیرے گھر میں۔”
وہ اب اور زیادہ مگن ہوکر دوسرا کپ ختم کررہی تھی۔





منتشا کیا سوچ رہی تھی کیا نہیں۔ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا اور وہ… وہ وہاں تھی ہی کب….
میں پھر کہوں گی۔ ”تونے اچھا نہیں کیا دیکھ نا!۔ وہاں سب سیٹ ہوگئے، تُو بھی ہوجاتی۔ اس کے ساتھ ضروری تو نہیں تھا نا کہ وہ تیرے ابا اور بالے کی طرح خراب نکلتا۔ تو اب کہاں دھکے کھاتی پھررہی ہے۔”
اسے کیسے پتا کہ وہ دھکے کھارہی ہے؟؟منتشا نے سوچا۔بڑے اطمینان سے اس نے آئس کریم ختم کی۔ اسی دوران بیگ میں رکھا اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے نکال کر دیکھا۔ پھر کان سے لگاکر زور سے ہنسی۔
”ہاں ہاں ہوگئی شاپنگ آجائیں میں….” وہ فون پر کسی کو اس جگہ کا پتا بتارہی تھی۔”اچھا میں اب چلتی ہوں۔ میرے میاں آگئے ہیں لینے، شاپنگ کے لیے چھوڑگئے تھے۔ انہیں اپنی کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں….”
منتشا نے زور سے آنکھیں کر کے کھولیں۔ پھر اس کی طرف دیکھا۔
”مجھے ملواؤگی نہیں اپنے میاں سے۔”
اس نے صدف کو اٹھتے دیکھ کر کہا۔
”توبہ کرو بھئی مرنا ہے مجھے تم تو جانتی ہو ایسی لڑکیوں کو کون پسند کرتا ہے۔ گھر میں ایک دوبار ذکر نکلا تو تمہارا بھی پتا چل گیا انہیں۔”
وہ اپنے تئیں دوسروں کو آئینہ دکھائی تھی آج پتہ چلا تھا کہ آئینے میں اپنی شکل دیکھنا ہمیشہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔اس نے شیشے کی دیوار کی اوٹ سے اسے اپنے شوہر کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر جاتے دیکھا۔
”ہونہہ۔ مڈل کلاس ذہنیت، تھرڈ کلاس، سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر خود کو دنیا جہاں کی ملکہ سمجھ رہی ہے پاگل….” اس سے زیادہ دیر وہاں بیٹھا نہیں گیا۔رکشے کے شور اور جھٹکوں کے درمیان بھی وہ اس کی باتوں کو ذہن سے جھٹک نہیں پائی۔
”اب تو سب سیٹ ہیں… بڑی خوش حالی آگئی ہے… خالد نے بیاہ کرلیا…”
بار بار کوئی اس کے دل میں سوئی چبھوتا اور اس کی آہ نکل جاتی۔ کلو نہیں چاہتی تھی کہ خالد، اس سے شادی کرے کیوں کہ وہ اس کو خالد کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ خالد خوش شکل، پڑھا لکھا شخص تھا۔ اس کی نوکری، اس کی تنخواہ، اس کی تعلیم اور شخصیت ہر چیز یاورسے بہتر تھی۔ اس نے نوکری کے حصول کے لیے بہت دھکے کھائے تھے پھر ان ہی دھکوں کے اجر میں اسے یاور سے کہیں زیادہ اچھی نوکری مل گئی تھی۔ لیکن….
لیکن پھر کنول اسے مل گئی کنول….
