امربیل — قسط نمبر ۸

عمر کوک کے سپ لیتے ہوئے خاموشی سے گفتگو میں حصہ لیے بغیر صرف ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ ایک ان سروس بیورو کریٹ کے اس جملے پر میز کے اطراف بیٹھے ہوئے تمام لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔
”میں، میں تو چاہتا ہوں کہ دوسری پارٹی کے بجائے تیسری پارٹی آجائے۔” لئیق انکل کے اس معنی خیز جملے پر اس بار مسکراہٹیں ہلکے پھلکے قہقہوں میں تبدیل ہوگئیں۔
”آپ تو یہی چاہیں گے لئیق صاحب! آخر آپ کا پورا سسرال تیسری پارٹی میں ہے۔”
زمان شاہد نامی ایک سینئر بیورو کریٹ نے لئیق انکل کے سسرال کے فوجی بیک گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس جملے پر ایک بار پھر قہقہے ابھرے۔
”یار! بہت عیش کروا چکے ہیں تمہارے سسرال والے۔ پچھلے دس بارہ سالوں میں تمہیں… اب ہم جیسے لوگوں کے سسرال والوں کو بھی ہماری خدمت کا موقع دو۔”
حسین شفیع کی بیوی کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا اور ان کو توقع تھی کہ اس بار اگر ان کی بیوی کے معروف گھرانے کی پارٹی الیکشن جیت گئی تو ایک عدد صوبائی وزارت ان کی بیوی کے باپ یا بھائی کی جیب میں تھی۔
”تیسری پارٹی ہمیشہ سے ہی حکومت میں شامل رہی ہے۔ ڈائریکٹ نہیں تو ان ڈائریکٹ طریقے سے مگر وہ ہمیشہ حکومت کے آگے، پیچھے ، اوپر نیچے رہتے ہیں اور اگلی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوگا، کیوں جنرل صاحب؟”
راجہ سعید نے اس بار میز پر بیٹھے ہوئے ایک ریٹائرڈ جنرل کو خاصی شوخی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ آگے، پیچھے اوپر، نیچے آپ نے خوب کہا مگر دائیں بائیں کو کیوں بھول گئے۔”
ریٹائرڈ جنرل جیسے ان کے تبصرے پر محظوظ ہوا۔
میز کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے ایک ہلکا فہمائشی قہقہہ لگایا۔





”بھئی! تم لوگ مجبور کردیتے ہوئے آگے، پیچھے اور اوپر، نیچے رہنے پر۔” جنرل نے اپنا پائپ سلگاتے ہوئے کہا۔
”قریشی صاحب! یہ نہ کہیں … یہ کہیں کہ اقتدار کا نشہ ایسا نشہ ہے کہ ایک بار لگ جائے… پھر چھوٹتا نہیں۔”
شاہد زمان نے جنرل کو مخاطب کیا۔
”چلیں… آپ یہی سمجھ لیں۔ کچھ نشہ آپ کو ہے… کچھ ہمیں… وہ کیا کہتے ہیں… ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔” جنرل قریشی نے اس بار اس بیورو کریٹ پر جوابی جملہ کیا تھا۔
”نہیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا۔
birds of a feather flock together (کندہم جنس، باہم جنس پرواز) ٹیبل پر بیٹھے ہوئے واحد سیاسی رہنما نے اپنے سامنے پڑا ہوا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اجمل صاحب! آپ یہ نہ بھولیں۔ آپ بھی اسی flock (ٹولے) کا حصہ ہیں۔” جنرل قریشی نے اس بار اجمل درانی سے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے! سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔” اجمل درانی نے بڑے مؤدب مگر جتانے والے انداز میں سرجھکاتے ہوئے گلاس لہرایا۔
”مگر ہمیں تو فی الحال اگلے کچھ عرصہ کیلئے اس ٹولے سے باہر ہی سمجھیں۔”
”اچھا…! ہماری طرح آپ کو بھی یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں آپ کی پارٹی اقتدار میں نہیں آرہی۔” لئیق انکل نے اجمل درانی سے کہا۔
”بھی، اتنے احمق تو ہم نہیں ہیں۔ ہمیں ہی دوبارہ لے کر آنا ہوتا تو ہمارا تختہ کیوں پلٹتے اس طرح… مگر چلو… کچھ دیر باہر بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اگلے کھلاڑی کس طرح پٹتے ہیں۔” اجمل درانی کے لہجے میں طنز تھا۔
”یہ تو کھلاڑیوں پر ہے کہ وہ پٹنے کیلئے آتے ہیں یا پیٹنے کیلئے۔” جنرل قریشی نے اس بار بھی طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔
