امربیل — قسط نمبر ۸

”جو شخص جہانگیر معاذ کے ساتھ چھبیس سال گزار کر بھی پاگل نہیں ہوا، وہ یقیناً ایک بہت ہی پازیٹو پرسنالٹی رکھتا ہوگا اور ویسے بھی پبلک سروس کمیشن کے سائیکالوجسٹس کیا جان سکتے ہیں، انسان کی شخصیت کے بارے میں۔ ان کے اپنے اندر اتنے کمپلیکسز ہوتے ہیں کہ ان سے دس منٹ بات کرنے کے بعد ان پر ترس آنے لگتا ہے۔ مجھے وہ شخص اچھا نہیں لگا۔” عمر نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہ بہت ماہر سائیکالوجسٹ ہے۔” لئیق انکل نے صفدر مقصود کو سراہا۔
”ہوسکتا ہے مگر اس کی اپنی پرسنالٹی… مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کرسکی۔۔۔” لئیق انکل بے اختیار اس کی بات پر ہنسے۔
”فارگاڈسیک عمر! یہ بات کہیں اس کے سامنے مت کہہ دینا۔”
”کہہ دینا کیا مطلب… میں کہہ چکا ہوں۔” عمر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تمہارا باپ تمہارے بارے میں جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہی کہتا ہے۔ تم واقعی اپنے اور دوسروں کیلئے پرابلمز پیدا کردیتے ہو۔ اب صفدر مقصود اگر اس طرح کے ریمارکس پر ناراض ہوگیا تو۔۔۔” لئیق انکل یکدم سنجیدہ ہوگئے… ”تم جانتے نہیں ہو اسے بڑا انا پرست بندہ ہے سیلف رسپیکٹ کی بات آئے تو۔۔۔” عمر نے لئیق انکل کی بات کاٹ دی۔
”کسی کرپٹ شخص میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہوسکتی اور صفدر مقصود ایک کرپٹ بندہ ہے۔” عمر کے لہجے میں حقارت تھی۔
”فضول باتیں مت کرو… وہ تمہاری مدد کر رہا ہے اور تم اس کے بارے میں اس طرح کی باتیں کر رہے ہو۔” لئیق انکل نے کچھ سختی سے اسے کہا۔
”مدد وہ اپنے مقصد کیلئے کر رہا ہے۔ مجھ پر کوئی احسان نہیں کررہا۔ اس کی مدد کے بغیر بھی میں کامیاب ہوسکتا ہوں۔” عمر پر ان کی ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔





”تمہیں عزت کرنی چاہیے اس کی۔”
”سوری انکل! کم از کم میں کسی کرپٹ شخص کی عزت نہیں کرسکتا۔” عمر نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا۔ لئیق انکل کچھ دیر عجیب سی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے ٹھہرٹھہر کر کہا۔
”جہانگیر… بھی… کرپٹ… ہے۔”
”میں ان کی عزت بھی نہیں کرتا۔” عمر نے بغیر رکے کہا۔
لئیق انکل کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ”اور میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟”
”آپ کے بارے میں آپ کے سامنے بیٹھ کر کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے اٹھوا کر اس گھر سے باہر پھینکوا دیں۔” اس بار اس نے کچھ مسکرا کر کہا۔ لئیق انکل کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔
”تم ذرا سروس جوائن کرلو پھر میں تم سے پوچھوں گا کہ تم کسی کرپٹ شخص کی عزت کرتے ہویا نہیں۔ جب تمہارے اوپر بیٹھے ہوئے سارے افسران اور ان کے اوپر موجود سارے حکومتی عہدیدار تمہارے سامنے اپنے اصل چہروں کے ساتھ ہوں گے اور تم پھر بھی انہیں سر… سر کہتے پھرو گے… پھر میں دیکھوں گا کہ تم کرپٹ شخص کی عزت کیسے نہیں کرتے۔” لئیق انکل کے لہجے میں تلخی جھلکنے لگی تھی۔
”سر کہنے میں اور عزت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میں بہت سے لوگوں کو سر کہتا ہوں مگر ان کی عزت نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے میں بہت سے لوگوں کی عزت کرتا ہوں مگر انہیں سر نہیں کہتا، اس لیے مجھے کسی کو سر کہنے میں کوئی عار نہیں ہوگا مگر میں کسی کرپٹ شخص کی عزت نہیں کروں گا۔” عمر نے اس بار بھی خاصی بے خوفی سے کہا۔