کنول جس کو وہ کلو کہہ کر اس کی کالی رنگت کا مذاق اُڑایا کرتی تھی اور یاور سے منگنی ہوجانے پر بھی اسے خوش قسمت اور یاور کو عقل کا اندھا گردانتی تھی۔ وہ کتنا دل دکھاتی تھی اس کا….اسے آج اب کہیں جاکر احساس ہوا تھا۔
”اور اگر جیز اور اس تبسم الو کی پٹھی نے میرے راستہ نہ روکا ہوتا تو میں بھی کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہوتی۔”
سڑک پر ٹریفک کے شور، گاڑیوں کے ہارن اور لوگوں کی بھیڑ سے کان پھٹ رہے تھے اس کا بھی سر درد کرنے لگا لیکن اسے نہ اپنے سر کے درد کا احساس تھا نہ لوگوں کا، نہ گاڑیوں کا… یہاں تک کہ اسے اس پانی کا بھی احساس نہ تھا جو جانے کب اس کی آنکھوں سے نکل کر چہرے کو بھگونے لگا تھا۔
پے درپے ان دو تین واقعات اور مالی طور پر بے حد تنگی کی حالت نے اس کے دل کی حالت پلٹنے میں زیادہ دن نہیں لگائے۔
پیر کی موچ ٹھیک ہونے سے قبل، جب اس نے تبسم کے لوٹنے پر شکوہ کیا کہ آپ اتنے بڑے ایونٹ میں مجھے لے کر جانے کے بہ جائے یہیں چھوڑ کر چلی گئیں تو اس نے کس قدر بے نیازی سے کہا تھا۔





”کیا کرتیں تم وہاں جاکر… ڈرنکس سرو کرتیں یا پھر دوڑ دوڑ کر سامان لاکر دوسروں کو پکڑاتی رہتیں اس سے تمہارا اپنا ہی امیج خراب ہوتا۔”
اس کے سارے دلائل اور احتجاج اس کا رویہ اور انداز دیکھ کر جھاگ کی مانند بیٹھ گئے اور آخر میں منمناتی ہوئی سی آواز نکلی۔
”پھر بھی… آپ کو مجھے لاعلم نہیں رکھنا چاہیے تھا۔”
”مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ یہ مجھے تم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
“Now go back to your work”
اس کے سرد لہجے کی ٹھنڈک نے اسے اچھی طرح باور کرادیا تھا کہ اس کی حیثیت کیا ہے۔ اور تبسم کی حقیقت کیا ہے۔تب سے اب تک اس کے اندر مسلسل ایک جنگ سی چھڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنے شوق سے اتنی آسانی سے دست بردار نہیں ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اب اس کے علاوہ اور کوئی راستہ دکھائی بھی نہیں دیتا تھا۔وہ ان دنوں دل گرفتگی اور مایوسی کی انتہا پر تھی جب ستم بالائے ستم اسے صرف مل گئی۔
”دنیا میں سب جگہ سب ٹھیک ہے سوائے میرے…”
تبسم نے اس کے خلاف، اس کے چاروں طرف ایک ایسی دلدل جمع کردی تھی۔ جس میں دھنسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن وہ مکمل ہارنے سے پہلے ایک آخری کوشش اور کرنا چاہتی تھی۔ یہ آخری کوشش بار آور ہونی تھی یا نہیں یہ تو اسے معلوم نہیں تھا۔ ہاں لیکن یہ ضرور معلوم تھا کہ جس مقام تک پہنچنے کے لیے انسان خود کڑی محنت کرے، وہاں اگر خود نہ پہنچ سکے تو کسی کو کھڑا دیکھنا بھی اس کے بس سے باہر ہی ہوتا ہے۔
وہ ساری رات اس نے جاگتی آنکھوں سے کروٹیں لے کر گزاری۔
کبھی اس کے کانوں میں صدف کی آوازیں گونجنے لگتیں تو کبھی وہ ویڈیونظر کے سامنے کسی فلم کی مانند چلنے لگتی۔ جس میں اسٹیج کے پیچھے موجود گرین روم کی افراتفری عروج پر تھی۔