”ارے جناب! پیٹنا کس کو ہے… آپ کو… یا ان کو؟” اجمل درانی نے بڑے معنی خیز انداز میں پہلے جنرل قریشی اور پھر شاہد زمان کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ بتایئے آپ کسے پیٹنا پسند کریں گے؟” جنرل قریشی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے انتخاب کا حق واقعی ہمیں دے رہے ہوں۔ بھئی تم لوگوں میں سے جس کا داؤ لگے گا… وہی پیٹے گا۔ ملٹری بیورو کریسی کی باری آئے گی تو وہ پیٹے گی اور سول بیورو کریسی کا بس چلے گا تو وہ بھی ویسی ہی تواضع کرے گی ہم ”عوامی نمائندوں” کی۔”
اجمل درانی نے مشروب کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں! جی آپ جیسے ”عوامی نمائندے” ہی تو کسی بھی قوم کا تیا پانچہ کردیتے ہیں۔ آپ جیسے مظلوموں کا کیا کہنا؟”
جنرل قریشی کی بات پر ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے دوسرے سامعین نے ایک بار پھر فہمائشی قہقہہ لگایا۔
”جنرل صاحب…! جنرل صاحب…! میں کچھ کہوں گا تو آپ کے ماتھے پر بھی خاصا پسینہ آجائے گا۔ قوم کا تیا پانچہ کرنے والوں میں بڑے بڑے نامور لوگ شامل ہیں۔” اجمل درانی کا لہجہ اس بار بھی طنزیہ ہی تھا۔
”ارے بھئی! چھوڑیں۔ کچھ اور باتیں کریں۔ آپ لوگ بھی کن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔” ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کے میزبان فیڈرل سیکرٹری نے شاید ہونے والی گفتگو سن لی تھی، اس لیے وہ قریب آگیا تھا۔
”اس بار آپ نے ڈرنکس میں کوئی چوائس نہیں چھوڑی۔ وہی پیناپڑرہا ہے۔ جو ناپسند ہے عباس صاحب! آپ تو خاصے ”دلیر” قسم کے میزبان تھے۔ آپ کی ڈرنکس کو کیا ہوگیا؟” شاہد زمان نے ایک معنی خیز بات کی۔
”ہم آج بھی خاصے دلیر قسم کے ہی میزبان ہیں بلکہ یہ کہیے کہ ”شوقین” میزبان ہیں۔ بس کچھ مجبور ہیں۔ خطرہ مول نہیں لیا کیونکہ ابھی الیکشن ہونے والے ہیں۔ کوئی پتا نہیں کون سی پارٹی ٹیک اوور کرتی ہے۔ اگلی پوسٹنگ سے پہلے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ آپ فکر نہ کریں، اگلی پارٹی میں سارے شکوے ختم کردوں گا۔”
عباس حاکم نے شاہد زمان کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ہوتے ہوئے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی عباس صاحب…؟ جو چاہے پیش کرتے۔” جنرل قریشی نے پائپ کا کش لیتے ہوئے کہا۔
”آپ کے ہوتے ہوئے ہی تو کچھ پیش کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ آپ خود ”کھا پی” لیتے ہیں مگر دو سروں کو نہ ”کھانے” دیتے ہیں اور نہ پینے۔” اجمل درانی نے عباس حاکم کے کچھ کہنے سے پہلے برجستہ انداز میں کہا۔ ٹیبل پر بے اختیار ایک قہقہہ گونجا۔
”اجمل صاحب! آج بڑی فارم میں ہیں۔ آج ان کے ساتھ ٹکر نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔” لئیق انکل نے ہنستے ہوئے جنرل قریشی سے کہا۔
عباس حاکم اپنی پارٹیز میں غیرملکی مہمانوں کی ایک لمبی چوڑی تعداد کو مدعو کرتے رہتے تھے اور ان کا ہی سہارا لے کر وہ اپنی پارٹیز میں شراب بھی پیش کیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ سب لوگ بھی پہلی بار ان کی پارٹی میں شراب پیش نہ کرنے کے بارے میں شکایت کررہے تھے۔ عباس حاکم کچھ دیر وہیں ٹیبل کے پاس کھڑے خوش گپیوں میں مصروف رہے، پھر وہاں سے چلے گئے۔
عمر خاصی دلچسپی کے ساتھ وہاں ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس نے گفتگو میں حصہ لینے کی کوشش نہیں کی تھی شاید اس کی ایسی کوشش کو بہت اچھا بھی نہ سمجھا جاتا کیونکہ اس ٹیبل پر وہ سب سے کم عمر تھا اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ نہ صرف عمر میں اس سے بہت بڑے تھے بلکہ وہ بہت سینئر پوسٹس پر بھی تھے اور عمر کو ایسے ڈنرز اٹینڈ کرنے کا اچھا خاصا تجربہ تھا۔
