امربیل — قسط نمبر ۸

” میں اس کی گرل فرینڈ نہیں ہوں۔” علیزہ کو اس کی بات پر شاک لگا۔
”اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم کچھ Realistic(حقیقت پسند) ہو جاؤ۔ ہم دنیا میں رہ رہے ہیں اور دنیا میں کوئی مختلف نہیں ہوتا بعض لوگ جو ہمیں بظاہر مختلف لگتے ہیں، وہی ہمارے لئے سب سے زیادہ عذاب لاتے ہیں۔ تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے معمولی اور عام سے ہوتے ہیں اور شاید بے قیمت بھی بلکہ بعض دفعہ وہ عام لوگوں سے بھی زیادہ بے قیمت ثابت ہوتے ہیں۔”
وہ بات کرتے کرتے سنجیدہ ہو گیا۔
”ذوالقرنین ایسا نہیں ہے۔” اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس نے سر اٹھا کر بڑے اعتماد سے کہا۔
”میری خواہش ہے… واقعی ایسا ہی ہو۔” عمر نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
٭٭٭




وہ حسب معمول رات کے وقت نانو اور نانا کے سو جانے کے بعد لاؤنج میں آئی… ہمیشہ کی طرح لائٹ آن کئے بغیر صرف کوریڈور میں روشن زیرو پاور کے بلب اور باہر پورچ کی کھڑکیوں سے آنے والی دھندلی روشنی میں صوفہ پر بیٹھ کر ذوالقرنین کو کال کرنا شروع کیا۔
”کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟”
رابطہ قائم ہوتے ہی ذوالقرنین نے پہلا سوال کیا تھا۔ وہ بھی علیزہ کو کالج چھوڑتے ہوئے عمر کی گاڑی میں علیزہ کو بیٹھتے دیکھ چکا تھا۔
”نہیں کچھ نہیں ہوا… عمر نے نانو سے جھوٹ بول دیا… اس نے کہا کہ میں اندر کالج میں ہی تھی چوکیدار کو غلط فہمی ہو گئی تھی۔ نانو نے اس کی بات پر اعتبار کر لیا، اگر وہ جھوٹ نہ بولتا تو نانو سے بچنا آج بہت مشکل ہو گیا تھا۔ وہ بے حد غصے میں تھیں۔”
اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”تم خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوتی رہتی ہو۔ میں تم سے کہہ بھی رہا تھا کہ کچھ نہیں ہو گا۔” ذوالقرنین نے جواباً خاصی لاپروائی سے کہا۔
”مگر عمر نہ ہوتا یا وہ جھوٹ نہ بولتا تو پھر میرے ساتھ کیا ہو سکتا تھا، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے کیونکہ آپ نانو کو نہیں جانتے۔” علیزہ نے کہا۔ ”میں آئندہ اس طرح کالج سے کبھی نہیں جاؤں گی۔”
”تم بہت بزدل ہو علیزہ” ذوالقرنین نے اس کی بات کے جواب میں کہا، وہ خاموش رہی۔
”تمہاری نانو آخر کیا کر سکتی ہیں… جان سے تو نہیں مار سکتی ہیں۔”
”پھر بھی مجھے اچھا نہیں لگا اگر ان کو پتہ چل جاتا تو۔۔۔”
”تم اپنی نانو سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟” ذوالقرنین نے کچھ الجھ کر کہا۔
”ڈرتی نہیں ہوں… میں ان کے پاس رہتی ہوں، میں ہر کام میں اپنی مرضی نہیں کر سکتی۔”
”اینی وے یہ سب چھوڑو… کوئی اور بات کرتے ہیں…یہ تمہارا کزن عمر خاص مہربان ہے تم پر… اس نے تمہارے لئے تمہاری نانو سے جھوٹ کیوں بولا؟”
”ہاں وہ اچھا ہے Very Caring” علیزہ نے کچھ خوش ہو کر کہا۔
”سب کے لئے یا صرف تمہارے لئے؟” وہ کچھ دیر کے لئے کچھ بول نہیں سکی۔
”مطلب…؟”
”کچھ نہیں ایسے ہی کہہ رہا تھا… آج کل ایسے کزنز کہاں ملتے ہیں۔ واقعی اچھا ہے تمہارا کزن۔” ذوالقرنین نے فوراً بات بدل دی۔
”عمر آپ سے ملنا چاہتا ہے۔”علیزہ کو کچھ دیر پہلے عمر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد آئی۔
”کیا…؟” ذوالقرنین جیسے اس کی بات پر بری طرح بدکا۔
”وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔” علیزہ نے اپنی بات دہرائی۔
”کیوں، مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟”
”پتا نہیں… یہ میں نہیں جانتی… بس اس نے کہا تھا کہ میں اسے آپ سے ملوا دوں۔” علیزہ نے دانستہ جھوٹ بولا۔
”مگر میں اس سے ملنا نہیں چاہتا۔” ذوالقرنین نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟” علیزہ کو جیسے دھچکا لگا۔
”میں اس سے مل کر کیا کروں گا، جب میں اسے جانتا ہی نہیں۔”
”وہ میرا کزن ہے۔” علیزہ نے جتانے کی کوشش کی۔
”مگر وہ میرا کزن نہیں ہے۔”
”اس سے ملنے میں کیا ہرج ہے؟”
”میں اس سے مل کر کیا بات کروں گا؟”
”ہو سکتا ہے اسے آپ سے کوئی ضروری بات کرنا ہو؟”
”کیا ضروری بات کرنی ہے؟”
اس بار ذوالقرنین کا لہجہ خاصا تیکھا تھا، علیزہ کو کچھ بتانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
”تو بس ٹھیک ہے پھر اسے مجھ سے ملوانے کی کیا ضرورت ہے، اب کسی اور ٹاپک پر بات کرتے ہیں، میں نے تمہیں عمر کے ساتھ ملاقات کا شیڈول طے کرنے کے لئے فون نہیں کیا۔”
ذوالقرنین کی آواز میں اکتاہٹ تھی۔ علیزہ نے کچھ بے دلی کے ساتھ موضوع بدل دیا۔ اسے ذوالقرنین کے عمر سے ملاقات سے انکار پر حیرت ہو رہی تھی۔ کچھ دیردونوں بات کرتے رہے پھر خلاف توقع ذوالقرنین نے جلد ہی فون بند کر دیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!