قطار در قطار لگے آئینوں کے سامنے سجی ڈریسنگز پر دنیا جہاں کا میک اپ، اور کاسمیٹکس کا سامان بکھرا پڑا تھا۔ اسٹولز پر بیٹھی ایک سے ایک نام ور اور شہرت یافتہ ماڈلز اور ان کی پشت پر کھڑی بیوٹیشنز، کوئی بال بنارہا تھا تو کوئی چہرے کی آرائش میں مصروف تھا۔ ان سنوارنے اور سنورنے والوں میں، ان بنانے اور بنوانے والوں میں مرد و زن دونوں شامل تھے۔
کئی ایک لوگ اندر باہر آجارہے تھے۔ کہیں کچھ ماڈلز ناکافی لباس میں گھوم رہے تھے۔ کہیں کوئی کر تصویریں بنوارہا تھا تو کوئی پینے پلانے میں مصروف تھا۔
وہ کسی کے موبائل سے بنائی گئی ویڈیو تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ویڈیو بنانے والے نے اپنے اوپر بھی فوکس کیا۔ لیکن وہ اسے نہیں جانتی تھی۔ کچھ دیر کے لیے کیمرہ ایک عورت کی پشت پر بھی گیا۔
وہ پلٹی تو ٹیشا نے دیکھا۔
بالوں کو بے ترتیبی سے سمیٹ کر کیچر میں پھنسائے، بائیں ہاتھ میں سگریٹ اور آنکھوں پر نظر کر موٹا چشمہ لگائے وہ کوئی اور نہیں تبسم راؤ ہی تھی۔ بے حد مصروف انداز میں اس نے مووی بنانے والے کو ”ہائے” کہا اور پھر پلٹ کر کسی کے ساتھ مصروف ہوگئی۔
ویڈیو دیکھ کر ٹیشا کا روم روم جل اٹھا تھا۔
اس نے گہری ہوتی رات کی تنہائی میں وہی کیفیت خود پر طاری ہوتے محسوس کی اور سینے پر رکھے ہاتھ کے نیچے دبے کارڈ کو سہلا کر ایک بار پھر محسوس کیا۔
******





صرف ایک فون کال کی دوری پر ساری مشکلات کا حل اپنی جیب میں رکھ کر کوئی اس کی پہل کا منتظر تھا۔ اسے اندازہ ہوتا تو اتنے دن کبھی نہ لگاتی۔ شہنام حقانی جیسا مرد اور اس جیسی قربت اس نے زندگی میں کبھی دیکھنا تودرکنار خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔
وہ خوبصورتی کا دلدادہ تھا مگر ذہانت سے اسے چڑ تھی اور وہ بہت جلد جان گئی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی اور نہیں تبسم ہی کی شخصیت تھی۔
وہ ذہین تھی لیکن اس نے اپنی ذہانت چھپالی تھی۔ وہ خوبصورت نہیں تھی لیکن کم از کم لگنا تو جانتی تھی۔ان دونوں کے درمیان فاصلے مہینوں میں نہیں، ہفتوں میں بھی نہیں، دنوں میں کم سے کم ہوتے چلے گئے۔
مرد اگر دریافت کا پرندہ ہے تو عورت تجسس کا عنکبوت… طلسمی جزیرہ… حیرت کدئہ حسن… وہ اسی جزیرے کی دریافت کے لیے نکلا تھا۔
ٹیشا نہیں جانتی تھی کہ وہ اس سے ملے گا یا نہیں۔ اسے ملاقات کے قابل گردانے گا یا نہیں۔ ملاقات کرے گا تو کس طرح… اور … اور یہ ملاقات اگلی ملاقاتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی کہ نہیں… کتنی سرسری یا کتنی گہری ہوگی کس حد تک جائے گی… اور کہاں جاکر تھمے گی۔
اس کے دل اور ذہن میں کُلبلاتے تمام سوالات جھاگ کر طرح بیٹھتے چلے گئے۔ وہ صرف دکھنے میں وجیہہ نہیں تھا۔ اس کا لب و لہجہ ظاہری شخصیت سے زیادہ مسحور کن تھا۔ اس کے پاس خوبصورت الفاظ کا ذخیرہ تھا۔ وہ عورت کو خراجِ تحسین پیش کرنا جانتا تھا۔ اسے اگر تعریف قبول کرنی آتی تھی تو داد دنیا بھی آتی تھی۔
