امربیل — قسط نمبر ۸

عمر نے اسی طرح پر سکون انداز میں اس سے بات کرنے کے بعد علیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور واپس مڑ گیا۔ اپنے پیچھے اسے ذوالقرنین کا ایک طنزیہ قہقہہ سنائی دیا۔
وہ اسے ساتھ لے کر پارکنگ میں آگیا، گاڑی میں بیٹھ کر اس نے پہلی بار علیزہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ بالکل زرد تھی۔ عمر اس کی کیفیات کا اندازہ لگا سکتا تھا، وہ جانتا تھا اسے شاک لگا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسے ذوالقرنین کے منہ سے کہی جانے والی کسی بات پر یقین نہیں آیا ہوگا، اور عمر کو اس وقت اس سے ہمدردی بھی محسوس ہو رہی تھی۔
کار اسٹارٹ کرنے کے بجائے اس نے علیزہ کی طرف مڑ کر اس سے کہا۔
”کسی بھی چیز کو سر پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زندگی میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔
Experience is the other name of our mistakes, so take it as an experience.
(ہماری غلطیوں کا دوسرا نام تجربہ ہے۔ اسے ایک تجربہ سمجھو۔)
علیزہ نے عمر کودیکھنے کی کوشش نہیں کی، وہ ونڈ اسکرین سے باہر پارکنگ میں نظر آنے والی گاڑیوں کو دیکھتی رہی۔
”یہ تو بہت معمولی سی چیز ہے۔ زندگی میں اس سے بھی بڑی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سب کو بھول جاؤ وہ بالکل پریشان نہیں ہو گا، تو تمہیں بھی پریشان یا شرمندہ نہیں ہونا چاہئے۔”




عمر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اب بھی خاموش تھی۔
وہ گھر تک پورا راستہ اس سے باتیں کرتا رہا اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اس کی باتیں سنتی رہی مگر اس نے ایک بار بھی اس کی باتوں کے جواب میں کچھ کہا نہ ہی اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ کار سے باہر دیکھتی رہی۔
عمر اسے گھر پر ڈراپ کرنے کے بعد پھر گاڑی لے کر باہر نکل آیا۔ اسے مارکیٹ سے کچھ شاپنگ کرنی تھی اور پھراسے قائداعظم لائبریری جانا تھا۔ شاپنگ کے دوران اور بعد میں لائبریری میں بھی اس کے ذہن پر علیزہ ہی سوار رہی تھی۔ وہ جانتا تھا وہ اتنی میچیور اور سمجھ دار نہیں تھی کہ ہر چیز کو فوری طور پر ذہن سے جھٹک دیتی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ واپسی پر وہ رات کو پھر کچھ وقت اس کے ساتھ گزارے گا۔ چند دن لگیں گے مگر وہ نارمل ہو جائے گی۔ اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
٭٭٭
شام سات بجے وہ واپس گھر آگیا۔ نانو لاؤنج میں فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھیں۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔وہ فون بند کرنے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئیں تو اس نے ان سے علیزہ کے بارے میں پوچھا۔
”وہ تب سے اپنے کمرے میں ہے جب سے تم چھوڑ کر گئے ہو۔”
انہوں نے اطلاع دی۔ عمر بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ اس نے اپنے کمرے میں اپنے کچھ کام کرتے ہوئے گزارا۔
ساڑھے آٹھ کے قریب وہ کھانا کھانے کے لئے لاؤنج میں آیا۔ خانساماں کھانا لگا رہا تھا اور نانو کچن میں تھیں۔
”گرینڈ پا ابھی تک واپس نہیں آئے۔” عمر نے کچن میں پانی پیتے ہوئے کہا۔
”وہ آئے تھے، لیکن دوبارہ چلے گئے۔ آج کسی ڈنر میں انوائیٹڈ تھے۔”
نانو نے اسے بتایاوہ ان کے ساتھ باتیں کرتا ہوا ڈائننگ روم میں چلا گیا۔
”مرید! علیزہ کو بلا لاؤ۔” نانو نے ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہوئے خانساماں سے کہا۔ ”آج تو شام کی چائے بھی نہیں لی اس نے۔”
”اس کی طبیعت خراب تھی کچھ شاید اس لئے۔” عمر نے جھوٹ بولا۔
نانو نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”اچھا… مجھے تو اس نے نہیں بتایا… بتاتی تو میں اسے کوئی میڈیسن ہی دے دیتی۔”
”وہ پریشان نہیں کرنا چاہ رہی ہو گی۔ ہو سکتا ہے سو گئی ہو۔” عمر نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
چند منٹ بعد خانساماں ڈائننگ روم میں داخل ہوا ”علیزہ بی بی دروازہ نہیں کھول رہیں… میں نے بہت دفعہ دستک دی ہے۔ آوازیں بھی دی ہیں۔” اس نے نانو سے کہا۔
”میں خود دیکھتی ہوں، کہیں زیادہ ہی تو طبیعت خراب نہیں ہو گئی؟ نانو اٹھ کر چلی گئیں عمر وہیں بیٹھا سوچتا رہا… اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔ وہ نانو کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا، اگلے کئی منٹ نانو کی واپسی نہیں ہوئی ۔ پھر اچانک اس نے گھر کے اندر سے دروازہ بار بار بجانے کی بلند آواز اور نانو کو بلند آواز میں علیزہ کا نام پکارتے سنا… وہ بے اختیار ڈائننگ روم سے نکل آیا۔
”کیا بات ہے نانو؟” وہ کوریڈور میں آگیا۔
”عمر! علیزہ دروازہ نہیں کھول رہی۔ نہ ہی اندر سے کوئی جواب دے رہی ہے۔ اتنی گہری نیند تو وہ کبھی نہیں سوتی۔”
نانو بے حد پریشان نظر آرہی تھیں، عمر کی چھٹی حس، اچانک اسے کسی خطرے سے خبردار کرنے لگی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر خود دروازے کو دو تین بار بجایا اور علیزہ کا نام پکارا… اندر سے اب بھی کوئی آواز نہیں آئی تھی۔
”اس کمرے کی کوئی چابی ہے آپ کے پاس؟” عمر نے مڑ کر نانو سے کہا۔
چند منٹ میں نانو چابیاں لے آئی تھیں۔ عمر نے ان کے ہاتھ سے کی رنگ لیا اور دروازہ کھولنے لگا۔ چند سکینڈز میں لاک کھل گیا تھا عمر نے دروازہ کھول دیا کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ عمر نے برق رفتاری سے دیوار پر سوئچ بورڈ کو ڈھونڈ کر لائٹ آن کی۔
علیزہ بیڈ پر کمبل لئے لیٹی ہوئی تھی۔ عمرتیزی سے اس کی طرف گیا اور ایک بار پھر اس کا نام پکارا۔ وہ اب بھی ویسے ہی بے حس و حرکت تھی۔ ایک لمحہ کے لئے عمر کا سانس رک گیا۔
”کیا ہوا ہے اسے؟” اسے اپنی پشت پر نانو کی آواز سنائی دی۔ عمر نے علیزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اس کا جسم ٹھنڈا تھا۔
”گرینی ڈرائیور کو کہیں گاڑی نکالے… پلیز جلدی کریں۔ علیزہ کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔” اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے اس نے پیچھے پلٹ کر نانو سے کہا، نانو کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس پلٹ گئیں۔
عمر اب اس کی نبض ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ اس کا پورا وجود جیسے کسی طوفان کی زد میں آیا ہوا تھا۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا… مجھے کیوں خیال نہیں آیا کہ وہ یہ سب کچھ بھی کر سکتی ہے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!