”اس ملک میں اپنی بقا کیلئے کرپٹ ہونا پڑتا ہے۔ کرپشن کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔ سروس جوائن کرو گے تب تمہیں پتا چلے گا کہ اس جاب میں کیا کیا پریشانیاں ہیں جب تمہیں دس،بارہ ہزار کے ساتھ ایک مہینہ گزارنا پڑے گا… وہ بھی افسر بن کر… تو تمہارے ہوش ٹھکانے آجائیں گے تب تمہیں پتا چلے گا کہ کرپشن کے بغیر تم کسی سفارت خانے میں ہونے والے تین ڈنر اٹینڈ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں پہنچنے کیلئے بھی تمہیں تین نہیں تو کم از کم ایک سوٹ تو ضرور ہی چاہیے ہوگا اور ایسے سوٹ کی قیمت کم از کم تمہاری تنخواہ پوری نہیں کرسکے گی۔”
عمر نے ان کی باتوں کے جواب میں کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ وہ بس خاموشی سے مسکرا دیا۔
”تعلقات بنانا سیکھو۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص جو تمہیں پسند نہیں آتا اس کے ساتھ رابطہ ہی نہ رکھا جائے۔ کسی کے ساتھ کوئی بھی کام پڑسکتا ہے۔ پھر ایسے وقت تعلقات ہی کام آتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے جہانگیر نے تمہیں اب تک یہ سب کچھ سکھایا کیوں نہیں؟ بیورو کریٹس کے بچے تو ایسی باتوں کے بارے میں خاصے باخبر ہوتے ہیں۔ کم از کم انہیں یہ نہیں بتانا پڑتا کہ جھوٹ ہمارے پروفیشن کی کتنی بڑی ضرورت ہے۔ کوئی شخص پسند نہ بھی آئے تو بھی اس کی تعریف کردینے میں کیا ہرج ہے۔”
”انکل! آپ بہت اچھے ہیں” عمر نے درمیان میں ان کی بات اچکتے ہوئے یکدم سنجیدگی سے کہا۔
لئیق انکل فوری طور پر اس کے جملے پر حیران ہوئے مگر پھر وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔’ ‘تم اگر جہانگیر کے بیٹے نہ ہوتے تو اس جملے کے بعد اس گھر میں نہیں رہ سکتے تھے مگر اب میں تمہیں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تم سب کچھ خود ہی سیکھ جاؤ گے۔”
انہوں نے جیسے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
٭٭٭
ذوالقرنین سے علیزہ کی دوسری ملاقات بھی شہلا کے ساتھ ہی ہوئی تھی، علیزہ کالج سے واپسی پر شہلا کے ہاں جانے کیلئے اس کے ساتھ گئی، راستے میں دونوں آئس کریم کھانے کیلئے لبرٹی میں رک گئیں اور آئس کریم کھانے کے ساتھ وہ ونڈو شاپنگ میں مصروف تھیں۔ جب ہیلو کی ایک آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ذوالقرنین تھا۔ علیزہ اسے دیکھتے ہی حواس باختہ ہوگئی۔
”ارے آپ… آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟” شہلا نے ذوالقرنین کو دیکھتے ہی خاصی حیرت اوربے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔
”تقریباً وہی کر رہا ہوں جو آپ لوگ کر رہی ہیں۔” اس نے علیزہ پر نظریں جماتے ہوئے کہا جس کیلئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہو رہا تھا۔
”ویسے آپ کا کیا خیال ہے ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟” شہلا نے خاصی شوخی سے کہا۔
”آپ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔” جواب دینے والے نے کمال اعتماد سے کہا۔
”ارے واہ… آپ کو تو اچھی خاصی خوش فہمی ہے اپنے بارے میں۔”
”اگر خوش فہمی ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ آفٹر آل میں اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔ ایسی خوش فہمیاں افورڈ کرسکتا ہوں۔ کیوں علیزہ؟” اس کے لہجے میں شرارت تھی اور علیزہ کا دل چاہ رہا تھا۔ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔ ”ویسے یہ سوال آپ نے علیزہ سے ہی کیوں کیا ہے؟ مجھ سے بھی کرسکتے ہیں۔” شہلا نے دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے علیزہ جیسی باذوق نہیں لگتیں، اس لیے آپ سے رائے لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اس کی بے تکلفی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!