ٹیشا نے پہلی بار زندگی اور اس کی خوبصورتی کے نئے رنگ دیکھے تھے اور یہ نئے رنگ اتنے دل فریب اور خوش نما تھے کہ اسے غم بھول جاتا۔
اس روز جب پہلی بار وہ تبسم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر شہنام سے ملنے آئی تو واپسی پر اس کا بیگ ہی نوٹوں سے بھرا ہوا نہیں تھا۔ اس کی سماعتیں، دلفریب سرگوشیوں سے اور دل دوبارہ ملاقات کی خواہشوں سے لپٹا بے قرار و مضطرب تھا۔اس نے شہنام حقانی کا کارڈ بے پروائی سے سائیڈ ٹیبل پر ڈال دیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ پرانے خواب سے دستبردار ہوکر ایک نئے خواب کی بنت کی تیاری کرنے لگی۔
******
کچھ مناظر ہماری بصارتوں کے لیے اس قدر ناقابلِ یقین اور ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں کہ ہم لاکھ خود کو نوچیں مگر اس حقیقی منظر کو خواب کے علاوہ کچھ اور سمجھنا ناممکن سا ہوجاتا ہے۔وہ ایسا ہی اک منظر تھا۔
شہنام جیسی گاڑیاں شہر میں گنے چنے لوگوں کے پاس ہی تھیں اور تبسم تو ہزاروں گاڑیوں میں سے بھی اسے شناخت کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس گاڑی کو ہی نہیں، اس کی فرنٹ اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی شخصیت کو بھی پہچان چکی تھی اور اصل مصیبت جب ہی شروع ہوئی۔ ابتدائی چند لمحے تو آنکھوں پر یقین کرنا مشکل تھا لیکن اس نے بہرالحال یقین کر ہی لیا۔ جب اس کے مسلسل فون کرنے پر شہنام نے ریسیو کرنے کے بہ جائے لائن کاٹ دی اور پیغام بھیج دیا کہ میں ایک میٹنگ میں مصروف ہوں۔ فارغ ہوکر فون کرتا ہوں۔
طیش کے عالم میں اس نے فون اٹھایا اور فٹ پاتھ پر دے مارا۔ وہ بہ حالتِ مجبوری وہاں اپنی گاڑی پنکچر ہوجانے کی وجہ سے رُکی تھی۔
اسے کیا پتا تھا کہ قدرت آج اسے کیا دکھانے والی ہے۔
”اس دو ٹکے کی لڑکی کی اتنی جرأت… میری ہی آنکھوں میں دھول جھونک کر میرے ہی منگیتر کے ساتھ…”
اس سے آگے اس کی برداشت جواب دے جاتی تھی۔اس کے بدلتے تیور تو وہ بہت دن سے نوٹ کررہی تھی۔ شروع کے چند دن اس سے اصرار کرتے رہنے کے بعد جب ٹیشا نے دیکھا کہ تبسم اس کے سلسلے میں مزید کوئی پیش رفت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو اس نے اسی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا تھا۔ وہ نا صرف سیلون کے کاموں میں دلچسپی لینے لگی تھی بلکہ اب اس نے تبسم کو تنگ کرنا بھی چھوڑدیا تھا۔تبسم نے اسے لائن پر آتا دیکھ کر سکون کی سانس لی تھی کہ وہ خاموش ہوگئی ہے لیکن یہ خاموشی کس طوفان کا پیشہ خیمہ تھی۔ اس کا اندازہ آج ہوا۔
پچھلے چند ہفتوں سے اس کی بات بے بات کھلکھلاہٹیں عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ وہ کام کرنے میں بھی حد درجہ سستی دکھانے لگی تھی۔ تبسم کچھ کہتی وہ جواب میں خاموش رہنے کی بہ جائے کچھ نہ کچھ ایسا بول دیتی کہ تبسم کو آگ لگ جاتی۔ اس نے بھلا کب کسی کی لن ترانیاں برداشت کی تھیں۔