جہانگیر معاذ اسے بہت کم عمری سے ہی ایسی تقریبات میں لے جاتے رہتے تھے اور وہاں ہونے والی گفتگو یا موضوعات اس کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھے۔ ایسی تمام تقریبات میں وہ بس خاموشی سے ایک غیرمتعلق شخص کی طرح سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہتا۔ اس کیلئے یہ سب جیسے زندگی کا ایک حصہ تھا۔
اس وقت بھی وہاں بیٹھا وہ اسی قسم کے تبصرے اور خوش گپیاں سن رہا تھا جیسی وہ پچھلے کئی سالوں سے سنتا آرہا تھا۔
”تم بور تو نہیں ہو رہے؟” یکدم لئیق انکل کو اس کا خیال آیا تھا اور ان کے اس جملے پر ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ اس کا تعارف لئیق انکل پہلے ہی ان لوگوں سے کروا چکے تھے اور جہانگیر معاذ کا نام وہاں کسی کیلئے بھی نیا نہیں تھا اور جہانگیر معاذ کا بیٹا بھی ان کیلئے اتنا ہی شناسا ہوگیا تھا۔
”نہیں! بالکل نہیں۔” اس نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”یہ اس عمر میں کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ ہم جیسے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے پاس بھی اتنی دیر بیٹھ کر تم بور نہیں ہوئے۔ جاؤ کہیں ادھر ادھر پھرو۔ اپنے لیے کوئی خوبصورت کمپنی ڈھونڈو، تم تو جہانگیر معاذ کے بیٹے ہی نہیں لگتے۔”
شاہد زمان کی بات پر ایک قہقہہ لگا اور عمر کا چہرہ چند لمحوں کیلئے بے اختیار سرخ ہوگیا۔ وہ آج کل باپ کے نام پر اسی طرح نروس ہوجاتا تھا۔ اسے یہی لگتا تھا کہ جہانگیر کا ذکر آتے ہی لوگ فوراً ان کی حالیہ شادی کا ذکر کرنے سے نہیں چوکیں گے اور زیادہ تر ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ یہ سوچ کر نروس ہونے لگا تھا کہ اب بات جہانگیر کی شادی کی طرف نہ نکل پڑے۔
”جہانگیر کی تو بات ہی اور ہے۔ ضروری تو نہیں ہے، اولاد بھی ویسی ہی ہو۔”
لئیق انکل حسب عادت جہانگیر کو سراہنا شروع ہوگئے تھے اور عمر کو حیرت نہیں ہوئی جب اس نے ان لوگوں میں سے بہت سوں کو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا تھا۔
وہ اپنے باپ کو جتنے قریب سے جانتا تھا، شاید کوئی دوسرانہیں جانتا تھا۔ جہانگیر معاذ کرپٹ تھا، لوز کریکٹر کا مالک تھا، خودغرض تھا۔ …خود پرست تھا… مگر عمر یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ ان تمام خامیوں کے باوجود اس کے باپ کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ اس کی شخصیت میں کوئی ایسا چارم ضرور تھا کہ جو شخص ایک بار اس سے مل لیتا اس کیلئے جہانگیر معاذ کو بھلانا ناممکن تھا۔ عمر کیلئے کسی سے دوستی کرنا ہمیشہ مشکل کام تھا۔ وہ لوگوں سے تعلقات بڑھانے میں محتاط تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے دوستوں کی تعداد بھی خاصی محدد تھی اور ان میں کتنوں پر وہ مکمل طور پر اعتبار کرسکتاتھا۔ وہ اس بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا مگر اس نے اپنے باپ کو چند منٹوں میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ نہ صرف بہت آسانی سے لوگوں کو دوست بنالیا کرتا تھا بلکہ جن لوگوں کو اس نے ایک بار اپنا دوست بنالیا وہ پھر اس کے زندگی بھر دوست ہوتے تھے اور عمر نے کبھی اپنے باپ کے دوستوں میں کسی کو جہانگیر معاذ کے ساتھ دھوکا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ کی اس خوبی نے اسے پچھلے کئی سالوں میں بہت سی مصیبتوں سے بچایا تھا۔ ہربار اپنے خلاف انکوائری شروع ہونے سے پہلے جہانگیر معاذ کو اس بارے میں اطلاعات ہوتیں اور پھر اپنے دوستوں کی مدد سے وہ بڑی آسانی سے پہلے ہی اس کا توڑ کرلیا کرتا تھا۔ بعض دفعہ عمر کو اپنے باپ کی اس خوبی پر رشک بھی آتا۔
اب کھانا شروع کیا جانے لگا تھا اور عمر نے شکرادا کیا کہ گفتگو کا موضوع یکدم بدل گیا تھا۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!