اسی لیے ایک دن اس کا ضبط جواب دے گیا۔
”اگر یہاں رہنا ہے تو میرے طریقے سے رہنا ہوگا۔ ورنہ اپنا سامان باندھو اور راستہ ناپو۔”
”مجھے اپنے طریقے سے رہنا پسند ہے میڈم….”تبسم اس کے انداز پر جھٹکا کھاگئی تھی۔
”دوسروں کے طور طریقے میرے مزاج سے نہیں ملتے۔”





”کیا؟ کیا بکواس کی تم نے… تمہیں کوئی ڈر کوئی خوف نہیں۔ اگر آج میں تمہیں گھر سے نکال تو کہاں جاؤگی تم! کیا بنے گا تمہارا کبھی سوچا ہے۔”
”تو کیا ہوا… چلی جاؤں گی کہیں بھی۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے اور اللہ کے بندے بہت بڑے دل والے۔”
تبسم دانت بھینچ کر اس کا مطمئن انداز دیکھتی رہی۔
”میں ویسے بھی یہاں مطمئن نہیں ہوں۔ کام بہت زیادہ اور تنخواہ بہت کم ….. اور میں کون سا یہاں یہ سب کرنے آئی تھی۔” اس کا اطمینان قابل دید تھا۔
”دفع ہوجاؤ یہاں سے۔” اس وقت تو وہ اس سے بس یہی کہہ سکی۔ اس کے انداز اسے اسی وقت چونکانے لگے تھے لیکن بات اتنی بڑھ چکی تھی اس کے سان و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ ٹیشا ایک روز اس کے اوپر بم گرانے چلی آئی۔
”میں کچھ دن آپ کا سیلون اور یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ بہتر ہوگا کہ آپ میرا حساب کردیں۔”
الفاظ کسی انگارے کی طرح اس کی سماعتوں کو جلارہے تھے۔
اسے ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔ کس طرح کچھ دنوں سے ٹیشا نے بیماری کا ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ آئے دن وہ معدے میں درد کی شکایت کرکے گھر چلی جاتی تھی۔ بہ ظاہر سب ایمپلائز کو اپنی رحم دلی دکھانے کے لیے تبسم کودل پر پتھر رکھ کر اس کو گھر جانے کی اجازت دینی پڑی۔ لیکن اس ڈرامہ کے پیچھے اصل فلم کیا چل رہی تھی؟ یہ آج پتہ چلا۔
اس کی رَگ رَگ میں لہو شعلہ بن کر بہنے لگا تھا۔ گھر تک آتے آتے غصہ اور غیض و غضب کی آنچ اس کا تن من جھلسانے لگی۔
گاڑی سے نکل کر اس نے سیدھا سرونٹ کوارٹر کا رُخ کیا۔ تن فن کرتی کوارٹر کے دروازے پر پہنچی تو دروازے پر لگا بڑا سا تالا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔اس نے کچھ ہی دن پہلے یہ ایک کمرے کا کوارٹر شاکرہ سے لے کر اس کو دے دیا تھا لیکن اس کے اپنے گھر میں رہتے ہوئے وہ اس طرح اسی کے دیے گئے گھر کو تالا بھی لگاسکتی ہے۔ کسی نے اس کے جلتے دل پر کھولتا ہوا تیزاب ڈال دیا۔
”کس نے لگایا ہے یہ تالا… ……” اس نے پوری قوت سے دھاڑ کر دروازے کو زور دار لات رسید کی۔ دروازہ اس کی لات کھاکر محض آگے پیچھے چرخ چوں کرکے رہ گیا۔
اس نے پورا گلا پھاڑ کر اس انداز میں چوکی دار کو بلایا کہ وہ سر پر پیر رکھ کر دوڑا چلا آیا۔
کچھ دیر بعد ٹوٹا ہوا تالا دہلیز پر پڑا اپنی قسمت کو رورہا تھا اور اندر وہ جنونی انداز میں ایک ایک شے کو الٹ پلٹ کررہی تھی۔
اس کی تلاش بہت جلد بار آور ثابت ہوئی۔ اصل میں اس نے خود پر چڑھے ہوئے ابال کے ہاتھوں بے قابو ہوکر پہلے اس کی مسہری کی چادر نوچ پھینکی اس کے بعد اس کی الماری کھول کر سب چیزیں باہر نکال کر پٹخ دیں، اس پر بس نہ چلا تو کونے میں لگے آئینے کے سامنے رکھی چھوٹی میز کی طرف بڑھی۔ جس پر سامان رکھ کر اسے ڈریسنگ ٹیبل کی شکل دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
”اوہ!” ڈریسنگ پر سجی اشیاء میں نئے نکور میک اپ کا سامان نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ لمحے بھر کو رک کر طنزیہ انداز سے دیکھتی رہی پھر ہاتھ مار کر سب سامان زمین بوس کردیا۔
اصل تلاشی اس کے بعد شروع ہوئی تو سب سے پہلی دروازے میں ہاتھ ڈالتے ہی شہنام حقانی کا کارڈ اس کے ہاتھ میں آگیا۔
اس نے زور سے آنکھیں بند کرکے گہری سانس بھری پھر اپنی مٹھی میں کارڈ کو کس لیا۔
”تم جانتی نہیں ہو تمہارا پالا کس سے پڑا ہے۔ میں تمہارا وہ حشر کروں گی۔ جس کے بارے میں تم نے تو کیا۔ اس شہنام کے بچے نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ جس کے بل بوتے پر تم اتنی اکڑ دکھارہی ہو۔ چیونٹی کے جب پر نکلتے ہیں تو وہ بھی خود کو چیل سمجھنے لگتی ہے۔ لیکن اس کے بعد اس کا حشر کیا ہوتا ہے۔ یہ میں تمہیں بتاؤں گی۔” اس نے کارڈ کو توڑ مروڑ کر وہیں پھینک دیا اور خود غصے میں راستے میں آنے والی ہر شے کو ٹھوکر سے اُڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
******





کتنے عرصے بعد زندگی میں یوں کُھل کر جینے کا موقع ملا تھا۔
وہ اس کے پاس آنے والی، اس سے ملنے والی اور اپنا اور اس کا مطلب پورا کرنے والی دوسری بہت سی لڑکیوں جیسی ہی تھی لیکن پھر بھی کچھ خاص، کچھ ہٹ کر اور کچھ الگ تھا اس میں جو اسے دوسری لڑکیوں سے ممتاز کردیتا تھا۔
شاید اس کی بہادری، اس کی ایک خاص نڈر قسم کی عادت….
”تو کیا ہوا… میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتی۔”
جب اس نے پہلی بار یہ جملہ کہا۔ تو اس قدر ہنس کر اور اتنی بے پروائی سے کہا کہ شہنام جیسا کھیلا کھایا مرد بھی چند لمحے اسے دیکھنے پر مجبور ہوگیا تھا اور وہ اسے یوں خود کو تکتا پاکر کھلکھلادی۔
”کیا ہوا؟ کیا دیکھنے لگے؟ ارے بابا مذاق کررہی ہوں۔ ڈرتی ہوں میں۔ ڈرپوک ہوں بہت۔ سب سے ڈرتی ہوں۔”
گو کہ اس نے خود ہی اپنے بیان کی تردید کردی تھی۔ لیکن اس تردید میں وہ حقیقی پن نہیں تھا جو پہلے اس کے انداز اور اس کی بات سے چھلکا تھا۔
وہ پہلی لڑکی تھی، جسے دیکھ کر شہنام صرف چونکا نہیں بلکہ چوکنا ہوگیا تھا۔ اس نے شہنام کے ہوش اڑائے نہیں تھے بلکہ اسے ہوشیار باش کردیا تھا۔ وہ اسے بتاچکی تھی کہ گھر چھوڑنے سے پہلے اس نے کس طرح اپنے گھر کی چھت پر رکھے اپنی بہن کے سامان کو آگ لگائی تھی۔
”تمہیں افسوس بھی نہیںہوا۔”
”نہیں… تو کیا ہوا!… ہم تو صرف کٹھ پتلیاں ہیں۔ قسمت کے دھاگوں میں ہمارے ہاتھ پیر ہی نہیں ہمارے دل اور ذہن بھی بندھے ہوئے ہیں ہوتا وہی ہے، جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ انسان تو بس ذریعہ بن جاتا ہے۔”
”ہم … م …. م…..” اس کی بات پر اس نے ایک مخمور ہنکارا بھرا تھا۔
”تو پھر تم… ٹیسی کو قصور وار تو نہیں کہہ سکتیں نا۔ وہ بھی تمہارے راستے کھوٹے کرنے کا ایک ذریعہ ہی بنی۔”
”میں انہیں نہیں خود کو قصور وار سمجھتی تھی۔”
”کیوں۔” اس نے ایک بڑا…. گلاس سرخ جام سے بھر کر اس کے لبوں سے ٹکرایا۔
”کیوں کہ میں ٹی آر میم کے جال میں پھنس کر مزاحمت چھوڑ بیٹھی۔ اوں… ہوں….” اس نے ناگواری سے گلاس پرے کیا۔
”لیکن اب ایسا نہیں ہے۔” اگلے ہی لمحے وہ مسکرارہی تھی۔
”کیوں کہ اب مجھے اس جال کو کترنے والے دانت مل گئے ہیں۔ مجھے نیا راستہ نظر آگیا ہے۔”
دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی مرضی اور بساط کے مطابق خوب لوٹا تھا اور گو کہ دونوں ہی کی نیت ابھی سیر نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وہ شہنام کے تھکنے سے پہلے اس سے اپنا آخری مطلب نکلوالینا چاہتی تھی۔
******
شام کے پرندوں نے تھک کر کب کے اپنے سر مغرب کے اندھیروں کی گود میں دھر دیئے۔ تب اسے دور سے ہی کوارٹر کا دروازہ کھلا نظر آگیا۔وہ تیز قدموں سے اندر پہنچی تو اندر سارا سامان تلپٹ تھا۔ یوں جیسے کسی نے بے دردی سے ہر چیز کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔
اس کے اندر خطرے کا الارم زور زور سے بجنے لگا۔
”شاید… شاید کسی کو میرے بارے میں خبر ہوگئی ہے یا پھر ہوسکتا ہے اس نے خود تک رکھنے بجائے تبسم کو مخبری کردی ہو۔”
ایک سوچ نے اس کے دماغ کو لمحہ بھر کے لیے منجمد کردیا۔
”تو کیا ہوا… شہنام کس لیے ہیں۔ وہ دیکھ لیں گے سب کو۔ میں تو خود جانے والی ہوں۔ کل ہی نکل جاتی ہوں۔ اب میرا یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔”
سوچیں الٹے سیدھے راستوں پر سفر کرتی اس تک، پہنچ رہی تھیں۔
اور سامان پیک کرتے ہاتھوں میں لغزش سی اُتر آئی۔ اس نے فی الفور شہنام کو فون کرکے صورتِ حال کی خبر دے دی تھی۔ شہنام نے اس کی حوصلہ شکنی بالکل نہیں کی۔ وہ اس کی امیدوں اور توقعات پر پورا اُترا تھا۔ اس نے فوراً اسے وہاں سے نکل کر اپنے کسی دوست کے بنگلے پر پہنچنے کے لیے کہا تھا گو کہ اس کا زندگی بھر اس درد سری کو ساتھ رکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن چوں کہ تبسم سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ اس وجہ سے اس نے یہی بہتر سمجھا کہ اسے وہاں سے نکال لیا جائے۔ یوں بھی وہ تبسم کے چنگل سے اسے نکالنے کی مدد کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔
اور وعدے تو وہ پہلے بھی بہت سی حسیناؤں سے کرتا آیا تھا۔ کچھ وفا ہوجاتے اور کچھ گزرے وقت کی گرد تلے دب کر کھوجاتے۔ آج اس وعدے کا کیا ہونے والا تھا۔ یہ دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔
******




Loading

Read Previous

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Read Next

گلّو اور لومڑ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!